MPIC کویت کی طرف سے ماجد دلومی کے اعزاز میں تقریب
منہاج القرآن انٹرنیشنل کویت کی طرف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دورہ انڈیا کے دوران کویت تنظیم کی طرف سے متعین/ مجوزہ / مقررہ سیکرٹری ماجد دلومی کی دورہ انڈیا سے واپسی کے بعد ان کے اعزاز میں مورخہ 30 مئی 2012ء کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب میں منہاج پیس اینڈ انٹی گریشن کویت کے صدر محمد جعفر صمدانی، ناظم ایم ایچ قریشی، ناظم صوبہ جھمرا امتیا ز احمد پرنس، ناظم سٹی محبوب احمد، ناظم فراوانیہ حاجی عبدالرشید، ناظم کویت شاہد طفیل ڈار اور منہاج القرآ ن کویت کے راہنما ڈاکٹر نثار اکبر بھی شریک تھے۔ ماجد دلومی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دورہ انڈیاکے دوران ان کے ساتھ سنگت، تعلق، خدمت اور عوام الناس کی طرف سے پذیرائی کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر پروٹوکول کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ شیخ الاسلام کے دورہ انڈیا کے دوران ایسے ایمان افروز واقعات دیکھنے کو ملے کہ جس کی وجہ سے ایمان مزید پختہ اور مشن کی حقانیت پر مہر ثبت نظر آئی۔ ایک علاقہ کے دورہ کے دوران ایک ہندو نے جب شیخ الاسلام کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہے جب میں نے اسے بتایا کہ یہ منہاج القرآن کے بانی وسرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں اور مشن کا تعارف کرایا تو اس نے مجھے کہا کہ اس کی حفاظت کرو اس کے چہرے سے مجھے ایک عجیب سے چمک محسوس ہو رہی ہے یہ عالم اسلام کا سرمایہ ہے۔
ماجد دلومی نے بتایا کہ دورہ انڈیا کے دوران جہاں مسلمان لاکھوں کی تعداد میں اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے اور سننے کے لئے بے قراروبے تاب تھے وہیں انڈیا کا میڈیا اور سرکاری آفیشلز بھی شیخ الاسلام سے ملاقات اور ان کے انٹرویو کیلئے وقت مانگتے رہے۔ شیخ الاسلام نے انڈیا میں امن، سلامتی محبت اور روادری وبھائی چارے کا جو پیغام دیا ہے وہ رہتی نسلوں تک یاد رکھا جائیگا۔ڈاکٹر نثار اکبر نے تجویز پیش کی کہ چونکہ ماجد دلومی نے اپنے شب وروز اپنے محبوب قائد کی سنگت اور معیت میں گذارے ہیں یہ ان کی جلو ت وخلوت کے ساتھی رہے ہیں لہذا ہمیں کویت کی شوریٰ کا اجلاس طلب کر کے ان سے اپنے محبوب قائد کے شب وروز کے بارے میں سننا چاہیئے تاکہ ہمارے دلوں میں شیخ الاسلام کی محبت، تعلیمات اور مش کے بارے میں مزید پختگی آئے اور ماجد دلومی کی یادشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی پرنٹ کی جائے۔ تمام احباب نے اس تجویز کی تائید کی۔
رپورٹ: محمد جعفر صمدانی
تبصرہ