رواں صدی مجدد کی دہلیز پر
محمد اقبال فانی (منہاجین)
دی ایجوکیٹرزہائی سکول ہارون آباد
موجودہ صدی کا بتیسواں سال شروع سفر میں ہے اور بالعموم زوال کی طرف بڑھتی امت کو مضبوط سہارے کی ضرورت ہے، ایک ایسا سہارا جو یقین و آگہی کے چراغ دلوں میں روشن کرکے تاریخ کا دھارا بدلے، معاشرتی و ثقافتی زندگی کو دلپذیر و حسیں بنائے، نئے ثقافتی رنگوں کو وجود بخش کر زندگی کو نئے رجحانات سے ہمکنار کرے، ذہنِ انسانی کو نئی دنیاؤں اور نئے جہانوں سے روشناس کرائے، خوابیدا ضمیرِ ملت کو بیدار و بے قرار کر کے ایک نیا ولولہ، جوش، جذبہ، آھنگ، فکر اور قرار دے اور مایوسی و ناامیدی کے سمندر میں غرق روحوں کو یقین و عمل کے سفینوں پر نیا عزمِ زندگی اور ذوقِ منزل عطا کرے۔ یقینا ایسے سہارے کی حامل شخصیت وہی ہو سکتی ہے جس کا وعدہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امت پر جب زوال کے سائے گہرے ہوجائیں گے تو پھر سے زندہ کرنے کے لیے ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد کو بھیجا جائے گا، جو امت کی ہچکولے کھاتی ناؤ کو سہارا دیکر اسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کرے گا اور اس کے لعوقِ مردہ میں نئی روح پھونک کر حیاتِ نو اور نشاطِ ثانیہ کی لہر پیدا کرے گا۔
ان الله عزوجل يبعث لهذه الامة علی راس کل مائة سنة من يجدد لها دينها.
(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، 109:4، رقم الحديث:4291)
”بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کی خاطر ہر صدی کے آغاز پر کسی ایسی ہستی کو مبعوث کرے گا جواس کے لیے دین کی تجدید کرے گی“
رواں صدی آج مجدد کی دہلیز پہ گریہ کُناں ہے۔ قنوطیت کی ظلمت میں قندیلِ عرفاں کی متلاشی، ذہنی تہذیب اور روحانی تطہیر کی طالب، دستورِ جبر اور آئینِ استحصال کے خلاف سراپا احتجاج، منتظرِ مسیحا ہے۔ ایک ایسا مسیحا جس کی تشخیص ہمہ جہت اور مسیحائی لقمانی ہو۔ جو شبانی سے کلیمی تک پہنچانے کے اسرار سے واقف ہو اور جس کی شخصیت ایک طرف احساسِ زیاں دے کر لہو گرمائے تو دوسری طرف سلاطین کا پرستار کرے، جس کی بانگِ رحیل مضمحل قُوٰی کو صورِ یقیں سے قوی کرے، جو عقل و عشق کے امتزاج، تعقل و جذبات کے اتصال اور صورِ اسرافیل کے آہنگ سے ذہنی جمود و تعطل کو پر ضربِ کاری لگائے، جو ولولوں کو ابھارے، ظلم کو للکارے، سیاسی شعور کی بیداری کے لیے علمِ حسینیت اٹھائے اور مردہ دلوں میں خونِ زندگی دوڑا کر اپنے منصبِ تجدید کا حق ادا کرتے ہوئے کتابِ ملتِ بیضاء کی پھر شیرازہ بندی کرے، جو مادی اقدار کی بلندی سے مرعوب ذہنوں کو عظمتِ رفتہ کی یاد دلائے، جو نسلِ نو کوساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفوں کا اثیر بنانے کے لیے ”حسنِ سراپائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ اِس انداز سے بیان کرے کہ دل زمانی و مکانی قید سے نکل سوئے گنبدِ خضراء متوجہ ہو جائے اور لبیبِ کردگار کے نقشِ راہ کو پانے کے لیے اور اپنی زندگی کے شب و روز و ماہ و سال کو ”سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ کے قالب میں ڈھالنے کے لیے نہ صرف مستعد ہو بلکہ ”شہرِ مدینہ و زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ کی طلب اسے فرقت پر ماہیءِ بے آب کی تڑپائے، جو نہ صرف ”حقیقتِ تصوف“ واضح کرے بلکہ سالکین و تائبین کو ”سلوک و تصوف کا عملی دستور“ بھی دے سکے، جو معرفتِ کلامِ الہی کے لیے امت کو ”عرفان القرآن“ دے اور فہمِ حدیث کے لیے ایسا سیدھا راستہ متعین کرے جو واقعتا ”المنہاج السوی“ہو، جو علی التحقیق ”عرفان السنہ“ رکھتا ہو کہ فنِ حدیث پر اس کا درک و کمال دیکھ اسلاف کی یاد تازہ ہو جائے، جس کی جرح و تعدیل ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلائے، جس کا زہد و ورع فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کاخیال منقش کر دے۔ الغرض نظامِ کہنہ پر ضربِ کاری لگا کر سسکتی تڑپتی بے منزل و بے راہ امت کو منزل آشنا کرنے کے لیے بھرپور علاج تجویز کرے کیونکہ اب عمومی اور روایتی طرزِ علاج سے بہتری کی جملہ راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ ہمارا زوال مکمل ہو چکا ہے اور ذلت منتہائے کمال پر پہنچ چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ زوال کیا ہے؟ اوراس سے نکالنے کے لیے مسیحا کاعلاج کیا ہوگا؟
