زکوٰۃ کی فرضیت و اہمیت
تحریر: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ قرآن حکیم میں بیاسی (82) مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔ شریعت مطہرہ میں زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ تنہا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضور ختمی مرتبت علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وصال کے بعد سر زمین عرب میں ہر طرف فتنے سر اٹھانے لگے جن سے اسلامی ریاست کو نازک ترین صورتِ حال اور بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اپنی سنگینی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنج منکرین زکوٰۃ کا تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی نازک لمحے (Critical juncture) میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال جرآت ایمانی سے اکثر صحابہ کے مشوروں کے علی الرغم اس بات کا ببانگِ دہل اعلان کیا کہ جو کوئی نماز اور زکوٰۃ میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز روا رکھے گا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باغیوں کے خلاف کھلم کھلا جہاد کیا اور ان کی تلوار اس وقت تک نیام میں نہ آئی جب تک منکرین زکوٰۃ کی برپا کی ہوئی شورش پوری طرح فرونہ ہوگئی۔
اسلامی حکومت کے فرائض چہار گانہ
قرآنِ حکیم نے اسلامی ریاست کے صاحبانِ اقتدار و اختیار کے فرائض منصبی اور وظائف (Functions) گنواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :
الَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوْا الزّکَوٰةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوَا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاَمُوْرِO
(القرآن، الحج، 22 : 41)
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہےo
متذکرہ آیہ کریمہ کی رو سے حکومتِ اسلامیہ کے قیام کے چار بنیادی مقاصد بالترتیب درج ذیل ہیں :
- اقامت الصّلوٰۃ
- ایتائے زکوٰۃ
- امر بالمعروف
- نہی عن المنکر
اس سے مترشح ہوا کہ جب حکام منصبِ حکومت پر متمکن ہو کر زمامِ اقتدار سنبھال لیں تو ان کے لئے لازمی و لا بدی ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں نظامِ صلوٰۃ برپا کرنے کے بعد نظام زکوٰۃ کا قیام عمل میں لائیں۔ ایسا کرلینے کے بعد ہی اسلامی ریاست کے اربابِ بست و کشاد پر تیسرا اور چوتھا فریضہ یعنی افراد معاشرہ کو معروف (نیکی) کا حکم دینا اور (منکر) برائی سے روکنا عائد کیا گیا ہے۔
اسلامی ہیئتِ اقتدار اس قوت نافذہ (Authority) کا نام ہے جس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے اور افراد کو ایسے مواقع فراہم کرے جس سے معاشرے میں ایک طرف اچھائیوں اور نیک کاموں کو فروغ ملے، تو دوسری طرف اور افعال قبیحہ و مذمومہ کا سدّ باب اور حوصلہ شکنی ہو۔ اس طرح ایسے راستے ہموار ہوتے رہیں گے جن پر چل کر لوگوں کی اخلاقی، مذہبی اور روحانی زندگی روبہ اصلاح ہو جائے گی اور برائیوں کا از خود قلع قمع ہوتا جائے گا۔ محض زبانی تبلیغ کرتے رہنا اسلامی ہیئت حاکمہ کے لئے کافی نہ ہو گا۔ اس لئے کہ جب تک ان بنیادی محرکات اور اسباب کو جن سے برائی کو فروغ پانے کے مواقع ملتے ہیں، جڑ سے نہ اکھاڑ دیا جائے کسی بھی انسانی معاشرے کی اصلاح و تطہیر ممکن نہیں۔
اسلام میں مادی اور روحانی نظام کے تقاضے باہم متعارض نہیں
اسلامی ریاست کے حاکمانِ بااختیار کے چہار گانہ وظائف و فرائض کے باہمی تعلق کی معنویت کو سمجھ لینا از بس ضروری ہے۔ اسلام کی ہمہ گیریت اس امر کی متقاضی ہے کہ صرف انسان کے روحانی تقاضوں ہی کی تکمیل نہ کی جائے بلکہ سب سے پہلے اس کی مادی اور دنیاوی احتیاجات و ضروریات کی تکمیل اور ان سب تقاضوں کی فراہمی کا سامان کیا جائے اس لئے کہ اسلام میں ترک دنیا اور رہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جہاں اسلام نے عبادات و روحانیات کا ایک جامع نظام دیا ہے وہاں انسانی جسم کو صحت مند و توانا رکھنے کے لئے مادی اسباب و لوازمات سے صرفِ نظر نہیں کیا۔ مادیات اور روحانیات ساتھ ساتھ اور پہلو بہ پہلو چلتے ہیں اور اعتدال و میانہ روی کی روش پر کار بند رہتے ہوئے ایک بہمہ وجوہ متوازن زندگی گزارنے کے تقاضے ہرگز ایک دوسرے سے متعارض و متصادم نہیں اس لئے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو کامل طور پر فطرت سے ہم آہنگ ہے اور اس کا کوئی پہلو ایک دوسرے کا نقیض نہیں ہے۔
