اسلام مخالف توہین آمیز فلم کی مذمت میں عالمی رہنماؤں کے نام خصوصی مراسلہ

اسلام مخالف توہین آمیز فلم کی مذمت میں

عالمی رہنماؤں کے نام خصوصی مراسلہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
www.facebook.com/Tahirulqadri

تحریک منہاج القرآن
www.minhaj.org
www.facebook.com/minhajulquran

لمحہ فکریہ

گزشتہ دنوں امریکہ میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی، جس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے اَربوں اَمن پسند اِنسانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ گستاخانہ فلموں اور خاکوں کی اِشاعت کا عمل آزادی اظہار رائے کی چھتری تلے مغربی ممالک میں تسلسل سے جاری ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں نے اِس طرزِ عمل اور گستاخانہ اِقدامات کی اپنے اپنے انداز میں مذمت کی ہے اور بھرپور احتجاج کیا ہے۔

اِسی تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اِحترامِ مذاہب کے حوالے سے UN اور OIC سمیت پوری دنیا کے ممالک کے سربراہان کو تاریخی مراسلہ لکھا ہے، جس میں اُنہوں نے باور کرایا ہے کہ کسی بھی مذہب کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف توہین آمیز اِقدامات سے نہ صرف اَمنِ عالم تباہ ہوگا بلکہ دہشت گردی و اِنتہاء پسندی کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کو بھی شدید دھچکا پہنچے گا۔ اُنہوں نے مختلف ممالک کے قوانین کے حوالے دیتے ہوئے یہ بات ثابت کی ہے کہ ایسے گستاخانہ اِقدامات کسی بھی لحاظ سے freedom of speech یا freedom of expression کے زُمرے میں ہرگز نہیں آتے۔ لہٰذا جب تک اِن شرانگیز اِقدامات کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی نہیں کی جائے گی اور redefining of basic principles کا عمل نہیں ہوگا اُس وقت تک دہشت گردی کا قلع قمع اور پائیدار امن عالم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

اِس تاریخی مراسلہ کا اردو ترجمہ افادہء عام کے لیے نذرِ قارئین ہے۔

(ادارہ)


محترم صدر/ وزیر اَعظم

اِس مراسلہ کا مقصد حال ہی میں منظر عام پر آنے والی توہین آمیز فلم کے نتیجے میں رُونما ہونے والی اس تشویش ناک اور سنگین صورت حال سے آگاہ کرنا ہے جس کے نتیجے میں دنیا اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے ایک نئے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے اور جس نے بالخصوص اُمتِ مسلمہ کو متعدد نوع کے سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی قوم یا ملّت اپنے سیاسی، قومی یا مذہبی رہنماؤں کی توہین برداشت نہیں کرتی چہ جائیکہ پیغمبرِ اَمن و سلامتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین و تحقیر کر کے دنیا بھر میں بسنے والے ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کو قلبی و ذہنی اَذیت میں مبتلا کیا جائے۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ ہر مسلمان کو اپنی جان سے عزیز تر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ نکولا باسلے نکولا (Nakoula Bassely Nakoula) کی بنائی ہوئی فلم - جس کی تشہیر پادری ٹیری جونز (Terry Jones) نے کی - نے دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو شدید مجروح کیا ہے۔ نتیجتاً مسلم دنیا سراپا احتجاج بن گئی۔ نفرت کی آگ بھڑکانے کا یہ عمل دنیا بھر کے عوام کے لیے بالعموم اور مسلم عوام کے خلاف بالخصوص ایک گہری سازش ہے تاکہ جہاں ایک طرف پُراَمن مسلمانوں کو متشدد اور انتہاء پسند طبقے کے طور پر پیش کیا جائے تو دوسری طرف اُمتِ مسلمہ کی طرف سے کی جانے والی اَمن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ اِس بھیانک صورت حال کا بروقت مناسب تدارک نہ کرسکنے کے باعث اِس کے اَثرات دنیا بھر میں پھیلتے چلے جا رہے ہیں جن کے اِختتام کا کوئی اِمکان نظر نہیں آتا۔ اِس صورتِ حال کو غیر ضروری طور پر بے قابو کر دیا گیا ہے اور یہ پُراَمن بقاے باہمی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اگر بروقت اِس کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف مختلف تہذیبوں بلکہ مذاہب اور معاشروں کے درمیان بھی سنگین تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ دنیا بھر کے اَمن پسند لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں - جب اَقوامِ عالم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف باہم متحد کھڑی ہیں اور دنیا کی مختلف اَقوام اور مذاہب باہمی فاصلے ممکنہ حد تک کم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں - چند نامعقول اَفراد کا مذموم عمل اِس مثبت پیش رفت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔

مسلم دنیا پہلے ہی اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے جہاں وہ ترقی، اَمن اور اِستحکام کی منزل کے حصول کے لیے بیک وقت کئی خطرات اور مشکلات سے برسرپیکار ہے۔ اس وقت سرفہرست بدترین لعنت دہشت گردی کی ہے، جس سے مسلم دنیا نبرد آزما ہے۔ ایسے حالات میں موجودہ گستاخانہ فلم نے پوری مسلم دنیا میں تشدد کی آگ بھڑکانے اور امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب کچھجہاں ایک طرف مسلم دنیا کو غیر متحمل، متشدد اور انتہاء پسند قوم کے طور پر پیش کرنے کا باعث ہے تو دوسری طرف یہ رواداری، پُرامن بقاے باہمی، بین المذاہب رابطہ اور دنیا بھر میں ہم آہنگی کے فروغ اور اَمنِ عالم کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قابلِ مذمت فلم نے مسلم دنیا کی اَقوامِ متحدہ کی پالیسیوں کے تحت قیام امن کے لیے کی جانے والی جد و جہد کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔

آپ یقیناً اس حقیقت کا انکار نہیں کریں گے کہ انسانی نفسیات اور عوامی جذبات کے لیے یہ ایک فطری عمل ہے کہ تمام جارحانہ اَعمال کسی ناپسندیدہ، قابلِ نفرت اور تعصب و عناد پر مبنی رویوں کے باعث ہی جنم لیتے ہیں۔ یہ قابلِ نفرت فلم بھی اسی طرح کی ایک مثال ہے۔ کسی کے جذبات کو مشتعل کرنا اور کسی مقدس ہستی سے وابستہ محبت اور احترام کے احساسات کی توہین کر کے دائمی اذیت کا باعث بننا ایک گھناؤنا فعل ہے۔ یہ دراصل کسی بھی فرد یا قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ تمام صحائفِ آسمانی اور تمام انبیاء کرام بشمول حضرت موسی و حضرت عیسی  علیہما السلام قابلِ صد اِحترام ہستیاں ہیں جن کے لیے تمام اہلِ ایمان کے دل میں محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ ہستیاں اہلِ ایمان کے ایمان کا مرکز و محور اور ان کے اجتماعی و انفرادی وجود کی اساس ہیں جن کی کسی بھی نوع کی اہانت سنگین ترین عمل ہے۔ یہ حقیقت صرف مسلم اُمہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکساں ہے۔ وہ حملہ جو اس شرم ناک فلم کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اس کے اثرات اَمن عالم کے لیے انتہائی مہلک اور خطرناک ہیں۔