زوال کیا ہے اورہم اسکا شکار کیوں ہوئے؟
زوال غایت کے تصور کے خیرہ ہو جانے، نظامِ اَفکار کی روح کے فنا ہوجانے، تصورِ کائنات کے بے معنی ہوجانے، اَقدارِ حیات اور فضائلِ حیات کے مسخ ہوجانے سے عبارت ہے۔ جبکہ زندگی ایک بامقصد عمل، مسلسل تحریک اور ایک نامیاتی کل (Growing totality) ہے اور ایک ایسی حرکت ہے جو کسی مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس لیے یہ عمل، پیدائش، تخلیق اور ترقی سے عبارت ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
برتر از اندیشہءِ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
زندگی کا یہ تحرک اور تخلیق و ترقی تبھی ممکن ہے جب جزواً ماحول سے ساز گاری اور مسلسل منصوبہ بندی جاری رہے۔ جب حالات ناسازگار ہوگئے اور منصوبہ بندی کا تسلسل ٹوٹ گیا تو زوال کے دروازے کھل گئے۔ نتیجتاً زندگی کی وحدت اور اخلاق و معیشت کا شعور ختم ہوگیا اور لادینیت غالب آگئی۔ آج ہمارے زوال و انحطاط کی بنیادی وجہ ہماری بے عملی ہے۔ ہم نے اس قدر جامع اور بابرکت دین پر عمل کرنا چھوڑ دیا، عمل اس لیے چھوٹا کہ ہمارا اعمال کی نتیجہ خیزی سے یقین اٹھ گیا، عمل علم سے نہیں یقین سے پیدا ہوتاہے اور یقین مشاہدے سے جنم لیتاہے، دورِ زوال میں جب نتائج پیدا ہونا بند ہوگئے اور باطل غالب آگیا توحق کی مغلوبیت کے مشاہدے سے بے یقینی راسخ ہوگئی، اس بے یقینی نے امت کو انفرادی و اجتماعی سطح پر لادینی طرز فکر و عمل میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
یقین مثل خلیل آتش نشینی
یقین اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدترہے بے یقینی
علم کی تجدیدِ نو :
زوال میں مذہب افراد کی اجتماعی راہنمائی کی بجائے انفرادی، شخصی اور باطنی پہلو سے وابستہ ہوگیا۔ زندگی پر عقائد کا کوئی اثر نہ رہا تو یہ اوہام میں بدل گئے اور عبادات رسوم و ظواہر بن گئیں لہذا اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے نتائج پیدا ہونا بند ہوگئے تو عمل بھی ختم ہوگیا۔ اسلام کے فکری نظام میں جمود طاری ہوگیا، ایجاد و تخلیق ختم ہوگئی اور علم فقط تعلیلی (Interpretive) اور تحلیلی (Analytical) رہ گیا۔ علم محض حقائق کے جاننے کا نام ہے۔ کائناتی حقائق، ان کے اسرار و رموز اور مؤثرات و تعبیرات کی معرفت کے ذریعے اثرات و نتائج اخذ کرنا فکر ہے۔ جب تک علم مؤثراتِ حیات کا ساتھ دیتا ہے، تخلیقی کہلاتا ہے اور جب یہ خاصیت مفقود ہوجاتی ہے تو محض توجیہی بن جاتا ہے۔ علم کے اس ارتقائی سفر کا رکنا ہی جمود ہے جس کا لازمی نتیجہ فکری اختلال کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ چونکہ وقت مسلسل تغیر پذیر ہے، مؤثراتِ حیات بدل رہے ہیں اور دنیا گلوبل ویلج (Global Village) بنتی جارہی ہے، نت نئے تقاضے اور مسائل ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ جہانِ تازہ کی نمود کے لیے، وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر، علم کی تجدیدِ نو کی ضرورت ہے۔ کیونکہ توجیہی علم تخلیقی راہوں پر ترقی کے زینے طے نہیں کروا سکتا۔ مؤثراتِ حیات کے تغیر کے ساتھ ساتھ علم کے ارتقاء کے لیے فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا فکر جو علم کے بے جان جسم میں روح کا کام دے کر اِسے تحرک و ارتقاء سے آشنا کرے اور زندگی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے جہان تازہ آباد کرے۔ چونکہ انسانی علم ہردور میں معرضِ ارتقاء میں ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر دور ِنو میں اسے تازہ فکر کی کمک پہنچائی جائے، بقول علامہ اقبال :
"It must, how ever be remembered that there is no such thing as finality in philosophical thinking. As knowledge advances and fresh evenues of thought are opened, other views than those put forth,.... are possible. Our duty is carefully to watch the progress of human thought and to maintain an independent critical attitude towards it"
