گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے زیراہتمام سیاسی اخلاقیات اور تعلیمات اسلام پر سیمینار
مورخہ 29 دسمبر 2010ء بروز بدھ پاکستان کی مایہ ناز مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں اسلامی سوسائٹی کے زیراہتمام ایک خصوصی سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر سید سلطان شاہ صدر شعبہ علوم اسلامیہ نے کی جب کہ مہمان خصوصی معروف دانشور، کالم نگار اور پاکستان میں World Association of Al-Azhar Graduates کے اہم رکن پروفیسر ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری تھے جنہوں نے ''سیاسی اخلاقیات اور تعلیمات اسلام'' کے موضوع پر خصوصی لیکچر دیا۔ سیمینار میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور اعلی کلاسوں کے طلباء اور طالبات نے بھرپور شرکت کی۔
ڈاکٹر ازہری نے اسلام کے تصور سیاست و ریاست کو واضح کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب رسالت کی خصوصیات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دیگر انبیائے کرام کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دین لے کر مبعوث ہوئے وہ جامع اور اکمل ترین دین ہے۔ اس میں مذہب اور سیاست کی دوئی کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام، سیاست اور ریاست کو نہ صرف اہمیت دیتا ہے بلکہ اسلامی ریاست قائم کرکے وہاں نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ بھی قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ انسانی معاشرے میں صالحیت بھی پیدا ہو اور ان کی دنیوی حاجات کی کفالت بھی ہوتی رہے۔ اسلام ایسا مذہب نہیں جس میں محض نماز، روزہ کی بجا آوری اور چند فقہی مسائل کی تفہیم کو کل دین سمجھ لیا جائے بلکہ یہ پورا نصب العین ہے۔ اس میں مسجد سے لے کر پارلیمان تک ہر امر واضح اور متعین ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود مذہبی راہنما بھی تھے اور ریاست مدینہ کے حکمران بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جج بھی تھے اور صحابہ کے استاد مربی بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگوں میں ایک کامیاب سپہ سالار بھی تھے اور تزکیہ نفس کرنے والے روحانی قائد بھی۔ آج اسلامی ممالک کے بعض لوگوں نے مذہب اور سیاست میں تفریق کر دی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نظام حکومت دین دار لوگوں کا کام نہیں بلکہ ان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ مذہبی امور تک محدود رہیں۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ سیاست شریف النفس اور عبادت گزار پڑھے لکھے لوگوں کا کام نہیں بلکہ بے دین، کرپٹ اور سیکولر لوگوں کا کام ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے نابلد ہوں۔ اسلامی ممالک کی اکثریت آج کل ایسے ہی حکومتی عہدے داروں سے بھری پڑی ہے جو مذہبی علماء کو امور مملکت سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ خلفائے راشدین اور تاریخ اسلامی کے اچھے اور نیک حکمرانوں کے عہد میں دین دار لوگوں کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا ہے۔
ثانیًا مسلمان حکمرانوں کی اخلاقیات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر علی اکبر الازہری نے عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ سے درجنوں مثالیں دے کر یہ بات واضح کی کہ اسلام میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ مسلمان حکمران زمین پر اللہ کے نائب اور خلیفہ کے طور پر حقوق العباد کی ادائیگی کو ممکن بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے جمہوریت اور ریاست میں بھی انقلاب بپا کیا اور پہلی بار دنیا میں فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا، انسانیت کو ایسے حقوق دلائے جو شہری کے طور پر اس سے قبل لوگوں کو حاصل نہیں تھے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلامی ممالک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور جامعات کو بھی اپنے نصاب میں جامعہ الازہر کی طرح وسعت دینی چاہئے جہاں اس وقت قرآن و حدیث، فقہ و عقائد کے ساتھ ساتھ جدید طب اور انجینرنگ بھی پڑھائی جا رہی ہے۔ جامعات اگر یہ کردار ادا کرنا شروع کر دیں تو مسلمان مغرب کے مقابلے میں مزید بہتر حکمت عملی وضع کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور موجودہ دور زوال جلد ختم ہو جائے گا۔
صدارتی کلمات میں ڈاکٹر سید سلطان شاہ نے مہمان خصوصی کی آمد اور اظہار خیال کو سراہا۔ انہوں نے جی سی یونیورسٹی کے اساتذہ کی اعلی علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کی تعریف کی اور کہا کہ اس عظیم تعلیمی ادارے کے پڑھے ہوئے طلبہ نے اسلام اور پاکستان کے نام کو ہر دور میں روشن کیا ہے، لیکن عصر حاضر میں یہاں کے اساتذہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاصر تقاضوں کے مطابق جدید سیاسی، معاشی اور ثقافتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی نسل کو تیار کریں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں۔
اس سیمینار میں ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس، ڈاکٹر سرفراز خالد، ڈاکٹر حافظ محمد نعیم، ڈاکٹر خورشید احمد قادری، ڈاکٹر فاروق حیدر، پروفیسر نصیر، مسز ڈاکٹر عظمی اور دیگر اساتذہ اکرام نے بھی شرکت کی اور معزز مہمان کے خیالات کو سراہا۔ یاد رہے کہ یہ یونیورسٹی وہ عظیم درس گاہ ہے جہاں شاعر مشرق علامہ اقبال جیسے لوگ پڑھتے رہے اور مشہور مستشرق پروفیسر آرنلڈ جیسے لوگوں کو پڑھانے کا موقع ملا۔ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ملک کے ذہین ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں اور یہی طلبہ بعد ازاں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر اپنی اعلیٰ تعلیمی صلاحیت کی بنیاد پر فائز ہوتے ہیں۔
تبصرہ