جہاں تک آزادیِ اِظہار رائے کا تعلق ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے جسے نہ صرف امریکی آئین اور قانون میں بلکہ حقوقِ انسانی کے عالمی اِعلامیہ (Universal Declaration of Human Rights)، قانونِ حقوق انسانی (Bill of Rights) اور بنیادی اِنسانی حقوق کے تمام ممالک کی دستاویزات میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کے کئی ممالک کے دساتیر میں اس کے ساتھ ساتھ عزت و حرمت کو تحفظ دینے والے قوانین کی موجودگی اِس امر کا بین ثبوت ہے کہ اِنسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ جس طرح آزادیِ اِظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، اُسی طرح انسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی انسانی حق ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی دساتیر اور قوانین ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو انسانی وقار کو مجروح کرنے کا باعث ہوں؛ حتی کہ امریکی دستور کی آٹھویں ترمیم اِنسانی وقار کے تحفظ کو اس حد تک یقینی بناتی ہے کہ اِس ترمیم کی رُو سے :

’کسی کو کوئی بھی ایسی سزا نہیں دی جاسکتی جس کی شدت اور انداز اِنسانی وقار کے منافی ہو۔ ‘

اِس تناظر میں کسی اِنسانی رویے کو کیونکر اِس اَمر کی اِجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کی اہانت اور بے توقیری کا سبب بنے۔

اَقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان (Kofi Annan) نے کہا تھا :

’میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا اِحترام کرتا ہوں لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حق قطعاً بھی مطلق نہیں ہے۔ یہ حق اِحساسِ ذِمہ داری اور دانش مندی کے ساتھ مشروط ہے۔ ‘

سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا (Jack Straw) نے کہا تھا :

’ہر شخص کو آزادیِ اِظہارِ رائے کا حق حاصل ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن کسی کو بھی توہین کرنے یا بغیر کسی سبب کے اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔۔ ۔۔ ہر مذہب کے لیے کچھ قابلِ حرمت اُمور ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ درست نہیں کہ آزادیِ اِظہار رائے کے نام پر عیسائیوں کی تمام مقدس رسوم اور عبادات پر ہر طرح کی تنقید کی جاتی رہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے کہ یہودی، ہندو یا سکھ مذہب کے حقوق اور مقدس رسوم کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ نہ ہی ایسا رویہ مذہبِ اسلام کے حوالے سے اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اس طرح کی صورت حال میں عزت و احترام کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاط کرنا ہوگی۔ ‘

امریکی محکمہء خارجہ کے سابق ترجمان کرٹس کوپر (Kurtis Cooper) نے کہا :

’ہم سب اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا خوب اِحترام کرتے ہیں لیکن اِسے صحافتی ذمہ داری سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ مذہبی یا نسلی نفرت کو اِس آڑ میں بھڑکانے کا عمل قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ‘

سابق فرانسیسی وزیر خارجہ فلپ ڈوسے بلیزی (Philippe Douste-Blazy) نے کہا تھا :

’آزادیِ اِظہارِ رائے کے قانون پر عمل برداشت، عقائد اور مذاہب کے احترام کی روح کے ساتھ ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کے سیکولراِزم کی بنیادی اَساس ہو۔‘

اگر برداشت، رواداری اور بقاے باہمی کے عالمی متفقہ اُصول کو نظر انداز کر دیا جائے اور اَخلاقی اور مذہبی اَقدار کی بے توقیری کی جائے تو اَمنِ عالم کی موجودہ صورت حال بدتر ہوجائے گی اور دنیا میں موجود تناؤ کو ختم کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہو کر رہ جائیں گی۔

آج اِس اَمر کی ضرورت ہے کہ اِس خوف ناک اور پریشان کن صورتِ حال کے خاتمے کے لیے فوری اِقدامات کیے جائیں ورنہ یہ اَمنِ عالم کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ وہ لوگ جو اس بات کے حامی ہیں کہ آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی اور اس پر کوئی بھی پابندی ناقابلِ برداشت ہے انہیں اپنے جمہوری معاشروں پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ان کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف حالیہ قانون سازی میں شہری آزادیوں کو کس حد تک پابند کر دیا گیا ہے، اور کئی ایسے اِقدامات کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں اَفرادِ معاشرہ کے حقوق اور آزادیوں کی بظاہر واضح طور پر تحدید ہوئی ہے۔ آج مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کی آڑ میں جان بوجھ کر ہدف بنایا جارہا ہے اور دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں جب بھی مسلمانوں کے عقیدہ کے انتہائی مقدس پہلوؤں کی تضحیک کی جائے گی یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کی اہانت ہوگی تو اس کا ردِ عمل بھی لازماً بہت شدید ہوگا۔ یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ مغربی اور یورپی اقوام کو جہاں دہشت گردی کی لعنت سے حفاظت کے لیے آزادیِ رائے کے اِظہار پر بھی پابندی روا ہے، وہاں اِسی آزادیِ رائے کے حق کے نام پر ایسے اِہانت انگیز اِقدامات کے ذریعے مسلمانانِ عالم کے جذبات اور اِحساسات کو نہ صرف مجروح کیا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردوں اور اِنتہا پسندوں کو اپنے غیر قانونی اِقدامات کے لیے منطقی جواز فراہم کیے جا رہے ہیں۔

بظاہر آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا بہت غلغلہ ہے لیکن دنیا کا کوئی مذہب بھی مقدس ہستیوں، رسولوں، پیغمبروں اور اﷲ کے کلام کی اہانت کی اجازت نہیں دیتا؛ حتیٰ کہ ’کتابِ مقدس (The Bible)‘ کا ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘ اور ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ دونوں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین سے منع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’عہد نامہ عتیق‘ کی کتاب ’اِحبار (Leviticus)،۔ 24 : 13-16‘، ’اِحبار (Leviticus)،۔ 24 : 23‘، ’2 سموئیل (Samuel ۔2)،۔ 12 : 14‘ میں اور ’عہد نامہ جدید‘ کی کتاب ’متی کی اِنجیل (Matthew)،۔ 12 : 32‘، ’مرقس کی انجیل ((Mark)،۔ 3 : 29‘ اور ’لوقا کی انجیل (Luke)،۔ 12 : 10‘ ملاحظہ ہوں۔

اِسلام - جو قدیم آسمانی مذاہب ہی کا تسلسل ہے - نے بھی تمام رسولوں اور پیغمبروں خصوصاً حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِحترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ دنیا کے تمام براہیمی اَدیان نے پیغمبروں کی توہین کی ممانعت کی ہے لیکن ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘، ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ اور قرآنِ مجید میں پیغمبروں کے اِحترام کی تعلیمات نے کسی بھی شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا۔

اگر ہم اِس گستاخانہ فلم کے معاملے کو انسانی نفسیات کے تناظر میں دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیش کار (producers)، ہدایت کار (directors) اور نشرکنندگان (promoters) امریکی دستور میں موجود اِظہارِ رائے کے حق کے تحفظ کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ فی الحقیقت وہ امریکی مفادات کو بھی خطرات سے دوچار کر رہے ہیں کیونکہ اس طرح تو دہشت گرد گروہوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اس فلم کو اپنے حق میں استعمال کریں۔