نظام صلوٰۃ و عبادات سے اسلامی معاشرہ روحانی برکات و ثمرات سے متمتع و فیض یاب ہوتا ہے۔ حقوق اﷲ جن کے لئے نظامِ صلوۃ و عبادات ابتداء بھی ہے اور نقطئہ کمال بھی اسلام کے روحانی نظام کی اساس کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے اسلامی حکومت کی اولین ذمہ داری اس کا نفاذ قرار پایا تاکہ اسلامی معاشرے کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے۔ اس کے باوصف چونکہ زکوٰۃ کا تعلق اقتصادیات سے ہے، یہ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایتائے زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرزِ زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جائیں اور رزقِ حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحبِ مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کرا دے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نا دہند (Have Nots) اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کر سکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زر و مال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افرادِ معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہو جائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔
یہ تصور کی نیکی محض نماز، روزہ اور نفلی عبادات پر موقوف ہے جس سے ہمارے زندگی بھر کے گناہ ڈھل جاتے ہیں ایک خیالِ محض ہے جو اسلامی نظام کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔ ہم سال میں ایک بار محافلِ میلاد منعقد کرکے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہتمام پر رقم خرچ کرکے پورا سال حرام و حلال سے بے نیاز ہر کر جو چاہیں کرتے پھریں ہم سے کوئی مواخذہ اور باز پرس نہ ہوگی۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی کوئی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے اور نہ ہی سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نے، جن کی گیارہویں بڑے اہتمام سے منا کر بزعم خویش یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے پورے مہینے کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔
اسلام کی جس روح کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے اس کی تعلیم بفحوائے ارشادِ قرآنی :
يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً
(القرآن، البقرہ، 2 : 208)
’’اے ایمان والو! اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ۔‘‘
کی آیہ کریمہ میں دی گئی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوا جائے اگر اس کے برعکس
نیمے دروں نیمے بروں
والی کیفیت ہو گی یعنی اس کے کسی جزو کو ماننا اور کسی کا انکار کرنا ہمارا شعار ہوگا تو ہمارا یہ طرز عمل منافقت اور اسلام سے کھلم کھلا مذاق کے مترادف ہو گا۔ ایسا اسلام ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہمیں اس دو رنگی کو چھوڑ کر یا تو پورے کا پورا اسلام گلے سے لگانا ہو گا یا پھر ترکِ اسلام کی راہ اپنانا ہو گی۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سرا سر موم ہو یا سنگ ہو جا
نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادّی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کرنے کے لئے کہ اسلامی نظام کے نفاذ سے اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کا سدّ باب کس طرح ممکن ہے، یہ بات ذہن میں مستحضر ہونی چاہئے کہ امر بالمعروف کا تعلق نظامِ صلوٰۃ سے اور نہی عن المنکر، کا تعلق نظام زکوٰۃ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے روحانی نظام کے نافذ کرنے سے نیکیوں کو فروغ ملتا ہے جب کہ اس کے اقتصادی نظام کا نفاذ برائیوں کو جڑ سے کاٹنے کا موجب بنتا ہے اگر اسلام کا اقتصادی نظام مفقود ہو تو غیر متوازن معیشت کے مضر اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوں گے اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جانے کی وجہ سے ارتکازِ زر کا رجحان فروغ پذیر ہوگا جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لینے لگیں گی اور ایسی راہیں کھل جائیں گی جو فسق و فجور کی زندگی پر منتج ہونگی۔ بندہ و خالق کے مابین تعلق عبودیت پیدا کر دینا اسلام کا اولین تقاضا ہے جو انسانی زندگی میں روحانی نظام کے نفاذ کو مستلزم ہے، اس لئے کہ جب تک انسانوں کے اندر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت، للّٰہیت اور اخلاص کی بناء پر تعلق پیدا نہیں ہوگا ان میں ایثار و قربانی کی زندگی اپنانے کا محرک (Motive) اور میلانِ طبع ناپید رہے گا۔ روحانیت کا مطمع نظر یہ ہے کہ بندے کا اپنے مولا سے تعلق اتنا پختہ اور محکم ہو جائے کہ اس کی زندگی کا محور اس کی رضا کا حصول بن کر رہ جائے۔ جب یہ مقصد ہمہ وقت بندے کے پیشِ نظر رہے تو پھر وہ اپنی ذہنی تسکین اور مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بے لگام نہیں ہوگا۔ اس کے رگ و پے میں روحانیت کی دوڑتی ہوئی لہر اس کے قدم غلط راستوں کی طرف جانے سے روک دے گی اور رضائے خدا وندی کے تابع ہونے کے بعد وہ اپنی دولت غلط کاموں پر خرچ نہیں کرے گا۔ یہی سبب تھا کہ اسلام نے سب سے پہلے روحانی ضرورتوں کی بات کی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کو اولیت دی تاکہ انسان صحیح معنوں میں انسانیت کے منصب پر فائز ہو جائے اور اس کے پاس دولت کی بہتات کہیں اسے فرعون و قارون کے مقام پر نہ گرا دے۔ فرعون و قارون دونوں ایسے بے خدا نظام کے علمبر دار تھے جس کی اساس تعلق باﷲ کا فقدان اور مادی دولت و قوت کی کثرت تھی۔
