قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی یاد گار کو نقصان پہنچانا پاکستان کے نظریے پر حملے کے مترادف ہے۔ رحیق احمد عباسی
نئی نویلی نام نہاد جمہوری حکومت کوئٹہ سانحہ پر اپنی ناکامیوں
کا جواز تلاش کر رہی ہے
معصوم طالبات کی زندگیوں کا چراغ بجھانے والے انسان کہلانے کے مستحق نہیں
ایسا کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا جس سے ظاہر ہو کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے
سنجیدہ ہے
پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا ہے کہ بلوچستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ نااہل سیاستدانوں کی غلطیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ زیارت میں بانی پاکستان کی قیام گاہ پر حملہ قومی سانحہ ہے۔ قائداعظم کی رہا ئش گاہ دنیا بھر میں بلوچستان کی پہچان اور امتیاز تھا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اس یاد گار کو نقصان پہنچانا پاکستان کے نظریے پر حملے کے مترادف ہے۔ جہاں پاکستان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے قائداعظم کی ریزیڈنسی کو آگ لگا کر قومی ورثے کی حیثیت رکھنے والی ایک علامت کی توہین کی ہے۔ تو وہاں ایک شر پسند گروہ نے پاکستان کی بیٹیوں پر وحشیانہ حملہ کر کے انسانیت کا چہرہ بھی مسخ کر ڈالا ہے۔
وہ گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں منعقدہ تعزیتی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ جبکہ اس موقع پرخرم نواز گنڈا پور، عاقل ملک، جواد حامد، فیاض وڑایچ، فیض گجر اور حافظ غلام فرید بھی موجودہ تھے۔
انہوں نے کہا کوئٹہ میں دہشت گردی کرنے والے ان انسانیت دشمنوں نے عالمی برادری میں پاکستان کا چہرہ شرم سے جھکا دیا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، لٹ رہے ہیں، والدین کی امیدوں کے چراغ ان کی آنکھوں کے سامنے بجھائے جا رہے ہیں۔ قومی املاک اور ہسپتالوں کو بھی تباہ و برباد کر کے راکھ کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے لیکن آج تک تباہی و بربادی کے ذمہ داروں کو تلاش کرنے میں پاکستان کی تمام سیاسی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ نئی نویلی نام نہاد جمہوری حکومت بھی ان سانحات پر اپنی ناکامیوں کا جواز تلاش کر رہی ہے۔ بابائے قوم کی تاریخی رہائش گاہ کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے۔ معصوم طالبات کی زندگیوں کا چراغ بجھانے والے انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس کے باوجود کسی بھی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آئی۔ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد ملکی قیادت اسکی مذمت کرتی ہے اور دہشت گردوں کے سامنے نہ جھکنے کا اعادہ کیا جاتا ہے، اسی طرح زیارت اور کوئٹہ کے سانحات کے بعد بھی کیاگیا۔ لیکن ایسا کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا جس سے ظاہر ہو کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہے۔ بلوچستان کے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات وقت اور حالات کا ناگزیر تقاضا بن چکے ہیں۔
تبصرہ