محترم صدر/ وزیر اعظم

آج کا مسلم معاشرہ اور اس کی معیشت انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کی دست بُرد میں ہیں۔ مسلم ممالک یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کی لعنت جلد سے جلد ختم ہو، وہ کسی بھی طرح کسی نئے تنازع کے متحمل نہیں ہو سکتے، بالخصوص ایسے تنازعات جو امن عالم ہی کو خطرے میں ڈال دیں۔ موجودہ گستاخانہ فلم کا معاملہ بھی اِسی نوعیت کا ہے۔ اس غیر متوقع اور اچانک صورت حال نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اسلام تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے جس کے کچھ مظاہر ہم نے موجودہ احتجاج کے دوران دیکھے ہیں۔ میں پہلے ہی اس پر تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’فتوی :  دہشت گردی اور فتنہ خوارج (Fatwa on Terrorism and Suicide Bombings)‘ میں بیان کر چکا ہوں۔ نائن الیون (9/11) کے بعد ہم دنیا بھر میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں اور میری کتاب اس سلسلے میں اٹھنے والے کئی سوالات کا جواب ہے۔

یاد رہے کہ جب ایک برطانوی اَخبار The Independent نے 27 جنوری 2003ء کی اِشاعت میں اسرائیلی وزیر اَعظم ایریل شیرون (Ariel Sharon) کو ایک فلسطینی بچے کا سر کھاتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے دکھایا کہ ’اس میں برائی ہی کیا ہے، کیا تم نے کبھی کسی سیاست دان کو بچے کو چومتے ہوئے نہیں دیکھا؟‘ تو اس کے ردّ عمل میں خود اسرائیل کے کئی حصوں میں اِحتجاج شروع ہوگیااور دنیا بھر میں موجود یہودیوں کی طرف سے اشتعال اور غصہ سامنے آیا۔ اس خاکے اور کارٹون کی حقیقت کچھ بھی ہو یہودی عوام کی طرف سے اپنے لیڈر کے لیے سراپا احتجاج بننا ایک فطری ردِ عمل تھا۔

جب اَطالوی وزیر اَعظم سلویو برلس کونی (Silvio Berlusconi) نے اپنا موازنہ حضرت عیسی علیہ السلام سے کیا تو اس پر ویٹی کن سمیت اٹلی کے بہت سے سیاست دانوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا؛ حتی کہ کیتھولک چرچ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اطالوی وزیر اعظم کہے گا کہ اس نے یہ بات اَز رہِ مزاح کی ہے لیکن ایسی باتیں از رہِ مزاح بھی نہیں کی جانی چاہیں۔

زیر بحث معاملہ کسی کے آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق پر قدغن لگانے کا نہیں بلکہ پیغمبر اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کی تضحیک اور اہانت پر اعتراض کرنے کا ہے، جس نے دنیا بھر کے اَربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ دنیا کا کوئی قانون اور آسمانی صحیفہ اِس بد اَخلاقی اور تخریبی رویے کی اجازت نہیں دیتا۔

دنیا بھر میں قانونِ ہتکِ عزت (law of defamation) کے مطابق آزادیِ اِظہارِ رائے کے مستقل حق کو محدود کیا گیا ہے تاکہ ایک فرد کے حقوق میں توازن پیدا کیا جاسکے۔ اسی طرح ایسے عمل کو، جس سے ایک پورے طبقے کو اذیت پہنچتی ہو، محض اظہارِ رائے کی آزادی کے عنوان کے تحت جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ مزید برآں کئی ممالک میں ان کے دساتیر اور مخصوص قومی اداروں مثلا فوج، عدلیہ اور پارلیمان کی توہین کو یا تو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے یا اس رویے کی مذمت کی گئی ہے۔ دنیا بھر میں توہینِ عدالت کا قانون موجود ہے جو واضح طور پر آزادیِ اظہارِ رائے کی حدود متعین کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا قید ہے۔ لہٰذا آزادیِ اظہارِ رائے کا حق قطعی طور پر مطلق نہیں ہے بلکہ اسے بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی طبقے کے جذبات کو مجروح کرنا کسی صورت میں بھی آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کے زُمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسئلہ آزادیِ اِظہارِ رائے کو محدود کرنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی مطلق حق ہے اور نہ ہی کوئی ایسا دعوی کرتا ہے۔ تمام حقوق ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں اور ان کا نفاذ دوسرے کے بنیادی حقوق کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ یہ تصور کہ کوئی حق مطلق حیثیت رکھتا ہے، ایک غلط نقطہ نظر ہے کیونکہ ایسا حق دوسرے بہت سے بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرسکتا ہے۔ ہر وہ ملک جو مہذب اور جمہوری ہونے کا دعوے دار ہے، اس نے معاشرتی اور سماجی مفادات کے تناظر میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کو مخصوص حدود کا پابند کیا ہے تاکہ انسانی رویے کی ایک مخصوص سطح کو برقرار رکھا جاسکے، چاہے اس پابندی کی بنیاد مقامی رسوم و رواج ہوں یا تہذیب و مذہب ہو؛ لیکن حقیقی مقصد یہی ہے کہ اُن کی اَخلاقی، مذہبی، سماجی اور معاشرتی اَقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

مثلاً دنیا کے کئی ممالک میں واضح طور پر بچوں کی برہنہ تصاویر کی اِشاعت یا مذہبی و نسلی نفرت پھیلانے والے مواد کی اِشاعت پر پابندی عائد ہے۔ کئی یورپی ممالک میں ہولو کاسٹ (Holocaust) کا اِنکار جرم ہے، حتی کہ آسڑیا، بیلجیم، چیک ری پبلک، فرانس، جرمنی، اسرائیل، لیتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ، سلوواکیا اور سوئٹزر لینڈ میں اِس جرم کی سزا جرمانے اور قید دونوں صورتوں میں مقرر ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس پر اتفاق اور معاہدہ موجود ہے کہ اس طرح کی پابندی ہرگز اِظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی نہیں کیونکہ اس سے ایک مذہبی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اِسی طرح کسی مذہب کی توہین بھی اِرتکابِ جرم ہے کیونکہ اس سے ایک پورے طبقے کو اذیت پہنچتی ہے جس کا اس مذہب پر ایمان ہے۔ سو اس عمل کو کسی بھی طرح کی آزادی کے حق کا جواز فراہم نہیں کیا جانا چاہے، خصوصاً جب یہ عمل اَمنِ عالم، بین المذاہب ہم آہنگی اور بین الممالک تعلقات کے لیے بھی خطرہ کا باعث ہو۔

اِنفرادی عزت و وقار اور مذہبی آزادی کا تحفظ ایسے بنیادی انسانی حقوق ہیں جنہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے دساتیر و قوانین کے ساتھ ساتھ اَقوامِ متحدہ کے چارٹر نے بھی اِن حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے پہلے آرٹیکل کی شق نمبر 3 میں اِن حقوق کو ان الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے :

’یہ قرار دیا جاتا ہے کہ معاشی، سماجی، ثقافتی اور اِنسانی نوع کے عالمی مسائل و تنازعات کے حل کے لیے اور انسانی حقوق کے اِحترام کے فروغ و حوصلہ اَفزائی کے لیے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے نسل، جنس یا مذہب کی تفریق کے بغیر بنیادی اِنسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر عالمی برادری کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔ ‘

