علامات فتن اور موجودہ حالات (شیخ الاسلام کا معتکفین سے خطاب)
علامات فتن اور موجودہ حالات
(اعتکاف 2013ء، خطاب نمبر: Ha–91)
خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مقام: جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن لاہور
تاریخ: 31 جولائی 2013ء
ناقل: محمد خلیق عامر
فرید ملّت رح رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمده ونصلی ونسلم علی سيدنا ومولنا محمد، رسوله النبی الامين المکين الحنين الکريم الرؤف الرحيم، وعلی آله الطیّبين الطّاهرين المطهرين وصحبه الکرام المتّقين المخلصين المکرّمين وأولياء أمته والصّالحين و علماء ملّته والعاملين وعلينا معهم أجمعين إلی يومِ الدين. أما بعد:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَهَاتَيْنِ. قَالَ: وَضَمَّ السَّبَابَةَ وَالْوُسْطٰی. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم بعثت أنا والساعة کهاتين، 5 / 2385، الرقم: 6139، ومسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب قرب السّاعة، 4 / 2269، الرقم: 2951، والمقري في السنن الواردة في الفتن، 4 / 761، الرقم: 374.
معزز معتکفین و معتکفات، جملہ مشائخ عظام، علمائے کرام، خواتین و حضرات، عزیز طلباء و طالبات، سامعین و سامعات، شرق تا غرب پوری دنیا میں ٹی وی نیٹ ورک کے ذریعے اس عظیم روحانی اجتماع میں حاضرین و حاضرات! اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق نے ہمیں دین کی محبت اور معرفت اور اپنی راہ پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائی اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اللہ رب العزت کے در پر اس کے منگتے بن کے بیٹھے ہیں اور پوری دنیائے اسلام میں مساجد میں جتنے لوگ اس عشرہ مبارکہ میں اللہ کے حضور معتکف ہیں یہ سب نعمت اللہ کی توفیق کے بغیر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
تحریک منہاج القرآن کو، اس صدی کی عظیم احیائے اسلام اور تجدید دین کی تحریک کو، اس صدی کی عظیم اصلاح احوال امت کی تحریک کو، اس صدی کی عظیم فروغ و اشاعت دین کی تحریک کو، اس صدی کی عظیم اقامت و غلبہ دین حق کی تحریک کو یہ شرف حاصل ہے کہ حرمین شریفین کے بعد ہر سال عالم اسلام کا سب سے بڑا اعتکاف منہاج القرآن کے اس مرکز پہ ہوتا ہے اور پھر اضافتاً آپ کو قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤ الدین الگیلانی، البغدادی قدس سرہ العزیز کا سایہ عاطفت نصیب ہوتا ہے۔ اور پھر آپ سلطان الاولیاء، سید العارفین امام الکاملین حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ کی بستی میں معتکف ہوتے ہیں اور حضور سیدنا غوث الاعظم غوث الثقلین، ملحق الاصاغر بالاکابر سلطان الکل سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ ان کی فیوضات اور ان کی توجہات میں سے حصہ پاتے ہیں۔
اور جمیع اولیائے امت اور مشائخ ملت اور تمام طرق و سلاسل سلوک و طریقت کے اولیاء طریقہ قادریہ، طریقہ چشتیہ، طریقہ نقشبندیہ، مجددیہ، سہروردیہ، طریقہ شاذلیہ، رفاعیہ سمیت دنیا کے جتنے سلاسل اور طرق ہیں صوفیاء کے ان اولیاء اور صالحین کی توجہات و برکات میں سے حصے پاتے ہیں۔ چونکہ اس تحریک پر جمیع اولیاء امت کا سایہ ہے اور یہ مجمع البرکات ہے۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں یہ تحریک منبع الحسنات ہے اور مصدر الخیرات ہے۔ اس سے خیرات کے چشمے پھوٹ رہے ہیں، نیکیوں کے، تقوی و پرہیزگاری کے، علم و معرفت کے چشمے ابل رہے ہیں اور لاکھوں انسان اس تحریک کی کاوشوں سے راہ راست پہ آ رہے ہیں۔ انہیں کھویا ہوا دین واپس مل رہا ہے۔ ان کے بگڑے ہوئے عقائد سنور رہے ہیں۔ وہ بھولے بھٹکے لوگ جو بدعقیدگی کا شکار ہو گئے تھے وہ پلٹ کر پھر سوئے گنبد خضری چل پڑے ہیں، ان کا تاجدار کائنات سے ٹوٹا ہوا تعلق غلامی جڑ رہا ہے، ان کا اللہ جل مجدہ کے حضور ٹوٹا ہوا ربط بندگی جڑ رہا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ مشرق سے مغرب تک، یہ صرف اب اہل پاکستان کی بات نہیں جو تحریک منہاج القرآن کی برکتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں، پورا ہند، سرزمین ہند کا قریہ قریہ، شہر شہر اس کے فیوض و برکات سے متمطع ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش کا شہر شہر، قریہ قریہ، افغانستان کا شہر شہر قریہ قریہ اس سے بڑھ کے اب ایران، پھر عالم عرب، مشرق وسطی پھر اس کے بعد مصر سے لے کے مغرب، الجزائر، سوڈان، شرق تا غرب جتنے بلاد عالم ہیں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں تک نہ صرف اس مشن کی آواز پہنچ رہی ہے۔ ہمارے اس تحریک سے جنم لینے والی کتب، مصنفات اور مولفات، تفسیر میں علوم قرآن میں حدیث میں۔ ڈیڑھ سو کتب صرف علم الحدیث میں لکھی گئی ہیں جو پچھلے کئی سو سال کی تاریخ میں کوئی زمانہ اس کی مثال پیش نہیں کرتا۔ اللہ رب العزت نے شرف تحریک منہاج القرآن کو عطا کیا۔ سلوک میں، معرفت میں سیرت و تاریخ میں، علم قرآن میں تفسیر میں، فقہ میں الغرض علوم جدیدہ میں علوم قدیمہ میں ایک ذخیرہ ہے پانچ سو کتب کا جو دنیا کی مختلف زبانوں میں چھپ چکا ہے۔ عربی، انگلش، اردو، ہندی، نارویجن، ڈینش، فرینچ، سپینش میں۔
آپ تصور نہیں کر سکتے کہ دنیا کی کس کس زبان میں تحریک منہاج القرآن سے جو علم کے چشمے نکل رہے ہیں ان کے ترجمے ہو کر پورے آفاق عالم کے کونے کونے کو منور کر رہے ہیں۔ عرب و عجم استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ تحریک عالمی سطح پر احیائے اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ اہل پاکستان کو مبارک ہو جن کو اس کا فہم ہے یا نہیں یہ نصیب کی بات ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہویں کا چاند انگشت مبارک سے ٹکڑے کر کے دکھا دیا تھا جن کا نصیب تھا ایمان لے آئے جن کا نصیب نہ تھا کافر کے کافر رہے۔ ڈوبے سورج کو پلٹا کے دکھا دیا تھا نصیب والے مومن ہو گئے بد نصیب کافر رہے۔ پتھروں نے سلام پڑھ کے دکھا دیا تھا، درخت سجدہ ریز ہو گئے تھے، کنکریاں پڑھتی تھیں، اونٹ بکریاں سجدہ کرتے تھے۔ زمین سے آسمان تک معجزات ہی معجزات تھے مگر جن کا نصیب تھا مان گئے جو بد نصیب تھے ان کی آنکھوں پہ پردے رہے۔ ہماری حیثیت کیا ہے۔
ہم تو آقا علیہ السلام کے ادنی غلاموں کی آخری قطار میں بھی کھڑے کیے جانے کے قابل نہیں۔ ہم تو کوئے مصطفی کے سگوں میں سے ہیں، ہم تو کوڑا کرکٹ بھی نہیں ہیں لہذا یہ سب فیض مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، یہ فیض صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے، یہ فیض فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہے، یہ فیض عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہے، یہ فیض علی شیر خدا رضی اللہ عنہ ہے، یہ فیض حسنین کریمین ہے، یہ فیض اویس قرنی ہے، یہ فیض امام جعفر الصادق ہے، یہ فیض امام اعظم ہے ،یہ فیض فضیل ابن عیاض، ابراہیم بن ادھم، بشر الحافی، ذوالنون مصری، غوث اعظم، خواجہ اجمیر، داتا ہجویر، شیخ سرہند ہے۔ ارے لوگو یہ ایک کائنات ہے فیوضات کی جس وجہ سے شرق سے غرب تک اس تحریک کے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور کروڑوں لوگ اپنے سینے جہالتوں اور ضلالتوں سے پاک کر کے ایمان کے نور سے چمکا رہے ہیں۔ جن کے پردے اٹھ گئے انہیں ان کی قدر ہے جو اندھے ہیں ان کی ناقدری سے فرق نہیں پڑتا۔ جنہوں نے نہیں ماننا تھا وہ حسین کو نہیں مانے، انہوں نے حسین کا سر قلم کر دیا، انہوں نے علی اکبر و علی اصغر کو شہید کر دیا، انہوں نے سیدہ زینب اور امام زین العابدین کو قیدی بنا دیا۔ جنہوں نے نہیں ماننا تھا وہ غوث الاعظم کو نہ مانے، نہیں ماننا تھا خواجہ اجمیر کو نہ مانے۔ ہماری تو حیثیت ہی کچھ نہیں ہے۔ ہم تو ان کے غلاموں کی آخری صف میں، جوتوں کی جگہ بیٹھنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ ہم کیا ہیں، تنکوں کی حیثیت بھی نہیں، اس سے بھی ہلکے ہیں۔ لہذا ہر کسی کو ہر کوئی نہیں مانتا اگر ہر کوئی مانتا تو معجزات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ کر کوئی ابو جہل نہ رہتا، ابولہب نہ رہتا اور تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ نہ اترتی اور اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُ کا نزول نہ ہوتا۔
اگر ہر کوئی مان لیتا تو پھر کوئی یزید نہ رہتا۔ کوئی فرعون نہ رہتا، کوئی قارون نہ رہتا یہ نصیب کی بات ہے۔ آج کا دور فتن کا دور ہے، حق و باطل کی جنگ ہر دور میں رہی۔ حضرت نوح علیہ السلام کے خلاف بھی تھی، حضرت ابراہیم کے خلاف بھی تھی، ادھر ابراہیم تھے ادھر نمرود تھا، ادھر موسی تھے ادھر فرعون تھا۔ حق و باطل کی جنگ ہر دور میں رہی، اس دور میں فتنوں کا غلبہ ہو گیا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج کے اس دور فتن میں حق کے چراغ جلا رہے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج فتنوں کے دور میں نور کے چراغ لے کر اندھیروں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن نے الحمد للہ تعالی دینی، دنیوی ہر اعتبار سے اصلاح کا بیڑا اٹھایا، فریضہ نبھا رہی ہے اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں، مصطفوی انقلاب کے پروانو! جب انشاء اللہ غلبہ دین حق کی منزل آپ کو نصیب ہو گی۔ پچھلے سال دسمبر اور جنوری میں ہم نے اذان دی تھی جماعت ابھی باقی ہے۔ اذان دینے والا مؤذن جماعت کے کھڑے ہونے تک درمیان میں شور شرابا نہیں کرتا۔ وہ ایک بار اذان دیتا ہے پھر چپ کر کے بیٹھ جاتا ہے، جب صفیں بن جاتی ہیں اور ایک کروڑ نمازی تیار ہو جاتے ہیں، جب تیار ہو جائیں گے تو اقامت کہی جائے گی اور اقامت کے نتیجے میں جب ایک کروڑ نمازی کھڑے ہو جائیں گے تو پھر جماعت قائم ہو گی اور جس دن جماعت قائم ہو گی اس دن باطل خس و خاشاک اور تنکوں کی طرح بہہ جائے گا اور دین حق کے غلبے کا جھنڈا لہرائے گا۔
ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہیں الجھتے، ہم سنار کی ٹھُک ٹھُک نہیں کرتے، ہم لوہار کی ایک ہی لگائیں گے۔ پہلے اذان دی، دنیا نے جان لیا کہ یہ تحریک اور اس کے کارکن اٹھ جائیں تو دنیا کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں، زلزلہ بپا کر کے رکھ دیتے ہیں اور خدا کا شکر ہے ابھی میں جوان ہوں، میرے عزم اور ولولے میں کمی نہیں ہے، جب جماعت کا وقت آئے گا تو جماعت کھڑی ہو گی اور ان شاء اللہ تعالی ظلم و استبداد، جبر و بربریت اور گمراہی و ضلالت کے بادل چھٹ جائیں گے اور آسمانوں پر مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہو گا۔ آپ کا کام اس اعتکاف کو اتنا بڑھانا ہے کہ وقت آنے پر پورا پاکستان اعتکاف گاہ بن جائے۔ یہ چند ابتدائیہ کلمات تھے۔ آپ نے کروڑ نمازی تیار کرنے ہیں، وہ کروڑ نمازی جو اقامت پر کھڑے ہو جائیں۔
معزز خواتین و حضرات! آقا علیہ السلام نے فرمایا: میں اس وقت میں مبعوث ہوا ہوں کی میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح قریب ہیں۔ آقا علیہ السلام نے ان دو انگلیوں باہم جوڑ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کے اس دور میں قرب قیامت کے آثارن نمودار ہونے لگ جائیں گے۔ وہ آثار جنہیں حضور علیہ السلام نے فتنہ کہا، فتنوں کا وہ دور شروع ہو چکا۔ آج ہم ان فتنوں کا ذکر کریں گے اور آپ جائزہ لیں گے کہ آقا علیہ السلام کی بصیرت کا کیا عالم ہے۔ جو کچھ آج ہو رہا ہے اس کو آنکھوں کے سامنے رکھیے، جو کچھ آقا علیہ السلام نے فرمایا ہے، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ایک ایک لفظ غور سے سنتے جائیے اور دکھیے کہ ہے کوئی ایک چیز جو فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف ہو، جس کی آقا علیہ السلام نے پیشگی خبر نہ دے دی ہو، آج رات ان فتنوں کا ذکر ہو گا۔ پھر ان فتنوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے اس کا ذکر کل رات سے شروع ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالی۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوْسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب کيف يقبض العلم، 1 / 50، الرقم / 100، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضه وظهور الجهل، 4 / 2058، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في ذهاب العلم، 5 / 31، الرقم / 2652، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب اجتناب الرأي والقياس، 1 / 20، الرقم / 52، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 455، الرقم / 5907، والدارمي في السنن، المقدمة، باب في ذهاب العلم، 1 / 89، الرقم / 239، وابن حبان في الصحيح، 10 / 432، الرقم / 4571، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 21، الرقم / 55.
