تحریک منہاج القرآن کراچی کے زیراہتمام میلاد مصطفیٰ کانفرنس 2011
تحریک منہاج القرآن کراچی کے زیراہتمام سالانہ ’’میلادمصطفیٰ کانفرنس 2011ء‘‘ 9 مارچ 2011ء کو منعقد ہوئی۔ میلاد کانفرنس کا انعقاد میمن انڈسٹریل اینڈ ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ کراچی میں کیا گیا۔ کانفرنس کی صدارت صدر مجلس و محفل پیر طریقت حضرت غلام شاہ جیلانی مدظلہ نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں ڈاکٹر خواجہ محمد اشرف سرپرست میلاد کمیٹی و تحریک منہاج القرآن سندھ، مفتی غلام دستگیر افغانی چیئرمین میلاد کمیٹی اور سندھ کے نام ور علماء کرام و مشائخ عظام شریک تھے۔ کانفرنس میں سید ظفر اقبال شاہ (امیر تحریک منہاج القرآن کراچی)، ناظم تحریک منہاج القرآن کراچی راؤ کامران محمود، تحریک منہاج القرآن کراچی کے رہنماء علامہ ڈاکٹر نعیم انور نعمانی اور قیصر اقبال قادری سمیت منہاج القرآن کراچی کے دیگر قائدین نے شرکت کی۔ پروگرام میں شریک خواتین کے کثیر تعداد کے لیے پنڈال کا الگ حصہ مختص تھا، جب کہ حکومتی و نجی سطح پر سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے۔
میلاد کانفرنس کا باقاعدہ آغاز شب 10 بجے تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ پھر سلسلہ نعت خوانی شب پونے بارہ بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے برطانیہ سے براہ راست اس محفل کے شرکاء سے خطاب کیا جسے کیو ٹی وی کی وساطت سے براہ راست کروڑوں ناظرین نے ٹی وی سکرینز پر دیکھا، جب کہ اس محفل کو انٹرنیٹ کے ذریعے بھی براہ راست نشر کیا گیا۔ یوں دنیا بھر سے کروڑوں عاشقان مصطفی اس ایمان افروز سالانہ محفل میں حاضری سے شرف یاب ہوئے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شرکائے محفل سے مخاطب ہوتے ہوئے سورۃ الکوثر کی پہلی آیت کریمہ کو بطور موضوع منتخب کیا۔ آپ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں بتایا کہ لفظ کوثر کے مختلف اطلاقات ہیں۔ اس سے مراد جنت کی نہر یا دریا، حوض کوثر، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا کثیر ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسیع علم و معرفت بھی۔ علاوہ ازیں کوثر کا ایک معنی خیر کثیر بھی ہے۔ کوثر سے مراد بے انتہاءکثرت بھی ہے۔ یہ کثرت خیر میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی ہر وہ نعمت، عطا، خوبی، صلاحیت، کمال و جمال اور محاسن جو بے انتہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملے۔ شیخ الاسلام نے لفظ کوثر کے ان تمام اطلاقات کی تفصیلات بھی منفرد پیرائے میں بیان فرمائیں۔ آپ نے بیان فرمایا کہ کوثر کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء کو جو کمالات و محاسن انفرادی طور پر عطا ہوئے تھے، وہ تمام محاسن بتمام و کمال ذات محمدی میں جمع کر دیے گئے تھے۔ لہٰذا مخلوقات میں کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل نہیں ہوسکتا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صورت اور سیرت دونوں میں بے مثل ہیں۔ حسن خَلق اور حسن خُلق میں کوئی آپ سے مماثل ہو ہی نہیں سکتا۔ جب کہ آج بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کو صرف احکامات تک محدود کر دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن و جمال بیان کرنا صحابہ کرام کی سنت ہے جب کہ ائمہ و محدثین نے کتب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال پر ابواب کے ابواب پر باندھ دیے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کے بیان کا دین سے کیا تعلق ہے، سراسر بے دینی اور کم علمی ہے۔ صحاح ستہ سمیت تمام کتب حدیث و سیرت میں اس کی ہزاروں مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن پیکر کے بیان پر مشتمل احادیث و روایات اجل صحابہ کرام اور امہات المؤمنین سے مروی ہیں۔ جیسے حضرت انس ابن مالک، ابن ابی ہالہ، جابر بن سمرہ، عبداللہ بن عباس، ام المومین حضرت عائشہ صدیقہ، مولا علی المرتضی اور دیگر صحابہ کرام سے متعدد احادیث مروی ہیں۔ یہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن سراپا بیان کرنے میں اسپیشلسٹ تھے۔ ان تمام ہستیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک جسمانی حسن کا ذکر کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات انسانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین پیدا ہوا نہ ہوگا۔
حدیث مبارکہ میں حضرت مولا علی شیر خدا کا فرمان ہے کہ جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچانک دیکھ لیتا تو وہ فوری مبہوت ہو جاتا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ جاتا تو وہ آپ کا عاشق ہو جاتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اطہر خوشبو دار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک سے عنبر اور کستوری سے بھی زیادہ خوشبو آتی۔
آپ کے جسم اطہر مبارک کی جلد مبارک اتنی نرم تھی کہ صحابہ فرماتے ہیں کہ کائنات کے کسی ریشم کو انتا نرم نہیں دیکھا جتنا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جلد مبارک کا لمس نرم تھا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن مبارک کا ذکر جمیل ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ وہ حسن ہے جو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا حسن کائنات میں آشکار کر دیا جاتا تو زنان مصر جیسا حال لوگوں کا ہوجاتا۔ کوئی اپنی انگلیاں کاٹ لیتا تو کوئی اپنی آنکھیں نکال لیتا۔ اس بات کو ملا علی قاری نے بیان کیا ہے۔ ائمہ کرام کے مطابق اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن عرش الہیٰ پر جلوہ آفروز ہوتا تو عرش پگھل جاتا۔ امام قسطلانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ملا علی قاری سمیت دیگر محدثین نے کہا کہ جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن کتابوں میں ملا، وہ صرف تمثیل ہے، حضور کے جسمانی حسن کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بدقسمتی سے آج لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا حسن بیان کرنا اور اس پر تحقیق کرنا چھوڑ دیا ہے اور راہ راست سے ہٹتے جارہے ہیں۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جامع اللسان اور فصیح اللسان بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مادری زبان عربی تھی، لیکن آپ ہر کلام جانتے تھے۔ ہر زبان جانتے تھے۔ قریش کی زبان میں بھی بات کرتے۔ حجاج کی زبان میں بھی کلام کرتے۔ نجد کے قبائل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو ان کی زبان میں ان سے کلام کیا۔ اس طرح ہمدان سے لوگ آئے تو ان سے ان کی زبان میں بات کی۔ ہمدانی، یمنی، ھنئیر، افریقہ (آج کا مراکو، بربری زبان) اور اس طرح جو بھی قبائل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زبان میں ان سے بات کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب شب اڑھائی بجے ختم ہوا۔ آخر میں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیہ درود و سلام پیش کیا گیا۔
رپورٹ: ایم ایس پاکستانی
تبصرہ