حقوق انسانی کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل نمبر 9 میں قرار دیا گیا ہے کہ :

’کسی فرد کے مذہب اور عقیدہ کے اظہار کی آزادی قانون میں بیان کی گئی حدود کے ساتھ مشروط ہو گی اور یہ ایک جمہوری معاشرے میں عوامی تحفظ کے حصول، امن عامہ کے قیام، صحت اور اخلاقیات کے تحفظ اور دوسرے افراد معاشرہ کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ‘

مذاہب کی توہین کے اِمتناعی قوانین (Prohibitive Laws on Defamation of Religions)

یہاں یہ اَمر قابلِ ذکر ہے کہ اِس موقع پر ہمارا مؤقف - کہ اِحترامِ مذاہب کا عالمی قانون بنایا جائے - کوئی اچنبھے کی بات نہیں سمجھی جانی چاہیے کیونکہ بہت سے یورپی ممالک میں مذاہب کی توہین سے روکنے والے قوانین پہلے ہی رائج اور نافذ ہیں۔ مثلاً :

  1. آسٹریا :  کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 188 اور 189
  2. فن لینڈ :  تعزیراتی قانون (Penal Code) کے باب نمبر 17 کا جزو نمبر 10
  3. جرمنی :  کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 166
  4. نیدر لینڈز :  کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 147
  5. اسپین :  کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 525
  6. آئیر لینڈ :  اس کے آئین کے آرٹیکل نمبر 40.6.1.i کے تحت توہین آمیز مواد کی اِشاعت ایک جرم قرار ہے؛ جب کہ 1989ء کے Prohibition of Incitement to Hatred Act کے تحت کسی خاص مذہبی گروہ کے خلاف نفرت انگیز مواد کی اِشاعت بھی جرم قرار دے دی گئی ہے۔
  7. کینیڈا :  کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا سیکشن نمبر 296
  8. نیوزی لینڈ :  1961ء کے نیوزی لینڈ کرائمز ایکٹ (New Zealand Crimes Act) کا سیکشن نمبر 123
  9. مسیحی دنیا میں کلیساؤں کو مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے اور بعض یورپی ممالک میں اِس تقدس کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔ اس کی ایک مثال ڈنمارک کا دستور ہے، جس کے سیکشن نمبر 4 (State Church) کے مطابق ’Evangelical Lutheran Church کو ڈنمارک کا سرکاری کلیسا قرار دیا جائے گا اور یوں اسے ریاست کی مکمل حمایت حاصل ہوگی‘۔

مزید برآں مختلف ممالک میں مختلف اَوقات میں ایسی صورت حال پیدا ہونے پر ان قوانین پر عمل بھی کیا گیا ہے، مثلاً :

  1. گرہارڈ ہیڈر (Gerhard Haderer) کی کارٹون کی کتاب بعنوان The Life of Jesus پر یونان میں 2003ء میں یونان کے اِہانتِ مذہب کے قانون کے تحت پابندی لگائی گئی۔
  2. 2008ء میں سویڈن کے علاقہ Linkoping میں punk festival کے دوران میں تشہیر کے لیے ایک پوسٹر استعمال کیا گیا جس میں (معاذ اﷲ) شیطان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کر رہا ہے اور اس پر یہ عبارت لکھی تھی :  Punx against Christ - sic اِس پر Linkoping کی میونسپل اِنتظامیہ نے اس پوسٹر کو آویزاں کرنے پر پابندی لگا دی۔
  3. 8 ستمبر 2011ء کو برطانیہ کے اشتہاروں کی نگرانی و کنٹرول کرنے والے سرکاری ادارے (Advertising Standards Authority) نے ایک موبائل فون Phones4u کے ایک اشتہار پر پابندی لگا دی جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ استعمال کی تھی۔ کیونکہ انہیں کم و بیش ایک سو شکایات موصول ہوئیں کہ اِس اِشتہار سے عیسائی عقیدے کی تضحیک اور توہین ہوئی ہے۔ اِس نگران ادارے کے مطابق اشتہار میں شائع ہونے والی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کارٹون نما آنکھیں جھپکتے ہوئے اور انگوٹھے اٹھائے ہوئی تصویر عیسائی عقیدہ کی توہین کا مظہر تھی۔
  4. 1997ء میں Tatyana Suskin کو Hebron میں ایک عرب اسٹور کے سامنے ایک تصویر لگاتے ہوئے گرفتار کیا گیا جس میں اُس نے پیغمبرِ اِسلام کو ایک غلط تصویر کی صورت میں قرآن پڑھتے ہوئے دکھایا۔ اس واقعے سے بہت اِشتعال پیدا ہوا اور اس خاتون کو دو سال کی سزا دی گئی۔
  5. فروری 2005ء میں سویڈن کے علاقہ Gothenburg میں Museum of World Culture نے Louzla Darabi کی پینٹنگ Scène d’Amour کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
  6. فروری 2006ء میں جرمنی میں ایک کارکن Manfred van H کو اِسی طرح کے اِلزام میں ایک سال قید کی سزا دی گئی۔
  7. 13 مئی 2008ء کو Theo van Gogh کے معاوِن ڈچ (Dutch) کارٹونسٹ Gregorius Nekschot کو گرفتار کیا گیا۔ دس پولیس والوں نے اُس کے گھر کی تلاشی لے کر اُس کا کمپیوٹر اور تصویروں کی کتابیں ضبط کر لیں، اس سے قید کے دوران تفتیش کی گئی اور سرکاری وکیل کی درخواست پر اس کی ویب سائٹ سے آٹھ ایسے کارٹون ہٹائے گئے جو مسلمانوں کے خلاف تھے۔
  8. 2010ء میں نیویارک شہر کے Metropolitan Museum of Art سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تصاویر ہٹا دی گئیں کیونکہ مسلمان اسے اِہانت آمیز سمجھتے تھے۔
  9. 2002ء میں ایک ویڈیو گیم Hitman 2 :  Silent Assassin کے منظرِ عام پر آنے سے فسادات پھوٹ پڑے کیونکہ اس میں سکھوں کو ان کے انتہائی مقدس مقام ’ہرمندر صاحب‘ میں قتل ہوتے دکھایا گیا۔ بعد ازاں اس ویڈیو گیم Silent Assassin کا ترمیم شدہ ورژن جاری کیا گیا جس میں اس طرح کے مواد کو ختم کردیا گیا۔
  10. 2004ء میں اِنگلستان میں برمنگھم کے ایک تھیٹر میں ایک ڈرامے ’بے عزتی‘ کا پروگرام منسوخ کردیا جسے گرپریت کور بھٹی (Gurpreet Kaur Bhatti) نے تحریر کیا تھا۔ اس ڈارمے میں ایک گردوارے میں جنسی تشدد اور قتل کا منظر دکھایا گیا تھا۔
  11. 26 ستمبر 2012ء کو برازیل میں گوگل آپریشن کے صدر Fabio Jose Silva Coelho کو برازیل کی وفاقی پولیس نے اُس وقت گرفتار کیا جب کمپنی ان احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہی جن میں جج نے برازیل کے انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر YouTube ویڈیو کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ Google کے اِس افسر کو گرفتار کرنے کا حکم Sao Paulo میں سنایا گیا۔ برازیل کے انتخابی قوانین امیدواروں کے بارے میں ٹیلی ویژن، ریڈیو اور انٹر نیٹ پر ہونے والی تنقید کی تحدید کرتے ہیں۔ Fabio Jose Silva Coelho نے کہا کہ اس کی کمپنی متنازع YouTube ویڈیو ہٹا دے گی جو اس کی قید اور حراست کا سبب بنی ہے۔ ایک علاقائی جج نے تو یہ فیصلہ دیا کہ ویڈیو کا یہ مواد اگلے مہینے میئر کا انتخاب لڑنے والے ایک امیدوار کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔ Fabio Jose Silva Coelho نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ’اگر کوئی ویڈیو کسی خاص ملک میں غیر قانونی ہے تو ہم اُس ملک یا عدالت کی طرف سے شکایت و اَحکامات کی صورت میں اس ویڈیو پر پابندی عائد کردیں گے‘۔

