شہر اعتکاف 2012 ( تیسرا دن)
خطاب شیخ الاسلام
23 رمضان المبارک 12 اگست 2012ء کو شہر اعتکاف میں تیسرا روز تھا جہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز فجر کے بعد نیت کے موضوع پر درس تصوف دیا۔ آپ نےلندن میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے سنٹر سے خطاب کیا، جسے منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست پیش کیا گیا۔ انڈیا میں بھی مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے شیخ الاسلام کا خطاب خصوصی طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
شیخ الاسلام نے نیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک عمل میں بہت سے نیتوں کو شامل کیا جاسکتا ہے، گویا ایک عمل کی شکل میں کثیر اعمال صالحہ کا ثواب جمع ہوجاتا ہے۔ جو ایک گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوجاتا ہے۔ نیت جتنی صاف اور خالص ہوتی جائے، اس میں سے دنیا کا لالچ، حسد، بغض اور طمع نکل جائے، لوجہ اللہ ہو جائے تو پھر اس نیت کا اجروثواب بغیر حساب اور بغیر شمار کے آگے بڑھ جاتا ہے۔
مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھتے وقت آپ دوسری نیتیں بھی کر لیں تو مفت میں ثواب بڑھ جاتا ہے۔ یہ نیت کے سبب اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بہانے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ صرف ایک غیبت کی وجہ سے ہمارا سب کچھ لٹ جاتا ہے۔ حسد، بغض اور غیبت سے یہ وہ روئی کے پہاڑ ہیں، جن سے جتنی نیکیاں بھی ہوں، سب جل کر راکھ ہوجاتی ہیں۔ آپ اپنی برائیوں پر نگاہ کریں، دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کا ٹھیکہ آپ کو کس نے دیا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ صرف غیبت کو ترک کر دینا ایک ہزار رکعت نفل سے زیادہ افضل کام ہے۔ دین ہمارے ظاہر و باطن کو اتنا اجلا کرنا چاہتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اس کی فکر ہی نہیں کرنا چاہتے۔
دوسری جانب ہماری نیتوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ آج کچھ لوگ دین کے نام پر منگتے بن گئے ہیں۔ دین کی خدمت کے نام پر علماء کا یہ حال ہے کہ ان سے ٹائم لیں تو وہ لاکھوں روپے لیتے ہیں۔ حضور کی سنت اور دین کا نام لینے والوں کو شرم نہیں آتی کہ وہ دین کوچند ٹکوں میں بیچ رہے ہیں۔ ٹکے ٹکے پر نماز جمعہ بیچنے والوں اور گانا بجانے والوں میں فرق کیا رہ گیا؟ یہ وباء ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح نعت خوانوں کا حال بھی یہی ہے۔ قاری قرآن کی قرات کا ریٹ مانگتے ہیں۔ کیا آقا علیہ السلام نے امت کو یہ تلقین کی تھی، کیا امام اعظم، امام شافعی، امام ابوطائی، سرکار غوث الاعظم کا یہ عالم تھا کہ وہ دین کو بیچتے تھے۔ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔ پٹکے گلے میں ڈال کر اور بڑی بڑی لمبی داڑھیاں رکھ کر ڈالر لیے بغیر آپ دین کی خدمت نہیں کرتے۔ ان لوگوں نے مسلک اہلسنت کو برباد کردیا اور نوجوان نسل کو دین سے بیزار کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستانی سوسائٹی میں اتنی بے حسی اور درندگی آ گئی ہے کہ لوگ قتل و غارت پر ٹس سے مس نہیں ہوتے جب تک کسی کا اپنا نقصان نہ ہو جائے، یہ اسی درندگی اور بے حسی کا نتیجہ ہے کہ ہم پر عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ حق تلف معاشرہ بن گیا ہے۔ لیکن قوم ظلم کو روکنے کے لیے اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستانی قوم پر زمین اور آسمان سے عذاب ہیں، دہشت گردی، قتل و غارت، لوڈشیڈنگ، پانی کا نہ ملنا، عدل کا نہ ملنا، تعلیم کے لیے پیسے نہ ہونا، بے روزگاری یہ سب عذاب ہیں، جن کو پاکستانی قوم نے قبول کر لیا ہے۔ قوم میں حس ختم ہو گیا، شعور ختم ہوگیا، جس کے پاس پیسہ ہے، کھانے کو ملتا ہے تو وہ خاموش ہے۔ ساٹھ فیصد ایسے لوگ ہیں جو متوسط طبقے سے ہیں، وہ بھی ظلم کے خلاف نہیں اٹھ رہے۔ پاکستان میں جمہوریت ایک فراڈ کا نام ہے۔ جو دھن، دھونس اور دھاندلی ہے۔ بیس بیس کروڑ روپے لگا کر ایک حلقے کا الیکشن لڑا جاتا ہے۔ نہ کوئی ڈاکٹر، نہ کوئی صحافی، نہ سائنسدان، نہ ماہر تعلیم، نہ سفید پوش، نہ علم معشیت کا ماہر، نہ کوئی قابل شخص الیکشن لڑ سکتا ہے۔ اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ چار سال بعد بھی پھر اسی الیکشن کا انتظار کرتے ہیں۔ قوم ان لوگوں کا انتظار کرتی ہے، جنہوں نے اس قوم سے جینے کا حق چھین لیا، بجلی چھین لی، کھانا چھین لیا اور پھر قوم الٹ پلٹ کر کے ان بدمعاشوں، غنڈہ گردوں کو منتخب کرلے گی۔ اگر قوم کا یہی رویہ برقرار رہا تو اللہ کا عذاب قوم سے نہیں اٹھے گا۔
ملک میں قوم اس ظلم کو پہچانو، اس ملک میں کوئی پارٹی تمہاری دشمن نہیں، نہ پی پی، نہ مسلم لیگ، نہ اے این پی، نہ کوئی دوسری سیاسی جماعت تمہارا دشمن ہے۔ بلکہ تمہارا دشمن اس ملک کا نظام انتخاب ہے۔ ایک فیصد ملک کے عیاشوں کی جمہوریت اس کی ذمہ دار ہے۔ جس کے پیچھے ہزار، دو ہزار غنڈے نہ پالے ہوئے ہوں تو وہ اس ملک میں الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ اگر قوم ظلم کے خلاف نہیں اٹھے گی تو پھر رب کا عذاب پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ مجھے بہت لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ بات کرتے ہیں تو خود پاکستان آ کر اس نظام کے خلاف قیادت کریں تو میں کہتا ہوں پہلے یہ قوم تیار توہو، میں خود ان میں ہوں گا، ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، ظالموں کے منہ سے لقمہ چھین لوں گا، آج قوم کا بچہ بچہ رو رہا ہے۔ کارکنوں، 4 نومبر کو میں پاکستان آرہا ہوں، اس دن میرے استقبال کے لیے نہیں بلکہ انقلاب کے نقطہ آغاز کے لیے آؤ۔ مجھے کسی استقبال کا شوق نہیں، آپ انقلاب کے استقبال کی بنیاد رکھیں۔ لاکھوں کے حساب سے قوم کو انقلاب کے لیے باہر نکالو، انقلاب کے سفر کے آغاز کے لیے باہر آؤ، شاید وہ دن پاکستان کے مقدر بدلنے کا آغاز ثابت ہو۔ اگر ایسا ہوا تو شاید میں 1947 جیسے دور سے ایک نیا پاکستان کی بنیاد رکھ سکتا ہوں۔ ہمارے ہاتھ غریبوں کے لیے نرم اور متکبروں، جابروں اور بدمعاشوں کی گردنیں مروڑ کر رکھ دیں گے۔
تبصرہ