اگر بندے کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق بالاخلاص استوار نہ ہو تو پھر اس کے اندر یہ سوچ سرائت کر جاتی ہے کہ اس کی کمائی ہوئی دولت اس کی محنت، قابلیت اور ذاتی استعداد کا نتیجہ ہے اس لئے وہ اسے خدا کی راہ میں کیوں دے؟ اس کے برعکس تعلق باﷲ سے بندے کی سوچ کا رخ یہ ہوجاتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے خدا کی عطا ہے۔ وہ اپنی ساری پونجی اور مال و متاع کو اپنے خالق و مالک کی دین سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ یہ بن جاتا ہے کہ جب تک میرا رب مجھ سے راضی ہے یہ ساری نعمتیں میرے پاس رہیں گی اور اگر وہ انہیں چھین لینا چاہے تو میرے دائرہ اختیار میں کچھ بھی نہ رہے گا۔ اس عقیدے کی بناء پر وہ بندہ خدا کی رضا کو برقرار رکھنے کے لئے اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا اپنا شعارِ حیات بنا لیتا ہے کہ اس طرح وہ اﷲ کی نعمتوں کا حقدار اور سزا وار ٹھہرتا ہے۔ یہی سوچ کا فرق ہے جس سے اس کی زندگی کا رخ یکسر تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ اس دنیا میں جو دارالمحن ہے، آزمائشیں غیر مسلموں کے لئے نہیں بلکہ اہل ایمان کے لئے ہیں۔ دولت ایمان سے تہی دامن افراد چونکہ اخروی نعمت سے محروم ٹھہرا دیئے گئے ہیں بنا بریں ان کیلئے صرف یہی دنیا اور اس کے راحت و آرام ہیں۔ اس کے برعکس حق تعالی نے اہل ایمان مرد و زن سے آخرت کی لازوال نعمت کا وعدہ کر رکھا ہے لہٰذا انہیں ان کے ایمان کی پرکھ کے لئے قدم قدم پر آزمایا جاتا ہے تاکہ کھوٹے اور کھرے کی پہچان ہو جائے او یہ پتہ چل سکے کہ ان میں کون مستحق ہے اور کون نہیں۔
قرآن حکیم نے بڑے بصیرت آموز پیرائے میں ان دو قسم کی سوچ رکھنے والے شخصوں کا حال بیان فرمایا ہے جو زمینوں اور باغات کے مالک تھے۔ ایک کی سوچ یہ تھی کہ یہ سب کچھ میرے رب کا فضل اور اس کی عطا ہے جسے برقرار رکھنے کا فقط یہ طریقہ ہے کہ میں اسے اس کی راہ میں خرچ کرتا چلا جاؤں۔ دوسرے شخص کی سوچ کا رخ اس کے برعکس یہ تھا کہ مجھ پر برسنے والا ہُن میری محنت و کاوش کا ثمرہ اور نتیجہ ہے لہٰذا مجھے کیا پڑی ہے کہ میں اس دولت کو اپنی آسائش و تعیش پر خرچ کرنے کی بجائے سائلوں اور محروموں کی ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کرتا پھروں۔ اگلی صبح جب وہ شخص سو کر اٹھا تو اس کا باغ جل کر راکھ بن چکا تھا اور سوائے عبرت انگیز تباہی و بربادی کے اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تھا اور اس کا یہ زعم کہ اس کا اثاثہ اس کی ذاتی محنت و قابلیت کا نتیجہ ہے خاک میں مل گیا تھا۔ قرآنِ کریم نے فلسفہ زکوٰۃ کے باب میں ان دو سوچوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے امر بالمعروف کے بعد نہی عن المنکر قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا اور اس ضمن میں روئے خطاب اہل ایمان سے کرکے انہیں نظامِ زکوٰۃ برپا کرنے کی تلقین کی تاکہ معاشرے کو اس کے اندر پنپنے والی برائیوں سے پاک و صاف کیا جاسکے اور ان خرابیوں کا قلع قمع کیا جائے جو اسے گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔
اب جہاں تک مسلم معاشرے کو نیکیوں کی آماجگاہ بنانے کا تعلق ہے وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ کے مصداق ہر کام کا انجام اﷲ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کیلئے صلوٰۃ و عبادات کا روحانی نظام ہے جس کے تحت وہ ذاتِ پاک ہر کسی کو اس کی سعی و کاوش کا اجر ضرور دے گی لیکن یہ دنیا دارِ مکافات ہے یہاں اسباب سے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ انسان کا کام کوشش کرتے رہنا ہے اور اس کا نتیجہ اس ذاتِ کریمانہ پر چھوڑ دینا ہے جو کسی کی محنت کے اجر کو رائیگاں نہیں جانے دیتی۔ اس کا ارشاد ہے :
وَ اَنْ لَيْسَ لِلاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
(القرآن، النجم، 53 : 39)
’’اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جو اس نے کوشش کی۔‘‘
اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ شروع میں درج کردہ آیہ کریمہ میں اسلامی حکومت کے جو چار بنیادی فرائض بیان کئے گئے ہیں ان میں دوسرا فریضہ نظامِ زکوٰۃ کا قیام ہے جس کے بغیر کسی بھی اسلامی سلطنت کا تشخص برقرار نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی ریاست اسلام کے نام پر وجود میں آتی ہے تو اس کے لئے لازمی و لا بدی ہے کہ وہ اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کو نظام زکوٰۃ سے متحقق کرے۔ اگر وہ اس بنیادی فریضے سے پہلو تہی کرتی ہے تو اس حکومت کے اسلامی ہونے کا دعویٰ محل نظر ہے۔
زکوٰۃ کا لغوی معنی و مفہوم