نفرت انگیز تقریر کی اِمتناع کے قوانین (Prohibitive Laws on Hate Speech)

اِسی تناظر میں دنیا بھر میں نفرت انگیز تقاریر و گفتگو کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں۔ ان میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے :

بین الاقوامی قوانین

شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (International Covenant on Civil and Political Rights  : ICCPR) قرار دیتا ہے کہ ہر قسم کی ایسی قومی، نسلی یا مذہبی نفرت کی حامل سرگرمی قانوناً ممنوع ہے جس سے امتیاز، عناد یا تشدد پیدا ہوتا ہو۔ [1]

برازیل (Brazil)

1988ء کے برازیلی آئین کے مطابق برازیل میں نسل پرستی یا کسی بھی نوع کی نفرت پھیلانے والی تقریر کو ایسا ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے جس کا ارتکاب کرنے والوں کو ضمانت کا بھی حق نہیں۔ 2006ء میں برازیل کی وفاقی پولیس اور ارجنٹائن کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی کرکے اس نوع کی نفرت پھیلانے والی بہت سی ویب سائٹس پر پابندی عائد کی تھی۔ [2]

کینیڈا (Canada)

کینیڈا میں کسی بھی معروف معاشرتی گروہ کے خلاف نسل کشی یا نفرت کو فروغ دینے والی سرگرمی کینیڈا کے فوج داری قانون کے مطابق قابلِ سزا جرم قرار دی گئی ہے اور اس جرم کا اِرتکاب کرنے والوں کو دو سے چودہ سال کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ قانون کے مطابق معروف گروہِ معاشرہ سے مراد ایسے اَفرادِ معاشرہ ہیں جنہیں رنگ و نسل، مذہب اور خاندانی اَصلیت یا جنسی شناخت کی بنیاد پر ممتاز قرار دیا جاسکتا ہو۔ تاہم اس میں حقائق کے بیان، عوامی بحث کے موضوعات اور مذہبی عقیدہ سے متعلق اُمور کو اِستثنیٰ حاصل ہے۔ اس قانون کی دستوری حیثیت پر نمایاں عدالتی فیصلہ 1990ء کا R. V. Keegstra ہے۔ [3]

چلی (Chile)

چلی کے آزادیِ اِظہارِ رائے، معلومات اور اِختیار و کارکردگیِ صحافت کے قانون (Ley sobre Libertades de Opinion e Informacion y Ejercicio del Periodismo) کے آرٹیکل نمبر 31 کے مطابق ہر اُس شخص کو بھاری جرمانہ کی سزا دی جائے گی جو کسی بھی طرح کے عوامی اِبلاغ کے ذریعے سے معاشرے کے کسی بھی فرد، اَفراد یا طبقات کے خلاف اُن کی نسل، جنس، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر نفرت پھیلانے یا نفرت کو فروغ دینے کا سبب بنے۔ اِس قانون کا اِطلاق اِس نوع کی اُن سرگرمیوں پر کیا گیا جن کا ذریعہ انٹرنیٹ تھا۔ مزید برآں ایسے قوانین بھی موجود ہیں جن کے تحت متعصبانہ نفرت پھیلانے والے جرائم کے لیے دی جانے والی سزاؤں میں غیر معمولی اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ [4]

یورپی کونسل (Council of Europe)

یورپی کونسل (Council of Europe) نے اس مسئلے پر بہت زیادہ کام کیا ہے۔ حقوقِ اِنسانی کے یورپی کنونشن (European Convention on Human Rights) کے آرٹیکل نمبر 10 کے مطابق نسل کشی اور انسانیت کے خلاف اس طرح کے دوسرے جرائم کے خاتمے کے لیے فوج داری قوانین پر کوئی پابندی عائد نہیں، جیسا کہ حقوقِ انسانی کی یورپی عدالت نے اس کی تعبیر کی ہے۔ یورپی کونسل کی وزراء کی کمیٹی نے اس پر مزید پیش رفت کرتے ہوئے سفارش نمبر R (97) 20 میں نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کے لیے اپنے رُکن ممالک پر زور دیا ہے۔ یورپی کونسل نے نسل پرستی اور عدمِ برداشت کے خاتمے کے لیے خصوصی یورپی کمیشن بھی قائم کیا ہے جس نے ایسے نوع کے مسائل مثلاً یہودیت مخالف سرگرمیاں اور مسلمانوں کے خلاف عدمِ برداشت کے حوالے سے اپنے ممالک کی صورت حال کے بارے میں رپورٹس مرتب کیں اور عمومی پالیسی کے لیے کئی سفارشات بھی پیش کیں۔

کروشیا (Croatia)

کروشیائی دستور کے مطابق آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کو دستوری تحفظ حاصل ہے تاہم کروشیائی ضابطہء فوج داری کے مطابق ہر اُس شخص کو سزا دی جائے گی اور سرگرمیوں سے روکا جائے گا جو بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے تسلیم شدہ آزادیوں کو نسل، مذہب، زبان، سیاسی وابستگی، نظریہ و عقیدہ، دولت، پیدائش، تعلیم، سماجی مرتبہ، قدر و قیمت، جنس، رنگ، قومیت یا نسلیت کی بنیاد پر پامال کریں۔ [5]

ڈنمارک (Denmark)

ڈنمارک میں بھی نفرت انگیز تقاریر پر پابندی عائد کرتے ہوئے وضاحت کی گئی ہے کہ اِس سے مراد عوام الناس میں پھیلایا گیا وہ مواد ہے جس سے معاشرے کے کسی بھی طبقہ کو خطرہ لاحق ہو یا نسل، رنگ، قومیت، نسلی وابستگی، عقیدہ، جنسی امتیاز کی بنیاد پر اس کی توہین اور بے توقیری ہو۔ [6]

فِن لینڈ (Finland)

فِن لینڈ میں نفرت انگیز تقریر (vihapuhe) کی تعریف کے بارے میں بہت زیادہ بحث مباحثہ کیا گیا ہے۔ [7]

’نفرت انگیز تقریر سے مراد نسلی بنیاد پر نفرت انگیزی ہے۔ فِن لینڈ کے ضابطہء فوج داری کے سیکشن نمبر 11 کا عنوان ’جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر پابندی‘ ہے۔ نفرت انگریز تقریر سے مراد ایسے مواد، نقطہ نظر یا بیان کی اشاعت ہے جس سے کسی بھی گروہ یا معاشرہ کو نسل، قومیت، مذہب، عقیدہ، جنسی شناخت، معذوری یا اس طرح کی کسی بھی بنیاد پر خطرات لاحق ہوتے ہوں یا ان کی بے توقیری ہوتی ہو۔ نسلی بنیاد پر اِشتعال انگیزی کی سزا جرمانہ یا دو سال تک قید ہے۔ یہ سزا جرم کی نوعیت کے مطابق چار ماہ سے بڑھا کر چار سال تک دی جاسکتی ہے۔‘ [8]