”یہ بہر صورت یاد رہناچاہیے کہ فلسفیانہ فکر میں حتمیت کوئی شے نہیں ہے۔ جوں جوں علم ترقی کرتا رہے گا اور فکر کے تازہ افق ہویدا ہوتے رہیں گے تو دوسرے تصورات کا سامنے آنا ممکنات میں سے ہوگا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم احتیاط کے ساتھ انسانی فکر کی ترقی کو نظرمیں رکھیں اور اس کے سلسلے میں ایک آزادانہ تنقیدی رویہ بھی قائم رکھیں“
اس لیے جوں جوں وقت ترقی کرتا رہے گا فکر کے تازہ افق ہویدا ہوتے رہیں گے۔ ہردور کے مروجہ معتقدات و تصورات اور علمی ثمرات پر غور و فکر کرنے ہی سے سوچ کی نئی راہیں پیدا ہوتی ہیں اور فکر میں تخلیقی پیش رفت ہوتی ہے۔ زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ اسلام کو جو بھی چیلنج (Challenge) پیش آئے ان کا جواب دینے کے لیے مسلم مفکرین نے جو افکار و خیالات پیش کیے انہیں اسلامی فکر سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی فکر سے مراد تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے جدید تقاضوں کاادلّہ شرعیّہ کی روشنی میں ایسا حل پیش کرنا ہے جو اسلامی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے عقلی تقاضوں کے مطابق بھی ہو۔ اپنے نتائجِ فکر کی اساس کا قرآن مجید سے ثبوت ہی اسلامی فکر کاطرہٴ امتیاز ہے۔ اس لئے ہر دور میں مسلم مفکرین قرآن مجید کی روشنی میں ہی پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرتے رہے ہیں۔ مگر جب علم و آگہی کا محور اقوام مشرق سے منتقل ہو کر اہلِ مغرب کے ہاں چلا گیا تو اسلامی فکر محض ایک قصہٴ پارینہ کی حیثیث اختیار کر گئی اور ارتقائی سفر جمود کا شکار ہو گیا۔ علم کی تجدیدِ نو کے لیے مجدد عصر کا پیغام یہی ہے کہ اپنے زوال کو عروج میں بدلنے کے لئے ہمیں اپنے سفر کا آغاز اسی مقام سے کرنا ہوگا جہاں پہنچ کر ہم تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ ہمیں اپنی علمی اور فکری روایت کے اس سرچشمہ کو پھر سے تھام کر آگے بڑھنا ہوگا جو انحطاط و جمود کی تاریکیوں میں ہمارے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ اسلامی فکر کی موجودہ عہد میں تشکیل اور نشاط ثانیہ کے لئے یہ از حد ضروری ہے۔
علم، فکر اور عمل کاتعلق :
جب تخلیقی علم کا تحرک اور ارتقاء بند ہوگیا جس سے مسائلِ حیات اور علم میں توازن بگڑ گیا تو اس بگڑے ہوئے توازن میں اسلامی تعلیمات پر عمل نے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے بند کر دیے۔ صوم و صلوۃ کی پابندی سے جو تبدیلی مقصود تھی، مفقود ہوگئی تونتیجہ خیزی کا یقین ختم ہوگیا اور امتِ مسلمہ بے یقینی کی موت مرگئی، حیاتِ اجتماعی کی بے مقصدیت سے اجتماعی موت نے عدم و وجود کو برابر کر دیا، کیونکہ امید و یقین، عزم و خود اعتمادی، مقصد کا شعور اور اس کے حصول کی آرزو زندگی ہے، یاسیت و قنوطیت، بے ہمتی، بے مقصدی، بے راہ روی اور عدمِ اعتماد موت ہے، مقصد نہ ہو تو یقین کی حاجت رہتی ہے نہ عمل کا رخ متعین ہوتا ہے لہذا افرادِ معاشرہ پہلے نشاط کاری، لذت اندوزی اور پھر معصیت کی طرف مائل ہوگئے، بے یقینی عام ہوگئی، قول و عمل کا تضاد بڑھ گیا، وعظ بے اثر ہوگئے، نیکی پامال ہوگئی اور بدی غالب آگئی۔ اب شکست خوردگی کا عالم یہ ہے کہ ہم ان آزاروں کے علاج کی آرزو سے بھی محروم ہیں۔ ہم نے یہ سوچ کر سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ جب ہمارے کیے سے کچھ ہوہی نہیں سکتا تو سوچنے سے کیاحاصل؟ اور یہ بھی بھول گئے بقول علامہ اقبال کہ :
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
قوموں کی زندگی کی سمت کے تعین میں ان کے نظامِ افکار بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی افکارِ تازہ قوموں کے زوال کو عروج میں بدل کر انہیں زندگی کی نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ قوموں کے افکار ِعالیہ ہی ذوقِ انقلاب پیدا کرکے ملت میں عروج وشباب کی روح ڈالتے ہیں، علامہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ندرتِ فکر و عمل کا یہی وظیفہ بیان کیا ہے۔
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب!