لغوی اعتبار سے زکوۃ کا لفظ دو معنوں کاحامل ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے کا ہے اور دوسرا معنی نشوونما اور بالیدگی کا ہے جس میں کسی چیز کے بڑھنے، پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کے پہلے معنی کی وضاحت میں جو پاکیزگی و طہارت پر دلالت کرتا ہے قرآنِ حکیم کا یہ ارشاد محلِ غور و فکر ہے :
قَدْ اَفَلَحَ مَنْ زَکّٰهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاO
(القرآن، الشمس، 91 : 9، 10)
’’تحقیق جس نے تزکیہ نفس کیا وہ کامیاب ہوا اور جو معصیت میں مبتلا ہوا وہ خائب و خاسر ہوا۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں دنیوی و اخروی کامیابی کیلئے طہارت و تزکیہ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مد نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ بقول اقبال
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امین
زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔ جیسے وہ کھیتی جو بہت بڑھ رہی ہو اور پھل پھول لا رہی ہو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے :
زَکا الزّرع
’’کھیتی نے نشوونما پائی۔‘‘
اس مفہوم کو پیش نظر رکھیں تو زکوٰۃ کے لفظ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ وہ خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا رہتا ہے۔
یہ بات ذہن میں مستحضر رہے کہ فی نفسہ مال و دولت میں کوئی برائی نہیں اور امیر و غریب ہونا بذات خود کوئی شرف و فضیلت یا تحقیر کی بات نہیں۔ یہ مال و دولت کا استعمال یا عدم استعمال ہے جو اس کی قدر و قیمت اور اہمیت و معنویت کو متعین کرتا ہے۔ اس کی مثال پانی کی سی ہے جو اگر کسی جگہ جمع ہو کر دیر تک کھڑا رہے اور اس کے نکاس کا کوئی اہتمام و بندوبست نہ ہو تو اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ پانی جو صاف و شفاف ہونے کی صورت میں انسان کے لیے حیات بخش اور صحت افزا تھا متعفن ہونے کی وجہ سے بیماری کا گھر اور موت کا سامان بن جاتا ہے۔ پانی کو صاف و شفاف اور تعفن سے پاک رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ وہ ایک جگہ زیادہ دیر جمع نہ ہو اور اس کے نکاس کا خاطر خواہ بندوبست ہوتا رہے۔ اس اعتبار سے زکوٰۃ، مال و دولت اور سرمائے کے لئے گردش اور نکاس کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو زر و مال کو ایک جگہ بغیر خرچ کیے جمع رہنے سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح سال میں ایک بار ادا کی ہوئی زکوٰۃ، مال و دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہونے دیتی اور اس گردشِ زر سے سرمائے کا چشمہ صافی تکدر آشنا نہیں ہونے پاتا۔
زکوٰۃ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہ میل کچیل ہے جسے نکال دیا جائے تو دولت آلودگی سے پاک و صاف ہو جاتی ہے۔ یہ صرف ان مستحقین کا حق ہے جن کی تفصیل صراحت کے ساتھ کتب فقہ میں بیان کر دی گئی ہے۔ زکوٰۃ کا حق حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر اسے صحیح طریقہ اور جگہ پر استعمال کیا جائے تو اس کی یہ ادائیگی اتنی بڑی نیکی ہے جس سے بے شمار برکتیں پیدا ہوتی ہیں اور دینے والے کا مال بجائے گھٹنے کے بڑھتا رہتا ہے۔
حقوق العباد ہونے کے ناطے زکوٰۃ اگر ایک طرف بندوں کا حق ہے تو دوسری طرف یہ خالق کا بھی حق ہے۔ اس کی عدم ادائیگی سے جہاں ایک طرف بندوں کے حق کو ٹھکرایا جاتا ہے وہاں لا محالہ خالق کے حق کو ٹھکرائے جانے کا پہلو بھی نکلتا ہے۔
فرضیت زکوٰۃ کا سبب اور غرض و غایت
قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر ان عوامل کی نشاندہی فرمائی ہے جو فرضیت زکوٰۃ کا سبب بنے۔ باری تعالیٰ اہل ایمان سے براہ راست مخاطب ہو کر یوں ارشاد فرماتے ہیں :
يا اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ
(القرآن، البقرہ، 2 : 254)
’’اے ایمان والو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے خرچ کرو۔‘‘
دوسرے مقام پر دولت رشد و ہدایت اور تقویٰ سے بہرہ یاب ایمانداروں کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا :
هُدًی لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ
(القرآن، البقرہ، 2 : 3)
’’(قرآن) متقین کیلئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے، نماز قائم کرتے اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر روئے خطاب پھر ایمان والوں کی طرف کرتے ہوئے اللہ جل مجدہ نے ارشاد فرمایا :
يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتٍ مَا کَسَبْتُمْ
(القرآن، البقرہ، 2 : 267)
’’اے ایمان والو! جو پاکیزہ (مال) تم کماؤ اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔‘‘
اسی پیرایہ میں مزید تاکید کے ساتھ انفاق مال کی ضرورت پر ان الفاظ سے زور دیا گیا :
وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ
(القرآن، المنافقون، 63 : 10)
