پاکستان عوامی تحریک کا پری بجٹ سیمینار 2011
پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام 24 مئی 2011ء کو مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں "پری بجٹ سیمینار 2011" منعقد ہوا۔ جس کی صدارت پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر فیض الرحمن درانی نے کی۔ جبکہ سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن، ممبر قومی اسمبلی ریاض فتیانہ، شاہد اے ضیاء، ڈاکٹر قیس اسلم، سہیل محمود، اسلم خان، اور بریگیڈئر (ر) فاروق حمید اور ورکنگ ویمن پاکستان کی صدر اور ممتاز سماجی رہنما آئمہ محمود نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل انوار اختر ایڈووکیٹ، نائب ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن جی ایم ملک، راجہ جمیل اجمل، جواد حامد، عاقل ملک، قاضی فیض الاسلام، عبدالحفیظ چودھری اور پاکستان عوامی تحریک کے دیگر قائدین بھی موجود تھے۔
سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ جس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل انوار اختر ایڈوکیٹ نے پری بجٹ سیمینار کی غرض و غایت کے حوالے سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کا مقصد ملک میں صحت مند معاشی بحث و مباحثہ اور بالخصوص معاشی پالیسی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا مؤقف عوام کے سامنے لانے کی کوشش کرنا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک ہر سال پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ سیمینارز کا انعقاد کر کے اس کام کو قومی ذمہ داری کے طور پر سر انجام دے رہی ہے۔
سیمینار سے ڈاکٹر مبشر حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بجٹ میں عوام کے لیے کچھ نہیں بچا اور ہر سال بجٹ صرف حکمرانوں کیلئے بنایا جاتا ہے۔ اس کا غریب سے تعلق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ساری سیاسی پارٹیاں غریب کے خلاف بجٹ پاس کرنے میں ایک ہو گئی ہیں۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی کا سیلاب لایا جاتا ہے۔ مہنگائی غریب سے امیر کو دولت منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام اپنا بجٹ چاہتے ہیں تو اپنی حکومت بنائیں۔ اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ لٹیروں کی حکومت ہے جس کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں۔
ورکنگ ویمن پاکستان کی صدر اور ممتاز سماجی رہنما آئمہ محمود نے کہا کہ بجٹ میں غریب خواتین کے لیے کوئی ریلیف موجود نہیں۔ محنت کش خواتین کیلئے آنے والا بجٹ نئی قیامت ڈھائے گا۔ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے سے توقعات دیوانے کا خواب ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے نام پر جنگ جاری ہے، جس میں ہم ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں دفاعی بجٹ کس مقصد کے لیے رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں محنت کش خواتین کے حقوق کا ضرور خیال رکھنا ہو گا۔
رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ غربت، جہالت انتہاء پسندی، کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ ایسے حالات میں عوام کا بجٹ کہاں سے آئے۔ لوڈ شیڈنگ ملکی معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی حوالے سے ملک کے سیاستدان نالائق ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بیورو کریسی چلا رہی ہے۔ ایک سے ڈیڑھ ارب روپیہ کے نئے نوٹ روزانہ آ رہے ہیں۔ جس سے افراط زر بڑھ رہا ہے۔ بینکوں کا مارک اپ بہت زیادہ ہے۔ ملک میں عوامی سطح پر فضول خرچی کا کلچر بہت عام ہو چکا ہے۔ جس سے مجموعی ملکی معیشت بد حالی کا شکار ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی خوشحالی کے لیے جب تک قومی ترجیحات کا تعین نہیں ہو گا تو ملک کے غریب عوام کی حالت نہیں بدلے گی۔
بریگیڈئر (ر) فاروق حمید نے بجٹ سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا بجٹ دس روز قبل دبئی میں IMF والوں کے ساتھ مل کر بنا لیا گیا ہے۔ اب صرف اسے پیش کرنے کی رسم ادا ہونا باقی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے غریب امیروں کو پال رہے ہیں۔ ملک میں احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ الٹا قومی احتساب نو بیورو جیسے اداروں کو ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں امیروں پر ٹیکس لگیں تو غریب کو ریلیف ملے گا لیکن یہ کام کر کے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد اے ضیاء نے کہا کہ پڑھے لکھوں نے پاکستان کو زیادہ لوٹا ہے۔ جس ملک میں تعلیم ذریعہ معاش بن جائے وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو معاشی خوشحال بنانے کے لیے پاکستان کو ماہر اور ہنر مند افراد درکار ہیں، جو بد قسمتی سے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ اس کے لیے شعور کے فروغ کی ضرورت ہے، جب تک عوام میں شعور نہیں آئے گا تو ملک میں معاشی وسائل 20 فیصد اشرافیہ طبقہ کے پاس ہی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن IMF سے جان چھڑا کر بجٹ بنا لیا گیا تو اس دن غریب کا مقدر بدل جائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آجر اور اجیر کے درمیان رشتہ آقا اور غلام کا ہے۔ پرائیویٹائزیشن کو بڑھانا ہوگا۔ غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنا ہوں گے۔ اس ملک کو بیورو کریٹ چلا رہے ہیں جو بڑا المیہ ہے، ٹیکنو کریٹس ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنماء انوار اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بجٹ سیمینار کے ذریعے پاکستان عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں بجٹ کی باقاعدہ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے۔ معاشی سال 12-2011 کے بجٹ میں تعلیم، صحت اور روزگار کیلئے مختص رقم بڑھائی جائے۔ بجٹ میں امیر طبقہ پر ٹیکس لگایا جائے جبکہ کم آمدنی اور متوسط آمدنی رکھنے والوں کی ٹیکس پالیسی الگ ہونی چاہیے۔ پاکستان عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں سے چھٹکارا پانے کیلئے ٹھوس معاشی پالیسی بنا کر اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
جی ایم ملک نے کہا کہ بجٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس وقت تک بجٹ عوامی نہیں بنے گا جب تک 3 فی صد حکمران اشرافیہ کو پارلیمنٹ سے کک آوٹ نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے 97فی صد عوام ظالمانہ نظام کے خلاف باہر نکل آئیں۔
انجمن تاجران لاہور کے سہیل محمود بٹ نے کہا کہ عوام بچاؤ تحریک کا آغاز کر کے غریب عوام اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے ہیں۔ بجٹ اس وقت تک عوامی نہیں ہو سکتا جب تک ملک کے ذہین، باکردار، اہل لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت تشکیل نہیں دی جاتی۔
ممتاز معاشی ماہر اسلم خان نے کہا کہ ملک میں معاشی خوشحالی کے لیے ہمسایوں سے اچھے تعلقات پیدا کرنے ہوں گے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی بجٹ عوامی بن سکتا ہے۔
بجٹ میں دیگر مقررین نے کہا کہ بجٹ کے ذریعے غریب عوام پر بوجھ کم کرنے کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ غریب کے خلاف بجٹ پاس کرنے میں پارلیمنٹ میں موجود نمائندے ایک ہیں۔ عوام کو چاہیے کے اپنے مفادات کا محافظ بجٹ بنانے کیلئے حکومت بھی اپنی قائم کریں اور لٹیروں سے نجات حاصل کریں۔
پری بجٹ سیمینار کا اختتام دعا سے ہوا۔
تبصرہ