بجٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر کے منی بجٹ کے سلسلہ کو ختم کیا جائے
400 ارب روپے کی سالانہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ صدر، وزیر
اعظم اور وزراء کے صوابدیدی فنڈ ختم کئے جائیں
پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی لگا کر ملکی صنعت کو فرغ دیا جائے
کالا باغ ڈیم 500 ارب کا فائدہ پہنچا سکتا ہے
پرتعیش گاڑیوں کا کلچر ختم کر کے جونیجو کی 800 CC گاڑی کا کلچر پیدا کیا جائے
سیاست کو اکانومی سے الگ کر دیں تاکہ کرپشن کلچر کا خاتمہ ہو سکے
پاکستان عوامی تحریک کے پری بجٹ سیمینار سے سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ، ڈاکٹر رحیق
عباسی،
ڈاکٹر شاہد ضیاء اور دیگر مقررین کا خطاب
پاکستان عوامی تحریک کے تحت ہونے والے پری بجٹ سیمینار سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے۔ منی بجٹ کے سلسلہ کو ختم کیا جائے۔ معاشی معاملات کی درستگی کیلئے تھنک ٹینک کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہر منسٹری میں ریگولیٹری باڈی اور آڈٹ کا نظام ہونا چاہیے۔ تعلیم پر GDP کا کم از کم 6 اور صحت پر 5 فی صد خرچ ہونا چاہیے۔ ملک میں پائے جانے والے قدرتی وسائل اور انفرادی وسائل کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے۔ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل اور KESC جیسے سفید ہاتھیوں پر خرچ ہونے والے سینکڑوں ارب روپے کا ضیاع بچا کر عوام کو ریلیف دیا جائے۔ اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دے کر قیمتوں کو کم کیا جائے پٹرول کی قیمت میں ہونے والے ہوشربا اضافے کو واپس 40 روپے لیٹر کی سطح پر لایا جائے۔ 400 ارب روپے کی سالانہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ صدر اور وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ ختم کئے جائیں۔ حکومتی عہدیداروں اور اراکین پارلیمنٹ کی سہولیات کو منجمد کر دیا جائے۔ سیمینار میں سابق وفاقی وزیر سلمان شاہ، ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، انوار اختر ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شاہد ضیا، محمد ابراہیم مغل، بریگیڈیر (ر) فاروق حمید اختر، نذیر احمد خان، مہناز رفیع، ڈاکٹر اسلم خان اور شوکت بھٹی، نے اظہار خیال کیا۔ جبکہ صدارت صدر پاکستان عوامی تحریک فیض الرحمٰن درانی نے کی۔ مقررین نے کہا کہ ھیلی کاپٹرز کی ہونے والی خریداری کو روکا جائے۔ گریڈ ایک سے 16 کی تنخواہ اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے اور گریڈ 17 سے اوپر کی مراعات کو ختم کر دیا جائے۔ VAT کی بجائے بڑی مچھلیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور سیاست کو معیشت سے الگ کر دیا جائے۔ پاکستان دنیا کا چھٹا افرادی قوت رکھنے والا ملک ہے اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کو معاشی قوت بنایا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے شکنجے سے نجات دلائی جائے۔ پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی لگا کر ملکی صنعت کو فرغ دیا جائے۔ کالا باغ ڈیم 500 ارب کا فائدہ پہنچا سکتا ہے مگر بننے نہیں دیا جارہا اس پر موثر عوامی رائے قائم کی جائے۔ 400 ارب روپے کی خرد برد کو روکا جائے۔ پرتعیش گاڑیوں کا کلچر ختم کر کے جونیجو کی 800 CC گاڑی کا کلچر پیدا کیا جائے۔ غیر شفاف انکم سپورٹ پروگرام میں رکھے گئے 190 روپے کو ڈائریکٹ عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائے۔ سیاست کو اکانومی سے الگ کر دیں تاکہ کرپشن کلچر کا خاتمہ ہو سکے۔ حکومت آنے والے بجٹ میں 130 ارب ڈالر خرچ کیسے کرے گی؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔ مقررین نے کہا کہ 3000 ارب روپے کا مرکزی اور صوبائی بجٹ بنے گا مگر عوام مہنگائی کی چکی میں پستی رہے گی۔ ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی دریاؤں سے بنائی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں 900 دن کا پانی سٹور رہتا ہے۔ پاکستان میں یہ سٹوریج 30 دن سے زیادہ نہیں ہے۔ سونا ملک سے دبئی لے جا کر واپس روپے کی شکل میں لا کر منی لانڈرنگ کی جا رہی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا کہ سیلز کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی لگتا رہے گا جو زیادتی ہو گی۔ سیمینار میں مطالبہ کیا گیا کہ زراعت کو انڈسٹری ڈکلیر کر کے تمام تر توجہ زرعی سیکٹر پر دی جائے۔
تبصرہ