تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف 2011ء کا آٹھواں دن
تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 29 اگست 2011ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز فجر کے بعد ہزاروں معتکفین و معتکفات سے خطاب کیا۔ آپ نے تصوف سیریز کو آگے بڑھاتے ہوئے "حسن ادب" کے موضوع پر خطاب کیا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ تصوف سارا حسن ادب ہے۔ ادب حسن معاملہ کا نام ہے۔ ہر ایک کے ساتھ بندے کا کوئی نہ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بندے کا اللہ سے عبدیت کا تعلق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امتی کا تعلق ہے۔ صحابہ کرام سے ہمارا ایک پیروکار کا تعلق ہے۔ اولیاء کرام، مشائخ عظام سے ہمارا ایک تعلق ہے۔ اسی طرح والدین، عزیز و اقارب سے ہمارا ایک تعلق ہے۔ پھر امیر، غریب سے ایک تعلق ہے۔ حاکم ہے تو اس کا عوام سے تعلق ہے۔ حتی کہ آپ نے گھر میں جانور رکھے ہیں، درخت لگائے ہیں تو ان سے بھی آپ کا ایک تعلق ہے۔ الغرض خالق سے لے کر مخلوق تک جس سے بھی ہمارا تعلق ہے، اس کو اگر جملہ حقوق کے ساتھ بطریق احسن ادا کیا جائے تو یہ ادب کہلاتا ہے۔
شوہر کا بیوی سے تعلق ہے تو شوہر کا بیوی کے لیے ادب کا تعلق ہے۔اس طرح بیوی کا شوہر کے لیے رشتہ ازدواج کا تعلق ادب ہے۔ الغرض جو بھی شخص ہو، اس کے دوسرے پر حقوق ہیں، ان حقوق کو بطریق احسن ادا کرنا تصوف میں ادب کہلاتا ہے۔ اب وہ ادب حسین و جمیل ہو جائے تو یہ تعلق تصوف کہلاتا ہے۔
اکابر آئمہ کرام میں سے امام ابو طالب المکی جن کی کتاب "قوت القلوب" امہات الکتب میں سے ہے۔آج سے 12 سو سال قبل انہوں نے بیان کیا کہ جن علوم سے اعمال و احوال سنور سکیں اور اللہ کی معرفت مل سکے، ان علوم کو پڑھنا ہمارے زمانے میں جہالت تصور ہونے لگا۔
اس لیے کہ جو آدمی جتنا باتونی ہے، وہی عالم تصور ہونے لگا ہے۔ جسے بات کو سنوار کے کرنے کا طریقہ آ گیا، وہ عالم سمجھا جانے لگا۔ ایسے باتونی اور نام نہاد عالم لوگوں سے فتنہ فساد پیدا ہوا۔ کیونکہ عوام کو یہ خبر ہی نہیں رہی کہ علم کیا ہے۔ آج لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے، بدی کو نیکی سمجھنے، گھٹیا کو اعلیٰ سمجھنے اور ناقص کو اعلیٰ سمجھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ علم سے ناتہ توڑنے کی وجہ سے ہے۔ اس کا تدارک کرنا ہو تو لوگوں کو علم کے حوالے سے آج بارہ، چودہ سو سال پیچھے لے جانا پڑے گا۔ آپ اندازا لگائیں، یہ کتنا مشکل کام ہوگا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں کو عالم سمجھا جائے جو سلف صالحین کے طریق اور اسوہ پر ہیں۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم اصلاح چاہو گے تو تم کو پھر میرے زمانے کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا، ان کیف و سرور اور احوال کی طرف پھر لوٹنا ہوگا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ ادب اور حسن ادب میں فرق ہے۔ ادب ہر ایک کے ساتھ ہے، اس کو حقوق سمجھ کر ادا کرنا ادب ہے۔ لیکن ان حقوق کو باحسن طریقے سے ادا کرنا حسن ادب ہے۔ آپ نے کہا کہ حسن سلوک کے حوالے سے ہمارے تصور انتہائی بگڑ چکے ہیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنا کفرانہ زندگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عید کے روز بیوی بچوں کو جو خرچ کرنے کو دیتے ہو، تو وہ بھی صدقہ ہے۔ یہ ہمارا تصور ہی نہیں ہے۔ اگر خرچہ زیادہ دیں تو ہمارا تصور ہے کہ یہ بگڑ جائیں گی۔ ہمارا تصور رسوم و رواج پر ہے، دین پر تصور رہا ہی نہیں۔
آپ نے کہا کہ حدیث مبارکہ کے مطابق حسن ادب یہ ہے کہ اگر اغنیاء، مالداروں سے ملو تو اکڑ کر ملو۔ ان سے اکڑ کے ملنا عبادت ہے۔ غریبوں کے ساتھ ملو تو عاجزی سے ملو۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہمارا طریقہ کار الٹ ہو چکا ہے۔ ہم غریبوں کو دھتکارتے اور امراء کے در پر جا کر جھکتے ہیں۔
آپ نے کہا کہ اگر بندہ پوری زندگی اطاعت و عبادت اختیار کر لے تو یہ بندے کو جنت تک لے جاتی ہے۔ لیکن اگر بندہ عبادت اور اطاعت میں ادب کو داخل کر لے تو یہ اسے جنت والے تک لے جاتی ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ لوگو! آج ہمیں زندگی میں ادب پیدا کر کے اسے حسن ادب میں تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ہم دین کی گرتی قدروں کو پھر سے بحال کرنے میں اپنا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ کیونکہ بازار اصلاح بند ہو رہا ہے، تھوڑا وقت رہ گیا ہے، جس نے نیکی کی خریداری کرنی ہے تو وہ جلدی کر لے۔ تاکہ کل قیامت کو وہ اس کے کام آئے۔
شیخ الاسلام کا خطاب سات بجے ختم ہوا۔
تبصرہ