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
ارشاد فرمایا:
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ:
حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قیامت سے قبل جو فتنے ظاہر ہوں گے اور جس دور فتن میں ہم اس وقت موجود ہیں۔ ارشاد فرمایا: کہ ان میں ایک بہت بڑا فتنہ یہ ہو گا کہ
إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ
فرمایا کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ علم دنیا اس طرح نہیں اٹھایا جائے گا کہ لوگوں کے سینوں میں سے چھین لیا جائے، نکال لیا جائے نہیں، بلکہ علماء ربانیین، سچے حاملان علم، سچے وارثان علم یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے۔ جب علم محمدی کے سچے وارث یکے بعد دیگرے دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے تو اس طرح گویا ان علماء ربانیین کے دنیا سے اٹھ جانے سے علم بھی اٹھ جائے گا، علم حق اٹھ جائے گا۔ اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
حَتّٰی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوْسًا جُهَّالًا
جب ایک بھی عالم نہیں بچے گا یا جہاں جس شہر، قریے، خطے، علاقے سے عالم حق اٹھ جائے گا وہاں لوگ جاہلوں کو جو علم حق سے خالی ہیں اور اس کے صحیح وارث و حامل نہیں انہیں اپنا سربراہ، سردار بنا لیں گے۔
فَسُئِلُوْا
پھر ان سے دین کے سوال کرنے لگ جائیں گے۔
فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ
اور وہ علم حق کے بغیر فتوے دیں گے
فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا
وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ وہ فتنہ ہے اور وہ علامت ہے جسے آپ ہر روز کثرت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس کو چنداں ضرورت نہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح علمائے حق کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔
کس طرح دنیا علمائے ربانیین سے خالی ہوتی جا رہی ہے اور ان کی جگہ کس طرح علمائے سوء لیتے چلے جا رہے ہیں اور لوگوں کو علمائے سوء جھوٹے فتوے دے کر کس طرح گمراہ کرتے ہیں، کس طرح ان کے ذہنوں کا پراگندہ کرتے ہیں، کس طرح امت کو تفرقہ میں مبتلا کرتے ہیں اور کس طرح اپنی بداعمالیوں اور بے علمیوں کی وجہ سے امت کو راہ حق سے پھسلاتے ہیں۔ اور دین کو بدنام کرتے ہیں، دین کو ہلکا کرتے ہیں اور معاشرے کی نگاہ میں وہ اپنے بے کردار ہونے کے باعث دین کے وقار کو کس طرح ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔
آج میں احادیث کا تذکرہ کروں گا اور تھوڑی تھوڑی وضاحت کرتا جاؤں گا۔ مضمون اتنا جامع ہے کہ صرف احادیث نبوی ہی آج کا خطاب ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ عین کلام مصطفی کو سنیں، الفاظ نبوت کو سنیں اور براہ راست آقا علیہ السلام کے کلمات مبارکہ سے پورے فتنوں کے تصور کو سنیں اور آج کے دور میں اس کے نقشے کو دیکھتے چلے جائیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ مزید روایت کرتے ہیں کہ فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ ہو گا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ پورا دور اخلاقی برائیوں سے بھر جائے گا۔
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: لَأُحَدِّثَنَّکُمْ حَدِيْثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يُحَدِّثُکُمْ بِهِ أَحَدٌ غَيْرِي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَکْثُرَ الْجَهْلُ وَيَکْثُرَ الزِّنَا وَيَکْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَکْثُرَ النِّسَاءُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب النکاح، باب يقل الرجال ويکثر النسائ، 5 / 2005، الرقم / 4933، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضته وظهور الجهل والفتن في آخر الزمان، 4 / 2056، الرقم / 2671، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في أشراط الساعة، 4 / 491، الرقم / 2205، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب أشراط الساعة، 2 / 1343، الرقم / 4045.
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث ضرور بیان کروں گا جو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی اور میرے سوا اس حدیث کو تم سے کوئی بیان بھی نہیں کر سکتا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اُٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا اور شراب پینے کی کثرت ہو جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے، عورتیں بڑھ جائیں گی۔
فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ.
اُن علامتوں میں سے جن کو فتنہ قرار دیا جا رہا ہے ایک یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا
وَيَکْثُرَ الْجَهْلُ
اور جہالت چھا جائے گی، ہر طرف جہالت ہو گی، علم اور فہم کم ہو جائے گا، شعور اور آگہی کم ہو جائے گی، دانش، عقل اور بصیرت کم ہو جائے گی اور لوگوں کو عقل و دانش کی بات سمجھ بھی نہیں آئے گی چونکہ جہالت بیچنے والے بہت ہوں گے، جھوٹ کا سودا دینے والے بہت ہوں گے، گمراہی پھیلانے والے بہت ہوں گے، میڈیا پر بھی، اخبارات میں بھی، ممبروں پر بھی، مساجد میں بھی، سیاست میں بھی، معاشرے میں بھی، مذہب میں بھی۔ وہ لوگ جو گمراہی پھیلا رہے ہوں گے، جہالت پھیلا رہے ہوں گے۔ لوگوں میں بے شعوری پھیلا رہے ہوں گے، ان کی کثرت ہو جائے گی اور حق کی بات اور صحیح شعور کی بات کرنے والے کم ہوں گے، سو ان کی بات اتنی نہیں سنی جائے گی۔ فرمایا: جھل کثرت سے پھیل جائے گی۔
وَيَکْثُرَ الزِّنَا
بدکاری معاشرے میں عام ہو جائے گی۔
وَيَکْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ.
شراب کا پینا عام ہو جائے گا۔
وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَکْثُرَ النِّسَاءُ.
لوگوں کے گھر بیٹیاں زیادہ پیدا ہوں گی، بیٹے کم پیدا ہوں گے مقابلتاً۔
آقا علیہ الصلاۃ والسلام گن گن کے دور فتن کے احوال و آثار کا بیان فرما رہے ہیں۔
اور پھر حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ دونوں نے روایت کی کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَأَيَامًا يَنْزِلُ فِيْهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيْهَا الْعِلْمُ، وَيَکْثُرُ فِيْهَا الْهَرْجُ، وَالْهَرْجُ اَلْقَتْلُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6 / 2590، الرقم / 6653-6654، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضه وظهور الجهل والفتن في آخر الزمان، 4 / 2056، الرقم / (10) 2672، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 389، الرقم / 3695، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الهرج والعبادة فيه، 4 / 489، الرقم / 2200، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم، 2 / 1345، الرقم / 4050-4051.
قیامت سے کچھ عرصہ پہلے کا زمانہ ایسا ہو گا کہ اُس میں (چہار سو) جہالت اُترے گی، علم اُٹھا لیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا اور ہرج قتل (و غارت) کو کہتے ہیں۔
آخری زمانہ آئے گا، جہالت اترے گی اور چھا جائے گی پورے زمانے میں۔ آپ اپنے معاشرے کا جائزہ لے لیں کہ لوگوں میں اچھے برے کی تمیز تک نہیں رہی۔ ڈاکو، چور اور امانتدار، محافظ کا امتیاز ختم ہو گیا ہے۔ جو لوگ ان کو لُوٹتے ہیں، ان کا مال حرام کے طور پہ کھاتے ہیں، جو خیانت کرتے ہیں، قوم کا خزانہ ڈاکوؤں کی طرح لُوٹتے ہیں، پانچ سال ان کو گالیاں دیتے ہیں پھر انہی کو ووٹ دیتے ہیں۔ جہالت و بے شعوری اتنی چھا گئی ہے۔ فرمایا: شعور اتنا کم ہو جائے گا
وَيَکْثُرُ فِيْهَا الْهَرْجُ، وَالْهَرْجُ اَلْقَتْلُ،
پھر فرمایا: اور ہرج بڑھ جائے گا، ہرج بڑھ جائے گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا: قتل و غارت گری اور دہشتگردی۔ دیکھتے آئیے ہر طرف قتل ہو گا، خون خرابہ ہو گا دہشتگردی ہو گی۔
اور ایک حدیث میں آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَأْتِيَ عَلَی النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيْمَ قَتَلَ وَلَا الْمَقْتُوْلُ فِيْمَ قُتِلَ فَقِيْلَ: کَيْفَ يَکُوْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: الْهَرْجُ، اَلْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِي النَّارِ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتی يمر الرجل بقبر الرجل فيتمنی أن يکون مکان الميت من البلاء، 4 / 2231، الرقم / 2908، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 371، الرقم / 7074، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 1 / 223، الرقم / 23.
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا دن نہ آجائے، جس میں نہ قاتل کو یہ علم ہو گا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو یہ خبر ہو گی کہ وہ کیوں قتل کیا گیا۔ عرض کیا گیا: (یارسول اﷲ!) یہ کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بکثرت کشت و خون ہو گا، قاتل اور مقتول دونوں (اپنی بدنیتی اور ارادے کی وجہ سے) دوزخ میں ہوں گے۔
نہ قاتل کو معلوم ہو گا کہ میں اس کو قتل کیوں کر رہا ہوں، نہ مرنے والے کو پتہ ہو گا کہ مجھے قتل کیوں کیا گیا۔ نہ اس کے ورثاء کو پتہ ہو گا، اس کا مطلب اجرتی قاتل، پیسے دے کر قاتلوں کے ٹولے خریدے جائیں گے، اجرت پہ قاتل ہوں گے، دھڑوں کے دھڑے اور ملک میں، معاشرے میں، اسلامی دنیا میں، عوام میں بدامنی پھیلانے کے لیے قتل عام ہو جائے گا۔ یہ سارا سلسلہ آپ کے سامنے ہے۔
آقا علیہ السلام نے ایک روز صحابہ کرام کی مجلس میں، اسے امام احمد بن حنبل نے، ابن ماجہ نے، ابن ابی شیبہ نے، طبرانی اور امام حاکم نے روایت کیا اور یہ حدیث صحیح ہے۔
عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيْدٍ قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْئًا فَقَالَ: ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِيْنَةِ أَوَ لَيْسَ هٰذِهِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی يَقْرَئُوْنَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيْلَ لَا يَعْمَلُوْنَ بِشَيئٍ مِمَّا فِيْهِمَا.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 160، الرقم / 17508، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم، 2 / 1344، الرقم / 4048، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 145، الرقم / 30199، والحاکم في المستدرک، 3 / 681، الرقم / 6500، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 265، الرقم / 5291، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 4 / 54، الرقم / 1999، وذکره الکناني في مصباح الوجاجة، 4 / 194، الرقم / 8241.
حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی چیز (یعنی قیامت) کا تذکرہ کیا اور فرمایا: یہ اُس وقت ہوگا جب علم جاتا رہے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! علم کیسے جاتا رہے گا جبکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے گم پائے، میں تو تجھے مدینہ کے فقیہ تر لوگوں میں سے سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اُن کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے (اسی بد عملی اور زبانی جمع خرچ کے نتیجہ میں یہ اُمت بھی وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی، بس قیل و قال باقی رہ جائے گا)۔
آپ نے بیان کیا اس طرح کہ ایک زمانہ آئے گا کہ دنیا سے علم اٹھا لیا جائے گا، اس پر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!
وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟
ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا آپ کی امت سے جبکہ ہمارے اندر قرآن موجود ہے، ہم خود بھی پڑھتے ہیں اور یہ قرآن اپنی اولادوں کو پڑھاتے ہیں، پھر ہماری اولادیں اپنی اولادوں کو پڑھائیں گی اور اس طرح قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، تو جب یہ سلسلہ جاری رہے گا تو قرآن مجید کے ہوتے ہوئے علم کیسے اٹھ جائے گا؟
اس سوال کے جواب میں آقا علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ.
فرمایا: زیاد! تیری ماں تجھے گم کر دے.
إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِيْنَةِ.
میں یہ سمجھتا تھا کہ تو شہر مدینہ کے بڑے سمجھدار لوگوں میں سے ہے اور تو نے عجیب سوال کیا، آقا علیہ السلام نے فرمایا:
أَوَ لَيْسَ هٰذِهِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی يَقْرَئُوْنَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيْلَ لَا يَعْمَلُوْنَ بِشَيئٍ مِمَّا فِيْهِمَا.
فرمایا: کیا بات کرتے ہو، کیا یہ یہود اور نصری ان میں تورات موجود نہیں؟ کیا ان میں انجیل موجود نہیں؟ اور وہ اس زمانے سے لے کے آج تک تورا اور انجیل اللہ کی کتابوں کو پڑھتے نہیں آ رہے؟ کیا وہ خود نہیں پڑھتے؟ کیا اپنی اولادوں کو نہیں پڑھاتے؟ ان کی اولادیں آگے نہیں پڑھاتی آئیں؟
نسل در نسل وہ بھی تو پڑھتے آئے ہیں۔ مگر وہ گمراہ ہو گئے، ان کا علم اٹھا لیا گیا، کیوں؟ اس لیے کہ وہ خالی پڑھتے ہیں مگر جو پیغام تورات و انجیل نے دیا تھا اس پہ کوئی عمل نہیں کرتے۔ جب میری امت قرآن کو فقط پڑھے گی، قرآن کو فقط سنے گی، قرآن کو فقط چومے گی، قرآن کو فقط بیٹیوں کے جہیز میں دے گی، قرآن کو فقط غلاف میں ڈال کر برکت کے لیے رکھے گی، قرآن پر صرف قسمیں کہائے گی اور ان کا کوئی حقیقی تعلق قرآن سے نہیں رہ جائے گا اور قرآن کے پیغام کو نہیں سمجھیں گے اور قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے اور قرآن ان کی زندگی میں نہیں اترے گا تو پھر قرآن کے امت میں موجود ہونے سے انہیں کوئی عملی نفع نہیں پہنچے گا۔ وہ علم ان سے اٹھ جائے گا چونکہ ان کا تعلق قرآن کے علم سے عملاً کٹ چکا ہو گا۔ وہ امت اس وحی کی برکات سے محروم ہو چکی ہو گی، قرآن ان کے لیے صرف قیل و قال کے لیے رہ جائے گا، صرف تقریروں کے لیے رہ جائے گا، صرف مناظروں کے لیے رہ جائے گا، فتوی بازوں کے لیے رہ جائے گا مگر قرآن کی روح لوگوں کے دلوں سے، سینوں سے، زندگیوں سے نکل جائے گی۔ بولیے کیا آج ہم اس مقام تک نہیں پہنچ گئے؟ پہنچ گئے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ وَأَدْنَی صَدِيْقَهُ وَأَقْصَی أَبَاهُ، وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ، وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا فَلْيَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذَالِکَ رِيْحًا حَمْرَائَ وَزَلْزَلَة وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْکُهُ فَتَتَابَعَ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في علامة حلول المسخ والخسف، 4 / 495، الرقم / 2211، 2210، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 150، الرقم / 469، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 3 / 683684، الرقم / 320، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 5، الرقم / 4544.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب محصولات کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے گا، غیر دینی کاموں کے لیے علم حاصل کیا جائے گا، مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی، اپنے دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، قبیلے کا بدکار شخص اُن کا سردار بن بیٹھے گا اور ذلیل آدمی قوم کا لیڈر (یعنی حکمران) بن جائے گا اور آدمی کی عزت محض اُس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی، گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا، (کھلے عام اور کثرت سے) شرابیں پی جانے لگیں گی اور بعد والے لوگ، پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کریں گے، اُس وقت سرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو۔ یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ فرمایا: ایک زمانہ وہ آئے گا، آقا علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک زمانہ وہ آئے گا جب میری امت میں لوگ، حکمران اور لیڈر محصولات کو یعنی Taxes کی آمدنی کو، آپ آقا علیہ السلام کے علم کا اندازہ کیجئے، علم نبوت کا اندازہ کیجئے،
إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا.
Taxes کی آمدنی کو، محصولات کو جب لوگ ذاتی دولت سمجھ کر کھانے لگ جائیں گے۔ قوم ٹیکس دے گی، خزانے میں ٹیکس کا سرمایہ جمع ہو گا اور حکمران بددیانت، خائن، حرام خور ہوں گے، وہ ذاتی دولت کی طرح اس کو ہڑپ کر جائیں گے، وہ زمانہ آئے گا۔ اور اس طرح فرمایا:
وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا.
اور امانت کو مال غنیمت سمجھ کے کھایا جائے گا۔
وہ امانت جو قوم کی امانت ہے۔ آپ کا مال ہے، اگر پاکستان ہے تو اٹھارہ کروڑ غریبوں کا مال ہے، آپ کی امانت ہے۔ حکمران جب برسر اقتدار آئیں گے تو قوم کی امانت کو مال غنیمت، لوٹا ہوا مال جنگ کا سمجھ کے کھا جائیں گے،
وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا
اور معاشرے کے لوگ زکاۃ کو تاوان سمجھیں گے، زکاۃ دینے سے کترائیں گے، اسے چٹی سمجھیں گے، جرمانہ سمجھیں گے، تاوان سمجھیں گے، گنتی کریں گے کہ کم زکاۃ دینی پڑے۔ آپ دیکھتے آئیے میرے آقا کا ایک ایک کلمہ کانوں سے سنتے آئیے اور دلوں میں جھانک کر اپنے اور اس معاشرے کے احوال کا تجزیہ کرتے چلے آئیے۔ پندرہ سو سال پہلے میرے آقا نے فرمایا: اللہ کی عزت کی قسم یوں لگتا ہے کہ آج کا زمانہ، پردے اٹھ گئے تھے، مصطفی علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہمارے احوال کو دیکھ رہے تھے۔
ہمارے اعمال کو دیکھ رہے تھے، ہماری قلبی کیفیات کو دیکھ رہے تھے، ہماری خیانتوں کو، بددیانتی کو دیکھ رہے تھے، ہماری لوٹ مار، کرپشن کو دیکھ رہے تھے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یہ میرے کلمات نہیں ہیں یہ آقا علیہ السلام کے فرمودات ہیں۔
جامع ترمذی اور طبرانی کی حدیث ہے۔ فرمایا: کہ زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا، وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ، اور علم دین کا حاصل کرنے سے لوگ کترائیں گے اور دنیوی علم کی طرف رغبت بڑھ جائے گی۔ سمجھیں کہ علم دین کے حاصل کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔ سوسائٹی میں دینی علم کی قدروقیمت نہیں رہے گی، دینی علم کے لیے لوگوں کی رغبت نہیں رہے گی، کیا بنانا ہے، کیا کرنا ہے مولوی بنا کر، کیا کرے گا مولوی بنے گا، امام و خطیب بنے گا، نہ کوئی پیسہ نہ ٹکا نہ عزت نہ کوئی طاقت۔ علم دین کی قدر سوسائٹی میں ختم ہو جائے گی۔
دین کو لوگ نیچا دیکھیں گے، علم دین کو بے قدر دیکھیں گے اور دنیوی علم کی رغبت بڑھ جائے گی، اہمیت بڑھ جائے گی اور پھر ارشاد فرمایا: پھر ایسا وقت آئے گا کہ لوگ بیوی کی اطاعت کریں گے اور ماں باپ کی بات نہیں مانیں گے، ایسا وقت آئے گا کہ اولاد اپنے دوستوں سے زیادہ محبت کرے گی باپ کو دور رکھے گی، راز کی بات دوست سے کرے گا بیٹا باپ کو نہیں بتائے گا، باپ سے دور ہو جائے گا دوستوں کے قریب ہو گا۔ آج جھانک کر اپنی اولادوں کے احوال پہ غور کرو، آج کے اکثر باپوں کو یہ شکوہ نہیں ہے اپنی اولاد سے؟ اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی۔
وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ.
جھگڑے ہوں گے مسجدوں میں، فساد ہوں گے، آوازیں بلند ہوں گی اور پھر خاص چیز جو ارشاد فرمائی، فرمایا:
وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ.
پھر وہ دور آئے گا کہ مختلف طبقات اور برادریوں میں جو فاسق، فاجر، شرابی، بدکار، رسہ گیر، غنڈے، کرپٹ لوگ ہوں گے وہ ان برادریوں اور علاقوں کے لیڈر بن جائیں گے۔ وہ ان کے سربراہ بن جائیں گے اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ.
اور پھر وہ لوگ جو اپنے کردار میں گھٹیا ہوں گے، جن کے کردار میں نہ دین ہو گا نہ امانت ہو گی نہ دیانت ہو گی، خائن ہوں گے، جھوٹے ہوں گے، بدکردار ہوں گے، لٹیرے ہوں گے، بدکردار ہوں کے، کردار میں گھٹیا لوگ فرمایا: وہ قوم کے حکمران، لیڈر بن جائیں گے۔
قوم نیک کردار والوں کو لیڈر منتخب نہیں کرے گی، قوم اچھے متقی لوگوں کو اپنا رہبر نہیں بنائے گی۔ گھٹیا، کمینے، جھوٹے، خائن، لٹیرے، کرپٹ ان کو لیڈر بنایا جائے گا۔ اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ.
پھر طاقتور لوگوں سے لوگ ڈریں گے، ان کی عزت کریں گے، ان کے کردار کی وجہ سے نہیں ان کے شر کے خوف سے کہ نقصان پہنچے گا۔ تھانے میں لے جائیں گے، جیل بھجوا دیں گے، ڈاکہ ڈلوا دیں گے، غنڈہ گردی کروائیں گے، ان کے شر کے خوف سے ان وڈیروں کی عزت کی جائے گی، ان کے کردار کی وجہ سے نہیں۔ اللہ کی عزت کی قسم کھا کر کہیے، ایک ایک لفظ اپنی آنکھوں کے ساتھ آپ اس معاشرے میں سچا ہوتا نہیں دیکھ رہے؟ سب کچھ یہ نہیں ہو رہا؟ کیا یہ میرے الفاظ ہیں؟ کیا یہ میرے کلمات ہیں؟ بھئی احادیث نبوی ہیں۔ پندرہ صدیاں پہلے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا تھا۔
اور فرمایا: پھر گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ہر طرف، ہر مجلس میں عام ہو جائے گا، اب کوئی شادی ہوتی ہے ان کاموں کے بغیر؟ سوسائٹی کو بالکل فحاشی و عریانی، بے حیائی کا گہوارہ بنا دیا گیا اور آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ، شرابیں سر عام پی جانے لگیں گی، گھر گھر پی جائیں گی شرابیں۔ کیا شہروں، دیہاتوں میں ہر طرف شراب عام نہیں ہو گئی؟ یہ سب کچھ کیسے ہے؟ کہ جب قوم کے لیڈر ایسے ہوں گے تو پھر نیچے تک پوری قوم اخلاقی طور پہ برباد ہو جائے گی۔ ان برائیوں کو جب روکنے والا کوئی نہیں ہو گا جس کے پاس طاقت ہے تو یہ برائیاں اس معاشرے کا نظام بن جائیں گی۔ تو آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب ایسا زمانہ آ جائے تو انتظار کرو طرح طرح کے آسمانی عذاب لگاتار اس قوم پر اتریں گے اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی، جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو گرتے ہوئے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے اس طرح اللہ کے عذاب اس سوسائٹی پر یکے بعد دیگرے اترنے لگ جائیں گے۔ اس قوم پر عذاب یکے بعد دیگرے اتر رہے ہیں۔پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،
عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُجْعَلَ کِتَابُ اﷲِ عَارًا وَيَکُوْنَ الإِسْلَامُ غَرِيْبًا حَتّٰی يُنْقَصَ الْعِلْمُ وَيُهْرَمَ الزَّمَانُ وَيُنْقَصَ عُمَرَ الْبَشَرِ وَيُنْقَصَ السِّنُوْنُ وَالثَّمَرَاتُ وَيُؤْتَمِنُ التُّهَمَاءُ وَيُتَّهَمُ الأَمْنَاءُ وَيُصَدِّقُ الْکَاذِبُ وَيُکَذِّبَ الصَّادِقُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ، قَالُوْا: مَا الْهَرْجُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، اَلْقَتْلُ وَحَتّٰی تُبْنَی الْغُرُفُ فَتَطَاوَلُ وَحَتّٰی تَحْزَنَ ذَوَاتَ الأَوْلَادِ وَتَفْرَحَ الْعَوَاقِرُ وَيُظْهَرَ الْبَغْيُّ وَالْحَسَدُ وَالشُّحُ وَيُغِيْضَ الْعِلْمُ غَيْضًا وَيُفِيْضَ الْجَهْلُ فَيْضًا وَيَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَالشِّتَاءُ قَيْضًا وَحَتّٰی يُجْهَرَ بِالْفَحْشَاءِ وَتَزُوْلُ الأَرْضُ زَوَالًا.
أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21 / 274.
ایک روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اﷲ کی کتاب (پر عمل کرنے) کو عار ٹھہرایا جائے گا اور اسلام اجنبی ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، انسان کی عمر کم ہو جائے گی، ماہ و سال اور غلہ و ثمرات میں (بے برکتی اور) کمی رونما ہو گی، ناقابل اعتماد لوگوں کو امین اور امانت دار لوگوں کو ناقابل اعتماد سمجھا جائے گا، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا قرار دیا جائے گا، ھرج عام ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قتل، قتل۔ اور یہاں تک کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور ان پر فخر کیا جائے گا، یہاں تک کہ صاحب اولاد عورتیں غمزدہ ہوں گی اور بے اولاد خوش ہوں گی، ظلم، حسد اور لالچ کا دور دورہ ہو گا، علم کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے اور جہالت کا سیلاب اُمنڈ آئے گا، اولاد غم و غصہ کا موجب ہو گی اور موسم سرما میں گرمی ہو گی۔ یہاں تک کہ بدکاری اعلانیہ ہونے لگے گی۔ ان حالات میں زمین کی طنابیں کھینچ دی جائیں گی۔
فرمایا: آخری زمانے میں ایک وقت آئے گا
حَتّٰی يُجْعَلَ کِتَابُ اﷲِ عَارًا
کہ اللہ کی کتاب قرآن کا ذکر کرنا، اس کا علم، اس کی دعوت، اس کی تبلیغ، اس کا درس، اس کی مجلس، اس پر عمل، اس کو لوگ باعث عار سمجھیں گے،
وَيَکُوْنَ الإِسْلَامُ غَرِيْبًا،
اور مسلمان ملکوں میں اسلام اجنبی نظر آئے گا، مسلمان معاشروں میں اسلام اجنبی نظر آئے گا۔ اور پھر فرمایا: علم گھٹتا چلا جائے گا،
وَيُنْقَصَ السِّنُوْنُ وَالثَّمَرَاتُ،
اور پھر یہ جو برکتیں ہیں، ثمرات میں، غلہ میں، ان میں بے برکتی ہو جائے گی،
وَيُؤْتَمِنُ التُّهَمَاءُ،
اور جو لوگ بدنام ہیں، خائن اور کرپٹ ہیں، جو اصل میں تہمت کے لائق ہیں انہیں قومی امانت سونپی جائے گی۔
جو کرپٹ ہیں، جو آرٹیکل 62 پہ پورے نہیں اترتے، جو آرٹیکل 63 پہ پورے نہیں اترتے، جنہیں ہمارا آئین کہتا ہے، خائن ہیں، بددیانت ہیں، چور، لٹیرے ہیں ملکی اقتدار، شرافت اور حکومت کی امانت ان کو دی جائے گی،
وَيُتَّهَمُ الأَمْنَاءُ،
اور جو لوگ امانتدار ہوں گے، نیک و متقی ہوں گے، صداقت و امانت والے ہوں گے انہیں تہمت دی جائے گی، ان پرالزام لگائے جائیں گے،
وَيُصَدِّقُ الْکَاذِبُ وَيُکَذِّبَ الصَّادِقُ،
جو جھوٹے ہیں انہیں سچا قرار دیا جائے گا، یہ میڈیا کیا کر رہا ہے؟ پیسے کا کھیل ہے، جھوٹوں کو سچا بنا کر کروڑوں لوگوں کے سامنے دکھایا جا رہا ہے اور جو سچے ہیں انہیں جھوٹا بنا کر دکھایا جائے گا، آقا علیہ السلام نے فرمایا: یہ زمانہ آئے گا، وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ، اور قتل و غارت گری عام ہو جائے گی۔
قَالُوْا: مَا الْهَرْجُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟
یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟
فرمایا: الْقَتْلُ، اَلْقَتْلُ، ہر طرف قتل ہی قتل، خون ہی خون بہانا، دہشتگردی عام ہو جائے گی اس دور میں۔
اور آقا علیہ السلام نے فرمایا: پھر نافرمانی، سرکشی، حسد، بخیلی یہ سب کچھ عام ہو جائے گا، علم کے چشمے سوکھنے لگ جائیں گے اور جہالت کا سیلاب آ جائے گا پورے معاشرے میں، حتی کہ اولاد ایسی ہو جائے گی کہ اولاد ماں باپ کے لیے دکھ اور غم و غصہ کا سبب بن جائے گی اور بدکاریاں معاشرے میں علی الاعلان ہونے لگ جائیں گی، فرمایا: جب ایسا زمانہ آ جائے تو انتظار کرو، زمین کی تنابیں کھینچ لی جائیں گی۔ طرح طرح کے عذاب زمین اور اہل زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
آقا علیہ السلام نے یہ بھی ارشاد فرمایا: حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: لَا يَأْتِي عَلَيْکُمْ عَامٌ إِلاَّ وَهُوَ شَرٌّ مِنَ الَّذِي کَانَ قَبْلَهُ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَاماً أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ وَلَا أَمِيْرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيْرٍ، وَلٰـکِنْ عُلَمَاؤُکُمْ وَخِيَارُکُمْ وَفُقَهَاؤُکُمْ يَذْهَبُوْنَ، ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْهُمْ خَلَفًا وَيَجِيئُ قَوْمٌ يَقِيْسُوْنَ الأُمُوْرَ بِرَأْيِهِمْ.
أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب تغير الزمان وما يحدث فيه، 1 / 76، الرقم / 188.
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم پر ہر آئندہ سال پہلے سے برا آئے گا میری مراد یہ نہیں کہ پہلا سال دوسرے سال سے غلہ کی فراوانی میں اچھا ہوگا یا ایک امیر دوسرے امیر سے بہتر ہو گا، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ تمہارے علماء صالحین اور فقیہ ایک ایک کر کے اُٹھتے جائیں گے اور تم اُن کا بدل نہیں پاؤ گے اور (قحط الرجال کے اس زمانہ میں) بعض ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی مسائل کو محض اپنی ذاتی قیاس آرائی سے حل کریں گے۔
دارمی میں ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ شر غالب آ جائے گا اور پہلے زمانے کے مقابلے میں شر کہیں زیادہ غالب اور عام ہو گا اور اس کا مطلب آقا علیہ السلام نے فرمایا:
عُلَمَاؤُکُمْ وَخِيَارُکُمْ وَفُقَهَاؤُکُمْ يَذْهَبُوْنَ،
کہ علمائے حق چلے جائیں گے، سوسائٹی سے کم ہو جائیں گے۔ نیک، صالح، متقی لوگوں کی کمی ہوتی جائے گی، دین کا اصل فہم اور بصیرت رکھنے والے فقہاء کم ہوتے چلے جائیں گے۔
ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْهُمْ خَلَفًا،
پھر ان کا بدل تمہیں نہیں ملے گا، جو جگہ خالی ہو گی اس جگہ کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
وَيَجِيئُ قَوْمٌ يَقِيْسُوْنَ الأُمُوْرَ بِرَأْيِهِمْ.
جب قرآن و حدیث کے کامل علماء، فقہاء، ربانیین، عرفاء جب نہیں رہیں گے تو پھر ایسے لوگ چھا جائیں گے معاشرے میں جو قرآن و سنت کی بات نہیں کریں گے بلکہ اپنی عقل سے، دانش سے، ذاتی رائے سے لوگوں کو دین کی تشریح کر کے بتائیں گے اور لوگ ان کی باتوں پہ چلیں گے۔ دین ہٹا دیا جائے گا اور لوگوں کی ذاتی رائے اور اپنی ذاتی عقل کو غالب کر لیا جائے گا۔ دین کی تشریح و تعبیر ذاتی رائے سے ہو گی، کیا ایسا ہو رہا ہے کہ نہیں؟ ہر شخص کہتا ہے میری رائے میں یہ ہے، میں یہ سمجھتا ہوں، میرے خیال میں یہ ہے۔ ارے نادان تیری رائے کی حیثیت کیا ہے دین میں؟ ارے بدبخت تیرے خیال اور قیاس کی حیثیت کیا ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب لوگ دین کا فیصلہ اپنی ذاتی رائے اور قیاس سے کرنے لگیں اور قرآن و حدیث و سنت کو ترک کر دیں، سمجھو گمراہی چھا گئی ہے معاشرے میں اور حق چلا گیا ہے۔ یہ دور فتن ہے۔ اس کو عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا اور امام دارمی نے اس کی تخریج کی۔
اس کے بعد آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
عَنْ مُعَاذٍ رضی الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَـلَانِيَةِ أَعْدَاءُ السَّرِيْرَةِ فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَکَيْفَ يَکُوْنُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ.
: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 235، الرقم / 22108، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 341، الرقم / 1456، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 102، وذکره الديلمي في مسند الفردوس، 5 / 452، الرقم / 8713.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے طبقات اور گروہ ہوں گے جو ظاہری طور پر (ایک دوسرے کے لیے) خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے اور اندر سے ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے (شدید نفرت رکھنے کے باوجود صرف) خوف اور لالچ کی وجہ سے (بظاہر دوستی وخیر خواہی کا مظاہرہ کریں گے)۔
حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا:
يَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَـلَانِيَةِ أَعْدَاء السَّرِيْرَةِ،
آخری زمانے میں ایسی جماعتیں پیدا ہوں گی، (أَقْوَامٌ) پارٹیز، جماعتیں، ایسے گروہ، ایسے طبقات پیدا ہو جائیں گے جو حقیقت میں تو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، عداوت ہو گی، نفرت ہو گی، مگر اوپر سے ملے ہوئے ہوں گے، جڑے ہوں گے، صحابہ کرام نے پوچھا:
فَکَيْفَ يَکُوْنُ ذٰلِکَ؟ آقا ایسے کس طرح ممکن ہے، کہ دلوں میں تو وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں اور اوپر سے کیسے دوست ہوں گے؟قَالَ: ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ.
وہ مفادات ان کو جوڑ دیں گے۔ سیاسی مفادات، اقتدار، لالچ، پیسہ، لوٹ مار یہ جو ظاہری دنیا کے مفادات ہیں وہ دلوں کے دشمنوں کو اوپر دوست بنا دیں گے، وہ جڑ جائیں گے، اندر سے گالیاں دیں گے چھپے بندوں اوپر سے چونکہ لوٹ مار کامن ایجنڈا ہے اس لیے جوڑ جائیں گے۔
آج کا سار نظام تاجدار کائنات کی اس حدیث پاک کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ لوگوں کے منشور آپس میں نہیں ملتے، خیالات آپس میں نہیں ملتے، رائے نہیں ملتی، فکر نہیں ملتی، پھر ایک دوسرے سے نفرت ہے، دشمن ہیں، گالیاں دیتے ہیں، تنہا بیٹھتے ہیں مگر اسلام آباد میں بیٹھ کے اسمبلی میں ایک ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں میں ایک ہوتے ہیں، کیونکہ گٹھ جوڑ ہے کرپشن پر، گٹھ جوڑ ہے حکومت و اقتدار پر، گٹھ جوڑ ہے مفادات پر یا گٹھ جوڑ ہے خوف پر کہ کہیں نقصان نہ پہنچا دیں، آقا علیہ السلام نے فرمایا: اندر سے دشمن ہوں گے، اوپر سے دوست ہو جائیں گے۔
ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ
یا دنیا کا مفاد انہیں اوپر سے جوڑے گا یا ایک دوسرے کا خوف و خطرہ ایک دوسرے سے جوڑے گا۔ آپ اندازہ کیجئے آقا علیہ السلام نے کونسی چیز ایسی ہے جو چھوڑ دی، جس کا پورا رنگ اور نقشہ آج ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔
لوگو! بات سمجھنے والی ہے دین فقط مسجدوں میں آ کے نماز پڑھ لینے کا نام نہیں ہے، میری بات یاد رکھ لیں، دین صرف ماہ رمضان المبارک میں فقط روزے رکھ لینے کا نام نہیں ہے۔ دین صرف حج اور عمرے پر چلے جانے کا نام نہیں ہے۔ اگر دین آپ کے قلب و باطن میں نہیں اترا، اگر دین آپ کے فکر اور سوچ میں نہیں اترا، اگر دین آپ کے سینوں میں آباد نہیں، اگر دین آپ کی زندگی پر نافذ نہیں ہے اور آپ کے ظاہر و باطن کے احوال دین کے تابع نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دین آپ سے دور اور آپ دین سے دور۔ ہم دین کی رسموں پرمطمئن ہو گئے ہیں اور دین کے جو حقیقت ہے اس سے کلیتاً دور ہو چکے ہیں۔ اگر دین کی حقیقت کو راسخ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے ذہن اتنے پراگندہ و فرسودہ ہو گئے، کہا جاتا ہے کہ یہ تو سیاست ہو گئی۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما قَالَ: يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم / 30355، وأيضًا، 7 / 505، الرقم / 37586، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2 / 172، والفريابي في صفة المنافق / 80، الرقم / 108-110، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 441، الرقم / 8680، والمقدسي في ذخيرة الحفاظ، 5 / 2767، الرقم / 6469، وذکره السيوطي في الدر المنثور، 7 / 473، والهندي في کنز العمال، 11 / 77، الرقم / 31109.