’’ہم نے تمہیں جو رزق عطا کیا اسے اس سے پہلے کہ تم پر موت آ جائے (اللہ کی راہ میں) خرچ کر لو۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں مرگ ناگہانی آ کر دبوچ لے اپنا پاک و طیب مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اپنا وطیرہ بنا لو۔ موت کے بعد جب ظاہری اسباب حیات منقطع ہو جائیں گے اور قیامت کے دن تم سے مواخذہ اور جواب طلبی ہو گی توسوائے پچھتاوے کے تمہارے پاس کچھ نہ ہو گا، تم بارگاہ خداوندی میں گڑگڑا کر التجا کرو گے کہ ہمیں ایک اور زندگی کی مہلت عطا کر تاکہ ہم تیری رضا کے لیے تیری راہ میں خرچ کر کے تیری مقبول اور صالح بندوں میں شامل ہو جائیں لیکن اس روز کا پچھتاوا اور لجائیت بے کار جائے گی اور جواب آئے گا کہ مہلت وہی تھی جو دنیا میں ایک بار تمہیں عطا ہو چکی اب دوسری بار عمل کا موقع کسی کو بھی مرحمت نہیں کیا جائے گا۔
قرآن کریم کے بالاستیاب مطالعے سے یہ حقیقت الم نشرح ہو گئی کہ اس کے مختلف مقامات پر بڑی شرح و بسط اور شد و مد کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ باری تعالیٰ جگہ جگہ اہل ایمان کو یہ کہہ کر جھنجھوڑتا ہے کہ اس مال میں سے میری راہ میں خرچ کرو جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے۔ ’’مِمَّا رَزَقْنٰکُم‘‘ کے الفاظ غور طلب ہیں کہ انسان بسا اوقات یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس کا مال اور اس کی کمائی، اس کی ذاتی محنت و کاوش اور استعداد و قابلیت کا نتیجہ ہے۔ اس کا یہ زعم باطل اور اس کا یہ دعویٰ خام ہے اس لیے کہ انسان کے پاس جو کچھ مال و متاع ہے وہ اس کے رب کی عطا اور فضل ہے جس سے اسے کسی لمحہ محروم بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر خالق کائنات نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ انسان کے اس برخود غلط خیال اور دعویٰ کا بطلان کرتے ہوئے اس کے شعور اور تحت الشعور میں یہ تصور راسخ کیا ہے کہ وہ یہ بات پلے باندھ لے کہ دنیا و آخرت کی ہر نعمت اس کی محنت و مشقت اور قابلیت کا نتیجہ نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی عطا اور اس کے فضل کی مرہون منت ہے۔ جب انسان کے باطن میں یہ شعور پختہ ہو کر جاگزیں ہو جاتا ہے کہ اس کا سارا مال و متاع اس کے اللہ کی دین سے ہے تو پھر ’’مِمَّا رَزَقْنٰکُم‘‘ کا معنی اس کی سمجھ میں آ جاتا ہے اور وہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اسے قرض حسنہ تصور کرتا ہے۔
یہ بات کتنی لطیف اور عجیب ہے کہ وہ ذات جو سب کچھ عطا کرنے والی ہے اپنے بندے سے اس میں سے کچھ حصہ بطور قرض کے مانگتی ہے اس وعدے کے ساتھ کہ جو کچھ وہ میرے نام پر میری راہ میں خرچ کرے گا میرے پاس اس کے حساب میں جمع ہوتا رہے گا۔ اب یہ مسلمہ دستور ہے کہ ہر قرض خواہ کے ذمے قرض کا لوٹانا لازم ہوتا ہے۔ اور وہ ذات کریمانہ جو اتنی جواد، سخی اور بن مانگے ہر ایک کو عطا کرنے والی ہے کیوں نہ بے اندازہ اور بہتر انداز سے قرض ادا کرے گی۔ یہ تو اس نے انسان کی عزت افزائی اور اکرام کے سامان پیدا کیے ہیں ورنہ کون دینے والا ہے جو اپنے دیئے ہوئے میں سے قرض مانگتا ہے۔
شریعت اسلامیہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یعنی انفاق فی سبیل اللہ کی دو قسمیں ہیں : ایک انفاق واجبہ اور دوسری انفاق نافلہ۔ ان میں ایک قسم فرض اور دوسری نفلی صدقہ کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں صدقہ کے باب میں ضمناً ایک بات کی وضاحت مطلوب ہے۔ ہمارے ہاں غلط طور پر ایک تصور در آیا ہے کہ لوگ بالعموم صدقہ کے نام دی ہوئی چیز کھانے یا استعمال کرنے سے گھبراتے ہیں کہ شاید ایسا کرنے سے ان پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے گی۔ حالانکہ صدقہ کی اصلیت و ماہیت پر ذرا غور کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ صدقہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے یعنی انفاق ہی کا نام ہے۔ صدقات خواہ واجبہ ہوں یا نافلہ ان کے مستحقین بہر حال غرباء و مساکین، یتامیٰ اور دیگر اہل حاجت ہوتے ہیں لیکن قرآن حکیم نے صدقات کے مصارف بیان کرتے ہوئے مختلف انواع (Categories) کے ذکر میں مسافروں کے ذکر کو بھی شامل کیا ہے۔ اب کوئی مسافر چاہے کروڑ پتی ہو سفر کی حالت میں ضرورت مند ہو سکتا ہے۔ اس طرح بوجوہ صدقہ کا مال اس پر بھی جائز ہے لہٰذا صدقہ سے کسی قسم کی گھبراہٹ ( Allergy) کی ضرورت نہیں۔
