پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام پری بجٹ سیمینار 2010ء
پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام "پری بجٹ سیمینار" 19 مئی 2010ء کو مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں ہوا۔ سیمینار کی صدارت پاکستان عوامی تحریک کے صدر فیض الرحمن درانی نے کی جبکہ سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر شاہد ضیاء، محمد ابراہیم مغل، بریگیڈیر (ر) فاروق حمید اختر، نذیر احمد خان، مہناز رفیع، ڈاکٹر اسلم خان اور شوکت بھٹی بھی معزز مہمانوں مں شامل تھے۔ ناظم اعلیٰ منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک انوار اختر ایڈووکیٹ نے بھی سیمینار میں خصوصی شرکت کی۔ سیمینار کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔
سیمینار میں سابق وفاقی وزیر سلمان شاہ، ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، انوار اختر ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شاہد ضیا، محمد ابراہیم مغل، بریگیڈیر (ر) فاروق حمید اختر، نذیر احمد خان، مہناز رفیع، ڈاکٹر اسلم خان اور شوکت بھٹی نے بھی اظہار خیال کیا۔
سیمینار کے مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر کے منی بجٹ کے سلسلہ کو ختم کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی معاملات کی درستگی کیلئے تھنک ٹینک کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہر وزارت میں ریگولیٹری باڈی اور آڈٹ کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے۔ تعلیم پر GDP کا کم از کم 6 اور صحت پر 5 فی صد خرچ ہونا چاہیے۔ ملک میں پائے جانے والے قدرتی وسائل اور انفرادی وسائل کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے۔ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل اور KESC جیسے سفید ہاتھیوں پر خرچ ہونے والے سینکڑوں ارب روپے کا ضیاع بچا کر عوام کو ریلیف دیا جائے۔
تمام مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دے کر قیمتوں کو کم کیا جائے۔ پٹرول کی قیمت میں ہونے والے ہوشربا اضافے کو واپس 40 روپے لیٹر کی سطح پر لایا جائے۔ 400 ارب روپے کی سالانہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ صدر اور وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ ختم کئے جائیں۔ حکومتی عہدیداروں اور اراکین پارلیمنٹ کی سہولیات کو منجمد کر دیا جائے۔
مقررین نے کہا کہ ھیلی کاپٹرز کی ہونے والی خریداری کو فوری روکا جائے۔ گریڈ 1 سے 16 کی تنخواہ اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے اور گریڈ 17 سے اوپر کی مراعات کو ختم کر دیا جائے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) کی بجائے سرمایہ داروں اور ٹیکس نادہندہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جبکہ سیاست کو معیشت سے الگ کر دیا جائے۔
مقررین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پاکستان دنیا کا چھٹا افرادی قوت رکھنے والا ملک ہے اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کو معاشی قوت بنایا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے شکنجے سے نجات دلائی جائے۔ پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی لگا کر ملکی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ کالا باغ ڈیم 500 ارب کا فائدہ پہنچا سکتا ہے مگر اسے بننے نہیں دیا جارہا۔ اس پر موثر عوامی رائے قائم کی جائے۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے 400 ارب روپے کی خرد برد کو روکا جائے۔ پرتعیش گاڑیوں کا کلچر ختم کر کے جونیجو کی 800 CC گاڑی کا کلچر پیدا کیا جائے۔
مقررین نے کہا کہ غیر شفاف انکم سپورٹ پروگرام میں رکھے گئے 190 روپے کو براہ راست عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائے۔ سیاست کو معیشت سے الگ کر دیں تاکہ کرپشن کلچر کا خاتمہ ہو سکے۔ حکومت آنے والے بجٹ میں 130 ارب ڈالر خرچ کیسے کرے گی؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔ مقررین نے کہا کہ 3000 ارب روپے کا مرکزی اور صوبائی بجٹ بنے گا مگر عوام مہنگائی کی چکی میں پستی رہے گی۔ ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی دریاؤں سے بنائی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں 900 دن کا پانی سٹور رہتا ہے۔ پاکستان میں یہ سٹوریج 30 دن سے زیادہ نہیں ہے۔ سونا ملک سے دبئی لے جا کر واپس روپے کی شکل میں لا کر منی لانڈرنگ کی جا رہی ہے۔
مقررین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سیلز کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی لگتا رہے گا جو زیادتی ہو گی۔ سیمینار میں مطالبہ کیا گیا کہ زراعت کو انڈسٹری ڈکلیئر کر کے تمام تر توجہ زرعی سیکٹر پر دی جائے۔
سیمینار میں تمام مقررین نے پاکستان عوامی تحریک کے موثر لائحہ عمل کو سراہا۔ سیمینار کا اختتام دعائے خیر سے ہوا، جس کے بعد تمام مقررین کے لیے پر تکلف ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
تبصرہ