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ مساجد میں اکٹھے ہوں گے اور باجماعت نمازیں پڑھیں گے، لیکن ان میں کوئی ایک بھی (صحیح) مؤمن نہیں ہوگا۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
اس حدیث کو روایت کیا ہے امام ابن ابی شیبہ نے، اس حدیث کو روایت کیا امام حاکم، امام طحاوی، امام فریابی، امام دیلمی، امام مقدسی نے اور امام حاکم نے کہا:
هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ،
یہ صحیح الاسناد حدیث ہے۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: ایک زمانہ میری امت پر ایسا آئے گا کہ بڑی تعداد میں لوگ مسجدوں میں جمع ہوں گے اور نمازیں پڑھیں گے مگر ان میں مومن ایک بھی نہیں ہو گا۔ مسجدوں میں آئیں گے، نماز پڑھیں گے مگر ان نماز پڑھنے والوں میں سے ایماندار کوئی نہیں ہو گا۔ تو اگر فقط رسم نماز ادا کرنے کا نام دین ہوتا، اگر فقط مساجد میں آ جانے اور جمع ہو جانے کا نام دین ہوتا تو آقا علیہ السلام یہ نہ فرماتے:
وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ، ان نماز پڑھنے والوں میں اور مسجدوں میں جمع ہونے والوں میں کوئی مومن نہیں۔پھر دوسری روایت اور یہ بھی حدیث صحیح ہے امام حاکم اور امام آجری نے روایت کی۔ فرمایا:
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ، لَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم / 8365، والآجري في کتاب الشريعة، 2 / 601-602، الرقم / 236-237.
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ (باجماعت نمازوں کے لیے) مساجد میں اکٹھے ہوں گے لیکن ان میں کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوگا۔
اسی طرح تیسری روایت میں یہ لفظ فرمایا:
لَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ فِي مَسَاجِدِهِمْ، مَا فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
: أخرجه الآجري في کتاب الشريعة، 2 / 602-603، الرقم / 238.
لوگوں پر ضرور بالضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں وہ (باجماعت نمازوں کے لیے) اپنی مساجد میں جمع ہوں گے لیکن ان میں کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوگا۔
اب یہاں سوچنے کی بات ہے کہ مسجدوں میں بھی آ رہے ہیں، جمع بھی مسجدوں میں ہو رہے ہیں، نماز بھی پڑھ رہے ہیں مگر آقا علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی ایمان کی حقیقت کو جاننے والا ہے؟ تو پتہ چلا دین فقط رسم کا نام نہیں اور نماز رسماً پڑھ لینے کا نام نہیں، فقط جمعہ، عید کے دن مساجدوں کو بھر دینے کا نام نہیں۔ کیوں فرمایا کہ ان میں مومن ایک بھی نہیں ہو گا، وجہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں گے مگر ان کے دلوں میں منافقت ہو گی، ان کے اندر بداعتقادی ہو گی، ان کے اندر دنیا پرستی ہو گی، ان کے کردار میں دھوکہ دیہی ہو گی، وہ کرپٹ ہوں گے، وہ ظالم ہوں گے، وہ خونخوار ہوں گے، وہ مسلمانوں کا خون چوسنے والے ہوں گے۔ مسلمانوں کی امانت میں خیانت کرنے والے ہوں گے۔ قوم سے جھوٹ بولنے والے ہوں گے، ان کے اندر سے جب حقیقی دین نکل گیا ہو گا۔ دین جس کردار کا تقاضا کرتا ہے، جب وہ اس کردار سے خالی ہوں گے، دین جس امانت و صداقت کا تقاضا کرتا ہے جب ان کی زندگیوں میں امانت و صداقت نہ رہے گی۔ دین قوم اور لوگوں کے ساتھ جس عدل و انصاف کا تقاضا کرتا ہے جب ان کی زندگیوں سے عدل و انصاف نہیں رہے گا، دین جس وعدہ کو پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے جب وہ وعدہ خلاف ہو جائیں گے۔ لوگوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالیں گے اور لوگوں کے مال لوٹ کر امیر کبیر ہوتے چلے جائیں گے، جب ان کے اندر خونخوار بھیڑئیے کا عمل کار فرما ہو گا تو فرمایا وہ بھلے مسجدوں کو بھر دیں نماز سے مگر ایک شخص بھی ایمان والا نہیں ہو گا۔ یہ گارنٹی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود عطا کر دی۔
لوگو! یہ دور اتنی جہالت و لا علمی اور اتنی بے شعوری کا دور ہے کہ لوگوں کے اندر دین کا صحیح فہم نہیں رہا، دین کی صحیح معرفت نہیں رہی۔ میں عرصہ دراز سے اس قوم کو دین کی رسم کی بجائے دین کی حقیقت کا شعور دینے پر لگا ہوں اور یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اس حقیقی دین کو اپنی زندگیوں میں زندہ کرو، اس حقیقی ایمان کو اپنے شعور، علم و فکر میں اور عمل، سیرت و کردار میں جاگزیں کرو۔ چلتا پھرتا دین تمہاری زندگیوں میں نظر آئے، تب تاجدار کائنات کی نگاہ میں مومن بنو گے۔ ہمارا معاشرہ منافقت کی آماجگاہ ہے، کفر سے بدتر ہو چکا ہے، کافروں سے بدتر مسلمانوں کا حال ہو چکا ہے۔ جھوٹ میں، مکر میں، فریب میں، ظلم و بددیانتی میں، خیانت میں، رشتہ داروں سے زیادتی کرنے میں، پڑوسیوں سے زیادتی کرنے میں، غریبوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے میں ہم ہر لحاظ سے بدتر ہو چکے ہیں، کفار سے بھی زیادہ اور دعوی کرتے ہیں مسلمان ہیں، مسلمانوں کے لیڈر ہیں، مسلمانوں کے نمائندے ہیں۔ میرے آقا نے فرمایا: اگر کردار میں دین نہ ہو تو بھلے تم مسجدوں کو بھر دو نماز کے سجدوں سے، پھر بھی تم میں ایک شخص بھی مومن نہیں ہو گا۔ ایمان دعوؤں سے نہیں آتا ایمان حقیقی کردار سے آتا ہے۔
پھر آقا علیہ السلام نے ارشادر فرمایا، عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں، امام طبرانی نے اس حدیث کو روایت کیا، بڑا عظیم، بڑا جامع اور ایمان افروز مضمون ہے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه فِي رِوَايَة طَوِيْلَةٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا. أَلَا، وَإِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَأَنْ يَکُوْنَ الْمَطْرُ قَيْظًا وَأَنْ تَفِيْضَ الأَشْرَارُ فَيْضًا،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَأَنْ يُکَذَّبَ الصَّادِقُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَأَنْ يُخَوَّنَ الأَمِيْنُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تُوَاصَلَ الأَطْبَاقُ وَأَنْ تَقَاطَعَ الأَرْحَامُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَسُوْدَ کُلَّ قَبِيْلَةٍ مُنَافِقُوْهَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُهَا،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکُوْنَ الْمُؤْمِنُ فِي الْقَبِيْلَةِ أَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَائُ بِالنِّسَائِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تَکْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْيَا وَيُخْرَبُ عِمْرَانُهَا،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تَظْهَرَ الْمَعَازِفُ وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا شُرْبَ الْخُمُوْرِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا اَلشُّرَطُ وَالْغَمَّازُوْنَ وَاللَّمَّازُوْنَ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکْثُرَ أَوْلَادُ الزِّنَی.
: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 229، الرقم / 10556، وأيضًا في المعجم الأوسط، 5 / 127، الرقم / 4861.
حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولاد (نافرمانی کے سبب والدین کے لیے) غم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا،
’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن (نیک اور دیانت دار آدمی) اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور اُن کے منبر عالی شان ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ ہے کہ مختلف اَقسام کی شرابیں پی جائیں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ (معاشرے میں) پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی۔
طویل روایت میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں کہ میں نے آقا علیہ السلام سے پوچھا: یا رسول اللہ! ہمیں قرب قیامت کے اس دور فتن کی کچھ علامتیں بیان فرمائیں۔ تو آقا علیہ السلام نے فتنوں کے اس دور کی علامتیں بیان کرنا شروع کیں اور ہر جملے میں فرماتے رہے يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، اے ابن مسعود اس دور کی علامت یہ ہے۔ فرمایا: اس دور کی علامت یہ ہے أَنْ يُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَأَنْ يُکَذَّبَ الصَّادِقُ، اس دور کے دو فتنے ہوں گے، جب اللہ کا عذاب لگاتار اس قوم پر اترے گا، اس کی ایک علامت یہ ہے کہ اس سوسائٹی میں ایسا زمانہ، ایسا دور، ایسا نظام آ جائے گا کہ سچوں کو جھوٹا کہا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنا کے دکھایا جائے گا۔
اپنے ایمان سے کہیے کہ یہ اس سوسائٹی میں ہو رہا ہے کہ نہیں۔ پھر فرمایا:
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، اے ابن مسعود اس دور کی دوسری علامت یہ ہے:
أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَأَنْ يُخَوَّنَ الأَمِيْنُ، کہ جو لوگ کرپٹ ہوں گے، یہ میرے آقا کے کلمات ہیں، جو خائن ہوں گے قوم امانتیں ان کے سپرد کرے گی، انہیں امانت اقتدار، امانت شرافت دی جائے گی اور جو سچے امانتدار ہوں گے انہیں خائن سمجھا جائے گا۔پھر فرمایا:
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، پھر اس دور کی ایک علامت یہ ہے:
أَنْ تُوَاصَلَ الأَطْبَاقُ وَأَنْ تَقَاطَعَ الأَرْحَامُ،
فرمایا: کہ بیگانوں سے لوگ تعلق جوڑیں گے، دور کے لوگوں سے تعلق جوڑیں گے اور خونی رشتوں سے تعلق توڑیں گے۔ بہت سے لوگ آپ کو نظر آئیں گے کہ جو خونی رشتے ہیں، جن کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے، بھلائی کرنی چاہیے، احسان کرنا چاہیے ان سے جھگڑا کرتے ہیں۔ اس نے میرے ساتھ یہ کیا، اس نے یہ کیا حسد کیا، میری شادی پر نہیں آیا، مجھے یہ کہا تو اپنے خونی رشتوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ناراض ہو کے رشتے توڑتے ہیں اور دور کے لوگوں سے رشتے جوڑتے ہیں۔ فرمایا: اس دور کی ایک علامت یہ ہو گی۔
پھر فرمایا:
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، اے ابن مسعود! ایک علامت یہ بھی ہوگی:
أَنْ يَسُوْدَ کُلَّ قَبِيْلَةٍ مُنَافِقُوْهَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُهَا، فرمايا: ہر قبیلے اور ہر برادری اور ہر علاقے میں جو فاسق و فاجر، بدمعاش اور بدکردار لوگ ہیں انہیں قیادت دی جائے گی، انہیں لیڈر بنایا جائے گا۔اور آگے فرمایا:
وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُهَا اور تاجروں کی انجمنیں بنیں گی، بازاروں کی کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے سربراہ بھی فاجر، بدمعاش لوگ ہوں گے۔ دوکاندار بازاروں کے بدمعاشوں کے ڈر سے اپنے انجنوں کے لیڈروں، ان بدمعاشوں کو، چوروں، غنڈوں کو بنا دیں گے۔ جیسے معاشرے کے دوسرے لوگ مفادات کی وجہ سے یا خوف و ہراس کو وجہ سے غنڈوں اور کرپٹ لوگوں کو اپنا لیڈر بنا دیں گے۔ تو مارکیٹوں، بازاروں میں بھی بدمعاشوں اور غنڈوں کو سربراہ بنا دیا جائے گا۔ سب کچھ یہ ہو رہا ہے کہ نہیں؟پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: ابن مسعود ایک علامت اور بھی ہے:
أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ، کہ اس زمانے میں مسجدوں کو بڑا خوبصورت بنایا جائے گا، سنوارا جائے گا، سجایا جائے گا، مگر دل برباد اور ویران ہو جائیں گے۔ مسجدیں بڑی خوبصورت بنیں مگر وہ مسجدیں دلوں کو آباد کرنے کے لیے ہیں وہاں دل ویران ہو جائیں گے۔ یعنی ان مسجدوں سے ایمان کا نور نہیں ملے گا، ان مسجدوں سے دین کی ہدایت نہیں ملے گی، ان مسجدوں سے دل کی رونق نہیں ملے گی۔ ہماری کوشش کیا ہے کہ اس دور میں دلوں کی لٹی ہوئی دولت واپس آئے، چھن گئے ہیں جو نور ایمان وہ پلٹ کر سینوں میں واپس آئیں۔پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ اس دور میں یہ بھی ہو گا کہ مسجدیں جگہ جگہ، محلے محلے میں بن جائیں گی، خوبصورت بھی ہوں گی، زیادہ بھی ہوں گی، ممبر مسجدوں کے بڑی اونچے اونچے ہوں گے مگر وہاں سے ہدایت و روشنی نظر نہیں آئے گی۔ پھر فرمایا: یہ بھی اس کی علامت ہو گی کہ گانے بجانے کا سامان اور اہتمام سوسائٹی میں بڑا عام ہو جائے گا اور ہر طرف ہر محفل میں شراب پی جائے گی۔ شراب کا پینا اور شراب کا چلنا سوسائٹی میں کلچر بن جائے گا، عزت کی علامت بن جائے گا، استغفروا اللہ العظیم۔
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ طرح طرح کی کئی قسموں کی شراب بن جائے گی، آپ پچاس قسموں کے نام گن سکتے ہیں اور ہر کوئی اپنی جیب اور طاقت کے مطابق شراب پیئے گا، وہ زمانہ آئے گا اور پھر فرمایا: پولیس مین بہت ہو جائیں گے سوسائٹی میں اور چغلی لگانے والے جاسوس بڑھ جائیں گے، کوئی بات کی جھٹ کوئی سپاہی جاسوسی کرنے والے ایجنسیوں کو پہنچا دیں گے اور اس طرح تہمت لگانے والے، طعنہ دینے والے بڑھ جائیں گے۔ ہر شخص کے لیے سوسائٹی میں خوف و ہراس کا عالم ہو گا۔ اور آقا علیہ السلام نے فرمایا: ابن مسعود ایک علامت یہ بھی ہو گی کہ سوسائٹی میں کثرت کے ساتھ بدکاری کی اولاد پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کسی کو پتہ نہیں ہو گا کہ حقیقت میں یہ بیٹا کس کا ہے، اتنی بدکاری عام ہو گی۔ اب آپ اندازہ کیجئے کہ آقا علیہ السلام نے جو احوال بیان فرمائے اس زمانے میں پورا نقشہ ہمارے احوال کا کھینچا ہے کہ نہیں کھینچا؟ کیا ہم اسی فتنوں کے دور میں داخل ہو گئے کہ نہیں؟ ہماری انفرادی زندگی کے، عائلی زندگی کے، معاشرتی زندگی کے، معاشی اور سیاسی زندگی کے سارے احوال من و عن لفظ بلفظ وہی ہو گئے کہ نہیں جو آقا علیہ السلام نے فرمائے۔
پھر کرنا کیا ہے، اس کے نقصانات سے بچنا کیسے ہے؟ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے گی تو کل سے پھر اگلا مضمون ان شاء اللہ وہ بھی آقا علیہ السلام سے پوچھ کر شروع کریں گے۔ کہ آقا علیہ السلام نے کیا تدبیر عطا کی حدیث نبوی میں، سنت مصطفی کیا تعلیم دیتے ہیں، اپنی امت کو کیا راستہ بتایا ہے ان نقصانات سے بچنے کا۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما يُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: مِنْ اِقْتِرَابِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوْضَعَ الأَخْيَارُ وَيُفْتَحَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ وَيُقْرَأَ بِالْقَوْمِ، اَلْمَثْنَاةُ لَيْسَ فِيْهِمْ أَحَدٌ يُنْکِرُهَا. قِيْلَ: وَمَا الْمَثْنَاةُ؟ قَالَ: مَا اکْتُتِبَتْ سِوٰی کِتَابِ اﷲِ.
: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 597، الرقم / 8660، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 326.
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قربِ قیامت (کی نشانیوں) میں سے یہ بھی ہے کہ (سوسائٹی میں) اشرار (یعنی برے لوگوں) کا رتبہ بلند اور اَخیار (نیکو کاروں) کا رتبہ گرا دیا جائے گا اور قیل و قال (یعنی بحث و مناظرہ) عام ہو جائے گا اور عمل پر تالے پڑ جائیں گے۔ لوگوں میں مثناۃ پڑھی جائے گی اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس کا انکار (یعنی اس کے خلاف آواز بلند) نہیں کرے گا۔ عرض کیا گیا: مَثْنَاۃ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب (اور اُس کی تعلیمات) کے خلاف جو کچھ لکھا گیا ہو گا وہ مثناۃ ہے (اور اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی جائے گی گویا قرآنی تعلیمات کی کھلی مخالفت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی)۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص مزید فرماتے ہیں، امام حاکم کی روایت فرمایا: کہ ان میں ایک علامت یہ بھی ہو گی کہ
أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوْضَعَ الأَخْيَارُ،
جتنے شریر، کمینے، گھٹیا، بدمعاش، کرپٹ لوگ ہیں ان کی سوسائٹی میں عزت ہو جائے گی۔ وہ بڑے کہلائیں گے، تُرْفَعَ، وہ سوسائٹی میں بڑے لوگ کہلائیں گے اور جتنے اخیار، نیک، متقی اور دیندار ہوں گے وہ چھوٹے لوگ کہلائیں گے۔ بڑائی اور چھوٹے پن کا، عزت و کمینگی کا پیمانہ بدل جائے گا، پہلے دور تھے عزت دین میں تھی، عزت دینداری میں تھی، عزت نیکی میں تھی، عزت تقوی میں تھی، عزت امانت و دیانت میں تھی ، عزت علم و عمل میں تھی۔ فرمایا: وہ زمانہ آئے گا کہ جس کے پاس دین ہو گا وہ معاشرے میں معزز نہیں ہو گا۔
علم والا معزز نہیں ہو گا۔ بڑے بڑے علم کی ڈگریاں لے کر اَن پڑھ ایم این اے، این پی اے کے دروازے پر دھکے کھائے گا چھوٹی چھوٹی نوکری کے لیے۔ اَن پڑھ لوگ معزز ہوں گے، پڑھے لکھے لوگ گھٹیا ہوں گے۔ کردار والے لوگ بے کار سمجھے جائیں گے۔ غنڈے، کرپٹ، بدمعاش جنہیں لوگوں کو ہراساں کرنے کا نام ہے، لوٹ مار کی دولت سے جو مضبوط ہو گئے وہ سوسائٹی میں بڑے عزت والے کہلائیں گے، یہ آقا علیہ السلام نے پیمانہ استعمال کیا۔ اور پھر فرمایا:
وَيُفْتَحَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ
پھر یہ دور آ جائے گا کہ قول (وعدے) بڑے ہوں گے، اعلانات بڑے ہوں گے مگر ان میں سے کسی وعدے پر عمل نہیں ہو گا۔ باتیں ہی باتیں ہوں گی، عمل سوسائٹی سے ختم ہو جائے گا، عمل نہیں رہے گا۔
پھر آقا علیہ السلام نے ایک بات اور بڑی اہم بتائی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا.
: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الحث علی المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن، 1 / 110، الرقم / 118، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 303، الرقم / 8017، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ستکون فتن کقطع الليل المظلم، 4 / 487، الرقم / 2195، وابن حبان في الصحيحِ، 15 / 96، الرقم / 6704، وأبو يعلی في المسند، 11 / 396، الرقم / 6515، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 156، الرقم / 2774.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لو، جو (فتنے) اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے، ایک شخص صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو جائے گا، یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا اور معمولی سی دنیاوی منفعت کے عوض اپنی متاعِ ایمان فروخت کر ڈالے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، آقا علیہ السلام نے فرمایا:
بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا.
امام مسلم، امام احمد بن حنبل، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا اس حدیث کو۔ فرمایا: لوگو! فتنوں کے چھا جانے سے پہلے پہلے اعمال صالح کر لو، اعمال کی اصلاح کر لو، اچھے اعمال کی طرف آ جاؤ، میرے آقا نے فرمایا: ایک دور وہ آئے گا کہ کوئی شخص صبح اٹھے گا تو مومن ہو گا، شام کو کافر ہو جائے گا اور کبھی شام ہو گی تو مومن ہو گا، اگلی صبح کافر ہو جائے گا، بڑی حیرت کی بات تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز صبح و شام اس کا دین بدلے گا؟ صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر؟ یہ کیسے ہو گا؟ کیا کلمہ چھوڑ دے گا، کیا کلمے کو ماننا چھوڑ دے گا، کیا سنت نبوی کا انکاری ہو جائے گا؟ کیا دین کو اٹھا کے پھینک دے گا؟ صبح و شام کبھی مومن، کبھی کافر یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں کہ کلمہ پڑھنا چھوڑ دیں گے، ایسا نہیں کہ قرآن کا کھلا انکار کر دیں گے، ایسا نہیں کہ میری نبوت و رسالت کے کھلے انکاری ہو جائیں گے۔
نہیں۔
فرمایا:
يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا،
صبح جو مومن تھا شام کو کافر اس لیے ہو جائے گا کہ دن میں کوئی مفاد ملے گا، کوئی لائسنس ملے گا، ایجنسی ملے گی، کوٹہ ملے گا، رشوت ملے گی، مال ملے گا، کروڑوں کا کمیشن ملے گا، دنیا کے مفاد کی غرض سے میرا دین بیچ دے گا، کلمہ نہیں چھوڑے گا مگر دنیا کے عوض دین بیچ کر شام کو کافر ہو کے سوئے گا۔ اور کبھی شام کو مومن تھا صبح اٹھتے ہی کوئی کرپشن کرے گا اور دین بیچ دے گا۔ تو گویا دنیا کے عوض دین کو بیچنے کا عمل میری سوسائٹی کے بڑے بڑے لوگوں سے چھوٹے لوگوں تک عام ہو جائے گا۔ لہذا رشوت لے لے کر دین بیچے گا اور کافر ہو جائے گا، تو آقا علیہ السلام نے عملًا اس کوکفر قرار دیا۔
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صبح و شام کیسے کافر ہوتا پھرے گا وہ شخص؟ فرمایا:
يَبِيْعُ أَقْوَامٌ دِيْنَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا قَلِيْلٍ.
: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 303، الرقم / 8017، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ستکون فتن کقطع الليل المظلم، 4 / 487، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 459، الرقم / 37216، والحاکم في المستدرک، 4 / 485، الرقم / 8355، وابن راهويه في المسند، 1 / 401، الرقم / 441، وأبو يعلی في المسند، 7 / 252، الرقم / 4260.
کئی لوگ دنیاوی عزت کی خاطر اپنا دین بہت تھوڑی دنیاوی متاع کے عوض فروخت کر ڈالیں گے۔
يَبِيْعُ أَقْوَامٌ دِيْنَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا قَلِيْلٍ.
گھٹیا اور قلیل دنیا کے مفاد کی خاطر جماعتیں، دھڑے لوگ میری امت کے، میرے معاشرے کے اندر اپنا دین دنیوی مفاد کے پیچھے بیچیں گے اور دین بیچنے کی وجہ سے کافروں جیسے ہو جائیں گے۔ ایمان سے محروم ہو جائیں گے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ فرمایا:
يَبِيْعُ أَقْوَامٌ أَخْـلَاقَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا يَسِيْرٍ.
: أخرجه الطيالسي في المسند، 1 / 108، الرقم / 803، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 10 / 171، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 1 / 260، الرقم / 50، والهندي في کنز العمال، 14 / 103، الرقم / 38512.