فرانس (France)

فرانس کے ضابطہء فوج داری اور اس کے صحافتی قوانین کے مطابق ہر قسم کی اُس سرکاری اور غیر سرکاری نشر و اِشاعت پر پابندی ہے جو اِہانت اور بے عزتی کا باعث بن سکتی ہو یا جس سے کسی بھی شخص یا گروہِ معاشرہ کے خلاف وطنیت، نسلیت یا عدم شناخت نسل، قومیت، نسل، خاندان، مخصوص مذہب، جنس، جنسی شناخت یا معذوری کی بنیاد پر امتیاز، نفرت یا تشدد جنم لیتا ہو۔ اس قانون کے مطابق ایسے بیان پر بھی پابندی عائد ہے جو انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم مثلاً ہولوکاسٹ (Holocaust) کے اِنکار پر مبنی ہو یا ایسے جرائم کے جواز پر مشتمل ہو۔ [9]

جرمنی (Germany)

جرمنی میں عوامی سطح پر نفرت پیدا کرنے کا عمل (Volksverhetzung) قابلِ سزا جرم ہے اور اِس کے لیے سزا کا تعین جرمنی کے ضابطہء فوج داری (Strafgesetzbuch) کے سیکشن نمبر 130 میں کیا گیا ہے۔ یہ سزا پانچ سال تک بھی ہوسکتی ہے۔ سیکشن نمبر 130 کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقات کے بارے میں عوامی سطح پر نفرت پیدا کرنا جرم ہے۔ اِسی طرح ان کے خلاف امتیازی اِقدامات یا تشدد کی دعوت دینا، ان کی توہین اور بے توقیری کرنا، نیز ان کو آئینی سطح پہ حاصل انسانی عزت و وقار کے حق کو پامال کرتے ہوئے بدنام کرنا بھی جرم ہے۔ مثلاً کسی نسلی گروہ کو عوامی سطح پر کمی یا بھنگی جیسے القاب سے بلانا بھی غیر قانونی عمل ہے۔ عوامی سطح پر نفرت پیدا کرنے کا عمل (Volksverhetzung) جرمنی کے قانون کے مطابق جرم ہے، چاہے اس کا ارتکاب (جرمن شہریوں کی جانب سے) جرمنی سے باہر ہو یا غیر جرمن شہری (جرمنی کے اندر) اِس کے مرتکب ہوں بشرطیکہ اس جرم کے نتیجے میں جرمن علاقہ میں نفرت پیدا ہو سکتی ہو۔ مثلاً جرمن علاقے میں کسی بھی گفتگو میں دیے جانے والے باغیانہ بیانات کو جرمنی میں قابلِ دست اَندازی جرم قرار دیا گیا ہے۔ [10]

آئس لینڈ (Iceland)

آئس لینڈ میں نفرت انگیز تقریر کے بارے میں قانون صرف نفرت پھیلانے تک ہی محدود نہیں جیسا کہ آئس لینڈ کے ضابطہ فوج داری کے آرٹیکل نمبر 233a میں بیان کیا گیا ہے بلکہ اس میں عوامی سطح پر نفرت پیدا کرنے والے عوامل کی تفصیل یوں دی گئی ہے :

’ہر وہ شخص جو تضحیک، طنز، اہانت، بے توقیری یا کسی بھی دوسرے طریقے سے کسی شخص یا گروہِ معاشرہ کی قومیت، رنگ، نسل، مذہب، جنسی شناخت کی بنیاد پر عوامی سطح پر توہین کرے اُسے جرمانہ یا دو سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔‘ [11]

بھارت (India)

بھارت میں اِظہارکے ہر اُس طریقے پر پابندی ہے جسے کوئی بھی شخص اپنے مذہب کے لیے توہین آمیز سمجھتا ہو یا کسی بھی وجہ سے اَمنِ عامہ تہہ و بالا ہو سکتا ہو۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل نمبر 19 کی شق نمبر 1 میں آزادیِ اِظہار کے حق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن آرٹیکل نمبر 19 کی شق نمبر 2 کے مطابق آزادیِ تقریر و اِظہار رائے کے حق پر بھارت کی خود مختاری و سا لمیت، ریاستی تحفظ، دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، اَمنِ عامہ، اَخلاقیات، توہینِ عدالت سے متعلقہ اُمور، بے توقیری یا جرم کے برانگیختگی جیسے اُمور کے پیش نظر مناسب پابندیاںعائد کی جاسکتی ہیں۔ [12]

آئر لینڈ (Ireland)

آئرلینڈ میں آئین کے آرٹیکل نمبر 40.6.1.i کے تحت آزادیِ اِظہار کے حق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، تاہم یہ آئین کے تحت ایک مشروط حق ہے اور یہ طے کیا گیا ہے کہ یہ حق کسی بھی طرح سے اَمنِ عامہ، اَخلاقی اَقدار اور ریاستی اِقتدار کو تباہ و تہہ و بالا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ [13]

1989ء کے ’قانونِ امتناعِ نفرت (Prohibition of Incitement to Hatred Act)‘ کے مطابق ان الفاظ یا رویوں کی بھی وضاحت کردی گئی ہے جو دھمکی آمیز، ناروا اور توہین آمیزہیں؛ یا اِس طرح کے تمام حالات کے تناظر میں ریاست کے کسی بھی گروہ معاشرہ کے خلاف نفرت بھڑکانے کا باعث بنیں؛ یا ان کے خلاف خاندان، نسل، رنگ، قومیت، مذہب، نسلی و قومی وابستگی یا آئرلینڈ میں سفر کرنے والے گروہ سے تعلق یا جنسی شناخت کی بنیاد پر نفرت پیدا ہوتی ہو۔ [14]

نیدر لینڈز (Netherlands)

ڈچ ضابطہء فوج داری (Dutch penal code) کے مطابق کسی بھی گروہِ معاشرہ کی توہین پر آرٹیکل نمبر 137c کے تحت اور نفرت و تعصب ابھارنے، گروہی امتیاز یا تشدد پر آرٹیکل نمبر 137d کے تحت پابندی عائد ہے۔ ضابطہء فوج داری میں درج جرائم کی تفصیل کچھ یوں ہے :

ہر وہ شخص جو عوامی سطح پر زبانی، تحریری یا تصویری عمل کے ذریعے اِرادتاً ایسی رائے کا اظہار کرے جس سے کسی بھی گروہِ معاشرہ کی- ان کے خاندان، مذہب، فلسفہء زندگی، ان کے متعدد جنسی یا ہم جنسی شناخت یا ان کی جسمانی، نفسیاتی یا ذہنی معذوری کی بنیاد پر- توہین ہوتی ہو تو اُسے ایک سال سے زائد قید یا تیسرے درجے کی جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔‘ [15]

نیوزی لینڈ (New Zealand)