صدقات واجبہ کے برعکس صدقات نافلہ وہ صدقات ہیں جو محض خدا کی رضا کے لیے صرف کیے جاتے ہیں۔ ان کے مصرفات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ انہیں مستحقین کی امداد سے لے کر مسجد کی تعمیر اور کسی بھی نیک کام کیلئے استعمال میں لایاجا سکتا ہے۔ شریعت مطہرہ نے کسی کو بھی ان کے جواز سے خارج نہیں کیا۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ تصور کہ سادات کیلئے صدقہ جائز نہیں ہے، اس کا اطلاق صرف صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر پر ہوتا ہے۔ جہاں تک نفلی صدقات کا تعلق ہے وہ سید ہو یا غیر سید، مسجد ہو یا مدرسہ، یا فلاحی نوعیت کا کوئی بھی نیک کام ہر ایک پر انہیں خرچ کرنا بہمہ وجوہ جائز ہے اور شریعت نے اس سلسلے میں کوئی قد غن نہیں لگائی۔ احیائے اسلام، تبلیغ و دعوت دین، مشن اور جہاد سے متعلق امور اور ان لوگوں کی ضروریات کی کفالت جنہوں نے خود کو دین کیلئے وقف کر دیا ہے ان سارے کاموں کے مصارف نفلی صدقات کے ذریعے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواز قرآن حکیم میں نص قطعی سے فراہم ہوتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ يَحْسَبُهُمْ الْجَاهِلُ اَغْنِيَآءَ مِنَ التَّعٰـفُّفِ تَعْرِفهُمْ بِسِيْمٰهُم لَا يَسْئَلُوْنَ النَّاسِ اِلْحَافًا
(القرآن، البقرہ، 2 : 273)
’’(صدقات) ان فقراء کیلئے ہیں جو اللہ کی راہ میں محصور کیے گئے ہیں اور زمین میں پھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے سوال نہ کرنے کی بنا پر انجان انہیں مالدار تصور کرتے ہیں۔ ان کی حالت ان کے چہروں سے پہچانی جا سکتی ہے۔ وہ لوگوں سے گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے۔‘‘
یہ بات ذہن میں مستحضر رہے کہ نصاب کی شرط صرف صدقات واجبہ کیلئے ہوتی ہے جب کہ صدقات نافلہ کسی شرط اور حد سے مشروط نہیں۔ ہر کوئی جتنا چاہے بغیر کسی روک ٹوک کے راہ خدا میں خرچ کر سکتا ہے جس کے پاس زیادہ مال ہے وہ زیادہ اور جس کے پاس کم مال ہے وہ کم خرچ کرے۔ غریب بھی اپنی وسعت و استعداد کے مطابق اپنی ضرورت سے بچا کر خدا کی رضا کیلئے نکال سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے اسلاف نے ایثار، بے نفسی اور قربانی کی ایسی تابناک مثالیں قائم کیں ہیں کہ تاریخ اسلام کے اورق ان کی تابانی سے اب بھی جگمگا رہے ہیں۔
شیر خدا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شان میں اللہ رب العزت نے یہ آیات بینات نازل فرمائیں :
وَ يُطْمِعُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهِ مِسْکِينًا وَّ يَتِيْمًا وَّاَسِيْراً
(القرآن، الدھر، 76 : 8)
’’اور وہ (نیک لوگ) اللہ کی محبت پر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘
ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم بیمار پڑ گئے۔ سیدہ عالم حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے منت مانی کہ اگر ان کے جگر پارے شفایاب ہو گئے تو وہ تین روزے رکھیں گے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو خدا تعالیٰ نے صحت عطا فرما دی تو انہوں نے منت پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ اتفاق سے اس وقت اس گھرانے میں سحری و افطاری کیلئے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہیں سے بقدر ضرورت جو ادھار لیے تاکہ نان شعیر سے روزے رکھے جا سکیں۔ ان پاک فطرت ہستیوں نے پہلا روزہ رکھ لیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے روزے کی افطاری کے لیے جَو کی روٹی اور چند کھجوروں کا اہتمام کیا۔ غروب آفتاب کے وقت وہ روزہ افطار کرنے ہی والے تھے کہ دروازے پر کسی سائل نے صدا دی کہ ’میں یتیم ہوں، کھانے کیلئے کچھ نہیں کچھ خدا کیلئے عطا کیجئے۔‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے روٹی اور کھجوریں اس سائل کو دے دیں اور سیدہ عالم کے ساتھ سادہ پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ دوسرے دن پھر روزہ رکھ لیا۔ جب افطاری کا وقت آیا تو گھر کے سامنے سائل کی صدا بلند ہوئی کہ ’اے اہل بیت میں مسکین ہوں اور کئی روز سے بھوکا ہوں ﷲ کچھ عطا کیجئے۔‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے افطاری کا سارا سامان اٹھا کر اس سائل کے حوالے کر دیا اور پہلے روز کی طرح سادہ پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن بھی عین افطاری کے وقت دروازے پر دستک ہوئی اور سائل نے صدا دی کہ میں ایک اسیر ہوں کچھ واسطے خدا کھانے کو دیجئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے واپس نہ موڑا اور ماحضر اس کی نذر کر دیا درآنحالیکہ یہ تیسری افطاری بھی سادہ پانی سے کی گئی تھی۔ خانوادہ سادات کی اس فیاضی، سخاوت اور ایثار پر حضرت جبریل امین علیہ السلام متذکرہ صدر آیات کی سورت میں، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح بیان ہوئی ہے، محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں خوشنودی خدا کا پروانہ لے کر حاضر ہوئے۔
صدقات نافلہ کے باب میں اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ ان کے لیے نصاب کی کوئی حد متعین نہیں۔ اس کے باوصف صدقات واجبہ جو زکوٰۃ، عشر اور صدقہ فطر پر مشتمل ہے، کیلئے کم از کم حد (Minimium Limit) مقرر ہے جس کی ادائیگی ہر صاحب نصاب کے ذمے فرض قرار دی گئی ہے اور اس سے انکار انسان کو دائرہ اسلام ہی سے خارج کر دیتا ہے۔