کئی لوگ دنیا کی عزت کی خاطر اپنے اَخلاق بہت تھوڑی دنیاوی متاع کے عوض بیچ ڈالیں گے۔
تھوڑی سی دنیا اور تھوڑا تھوڑا دنیا کا مفاد کمانے کے لیے لوگ اپنا اخلاق بیچ دیں گے، اپنی عزت بیچ دیں گے، کردار بیچ دیں گے، ناموس بیچ دیں گے۔ کیا ہے؟ کوئی کروڑوں کے عوض دین بیچ رہا ہے، کوئی اربوں کے عوض دین بیچ رہا ہے۔ جو جتنی بڑی سیٹ پر بیٹھا ہے اتنی بڑی قیمت دنیا کی لے کر دین اور ایمان بیچ رہا ہے۔ اس سے چھوٹے ہیں جو وہ کروڑوں کا لے لے کر دین بیچ کے کافرہو رہے ہیں، اس سے چھوٹے ہیں تو ملین لے کر دین بیچ رہے ہیں، اس سے نیچے ہیں لاکھوں روپے لے کر دین بیچ رہے ہیں، اس سے نیچے ہیں تو چند ہزار ٹکے لے کر دین بیچ رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو چند ہزار لے کر کسی کے خلاف جھوٹے فتوے دے کر دین بیچ رہے ہیں۔
ارے ظالمو! دین کا نام لیتے ہو اور چار چار ٹکے لے کر دنیاداروں سے، حاکموں کے دروازے پر کتوں کی طرح دُم ہلاتے ہو اور حرام کی دنیا کھا کر دین مصطفی بیچتے ہو، دین کی غیرت بیچتے ہو اور ایسے لوگ بدقسمتی کہ وہ سیاسی رہنما ہونے کا بھی دم بھرتے ہیں اور مذہبی رہنما ہونے کا بھی دم بھریں۔ ہم اس بدقسمت دور میں آ گئے، جب مذہب کا نام لے کر بھی دین کو بیچا جا رہا ہے، الا ما شاء اللہ
سوائے ان لوگوں گے جن کے سینوں میں اللہ نے دین کی سچی قدر رکھی، دین کا سچا علم رکھا۔ جو علمائے ربانیین ہوئے یا ان کے سچے پیروکار ہوئے اور جن کو دین مصطفی کا حیا ہوا اور جو راہ راست پر ہوئے اور جنہوں نے دین کے عوض، دنیا کے عوض دین نہ بیچا۔ یہی کام بنی اسرائیل کے لوگوں نے کیا تھا، یہی کام یہودیوں نے کیا تھا، یہی کام مسیحیوں نے کیا تھا، یہی کام ان کے رہبان نے کیا تھا۔ ارے لوگو دین کا نام لینے والو! دنیا پرستوں نے تو دنیا کے عوض دین بیچا ہی تھا اب تمہاری تو شکلیں دین والی ہیں، تمہارا تو اوڑھنا بچھونا دین ہے، تم دنیا کے چار چار ٹکے کی خاطر کیوں دین کو بیچتے ہو اور امت کو پریشان کرتے ہو؟
آؤ، پلٹ آؤ، عزت خدا کی قسم نہ دنیا کے پیسے میں ہے، نہ مال و دولت میں ہے، نہ عہدہ و منصب میں ہے۔ یہ سب چیزیں چار دن کی بات ہے ختم ہو جانی والی ہیں۔ عزت مصطفی کی گدائی میں ہے، عزت مصطفی کی وفاداری میں ہے، عزت خدا و مصطفی کی تابعداری میں ہے۔ پہلے لوگ دنیا داروں کے دروازوں پر سائل بن کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، اہل دنیا اہل دین کے دروازے پر چل کے آتے تھے۔ دین کی عزت سب سے اونچی ہے، اہل دین کی عزت سب سے اونچی ہے، علمائے دین کی عزت سب سے اونچی ہے چونکہ انہیں دین کی نسبت سے شناخت اور عزت ملی۔
اے تحریک منہاج القرآن کے رفقاء، علماء، وابستگان، طلباء! سمجھ لو جہاں دین اور دنیا کا موازنہ آ جائے خدا کی قسم حسین کے پیروکار بنو یزید کے نہ بنو، دنیا کو ٹھکرا دو، فاقوں سے مر جاؤ مگر دین کی عزت کا دامن نہ چھوڑنا۔ میرے تاجدار کائنات نے، آپ کے تاجدار کائنات نے اور ساری کائنات کے مالک و مختار آقا نے پتھر باندھے اپنے پیٹ پر مگر دین کو عظمت دلائی۔ فاقے کاٹے دین کو عظمت دلائی، چھ چھ ماہ پڑوسیوں کی بکریوں کا دودھ پیا فاقوں کے ساتھ مگر دین کو عظمت عطا کی، پیٹ بھر کے کبھی کھانا نہ کھایا مگر دین کو عظمت عطا کی۔ جو ملا بانٹ دیا مگر دین کو عظمت عطا کی۔ مگر آقا نہیں یہی تعلیم امت کو دی۔ اگر آپ چاہتے ہیں تحریک منہاج القرآن کی کارکنو! دنیا ذلیل ہے، دنیا کا مال حقیر ہے، دنیا کی عزت ذلیل چھوٹی شے ہے، دین سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ہے، اللہ کی بندگی سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ہے، تقوی سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ہے۔ آؤ تقوی کی عزت اختیار کرو، اپنی جبینیں اللہ کے حضور جھکاؤ اور تواضع کی عزت اختیار کرو، صدق و اخلاص کی عزت اختیار کرو، سیرت و کردار، طہارت کی عزت اختیار کرو۔ بڑے بڑے فرعون تمہارے نام سے کانپیں گے، بڑے بڑے طاقتور تم سے ڈریں گے۔ خدا کی قسم اللہ نے تحریک منہاج القرآن کو وہ عزت اور وہ شان دی کہ وہ جو اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو بے نیازی دی تھی وہ آج کے زمانے میں اللہ نے تحریک منہاج القرآن کو وہ شان عطا کی۔ آپ کو مبارک ہو، میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ روئے زمین پر مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک جہاں تک کرہ ارضی ہے اور سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے کوئی شخص کھڑا ہو کے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تیس پینتیس سال میں میرا نام لے کر کہ ہمارے ملک میں، ہمارے شہر میں میں کبھی گیا تھا اور دین کی تعلیم دی تھی اور اس کے بعد ہدیے کے نام پر، نذرانے کے نام پر، تحفے کے نام پر، کسی بھی نام پر میں نے کسی بندے سے پیسہ قبول کر لیا تھا۔
نہیں، روز اول سے مصطفی کا دین نہیں بیچا، مر جاؤں گا مگر دین نہیں بیچا جائے گا۔ اس لیے چونکہ دین نہیں بیچا اس طرح ہمارے سامنے آ کر بات کرنے کی جرات کسی فرعون کو نہیں ہے، کسی یزید کو نہیں ہے، کسی بڑے سے بڑے طاقتور کو نہیں ہے اور میں کہا کرتا ہوں کہ مصطفی کے غلام بنو امریکہ ہو یا یورپ، برطانیہ ہو یا جاپان پاکستان ہو یا انڈیا دنیا کے ملک اور سلطنتیں مل کر مصطفی کے غلام کے جوتے کو بھی نیچے نہیں کر سکتیں۔ مصطفی کا غلام بے نیاز ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا سے لیتا ہے اور مصطفی سے کھاتا ہے، کسی کے سامنے نہ ہاتھ پھیلاتا ہے، نہ دامن پھیلاتا ہے، اس لیے اس کا سر اس کے دین نے بلند کیا وہ بلند رہتا ہے۔
آقا نے فرمایا: لوگو! بچو اس فتنے سے جس میں دنیا کے عوض دین بیچا جائے۔ پھر اس کے بعد آقا علیہ السلام نے ایک اور علامت بیان کی اور ارشاد فرمایا: ایک ایسا دور آئے گا جس میں لوگ خیر اور نیکی سے محروم ہو جائیں گے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، صحیح مسلم کی حدیث اور احمد بن حنبل کی مسند کی۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَيَبْقٰی شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ، وَأَحْـلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا يُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
: أخرجه مسلم فس الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب في خروج الدجال ومکثه في الأرض، 4 / 2258-2259، الرقم / 2940، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 166، الرقم / 6555، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 501، الرقم / 11629، وابن حبان في الصحيح، 16 / 349-350، الرقم / 7353.
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایک وقت ایسا بھی آئے گا) کہ دنیا میں برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو چڑیوں کی طرح جلد باز، بے عقل اور درندہ صفت ہوں گے، وہ نہ تو کسی نیک کام کو نیکی سمجھیں گے اور نہ کسی برے کام کو برائی۔
فرمایا:
فَيَبْقٰی شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ، وَأَحْـلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا يُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا.
ایسا دور آئے گا کہ برے لوگوں کا راج ہو جائے گا، برے لوگوں کا قبضہ ہو گا، باقی رہ جائیں گے اور چڑیوں کی طرح جلد باز ہوں گے، بے عقل ہوں گے، بے شعور ہوں گے، حق سے اندھے ہوں گے اور درندہ صفت ہوں گے، ظالم، اور نہ وہ کسی نیکی کے کام کو نیکی سمجھیں گے اور نہ کسی برے کام کو برائی سمجھیں گے، اتنے بے حیا ہو جائیں گے، دین سے اتنے دور ہو جائیں گے۔ اب ایسے لوگوں کے پیچھے اگر علماء اور دیندار لگ جائیں اور ان کے پیچھے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوں تھوڑے تھوڑے دنیوی مفاد کی خاطر تو انہوں نے کیا کمایا۔ وہ تاجدار کائنات کو کیا چہرہ دکھائیں گے؟
آقا علیہ السلام نے مزید ارشاد فرمایا:
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلٰی دِيْنِهِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4 / 526، الرقم / 2260.
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی شخص آگ کے انگاروں سے مٹھی بھر لے۔
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جامع ترمذی کی حدیث فرمایا:
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلٰی دِيْنِهِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ.
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ جس میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے لوگ، جو دین پر قائم ہوں گے استقامت کے ساتھ ان کی مثال ایسی ہو جائے گی جیسے کوئی شخص آگ کے انگارے اپنی مٹھی میں بھر لے، دین پر قائم رہنا اس سوسائٹی میں، دین و ایمان پر قائم رہنا، سچائی پر قائم رہنا، دیانت پر قائم رہنا اس سوسائٹی میں جہاں راج ہی سارا جھوٹ، مکر، فریب، پیسے، بددیانتی اور خیانت کا ہے، لوٹ مار کا ہے۔ فرمایا: ایسے ماحول میں میرے دین پر قائم رہنے والے اتنی مشکل زندگی گزاریں گے کہ جیسے انگاروں کا، انگاروں کو جیسے کوئی اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے۔
مگر اللہ پاک ان کو اجر کیا دے گا؟ یہ بات سمجھنے والی ہے۔
عَنْ مَعْقَلِ بْنِ يَسَارٍ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ کَهِجْرَة إِلَيَّ.
: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب فضل العبادة في الهرج، 4 / 2268، الرقم / 2948، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الوُقوف عند الشُّبُهات، 2 / 1319، الرقم / 3985، والطيالسي في المسند، 1 / 126، الرقم / 931، وابن حميد في المسند، 1 / 153، الرقم / 402، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 212، الرقم / 488، 490،
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فتنوں کے زمانہ میں عبادت کرنے کا اجر میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہوگا۔
وفي رواية عنه: قَالَ: الْعَمَلُ فِي الْهَرْجِ کَهِجْرَة إِلَيَّ.
: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 25، الرقم / 20313، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 212، الرقم / 489،
ایک روایت میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: زمانہ فتن میں نیک عمل کرنے کا اجر میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہے۔
یہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔ فرمایا:
الْعِبَادَةُ (وفی رواية العَمَلُ)
فرمایا: ایسے دور میں جب فتنے، ظلم عام ہو جائے، بربریت عام ہو جائے، خیانت اور بددیانتی عام ہو جائے، کرپشن عام ہو جائے، لوٹ مار عام ہو جائے، دین کو دیندار کو لوگ عزت نہ دیں اور بے دین، کرپٹ اور بدمعاش کو عزت دیں، ایسے ماحول میں فرمایا: جو شخص دین پر قائم رہے، اللہ کی بندگی اور عبادت پر قائم رہے اور نیک عمل پہ قائم رہے اس کا اجر ایسے ہو گا کہ
کَهِجْرَةٍ إِلَيَّ.