نیوزی لینڈ میں 1993ء کے حقوق انسانی ایکٹ (Human Rights Act 1993) کے مطابق نفرت انگیز تقریر کرنا ممنوع ہے۔ سیکشن نمبر 61 (نسلی ناہمواری) کے مطابق دھمکی آمیز اور توہین و بے توقیری آمیز مواد کی اشاعت کرنا اور ایسے الفاظ کی ادائیگی جس سے کسی بھی گروہِ معاشرہ کے خلاف رنگ، نسل، نسلی و خاندانی اور قومی بنیادوں پر نفرت یاتوہین پیدا ہوتی ہو غیر قانونی عمل ہے۔ سیکشن نمبر 131 - نسلی ناہمواری پیدا کرنے کا عمل (Inciting Racial Disharmony) - میں اُن جرائم کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو اس قانون کے تحت موجب سزا بنتے ہیں۔ [16]

ناروے (Norway)

ناروے میں نفرت انگیز تقریر پر قانوناً پابندی عائد ہے؛ اور اس کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ اِس سے مراد عوامی سطح پر ایسے بیانات دینا ہے جن کے نتیجے میں کسی بھی شخص کے بارے میں- رنگ، نسلی وابستگی، ہم جنسی شناخت، مذہب یا فلسفہء زندگی کی بنیاد پر- توہین یا نفرت پیدا ہو سکتی ہو۔ [17]

پولینڈ (Poland)

پولینڈ میں نفرت انگیز تقریر قابلِ سزا جرم ہے جس کے تحت کسی بھی مذہبی تقریب کو تہہ و بالا کرکے یا عوامی سطح پر غلط پروپیگنڈہ کرکے کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا ہو۔ ان قوانین کے تحت ہر اُس عوامی اِظہار پر پابندی ہے جس سے کسی بھی شخص یا گروہِ معاشرہ کی قومیت، نسلی، خاندانی یا مذہبی وابستگی نہ ہونے کی بنیاد پر توہین ہوتی ہو۔ [18]

سنگاپور (Singapore)

سنگاپور میں کئی ایسے قوانین منظور کیے گئے ہیں جن کے مطابق مختلف مذہبی گروہوں میں تفرقہ پیدا کرنے والی تقریر پر پابندی عائد ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کا قانون اس طرح کی قانون سازی کی واضح مثال ہے۔ ضابطہء فوج داری کے مطابق کسی بھی شخص کی ایسی ارادی سرگرمیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے جس سے مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان نسل یا مذہب کی بنیاد پر نفرت پیدا ہو سکتی ہے۔ مزید برآں کسی بھی شخص کے ایسے عمل کو جرم قرار دیا گیا ہے جس سے کسی بھی فرد کے مذہبی اور نسلی و خاندانی احساسات و جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ [19]

جنوبی افریقہ (South Africa)

جنوبی افریقہ میں نفرت پیدا کرنے والی تقریر - جس سے تشدد کے لیے برانگیختگی اور جنگ کا پراپیگنڈہ ہوتا ہو - کو خصوصی طور پر آئین میں موجود آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق سے خارج کیا گیا ہے۔ 2000ء کے فروغِ مساوات اور ناجائز اِمتیاز کے امتناع کے قانون (Promotion of Equality and Prevention of Unfair Discrimination Act, 2000) میں درج ذیل شقیں شامل کی گئی ہیں :

کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کے خلاف ممنوعہ بنیاد پر کوئی بھی لفظ شائع، نشر، ادا یا فروغ پذیر نہیں کرے گا جن سے مناسب اور عام عقلی انداز سے یہ واضح اشارے اخذ کیے جاسکتے ہوں کہ :

  1. وہ تکلیف دہ ہوں۔
  2. وہ اذیت انگیز اور مجروح کرنے والے ہوں۔
  3. نفرت پیدا کرتے اور پھیلاتے ہوں۔ [20]

ممنوعہ بنیاد سے مراد نسل، جنس، نوع، تعلق، جنسی عمل، ازدواجی حیثیت، خاندانی یا سماجی وابستگی، رنگ، جنسی شناخت، عمر، معذوری، مذہب، سمجھ بوجھ، عقیدہ، کلچر، زبان یا پیدائش کی شناخت ہے۔ کسی کی عزت و وقار کو غیر قانونی طور پر ارادتاً اور سنگین طور پر مجروح کرنے کا عمل (crimen injuria) ایسا جرم ہے جس پر نفرت انگیز تقریر کے قانون کے تحت سزا دی جاسکتی ہے۔ [21]

2011ء میں جنوبی افریقہ کی عدالت نے ایک ایسے گانے (Dubulu iBhunu - Shoot the Boer) پر پابندی لگا دی جس میں افریقیوں کی توہین کی گئی تھی کیونکہ اس گانے میں جنوبی افریقہ کے اُس قانون کی خلاف ورزی کی گئی جس میں ہر اُس تقریر پر پابندی عائد کی گئی ہے جس سے اذیت دینے، تکلیف پہنچانے اور نفرت پھیلانے کا واضح ارادہ نظر آتا ہو۔

سویڈن (Sweden)

سویڈن میں نفرت انگیز تقریر پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اس سے مراد عوامی سطح پر ایسے بیانات دینا ہے جس سے کسی بھی گروہ یا نسلی گروہ کے خاندان، قومیت، نسلی پہچان، عقیدہ یا جنسی شناخت کی بنیاد پر توہین ہوتی ہو یا انہیں عدمِ تحفظ کا احساس ہوتا ہو۔ [22]

تاہم اس قانون کے تحت کسی مناسب اور ذمہ دارانہ مباحثے (en saklig och vederhaftig diskussion) یا ایسے بیان پر پابندی عائد نہیں گئی جو مکمل طور پر راز داری کے ساتھ دیا گیا ہے۔ [23]

اِسی طرح ایسی بہت سی دستوری پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جن کے تحت کئی اُمور کو حقوقِ اِنسانی کے یورپی کنونشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق جرم قرار دیاگیا ہو۔ [24]

سوئٹزرلینڈ (Switzerland)

سوئٹزرلینڈ میں بھی عوامی تفرقہ بازی یا کسی شخص یا اَفرادِ معاشرہ کے خلاف نسل، قومیت وغیرہ کی بنیاد پر نفرت پھیلانے کے عمل کو تین سال تک قید کی سزا کا موجب جرم قرار دیا گیا ہے۔ 1934ء میں Basel-Stadt کے علاقے کی انتظامیہ نے یہودیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والی تقریر کو جرم قرار دیا مثلاً یہودیوں کے مذہبی قتل، خصوصاً یہودی مخالف نازیوں کے ردِ عمل اور اس طرح کے بیان جاری کرنے والے اختیار (Volksbund) وغیرہ۔ [25]

محترم صدر/ وزیر اعظم

مندرجہ بالا قوانین اور ان کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آزادیِ اِظہارِ رائے کا حق بنیادی اِنسانی حق ہے، لیکن یہ دوسری آزادیوں کی طرح ایک اضافی اور مشروط آزادی ہے۔ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد کے بارے میں ہزاروں کتابیں اور اخباری مضامین تاحال شائع ہو چکے ہیں جن میںاسلام اور اس کے بنیادی عقائد پر تنقید کی گئی ہے لیکن مسلمان علمی مباحثے پر کبھی اعتراض نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اسلام کے بارے میں جاری مباحثے کا حصہ ہے اور یہ سب کچھ آزادیِ اِظہارِ رائے کی حدود کے اندر ہے۔ آج دنیا میں اخبارات میں ایسے لاتعداد مضامین شائع ہوئے ہیںجن میں اسلام کی غلط تعبیرات پیش کی جاتی ہیں بلکہ اکثر اوقات تو اسلام اور اس کے قوانین کے بارے میں مبینہ انداز میں مکمل جھوٹ پر مبنی مبالغہ آمیز کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن مسلمان انہیں نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ رواداری کا رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لبرل جمہوریتوں پر مبنی جن معاشروں میں رہ رہے ہیں یہ سب کچھ ان کا جزوِ لاینفک ہے۔