زکوٰۃ کی کم از کم حد سال کے اندوختہ مال پر اڑھائی فی صد کی شرح از روئے شریعت مقرر کی گئی ہے لیکن یہ وہ حد ہے جس سے اسلام کے ایک بنیادی رکن کی بجاآوری فرضیت کی حد تک ہوتی ہے اور اس سے پہلو تہی انسان کے ایمان و اسلام کو معرضِ خطر میں ڈال دیتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’اہل ایمان کے ذمہ ان کے مالوں میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔‘‘
زکوٰۃ سے انکار نص قطعی کے مطابق صریحاً کفر و بغاوت اور دائرہ اسلام سے اخراج کے مترادف ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی تاریخ کے نازک ترین لمحے میں جب مملکت اسلامیہ چاروں طرف سے گوناگوں آزمائشوں اور فتنوں سے دو چار تھی منکرین زکوٰۃ کے خلاف اعلانیہ جہاد کیا اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے ساتھ ان تمام باغیوں کا قلع قمع کر دیا جنہوں نے صرف زکوٰۃ سے انکار کیا تھا۔ اس سے یہ بات بغیر کسی ابہام کے نکھر کر سامنے آئی کہ اسلامی نظام میں زکوٰۃ کی ادائیگی ایک ایسے بنیادی فریضے کا حکم رکھتی ہے جس سے انکار صریحاً بغاوت متصور ہوتی ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف اسلامی حکومت کے اربابِ اقتدار کیلئے جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے۔
زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی بہت سے حقوق ہیں جن کا مال میں سے نکالنا کبھی فرض کبھی واجب، کبھی مستحب اور کبھی نفل قرار پاتا ہے۔ اس پر بحث آگے آئے گی۔ سردست وہ نکتہ جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں سر اٹھاتا ہے کہ جب انسان محنت و مشقت اور اپنی دماغی و ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دولت کماتا ہے تو وہ اس دولت میں سے زکوٰۃ و صدقات کی صورت میں دوسروں کو حصہ دار کیوں بنایا جائے؟ اسلام کے تصور ملکیت کو موجودہ معروضی صورتحال میں سمجھنا از بس ضروری ہے۔ ہمارے ذ ہن ملکیت کے جس تصور سے آشنا ہیں وہ سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظام ہائے معیشت سے اخذ کردہ ہے۔ اسلام کا اقتصادی تصور سرمایہ دارانہ اور اشتراکی فکر کی اساس پر استوار کیے گئے اقتصادی تصورات سے یکسر مختلف اور متمیز ہے۔ وہ یہ کہ خالق کائنات نے اس دنیا میں جو چیز بھی پیدا کی ہے وہ انسان کی فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے پیدا کی گئی ہے۔ گویا اموال و املاک اور جائیدادوں کی صورت میں جو کچھ بھی موجود ہے اس سے بنی نوع انسان کا فائدہ مقصود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
هوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا
(القرآن، البقرہ، 2 : 29)
’’وہ (ربّ) جس نے تمہارے لئے ہی پیدا کیا جو کچھ زمین میں ہے۔‘‘
اس تصور کو کہ ہر چیز کی تخلیق میں حضرت انسان کی منفعت مضمرہے ایک اور مقام پر قرآن حکیم ان الفاظ سے واضح فرماتا :
وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْکُثُ فَیْ الْاَرْضِ
’’اور وہ جو لوگوں کے لئے نفع مند ہو وہی زمین میں رہتا ہے۔‘‘
اس آیہ کریمہ سے یہ بات طے شدہ ہے کہ اس دنیا میں صرف وہی چیز باقی رہتی ہے کہ جس میں لوگوں کے لئے نفع بخشی اور فیض رسانی ہو۔ کسی شے کے باقی رہنے یا قائم رکھے جانے کاجواز قرآن حکیم کے فلسفہ کی رو سے صرف یہ ہے کہ اس سے کسی نہ کسی صورت میں انسان کے لئے سود مندی اور نفع بخشی کاپہلو وابستہ ہو۔
مغربی سائنس نے دنیا کو بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا تصور دیا ہے جس کے مطابق صرف وہی چیز باقی رہتی ہے جو اپنے ماحول میں سب سے زیادہ ساز گار اور مطابقت رکھنے والی ہو۔ اس کے علاوہ ہر چیز بقائے اصلح کی اس رزم گاہ میں فنا کی گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اس تصور کے مقابلے میں اسلام کا پیش کردہ تصور اشیاء کی تخلیق اور بقا کے بارے میں ان کی انسان کے لئے فائدہ مندی اور نفع بخشی سے متعلق ہے۔ اسلام کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمان شوکت و عزت اور تمکنت کی زندگی اس لئے بسر کرتے تھے کہ اس سے خلقِ خدا کو فائدہ پہنچے۔ اس میں ہر شخص اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرکے دوسروں کی بہتری کے لئے کوشاں رہتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ دوسرے کی جان بچانے کے لئے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرتا تھا۔ تاریخ کا یہ واقعہ زبان زدِ عام و خاص ہے کہ ایک معرکہ جہاد میں کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم جاں بہ لب تھے۔ شدتِ تشنگی کا یہ عالم تھا کہ ہر زبان پر’العطش العطش‘ تھا۔ اتنے میں پانی کا ایک پیالہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو دیا کیا وہ اسے منہ لگانے کوہی تھے کہ دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کی صدائے العطش کان میں پڑی۔ انہون نے پیالہ وہیں چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ اسے دیا جائے پانی کاپیالہ اس صحابی رضی اللہ عنہ تک لے جایاگیا تو اتنے میں پہلا صحابی رضی اللہ عنہ جام شہادت نوش کر چکا تھا۔ دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ نے ابھی پیالہ منہ کو لگایا نہ تھا کہ اگلے صحابی رضی اللہ عنہ کی آواز کانوں میں پڑی۔ اس نے انکار میں سرہلاتے ہوئے پیالہ لوٹا دیا کہ پہلے کی جان بچائی جائے تھوڑی ہی دیر بعد وہ بھی اپنی زندگی کے سانس پورے کرکے بادہ شہادت سے مخمور ہوگیا۔ علی ہذا القیاس پانی کا وہ پیالہ میدانِ جنگ میں پڑے ہوئے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ تک بڑھتا رہا اور کسی نے ایک بوند پانی سے اپنے خشک حلق کو تر نہ کیا یہاں تک کہ وہ سب رہتی دنیا تک ایثار و بے نفسی کی یہ یادگار مثال قائم کرکے واصل بحق ہوگئے او رجاتے جاتے متذکرہ بالا آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر پیش کر گئے۔ یہی سبب تھا کہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے قدم جس طرف اٹھتے تھے بغیر تلوار چلائے اسلام کا فیضان پھیلتا چلا جاتا تھا۔ ان کی تلوار صرف ظلم وزیادتی کے استیصال کے لئے نیام سے نکلی تھی ورنہ اطراف و اکناف عالم میں پیغام اسلام کی وسعت پذیری ان کے کردار اور اوصاف حمیدہ کی مرہون منت تھی۔
باب الاسلام، سندھ کا فاتح محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ تین سال تک اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خطہ ہندوستان میں رہتا ہے لیکن اس عرصہ میں ایک فرد کا سر قلم کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ ساکنانِ ہند اس کی شمشیر کردار سے اس درجہ مسخر ہوگئے کہ جب وہ تین سال کے بعد حجاج بن یوسف کے حکم سے عرب واپس لوٹتا ہے تو انہوں نے دیوتا سمجھ کر اس کے بت بنالئے۔
اسلام نے مخلوق خدا کے لئے نفع بخشی کا جو اصول دیا وہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی یکساں کارفرما تھا اور اس سلسلے میں تاریخ اسلام کا ایک واقعہ جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے نقل کیا جاتاہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں شہرِ مدینہ کے اندر کسی کنویں کا پانی میٹھا نہ تھا۔ مدینہ منورہ سے چار میل کے فاصلے پر ایک میٹھے پانی کاکنواں کسی یہودی کی ملکیت تھا جو مہنگے داموں پانی بیچتا تھا۔ مسلمان بامر مجبوری چار میل کی مسافت طے کر کے مشقت اٹھاتے اور پانی خرید کر لاتے۔ ایک دفعہ اس یہودی کی رگِ خباثت پھڑکی اور اس نے اپنے ہم مذہبوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو پانی سے محروم کرنے کے لئے زیادہ دام وصول کرنا شروع کردیئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کے ہاتھوں مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھا تو آپ نے اپنے گرد جان نثار صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا کہ :
’’تم میں سے کون ہے جو میرے ہاتھ سے جنت خریدنا چاہتا ہے؟‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جو صحابہ میں زیادہ مال دار تھے دست بستہ عرض کرنے لگے، ’’آقا! غلام حاضر ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’اگر تم اس یہودی سے آدھا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار درہم کے عوض اس یہودی سے آدھا کنواں خرید لیا اور اسے مدینہ کے مسلمانوں کے لئے عام وقف کردیا۔ اب مسلمانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق بغیر کسی روک ٹوک اور دشواری کے پانی میسر آتا اور ان کی ضرورت سے فاضل پانی بچ رہتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کے یہودیوں کو دعوت دی کہ جب مسلمان اپنی ضرورت کا پانی لے لیا کریں تو تم بھی اس میں سے پانی بھر لیا کرو۔ چنانچہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش کش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودی سے پانی خریدنا بند کردیا اور مفت پانی بھرنے لگے۔ اس طرح یہودی کا کاروبار مندا پڑگیا۔ وہ شکوہ کناں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’یا تو آپ یہودیوں کو پانی مفت دینا بند کردیں یا بقیہ کنواں بھی مجھ سے خرید لیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم یہودیوں کومفت پانی دینا بند تو نہیں کرسکتے البتہ بقیہ آدھا کنواں خریدنے کی بات ممکن ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی تکمیل میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے بقیہ کنواں بھی آٹھ درہم پر یہودی سے خرید لیا اور اسے اہل مدینہ کے لئے وقف کردیا۔
اس واقعہ سے اسلام کا تصورِ ملکیت واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی تہہ مین مخلوقِ خدا کی بہتری اور فلاح کا فلسفہ مضمر ہے۔ جب تک مسلمانوں میں اس تصور کی کارفرمائی رہی وہ عظمت و شوکت کے بامِ عروج پرمتمکن رہے اور دنیائے شرق وغرب ان کے زیرنگیں رہی۔ جب اس تصور کی گرفت ڈھیلی پڑگئی تو عزت و شوکت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور نتیجتاً ان کی عظمت قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔
تبصرہ