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب
ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی
ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارہ لعل ناب!
آج تہذیبی تصادم (Clash of Civilizations) میں تہذیبوں کے اپنے فکر و نظریہ کی بقاکی جنگ ہورہی ہے۔ اس فکری جنگ میں ہم فکر سے تہی دامن ہیں۔ اقوام کا فکری نظام ہی عمل کی اساس بنتا ہے، فکر مقصدِ زیست کا شعور اور اس کے حصول کی آرزو پیدا کرتی ہے۔ یہ شدتِ آرزو حق الیقیں پیدا کرکے عمل پر اکساتی ہے تو بالآخر اقوام متحرک ہوتی ہیں اور عروج پاتی ہیں۔
آج دورِ زوال میں ہماری اصلاح میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے فکری نظام کا اضمحلال، بے یقینی، بے اعتمادی اور مایوسی ہے۔ یقین اور بے یقینی دراصل تجربی تصدیق و شہادت سے پیداہوتے ہیں۔ فتح و کامرانی کا تجربہ یقین پیدا کرتا ہے اور شکست و ناکامی کے مشاہدے سے بے یقینی عام ہوتی ہے۔ دورِ زوال میں بار بار شکست کے نتیجے میں امت من حیث الجموع شکست خوردگی کا شکار ہوگئی۔ امت کا نکتہء ِنظر کے ساتھ ساتھ اندازِ نظر بھی بدل گیا۔ منصوبہ بندی، مسابقت اور تصادم سے گریز کی بناء پر پہلے معاشی نشوونما دینے کی صلاحیت سے اور پھراس کی آرزوسے عاری ہوگئے۔ نظامِ افکار کی روح کے فنا ہونے سے تنظیم کا شعور مٹ گیا، جلبِ منفعت، ارتکازِ زر کی ہوسناکی اور اباحتی معیشت نے ہرچیز کوخریدنی اور فروختنی جنس بنا دیا، کفر کا فتوٰی جو ایک زندہ نظام ِمعاشرت سے اِخراج کی سزا کی حیثیت رکھتا تھا، فرقہ پرستانہ اختلاف کے اظہار کا ذریعہ بن گیا، مسلم معاشرے میں شگاف پڑگیا، مذہبی اور جدید ذہن ایک دوسرے کے حریف بن گئے، عمرانی وحدت کے شعور کی اساس وطن پرستی بن گئی، مذہبی، معاشی، معاشرتی، اقتصا دی اقدار پر عمل کی گرفت ڈھیلی پڑنے کی وجہ سے اعتدال کی جگہ بے اعتدالی نے لے لی، جب خواہشات منضبط نہ ہوسکیں توان کی تکمیل ناجائز ذرائع سے ہونے لگی۔
اسلامی فکرکے عملی طور پر جمود و تعطل کے باعث امتِ مسلمہ باطل کے زیر تسلط چلی گئی، اغیار کے فکر و فلسفہ نے مسلمانوں پر علمی و فکری اثرات مرتب کیے۔ ان فکری اثرات کے زیراثر مسلمانوں کے اندر تشکیک، لادینیت اور لبرل ازم جیسے مضر نظریات داخل ہوئے، اسلامی تعلیمات کو فرسودہ اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف گردانا گیا، نیزموجودہ دور میں ناقابل عمل کہہ کرمسلم راسخ العقیدگی کو قدامت پسندی اور ”سیاسی اسلام“ کا نام دیا گیا اور مسلمانوں کو عظیم اسلامی فکر سے بیزار کرکے جدید مغربی فکر و تمدن کے لئے آمادہ کیا گیا۔
زوال میں اجتہاد کی اہمیت :
افراد کی طرح اقوام کی زندگی کا حسن بھی فکری ترقی او ر ارتقاء میں پوشیدہ ہے۔ قو ت متفکرہ انسان کا بنیادی جوہر ہے اور اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں میں اسی قوت کے کلیدی کردار کو یوں بیان کیا گیا ہے
لَاتَعْمٰی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمٰی الْقُلُوْبُ الَّتِی فِیْ الْصُّدُوْر
( الحج، 22 : 46)
”آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں موجود دل اندھے ہوجاتے ہیں“
عصر حاضر میں پیش آئندہ مسائل میں سب سے اہم مسئلہ فکر اسلامی کی تشکیل جدید ہے یعنی دور جدید کی واقعی نوعیت کو متعین کرنا اور پھر اس کے ساتھ اسلام کے تعلق کو واضح کرنا۔ اس کام کی اولین اہمیت اس لئے ہے کہ اس کے بغیر دور جدید میں احیائے اسلام کی جدوجہد صحیح اور مؤثر طور پر شروع نہیں کی جاسکتی۔ اس کام میں تاخیر کی بنا پر ایک مدت تک اہل ِاسلام مختلف سمتوں میں غیر متعین کوشش کر کے اپنی قوت ضائع کرتے رہے۔ اس صورت حال کی غالبا ایک وجہ یہ تھی کہ مصر، ترکی اور ہندوستان وغیرہ میں جو لوگ ابتداء َ اس کام کے لئے اٹھے وہ سب کے سب محض ریفارمسٹ تھے، جو خود اسلام میں نظر ثانی کی دعوت دے رہے تھے۔ یہ انداز اسلام کی روح کے مطابق نہ تھا چنانچہ وہ ملت اسلامیہ میں قبولیت حاصل نہ کرسکے۔ اس نوعیت کی تحریکیں صرف بحث و نزاع کاشکار ہو کر رہ گئیں۔ تاہم زمانی تبدیلی ایک مسئلہ ہے جو عین فطری ہے اور وہ اسلام کو بھی بار بار پیش آتا ہے۔ یہ مسئلہ اصلاح یا تبدیلی کا نہیں بلکہ از سرِ نو تطبیق کا ہے، اس مسئلے کا حل اصلاح نہیں بلکہ اجتہاد ہے۔ کیوں کہ اجتہاد کامقصد یہ ہے کہ اسلام کے ابدی احکامات کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کر کے ان کو سمجھا جائے اور پھر انہیں ان کی اصل اسپرٹ کے ساتھ نئے حالات پر از سر نو منطبق کیا جائے۔ یہ جہاں ایک طرف تجدیدی کام ہے وہاں دوسری طرف ”شرابِ کہن در جامِ نو“ کی عمدہ رِیت بھی ہے۔ اس رِیت کا عمدہ عنوان ”منہاج القرآن“ ہے۔
موجودہ دور میں جبکہ اسلامی افکار و معتقدات مستشرقین کی زد میں ہیں، اسلامی فکر کی تشکیل کاکام نہ صرف ضروری ہے بلکہ مشکل بھی ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں ایک طرف اگر عصرحاضر کا گہرا مطالعہ ضروری ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات کی روح سے بھی کامل درجہ واقفیت لازمی ہے۔ اس دو طرفہ شرط میں کمی بھیانک غلطی تک پہنچانے کاسبب بن سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں کٹھن مرحلہ ایسی جامع شخصیات کی فراہمی کا ہے جوشرعیات اورعصریات میں یکساں صداقت و مہارت کی حامل ہوں۔
علوم اسلامیہ کے ماہرین عصری علوم سے دُور اور عصری علوم کے ماہرین اکثر و بیشتر صورتوں میں اسلامی تعلیمات سے ناواقف رہے۔ قدیم و جدید کا یہ بُعد انتشارِ زمانہ کا سبب بنا۔ یہ اللہ کے خاص فضل و کرم کی بات ہے کہ وہ اس گئے گزرے دور میں بھی بعض ایسی شخصیات کو جنم دیتا رہا جو اِن ہر دو خصوصیات کی جامع ٹھہریں۔ ان مفکرین کے افکار و خیالات کی بدولت مؤثراتِ حیات میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں اور ان کے اثرات جو نوع بنوع اگلی نسل میں منتقل ہورہے تھے، کا ازالہ جزوی حد تک ممکن ہوا۔ جزوی اس لیے کہ حملے کی شدت ہمہ جہت تھی، جبکہ بچاؤ کی تدبیر متفرد۔ وقت اس بات کا متقاضی تھا کہ تدبیر بھی کامل و اکمل ہو اور معیشت، معاشرت، ثقافت، کلچر، اقتصاد نیز شخصی و معاشرتی جملہ سطحوں کو محیط ہو۔
فکری نشاطِ ثانیہ کا تاریخی تسلسل۔ ۔ ۔ ۔ مجدد رواں صدی تک :
آج اسلامی علم الکلام کو اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ تعالی اپنی ذات میں صفات رکھتا ہے یا صفات میں ذات۔ بس اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ آج اس کے تصور پرجو لے دے ہو رہی ہے اسلام کا کام اس کا مقابلہ کرنا اور تصور توحید کی سائنسی توجیہہ کرناہے، کیونکہ آج ہمیں سائنسی اور عقلی فکر سے واسطہ ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی نشاطِ ثانیہ کی طرف سب سے پہلا قدم حضرت مجدد الفِ ثانی 1563 تا 1624ء نے اٹھایا اور اسلام کے احیاء و فروغ اور سربلندی کے لیے وہ کارنامے سرانجام دیے جن کو رہتی دنیا تک یادرکھا جائے گا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شہنشاہِ اکبرکے نام نہاد دینِ الٰہی کو بنیادوں سے اکھیڑ کر شریعت و طریقت پر پڑنے والی گرد کو صاف کر دیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس فکری و نظری کاوش کا ہی نتیجہ تھا کہ اس عہد کے جملہ سیاسی، معاشرتی اور مذہبی مسائل بخوبی حل ہوگئے اور مسلمانوں کا بحثیت قوم تشخص واضح ہوگیا۔ اپنے معروفِ زمانہ مکتوبات میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی شرح و بسط کے شریعت و طریقت اور سلوک و تصوف پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے، حتی کہ سرزمینِ ہند بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم ”وحدت الشہود“ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پہچان بن گیا۔ جس کی روشنی مستعار لے کر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے معروف تصورِ خودی کو متعارف کرایا، ڈکٹر ظفرالحسن اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی جیسے مفکرینِ نے اس کی نوک پلک سنوار کر اسے اگلے مجدد کی طرف منتقل کیا۔ موجودہ صدی کے مجدد اور عصرِ حاضر کے نامور مفکر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ”وحدت الوجودی“ ہونے کے باوجود اس نظریہ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنے ظاہر کو اس کے مطابق ڈھال لیا۔ ”وحدت الشہود“ اور ”وحدت الوجود“ کے جامع کی حیثیت سے آپ یہ دونوں فیوضات آگے منتقل کر رہے ہیں۔
برصغیرمیں اسلام فکرکی راہیں متعین کرنے والی دوسری اہم شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1703ء) کی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی مرتبہ اسلامی فلسفہ کو مدون کرنے کی بِنا ڈالی، آپ سے بیشتر مسلمان جو کچھ بھی فلسفہ کی مد میں لکھتے رہے اس کا شجرہ نسب یونان و روم اور ایران و ہندوستان سے ملتا ہے اس لیے وہ فلسفہ اسلام نہیں بلکہ فلسفہ مسلمین ہے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف مغربی فلسفہ کا توڑ پیش کیا بلکہ اسلامی فلسفہ کی ایک عظیم الشان عمارت بھی کھڑی کردی، جس میں مابعد الطبیعیات، اخلاقیات، نفسیات، تصوف، معاشیات اور عمرانیات خوبصورت بنیادوں پراستوار ہیں، اور یہ فلسفہ جدید دورکے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کاحل پیش کرتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ملت اسلامیہ کے احیاء کے حوالے سے آپ کی خدمات جامعیت کی حامل ہیں۔ آپ نے ایک طرف عامۃ الناس کودین کے اصل مبادی اور قرآن و سنت کی طرف راغب کرنے کی ٹھوس کاوش کی تو دوسری طرف ملکی سیاسی و انتظامی حالات کو سدھارنے کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
آپ نے متقدمین کے ان مسائل و نظریات کی نشاندہی فرمائی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور اس کی خوشنودی حاصل ہونے کا ذریعہ تھے۔ حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کردہ تمام احکام شریعت اور عام تعلیمات کے اسرار و مصالح میں مضمر حکمتوں کو بیان فرمایا اور ان کے فہم کے لیے اصول بھی وضع کردیے۔ سلوک و طریقت اور تحصیلِ تصوف کے بارے میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے متوازن طریقہ متعارف کرایا۔ متقدمینِ اہلِ سنت کے عقائد اور نظریات کو دلائل و براہین سے ثابت کیا، الغرض حکمتِ عملی کی معرفت سے آپ نے تدبیر معاشیات اور سیاستِ مدنیہ کے شرعی اصول و ضوابط کو کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کے ساتھ تطبیق دینے اور مفصل بیان کرنے کی پوری کوشش کی۔
قرآنی فلسفہ انقلاب کے ”مقدمہ“میں ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اپنے مضمون میں برصغیر کی فکری و اصلاحی نشاطِ ثانیہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ :
”برصغیرپاک و ہند میں اصلاحِ احوال کے لیے کاوشیں کرنے والوں میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود الحسن (تحریک ریشمی رومال)، ابوالکلام آزاد (حزب اللہ)، علی برادران (تحریک خلافت)، مولانا احمد رضا خان بریلوی اور جمعیتِ علماء ہند کا نام نمایاں ہے اوران میں ہر شخصیت اور ہر تحریک کے اثرات و نتائج ان کے اپنے اپنے نظامِ فکر و عمل کے تحت مرتب ہوئے جن پر آج تک بہت کچھ لکھاجارہا ہے۔“
(قرآنی فلسفہ انقلاب : 21، 20)
