چوبی ہتھوڑا، سٹک اور گیند
تحریر : حسنین جاوید
جمہوریت حقیقی روح کے ساتھ ہو تو معاشرے ترقی کرتے ہیں اورعوام ملکی ترقی میں براہ راست شریک ہو کر نہ صرف ملک کو مستحکم کرتے ہیں بلکہ خود بھی خوشحال رہتے ہیں۔ تبدیلی بے حس اور مردہ سوچوں کے اندر احساس کو زندہ کر کے لائی جاتی ہے مگرجمہوریت کی جو شکل وطن عزیز میں نظر آتی ہے اس میں انتخابات کے ذریعے کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔ پاکستان میں تبدیلی کے نام پر عوام کو انصاف کی تحریک دینے والوں نے میدان سیاست کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حقائق کافی مختلف ہیں۔ آج تک کوئی حقیقی لیڈر عوام میں سے نہیں ہوا۔ اشرافیہ کے بچے آکسفورڈ سے پڑھ کر غریب عوام پر حکمران تو ہو تے رہے مگر کبھی ان کے مسیحا نہیں بن سکے۔ بھٹو نے اپنی جان صرف بھٹو کو امر کرنے کیلئے دی تھی، اس لئے سوشلسٹ اور سونامسٹ کے مائینڈ سیٹ کبھی مختلف نہیں ہو سکتے۔ ایسے ذہن زندگی میں چند کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اپنے دماغ کو اس طرح Dictate کرتے ہیں کہ ان کی تخلیقی صلاحیت میں جمود پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ ’’وہ جو کہتا ہے صحیح کہتا ہے اور جو وہ کرتا ہے،یقیناً ٹھیک کرتا ہے‘‘ اس مخصوص رویے کوسائکالوجسٹس Self obsession کا نام دیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے انسان میں مزید سیکھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور جو کچھ وہ سیکھ چُکا ہوتا ہے اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص کا دماغ نفسیاتی جیل بن جاتا ہے۔ اس لئے اکثرمذہبی، سیاسی پارٹی کے سربراہ اور کسی تنظیم کے مالک کے فیصلوں پر انکی شخصیت کی جمودیت صاف نظر آتی ہے، ایسے لوگ اپنے آپ کے خود دشمن ہوتے ہیں۔ ہٹلر کو خود ہٹلر اور بھٹو کو خود بھٹو نے مارا اس لئے آنے والا کل یہ بھی بتا دے گا عمران کا دشمن بھی عمران خان ہی ہے۔ نام نہاد جمہوری پارٹیوں میں پالیسیاں یا اسکا منشور کوئی کردار ادا نہیں کرتا بلکہ اس پارٹی کے قائد کا مائینڈ سیٹ اس مخصوص پارٹی کی فکر اور سوچ کی شکل میں سیاسی پارٹی کی مشکل بن جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ غلاموں کو اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق آقا کی تلاش ہوتی ہے۔ سو جس کا جو مزاج ہو وہ ایسا قائد چُن لیتا ہے۔ گذشتہ دور میں آزاد منش کو ’’روشن خیال ‘‘ مشرف بھاتا تھا اسکے جانے کے بعد انکی سوچوں کو عمران کی شکل میں جائے پناہ میسر آ گئی۔ تجارت سے وابستہ افراد کو نواز شریف کے مزاج سے قربت ہے اسی طرح ہاریوں کو جب تک وڈیروں کا ٹھڈا نہ لگے، انہیں چین نہیں آتا۔
پاکستان کا نظام انتخاب ایسا عفریت ہے جس کے قریب کوئی صاحب عقل شخص تو نہیں پھٹکتا البتہ سادہ لوح اکثریت اس کا شکار ضرور ہوتی رہی ہے۔ جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ نظام ہی جمہوریت اور عوام کا اصل دشمن ہے انکی تعداد نوابوں،راجوں، رانوں، کھوسو، چودھریوں، ککے زئیوں، شیخوں اور بے شمار ذاتوں کی نمائندہ برادریوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن جیتنے کا فارمولہ آسان اور دلچسپ ہے۔ برادریوں کو خریدنے کے عوض چند سڑکیں پکی کروا دینا، ٹرانسفارمر لگوا دینا، نالیاں بنوانا اور سیوریج ڈلوانا، الیکشن کے قریب چند سو خاندانوں کو راشن تقسیم کر دینا اور بچے کچھے دیگر لوگوں کو وعدوں کا لالی پاپ دے دینا۔ اس طرح یوسی سطح پر تمام سیاسی پارٹیاں یہ سارا بندوبست کر کے رکھتی ہیں۔UC سطح پر اپنی پارٹی کو متحرک رکھنا ایک سائنس کا نام ہے جس پر سالوں کی محنت درکار ہے۔ ایم این اے بن جانا اتنا سہل نہیں ہے اس کے تقاضے پورے کر لئے تو منسٹر بننے کیلئے پارٹی میں اثر و رسوخ بھی چاہیے۔ اسکے بعد بھی ٹی وی ٹاک شو میں بیان دینا جیسے شغل سے کام نہیں چلتا بلکہ حلقے کو پکا رکھنے کیلئے اپنے بھائیوں اور کزنز اور دیگر افراد کو علاقے میں معمولات پر مامور کرنا ضروری ہوتاہے۔ شادیاں، جنازے، قل، افتتاح اور دیگر سرگرمیوں میں ناگزیر حد تک شرکت ہی الیکشن میں کامیابی کا گُر سمجھے جاتے ہیں۔ کرپشن اس لئے بھی ضروری ہے کہ اچھی منسٹری کی قیمت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ حلقے کی سیاست حبس زدہ ذہنی و معاشرتی رویہ ہے جس کو اعلیٰ تعلیم یافتہ، باکردار، جدت پسند اور اعلیٰ روایات کا حامل شخص اس نظام کا حصہ بن کر نہیں بدل سکتا۔ جو درج بالا عناصر کا حامل ہو گا اس کیلئے اس سسٹم میں ناکامی ہی لکھی ہے۔ پاکستان کی سیاست عجیب ترین نہیں، غلیظ تر ہے۔ خدا نہ کرے منافقت، عہد شکنی، چغلی اور دیگر اخلاقی برائیاں پاکستانی قوم کی فطرت بن چکی ہوں۔ کیونکہ جبلت اور فطرت یقینا نہیں بدلتی۔سادہ سا اصول ہے کہ عوام منافق ہوں گے تو حکمران بھی اسی ’’خصلت‘‘ کے حامل ہوں گے۔ اگر موجودہ انتخابی نظام کے تحت الیکشن ہوئے اور عوام نے عمران کو منتخب کر لیا (جسکا امکان انتہائی کم تر ہے) تو بھی قانون فطرت ہی کی تصدیق ہو گی (اللہ کو رحم آجائے تو اور بات ہے)۔ کیونکہ اس انتخابی نظام میں خیر کا عنصر ڈھونڈے نہیں ملتا۔قانون قدرت ہے کہ اگر بیج صحت مند ہو گا تو مستقبل کا درخت تن آور اور زیادہ پھل دار ہو گا۔ موجودہ نظام انتخاب فساد کی اصل جڑ ہے پہلے اس سے جان چھڑا کر وہ نظام لانا ہو گا جو عوام کی ذہنی سطح کے مطابق ملکی مسائل کا حل دیتا ہو۔ کار میں ہوائی جہاز کا انجن لگا دیں تو کار کبھی نہیں چلے گی موجودہ نظام ترقی یافتہ ملکوں والا ہے اور عوام کی اکثریت جاہل ہے اس لئے 1 فی صد مقتدر طبقہ ہی مسلسل پارلیمنٹ میں پہنچ رہا ہے۔ موجودہ نظام کے تحت الیکشن کا تسلسل عوام اور ملک کے ساتھ’’بڑا ہاتھ‘‘ کرنے کے مترادف ہو گا۔
ان حالات میں اعلیٰ عدلیہ،فوج اور میڈیا اہم ادارے ہیں جنہیں ملک کے نازک ترین حالات کے تناظر میں کڑوے فیصلے کر کے ان کو عمل کا روپ دینا ہو گا ۔یہ ان کا ملک و قوم پر احسان نہیں ہو گا بلکہ انکا فرض ہے اور اب اس فرض سے پہلو تہی کی گنجائش نہیں ہے۔چاہے عبوری سیٹ اپ ہی اس کا واحد حل ہواور اس سیٹ اپ کا لیڈر ایک ایسا شخص ہو جو ملک میں مسلکی اختلافات کو ختم کر سکے،نفرت انتہا پسندی اور تشدد کے جلتے ماحول میں محبت،سلامتی اور برداشت کے کلچر کو عام کر سکے۔ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے موثر پروگرام دے سکے۔ملک کے ٹیلنٹ کا اعتماد بحال کر کے برین ڈرین کا سد باب کر سکے۔بے روزگاری کا جلتا الائوٹھنڈا کر سکے اور قوم کو تعلیم ،صحت اور رہائش کی بنیادی سہولتیں بہم پہنچا سکے۔ اور ایسی انتخابی اصلاحات کر جائے کہ ملک حقیقی جمہوریت کی طرف چل پڑے۔ملک کو آج ایسے ریفارمر کی ضرورت ہے جو ملک کی ڈوبتی کشتی کو کنارے کی درست سمت دے سکے۔جسکی ترجیح سیاست نہیں ریاست ہو۔ریاست کو بچانا اسے استحکام کی طرف لے جانا اسکا مشن ہو۔ان ساری خوابیوں کی حامل ایک شخصیت آج کے کرب ناک حالات میں 23دسمبر کو وطن واپس آ کر قومی ایجنڈے کا اعلان کرنے والی ہے اور اس کی آمد موجودہ نظام کے ساتھ چمٹے سٹیٹس کو کیلئے بہت تکلیف کا باعث بن رہی ہے۔ان کی آمد پر چیں بہ جبیں ہونے والے غلط نہیں ہیں کیونکہ جو ایجنڈاوہ لے کر آ رہے ہیں اس میں ایسوں کیلئے تو رتی کی گنجائش بھی نہیں بنتی اس لئے رد عمل کا آنا تو فطری بات ہے۔
حالات چوبی ہتھوڑے اور سٹک سے متقاضی ہیں کہ وہ مل کر ایسے فیصلے پر پہنچیں جو قوم اور ملک کو قیادت کے بد ترین بحران سے باہر نکال سکے۔دونوں اداروں کو توجہ اور سنجیدگی سے 23دسمبر کو ڈاکٹر طاہر القادری کو میرٹ پر سننا ہو گا کیونکہ وہ اس قوم کے مسیحا ہونے کی تمام تر خوبیوں سے لیس ہیں۔انکے پاس علم و حکمت ،بصیرت،معاملہ فہمی،اعتدال اور امن و سلامتی کے وہ سارے تیر موجود ہیں جو ملک میں پائے جانیوالی صحت مند ترین مافیاز کا جسد بتدریج تار تار کر سکتے ہیں۔ اب گیند دونوں اعلیٰ اداروں کے کورٹ میں ہے۔
تبصرہ