لیکن جب اِظہارِ رائے کی آزادی کا یہ حق غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اسلام کے بہت ہی مقدس عناصر قرآن اور صاحب قرآن کی واضح طور پر توہین کی جاتی ہے تو اس سے لازمی طور پر مسلمانوں میں اِضطراب اور اِشتعال پیدا ہوگا۔ ایسے حالات میں - جب دنیا دہشت گردی کے خاتمہ کی جد و جہد میں مصروف ہے - اِشتعال انگیزی اور نفرت جیسے عوامل کا مکمل طور پر تدارک درکار ہے تاکہ یہ پھر سر نہ اُٹھا سکیں کیونکہ یہ دہشت گردی کو ہوا دینے کا باعث بنتے ہیں اور یہ دنیا کا اَمن تباہ کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ دہشت گردی کو ہوا دینا اَمن کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش ہے۔ اس لیے ضروری ہے انسانیت کی بقا کے لیے ایسے مؤثر ترین اِقدامات کیے جائیں جن سے اِس طرح کے توہین آمیز اِقدامات کا ہمیشہ کے لیے تدارک کیا جاسکے۔

محترم صدر/ وزیر اعظم

مکمل اِحساسِ ذِمہ داری کے ساتھ دنیا میں اَمن و آشتی کے عمل کو فروغ دینے میں مصروفِ کار رہنا اور دہشت گردی کی قوتوں سے نبرد آزما ہونا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس گستاخانہ فلم سے نہ صرف ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے اُن اربوں اَمن پسند لوگوں کو بھی سخت اذیت پہنچی ہے جو دنیا بھر میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تائید کر رہے ہیں۔ اس فلم سے صرف دہشت گردوں کو تقویت ملی ہے اور ان لوگوں کے حوصلے بہت پست ہوئے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ اس گستاخانہ فلم سے مسلم دنیا میں اِشتعال پیدا ہوا ہے اور اَمن پیدا کرنے والی قوتوں کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ اِس طرح کا عمل مجرمانہ ہے اور اِس سے اِنسانیت میں نفرت اور تفریق مزید بڑھے گی۔

چند مٹھی بھر اَفراد - چاہے ان کا تعلق مسجد سے ہو یا کلیسا سے - کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اس دنیا میں پُراَمن بقاے باہمی کے ماحول کو تباہ و برباد کرتے پھریں۔ ان کے نام نہاد آزادیِ رائے کے اِظہار کے حق کو اَمنِ عالم پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ اگر ہم آج اس طرح کے واقعات کو نہیں روکتے تو اِس سے آنے والی نسلوں کے لیے ہم اِنتہائی خوف ناک ماحول پیدا کرنے کا باعث بنیں گے۔ لہٰذا اَفراد ہوں یا مختلف طبقات کسی کو اَمنِ عالم تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں ہم بین الاقوامی سطح پر اَقوامِ متحدہ (UN) میں ضروری قانون سازی کا اِہتمام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس اِنتہائی نازک ترین صورتِ حال میں دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی پر مبنی سرگرمیاں موجود ہیں اُن کے خلاف کام یابی کے حصول اور اَمنِ عالم کے تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کے لیے آپ غیر معمولی طور پر قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ اور آج دنیا میں مذہبی اِحساسات کے مجروح ہونے پر جو غیر معمولی ردّ عمل سامنے آرہا ہے اُس کے اَسباب کی روک تھام کے لیے مؤثر اِقدامات بروئے کار لائیں گے۔

محمد طاہر القادری

(29 ستمبر، 2012ء)

حوالہ جات

[1] International Covenant on Civil and Political Rights, Article 20.

[2] ‘1988 Constitution made racism a crime with no right to bail’, Folha de Sao Paulo, 15 April 2005.

[3] ‘Advocating genocide’, ‘Public incitement of hatred’ and ‘Wilful promotion of hatred’, R.S.C., 1985, c. C-46, sec. 318-319, Criminal Code of Canada.

[4] Alvaro Paul Diaz, The Criminalization of Hate Speech in Chile in Light of Comparative Case Law (in Spanish), Rev. Chil. Derecho, 2011, vol.38, n.3, pp. 573-609.

[5] Article 174 of Croatian Penal Code on Croatian Wikisource.

[6] Danish Penal code, Straffeloven, section 266 B.

[7] ‘TV2 : n Vihaillassa ei paasty yksimielisyyteen vihapuhe-kasitteesta’ (in Finnish). Helsing Sanomat. 20 September 2011. Retrieved 27 September 2011; and ‘Vihapuheen maaritelmasta ei yksimielisyytta’ (in Finnish). YLE Uutiset (YLE). 21 September 2011. Retrieved 27 September 2011.

[8] Finnish Penal Code Rikoslaki/Strafflagen Chapter 11, section 10 Ethnic agitation / Kiihottaminen kansanryhmaa vastaan.

[9] Loi 90-615 du 13 Juillet 1990.

[10] German criminal code’s Principle of Ubiquity, Section 9 §1 Alt. 3 and 4 of the Strafgesetzbuch.

[11] Icelandic Penal Code, Article 233a.

[12] Constitution of India.

[13] Bunreacht na hEireann Fundamental Rights.

[14] Irish Statute Book Database.

[15] Dutch Penal Code-article 137c.

[16] New Zealand Human Rights Act 1993. Section 61.

[17] Norwegian Penal Code, Straffeloven, section 135a.

[18] Venice Commission (2008) :  ‘Analysis of the Domestic Law Concerning Blasphemy, Religious Insult and Inciting Religious Hatred in Albania, Austria, Belgium, Denmark, France, Greece, Ireland, Netherlands, Poland, Romania, Turkey, United Kingdom on the Basis of Replies to a Questionnaire.’ Council of Europe. Retrieved 14 May 2010.

[19] Maintenance of Religious Harmony Act.

[20] Promotion of Equality and Prevention of Unfair Discrimination Act, 2000, s. 10(1).

[21] Clark, DM (2003), South African Law Reform Commission Issue Paper 22 Project 130 :  Stalking, South African Law Commission; & Hanti, Otto (9 August 2006), Man fined after racial slur to top judge, IOL. Retrieved 10 July 2007.

[22] The Swedish Penal Code, Brottsbalken, chapter 16, section 8.

[23] Proposition 2001/02 : 59, Hets mot folkgrupp, m.m., chapter 5.

[24] Judgment of the Supreme Court of Sweden in the Ake Green case.

[25] ‘Basel verbiete jede Diffamierung von Juden und Judentum’ (in German). Vienna :  Die Stimme-Jüdische Zeitung. 14 December 1934. Retrieved 12 November 2009.


Click to enlarge view

تبصرہ

Top