یہ تو برصغیر کی ان نامور شخصیات کا تذکرہ تھا جنہوں نے علمی انحطاط کے دور میں منطقی، سائنسی، تہذیبی اور ثقافتی مشعل کو روشن کیے رکھا۔ اُدھر شمالی افریقہ میں اٹھنے والی سنوسی تحریک بھی قابلِ ذکر ہے اگرچہ اس میں صوفیانہ رنگ غالب تھا مگر انہوں نے یورپ کی علمی، سائنسی اور دیگر ترقیات سے اسلامی تعلیمات کی تطبیق عقلی اور منطقی انداز سے کی تھی۔
عالمی سطح پر جمال الدین افغانی نے اتحادِ امتِ مسلمہ کے لیے انتھک سفیر کا کردار ادا کیا، ان کی صحبتوں اور کاوشوں کے اثر سے ان کے شاگرد محمد عبدہ نے مصر میں سائنسی اور فکری سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے ابن رشد کے فلسفے کا دفاع کیا۔ ان کا یقین منطقی سائنس پر تھا، انہوں نے کہا کہ عقل فطرت سے ہم آہنگ ہے اور اسلام بھی فطرت سے ہم آہنگ ہے، وہ آزادئی ارادہ کے قائل تھے، جزا اور سزا کا تصور آزادی ارادہ کے بغیر بے معنی ہے۔ محمد عبدہ کی فکر سے متاثر ہو کر قاسم امین کا معاشرتی مکتب فکر پروان چڑھا۔ رشید رضا، مصطفی عبدالرزاق، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، سید قطب شہید اور علامہ جوہری طنطاوی نے اسی فکر سے روشنی مستعار لی اور اسلامی فکر کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے کام کیا۔
ترکی میں جس مفکر نے زیادہ اثر ڈالا اس کا نام ضیاء گولپ ہے۔ اس کا فلسفہ تصوریت تھا جس جو روحانی اور عمرانی مقاصد رکھتا تھا۔ اس سے ترکی میں جدید سائنسی علوم اور ترکی زبان و ادب کے لیے خاصی راہ ہموار ہوئی۔
ایران میں ملا صدرالدین شیرازی المعروف ملا صدرا کے مکتب فکر کو فروغ ملا۔ اس سے تعلق رکھنے والے مفکر حاجی ملا ہادی سبزواری نے ان کے نظریات کو آگے بڑھایا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹرعلی شریعتی اور سید حسین نصر نے اسلامی سائنس اور تہذیب پر خاطر خواہ کام کیا ہے اوراسلام کے عقلی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ شریعتی فلسفیانہ مباحث کے اندر عرصہ دراز تک پھنسا رہا مگر بعدازاں صوفیانہ تعلیمات کی وجہ سے آپ نے اس سے دامن چھڑا لیا، لاادریت اور ایقان کی سیمابیت کے مخمصوں سے دامن چھڑانے کے بعد شریعتی کے تصوفِ روحی اور اسلامی تعلیمات پرغور و فکر نے کئی الجھنیں دور کر دیں اور وہ فرد اور معاشرے کے مابین توازن کاسراغ پانے میں کامیاب ہوگئے۔
پاکستان میں فکر و فلسفہ کو کوئی سماجی مقام توحاصل نہیں البتہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم مفکرِ اعظم کی حیثیت سے پاکستانی اذہان پرچھائے ہوئے ہیں، لیکن ان کی صرف شعری فکر مقبول ہے اور فلسفیانہ یا کلامی فکر سے بہت کم لوگوں کو سروکار ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس عقلی بحث و تحقیق کی طرف بلایا تھا، بہت کم لوگ ادھر جاسکے ہیں، جن میں پروفیسر ایم ایم شریف، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اور محمد حنیف ندوی قابلِ ذکر ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مغرب کے اعلی ترین فکری و علمی دماغوں کا تنقیدی جائزہ لیا اور پھر حضور تاجدارِ کائنات ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اسلام اور اقدار ِاسلام کی سربلندی کا نعرہ مستانہ بلند کیا، یعنی ایک طرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظر دورِ جدید کی ترقی اور علمی عروج پر تھی تو دوسری طرف وہ احیاء ملتِ اسلامیہ کے علمبردار بھی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد ملتِ اسلامیہ کو درپیش مسائل کا علاقائی اور عالمی تناظر میں صحیح ادراک کیا اور مستقبل کے عروج و علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت دیتے ہوئے ان فکری مسائل کے حل کے لیے سعی بھی کی جو ملی وجود کے تشخص کو مجروح بھی کرسکتے تھے۔
