پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام منعقدہ پہلی قومی تعلیمی کانفرنس سے خطاب
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام منعقدہ پہلی قومی تعلیمی کانفرنس سے خطاب، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام تعلیم میں بہتری لانے کی کوشش پر وقت اور وسائل ضائع کرنے کی بجائے اسے مکمل طور پر ختم کر کے ایک نیا نظام متعارف کروایا جائے۔ اس نظام میں اب اصلاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی، پاکستان کے نظام تعلیم کی بوسیدہ عمارت کو منہدم کرکے نئی بنیادوں کے ساتھ نئی عمارت تعمیر کی جائے، فن لینڈ، سنگاپور، جاپان اور چین نے کس نظام تعلیم کے ساتھ ترقی کی اس کا جائزہ لیا جائے، قرآن و سنت کی تعلیم کو سکولوں کالجوں سے نکال کر اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جاپان، سنگاپور، چین اور فن لینڈ میں 70 فیصد گریجویٹ ٹیکنیکل سکلز کے ساتھ عملی زندگی میں چلے جاتے ہیں محض 30 فیصد طلبہ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں 99 فیصد طلبہ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں اور پھر ڈگری ہولڈر بن کر بے روزگاری کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہتا ہوں اس نظام تعلیم سے جان چھڑا لی جائے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیمی نظام کے سب سے اہم پہلو نصاب، تدریس کا طریقہ، استاد کی تربیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 5 کروڑ 50 لاکھ سے زائد طلباء زیرِ تعلیم ہیں، مگر اساتذہ کی تعداد 21 لاکھ ہے، جو تعلیمی نظام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی نصاب میں حب الوطنی اور اسلامی اقدار کا تحفظ کرنا ضروری ہے تاکہ نئی نسل میں وطن سے محبت، اعتدال اور اخلاقی ذمہ داری پیدا ہو سکے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ جب تک اساتذہ کی ٹریننگ اور مانیٹرنگ کا کوئی مضبوط میکنزم نہیں بنایا جائے گا، تب تک تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ تعلیمی بجٹ ڈبل کیا جائے اور فنی تعلیم پر فوکس کیا جائے، انہوں نے جاپان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بچوں کو تعلیمی زندگی کے پہلے تین سالوں میں صرف اخلاق سکھایا جاتا ہے، جس سے ان کی شخصیت کا مثبت ارتقاء ہوتا ہے۔
انہوں نے استاد اور والدین پر زور دیا کہ وہ بچوں کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کی بجائے ان کے اندر ایک دوسرے کی معاونت کرنے کا جذبہ کریں اور انہیں انفرادی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کا موقع دیں۔ انھوں نے کہا کہ نظامِ تعلیم کے ذریعے نسلوں کو بہتر بنانا ضروری ہے، اور اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں اسلامی اقدار اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا نہیں کرتے تو ہم کبھی بھی ایک عظیم قوم نہیں بن پائیں گے۔
آپﷺ نے ہمیشہ تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اور اپنی امت کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ آپﷺ کا فرمان ہے: "علم کا طلب ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"۔ آپﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اس بات کو واضح کیا کہ علم کا مقصد صرف دنیاوی فائدہ نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور انسانیت کی خدمت ہے۔ آپﷺ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کیا کہ علم کا راستہ ہمیشہ نرم اور اخلاقی ہونا چاہیے، اور اس میں سختی یا زبردستی کا کوئی عمل نہیں ہونا چاہیے۔ آپﷺ نے بچوں کو بہترین اخلاق سکھانے کی اہمیت پر زور دیا اور انہیں نرم دلی، محبت اور حسن سلوک کی تعلیم دی تاکہ وہ ایک بہتر انسان بن سکیں۔
کانفرنس میں ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور، صوبائی وزیرِ تعلیم گلگت بلتستان غلام شہزاد آغا، پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد، ڈاکٹر علی وقار قادری، ڈاکٹر شاہد سرویا، کاشف مرزا، ڈاکٹر وجاہت حسین، محمد شعیب طاہر، سید طفیل رضا بخاری، سید فہد کاظمی، برگیڈیئر ر عمر حیات، نور اللہ صدیقی، جی ایم ملک، راجہ زاہد محمود، رانا وحید شہزاد، ڈاکٹر خرم شہزاد، عائشہ مبشر، عائشہ شبیر، شگفتہ جبیں، عمارہ مقصود سمیت ملک بھر سے ایجوکیشنسٹ، تعلیمی اداروں کے سربراہان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تبصرہ