خصوصی خطاب شیخ الاسلام برموقع عرس خواجہ زندہ پیر (رح)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے ’’تصوف اور ولائت‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس
موقع پر آپ نے کہا کہ خلوص نیت اور تسلسل کے ساتھ اولیاء اللہ کی مجالس میں بیٹھنے
سے مردہ دل زندہ اور نفرتیں محبتوں میں بدل جاتی ہیں۔ انتہاء پسندی کا خاتمہ اور
برداشت و درگذر میں زیادتی ہوتی ہے۔ آپ نے کہا کہ آج تصوف اور ولایت پر ہر طرف سے
حملے ہو رہے ہیں۔ اغیار ہماری لاعلمی کی وجہ سے تصوف اور ولائت کے ساتھ ناروا سلوک
کر رہے ہیں۔
آپ نے تصوف کا مفہوم سمجھاتے ہوئے کہا کہ غیر کا دھیان مٹا کر اللہ تعالیٰ کا گیان پیدا کرنا ہی تصوف ہے۔ دین کی بنیاد ایمان، عمل اور اخلاق کے تین ستون ہیں۔ بدقسمتی سے عمل اور اخلاق مدتوں سے ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ صرف رسم و رواج ہی باقی بچ گئے ہیں جس سے تصوف کی حقیقی روح پرواز کر چکی ہے۔ آپ نے قرآن و احادیث کے حوالوں سے بندہ مومن کے مختلف درجات ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قرآن جسے محسن کہتا ہے تاریخ اسے صوفی کے نام سے پکارتی ہے۔ جو لوگ تصوف اور ولائت کی راہ میں نفس دنیا سے بیزاری اختیار کر لیتے ہیں ان کی راتیں محبوب خدا سے ملاقات کے لیے بیدار رہتی ہیں۔ آپ نے کہا کہ اسلام کی تاریخ میں آج تک کسی بھی مکتب فکر نے تصوف کا انکار نہیں کیا لیکن اس لفظ کی تشریحات میں اختلاف رہا ہے۔ قلب و باطن کا بدلنا ہی تصوف ہے اور تعلق باللہ میں کمال ادب کا نام بھی تصوف ہے۔
آپ نے کہا کہ اولیاء اللہ اہل علم و ذکر ہوتے ہیں اور
ان کا ذکر ان کے علم پر حاوی ہوتا ہے۔ خواجہ زندہ پیر نے یہ کام پہاڑوں
پر جا کر کیا اور خود کو تعلق باللہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان
انتہاؤں تک پہنچا دیا کہ آج برطانیہ میں بھی ان کا ذکر خیر ہو رہا ہے۔ دیار غیر میں
بھی ان کا ذکر زندہ ہے۔ انہوں نے نفرت کو نہیں بلکہ محبت کو اپنا ہتھیار بنا کر
لوگوں کے دلوں میں حکومت کی اور اپنے مریدین کو بھی یہی سبق دیا۔ آج ہمیں ولائت اور
روحانیت کے باب میں خواجہ زندہ پیر کی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نوجوان
نسل کو تحریک منہاج القرآن کا یہی پیغام ہے کہ وہ اپنی جوانیوں کی حفاظت کرتے ہوئے
تصوف کی راہ اختیار کریں۔
عرس مبارک کے اختتام پر حضرت صوفی جاوید اختر نے اختتامی دعا کروائی۔
تبصرہ