پروفیسر شریف کا فلسفہ تجربہ کو ابتدائی حیثیت دیتا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کو آگے بڑھایا اور سماجی علوم کو زیادہ اہمیت دی اور فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کا حل پیش کرنے کی کوشش کی۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اسلامی تعبیر و تشریح کی نئی اور خوش آئند طرح ڈالی اور ثقافتی پہلو کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان کے ایک اور مفکر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے بھی اسلام کی جدید تعبیر کے لیے خاطر خواہ کردار ادا کیا۔ ان کی فکر میں رسالت اور نبوت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جس کے حوالے سے ہی ہم دنیا میں اپنی سماجی اور سیاسی پہچان کرسکتے ہیں۔ آپ فکرِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو مرد یقین کے روپ میں لے کر آگے بڑھے، انقلابی نگاہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور تمام نظاموں کی اصل قرآن مجید سے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مختلف معاشی، سیاسی اور عمرانی اصولوں کو اخذ کر کے ان سے اسلامی انقلاب کی فکر کا ڈھانچہ تدوین کیا۔ آپ نے بطور خاص قرآنی انقلابیت اور مغربی انقلابیت کا موازنہ کیا اور دلائل سے قرآنی اصولوں کی آفاقیت اور عالمگیریت کو ثابت کیا، جس سے آپ کی فکر ذہن کے نہاں خانوں سے نکل کرعمل کی جیتی جاگتی دنیا میں ”تحریک منہاج القرآن“ کی شکل میں قائم ہو گئی۔
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی قرآن مجید میں غوطہ زن ہو کر ان فکری بند دروازوں کو کھولنا چاہتے تھے جن کے پیچھے موجودہ زمانے کی دوا یقین کی صورت میں بند تھی اور جنہوں نے عصر حاضر میں درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے والی روشنی کو روک رکھا تھا۔ آپ نے نہ صرف افکارِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مربوط نظام فکر میں ڈھالا بلکہ اس کی اصل قران مجید سے تلاش کی۔ قرآن مجید سے ماخوذ آپ کا فلسفہ عروج و زوال مسلم فکر و فلسفہ کی تاریخ میں آپ کو مثالی مقام عطا کرتا ہے۔
فکرِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ سے مفکرِ اسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تک پہنچتی ہے۔ آپ نے فکر و عمل کا بیک وقت احاطہ کیا اور اپنے فکری نقوش کے عملی اطلاق کو ممکن بنانے کے لیے بے پناہ سعی کی۔ احیائی ضمانت کی حامل فکرِ انقلاب جسے قائدِ انقلاب نے منہاج القرآن کے دل آویز عنوان کے تحت ایک تحریک میں بدل دیا، ایک طویل تفکر، تعمق اور جدوجہد کا حاصل ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جن تصورات کو متعارف کروایا تھا، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے اپنی علمی و فکری بصیرت کی روشنی میں ان تصورات کو لے کر قرآنِ حکیم کی راہنمائی میں ایک فکرِ انقلاب وضع کرنے کی کوشش کی اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسے ایک منظم فکر اور زندہ نظام میں بدل کر ایک تحریک کی شکل دے دی۔ (قرآنی فلسفہ انقلاب: 35)
آپ کی کاوشوں سے عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوتے پھر پھوٹنے لگے اور ”ذوالخویصریت“ اور ”خارجیت“ کاقلع قمع ہوگیا۔ آپ نے بیک وقت قرآن ، تفسیر، حدیث، فقہ، علم الکلام، فلسفہ، تصوف، عقائد، سیاسیات، اقتصادیات اور معاشیات پر کام کیا اور ہر میدان (Field) میں اپنا لوہا منوایا۔
آنے والی صدیوں میں فکری و نظریاتی نوعیت کا جو بھی کام ہوگا (چاہے وہ کسی بھی علمی میدان سے متعلق کیوں نہ ہو) اس کی بنیادیں ہمیں شیخ الاسلام پروفیسر داکٹر محمد طاہرالقاد ری مدظلہ العالی کے تجدیدی کام سے میسر آئیں گی۔ رواں صدی آنے والے دور میں ذوقِ انقلاب کوجنم دے گی اور ہر ارتقاء کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
تبصرہ