جیسے اس شخص نے میری طرف ہجرت کی۔ وہ صحابہ کرام جو مکہ چھوڑ کر ہجرت کر کے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں مدینہ جاتے تھے تو ان کو اجر ملتا تھا،
أجرالهجرةِ إلی النبی،
آقا علیہ السلام کی طرف ہجرت کرنے کا اجر ملتا تھا۔ فرمایا: آخری زمانے میں جب دین اجنبی ہو جائے اور قدریں دین کی پامال ہو جائیں اور دین پر استقامت کے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے اس دور میں دین پر قائم رہنے والو۔
ارے تحریک منہا ج القرآن کے رفقاء، میری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، میرے بھائی، بیٹے، وابستگان! سن لیں اور امت مسلمہ کا ہر فرد، پوری امت میں غلامان مصطفی میں ہر وہ غلام، آقا کی امت میں ہر دین کا نام لینے والا سن لے آقا علیہ السلام نے فرمایا: ایسے زمانے میں جو دین پر استقامت کے ساتھ قائم رہے، نہ لالچ اسے دین کی راہ سے ہٹا سکے، نہ کوئی خوف اسے دین کی راہ سے ہٹا سکے، نہ لرزائے، نہ گھبرائے، نہ پھسلے اور دین پر قائم رہے۔ فرمایا: خدا کی قسم اس کو دین پر ایسے حالات میں استقامت کے ساتھ رہنے کا اجر یہ ملے گا جیسے اس زمانے میں لوگ مصطفی کی طرف ہجرت کر کے جاتے تھے۔ ہجرت الی المصطفی کا اجر ملے گا۔
آپ چاہتے ہیں کہ نہیں کہ حضور کی طرف ہجرت کرنے کا اجر ملے اس دور میں؟ حالانکہ وہ ہجرت ختم ہو چکی، مکہ فتح ہو گیا، ہجرت ختم ہو گئی آقا علیہ السلام نے فرمایا، اب فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔ لیکن قربان جائیں ہجرت کا اجر میرے مصطفی نے قیامت تک امت کے لیے قائم رکھا اور خالی ہجرت نہیں
الهِجْرَةٍ إِلَيَّ،
فرمایا: میری طرف ہجرت کر کے آنے والے کا ثواب ملے گا۔ کس شخص کو؟ جو حالات سے نہ گھبرائے اور استقامت کے ساتھ دین پہ رہے، انہیں وہ اجر ملے گا جیسے کوئی شخص میری طرف ہجرت کر کے آ رہا ہے۔ سبحان اللہ
تحریک منہاج القرآن کے ذریعے میں اپنے بیٹوں بیٹیوں کو بھائیوں اور بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دین پر استقامت اختیار کرو تا کہ آقا علیہ السلام تمہیں المہاجرون الیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شمار کر لیں۔ ان لوگوں میں، اجر والوں میں، ان کی فہرست میں شامل کر لیں جنہوں نے حضور کی طرف ہجرت کی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا ضُيِعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: کَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلٰی غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانة، 5 / 2382، الرقم / 6131، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 361، الرقم / 8714، وابن حبان في الصحيح، 1 / 307، الرقم / 104، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 10 / 118، الرقم / 20150، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 335، الرقم / 1322، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 4 / 768، الرقم / 381.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اﷲ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب اُمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، فرمایا:
إِذَا ضُيِعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ،
جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔
صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ!
کَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟
امانتوں کے ضائع ہونے کا معنی کیا ہے؟
فرمايا: إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلٰی غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ.
جب اقتدار، حکومت، شرافت، قیادت، سیادت، امانت، جب امور نا اہل لوگوں کے سپرد ہو جانے لگیں، جب قوم اہل لوگوں کو چھوڑ کر نا اہل لوگوں کو منتخب کرنے لگے، ان کو امانتیں دینے لگے تو میرے آقا نے فرمایا: پھر قیامت اور عذاب الہی کا انتظار کرنا۔
وقال الحافظ ابن حجر في ’’الفتح‘‘: وَالْمُرَادُ مِنَ الأَمْرِ، جِنْسُ الأُمُوْرِ الَّتِي تَتَعَلَّقُ بِالدِّيْنِ کَالْخِـلَافَةِ وَالإِمَارَةِ وَالْقَضَاءِ وَالِافْتَاءِ وَغَيْرِ ذٰلِکَ.
العسقلاني في فتح الباري، 11 / 334، الرقم / 6131.
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں بیان کرتے ہیں: ’اَمر‘ سے مراد وہ تمام اُمور ہیں جن کا تعلق (بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طور پر) دین سے ہو، جیسے حکومت و سلطنت (صدارت، وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ علیا، گورنری اور عمومی وزارتیں)، عدلیہ اور شرعی افتاء وغیرہ۔
اب امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: اس سے مراد (وَالْمُرَادُ مِنَ الأَمْرِ) کہ امر نا اہل لوگوں کے سپرد کئے جائیں تو سمجھو عذاب آئے گا۔ فرمایا: اس کا تعلق دین کے تمام امور سے ہے ( کَالْخِـلَافَةِ) یعنی حکمران منتخب کرنا بھی اسی امانت کا حصہ ہے، (وَالإِمَارَةِ) قیادت اور سربراہی منتخب کرنا بھی اس امانت کا حصہ ہے، (وَالْقَضَاءِ) عدلیہ کے جو مناصب ہیں اونچے، عدالتیں (چھوٹی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک تما م عدالتوں) کی کرسیوں اور مناصب بھی نا اہل لوگوں کے پاس جائیں وہ بھی اس کا حصہ ہے (وَالِافْتَاءِ) اور فتوی دینے والوں کا منصب بھی نا اہل لوگوں کے پاس جائے، مذہبی منصب بھی امانت کا حصہ ہے۔ گویا آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب معاشرے کے لوگ حکومت اور اقتدار کی امانت کرپٹ لوگوں کے ہاتھ دینے لگیں اور اہل لوگوں کو نہ دیں تو سمجھو وہ عذاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
جب لوگ سیاسی اور سماجی قیادت نا اہل، کرپٹ لوگوں کو دینے لگیں سمجھو عذاب الہی آ رہا ہے، جب عدلیہ کے مناصب پر، عدلیہ کی کرسیوں پر بددیانت، خائن، نالائق، جھوٹے، مکار اور بے ایمان قسم کے شخص جا کے بیٹھ جائیں اور یہ منصب قضا جب نا اہلوں کے ہاتھ میں چلا جائے سمجھو سوسائٹی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب مذہبی پیشوا فتوی دینے والے جب وہ نا اہل، بے کار، جھوٹے، مکار اور دین فروش لوگوں کے پاس یہ منصب چلے جائیں۔ سمجھو سوسائٹی پر اللہ کا عذاب آ رہا ہے۔ تو گویا فرمایا: کسی قسم کا بھی امر اگر نا اہل لوگوں کو سوسائٹی دینے لگے تو سمجھو کہ اللہ کا عذاب آئے گا۔ لوگ برے حالات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب اسی حدیث کی مزید وضاحت حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کر رہے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَيَأْتِي عَلَی النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيْهَا الْکَاذِبُ وَيُکَذَّبُ فِيْهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيْهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيْهَا الْأَمِيْنُ وَيَنْطِقُ فِيْهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيْلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ.
: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، 2 / 1339، الرقم / 4036، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم / 3715، والحاکم في المستدرک، 4 / 512، الرقم / 8439، والبزار في المسند، 7 / 174، الرقم / 2740،.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔ بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور ’’رویبضہ‘‘ یعنی نااہل اور فاسق و فاجر لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔ عرض کیا گیا: ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ نااہل اور فاسق شخص جو اہم معاملات میں عوام کی نمائندگی اور رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے۔
ابن ماجہ، ابویعلی اور حاکم تخریج کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: لوگو! مکر و فریب اور جھوٹ کے کئی سال اور زمانے آئیں گے سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ، جھوٹ کے، مکر و دھوکہ دہی کے زمانے آئیں گے:
يُصَدَّقُ فِيْهَا الْکَاذِبُ وَيُکَذَّبُ فِيْهَا الصَّادِقُ.
وہ دور آئے گا جب جھوٹے لوگوں کو سچا بنا کے دکھایا جائے گا اور سچے لوگوں کو جھوٹا ظاہر کیا جائے گا۔
فرمایا:
وَيُؤْتَمَنُ فِيْهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيْهَا الْأَمِيْنُ، اور جو کرپٹ لوگ ہیں، بددیانت، چور، لٹیرے انہیں امانتدار سمجھ کر انہیں امانتیں دی جائیں گی، حکومت کی امانت، اسمبلی کی امانت، اقتدار کی امانت، وزارت کی امانت، وزیر اعظم کی امانت، صدارت کی امانت، گورنر کی امانت، قیادت کی امانت ان کو سونپی جائے گی اور جو ایماندار لوگ ہیں انہیں خائن سمجھا جائے گا۔ فرمایا: پھر کیا ہو گا؟وَيَنْطِقُ فِيْهَا الرُّوَيْبِضَةُ، پھر اس وقت نا اہل، فاسق و فاجر لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔
صحابہ کرام نے پوچھا:
وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ یا رسول اللہ! رُوَيْبِضَُۃ سے مراد کیا ہے؟فرمایا: یہ قوم کی نمائندگی کریں گے، قوم کے لیڈر ہوں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمیں سمجھ نہیں آئی۔
الرُّوَيْبِضَُۃ، کون لوگ ہیں؟
فرمایا: الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. وہ شخص جو نااہل ہے، جو فاسق ہے، جو کرپٹ ہے، بدکردار ہے، مگر قوم کے اہم معاملات اس کے سپرد کر دئیے گئے، ان لوگوں کو (الرُّوَيْبِضَۃُ) کہتے ہیں۔ یہ الرُّوَيْبِضَۃُ کا زمانہ آ گیا، کرپٹ لوگوں کو حکمران بنا دیا گیا۔ کرپٹ، نااہل، فاسق و فاجر، بدکردار اور خائن لوگوں کو امانتیں سونپ دی گئیں۔
پھر ایک اور حدیث میں ہے:
قِيْلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: اَلسَّفِيْهُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 291، الرقم / 7899، والحاکم في المستدرک، 4 / 557، الرقم / 8564، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 313، الرقم / 3258، وأيضًا في المعجم الکبير، ولفظه: السفيه ينطق في أمر العامة، 18 / 67، الرقم / 123.
عرض کیا گیا: ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ (نااہل اور) کم فہم شخص جو عوام کے اہم معاملات میں ان کی رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے۔
یا رسول اللہ! الرُّوَيْبِضَۃُ کون ہیں؟ فرمایا:
اَلسَّفِيْهُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. وہ شخص جو لائق نہیں، جس کے پاس نہ علم ہے نہ فن، نہ ہنر ہے نہ صلاحیت نہ قابلیت، نہ دانائی، نااہل ہے مگر انہیں قوم کا نمائندہ بنا دیا گیا۔ یہ لفظ ہے حدیث پاک کا، قوم کا نمائندہ بن جائیں گے ایسے لوگ تو ایسے لوگوں کو الرُّوَيْبِضَةُ کہتے ہیں۔ فرمایا: جب الرُّوَيْبِضَۃُ نا اہل لوگ عقل، دیانت، قابلیت و صلاحیت سے محروم لوگ ان کے ہاتھ میں قوم کی بھاگ ڈور دے دی جائے، عوام کی نمائندگی دے دی جائے تو فرمایا: اس کو الرُّوَيْبِضَۃُ کہتے ہیں۔ وہ قوم کی بربادی کا زمانہ ہو گا۔پھر پوچھا گیا حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
قَالَ: اَلْفُوَيْسِقُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ.
: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 220، الرقم / 13322، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم / 3715.
(رویبضہ سے مراد) وہ فاسق شخص ہے جو عوام کے اہم معاملات میں ان کی رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے۔
الرُّوَيْبِضَۃ ُ کون ہیں؟ فرمایا: اَلْفُوَيْسِقُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. اگر فاسق و فاجر لوگ، زانی و شرابی لوگ، بدکار لوگ، کرپٹ لوگ اگر عامۃ الناس کے نمائندے بن جائیں اور عوام انہیں اپنا لیڈر منتخب کر لیں تو ایسے طبقے کو الرُّوَيْبِضَۃُ کہتے ہیں۔ فرمایا: جب الرُّوَيْبِضَۃُ کا زمانہ آ جائے تو اللہ کے عذاب کا وہ معاشرہ انتظار کرے۔
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 220، الرقم: 13322، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم: 3715.
ایمان سے بولیے، یہ دور الرُّوَيْبِضَۃُ کا دور ہے کہ نہیں؟
اور آقا علیہ السلام نے پھر یہ بھی فرمایا:
إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِيَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ سُمَحَائَکُمْ وَأُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَيْنَکُمْ فَظَهْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ بُخَـلَائَکُمْ وَأُمُورُکُمْ إِلٰی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ ظَهْرِهَا.
: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4 / 529، الرقم / 2266، وابن جرير الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 929، الرقم / 1325، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 176، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2 / 190، والمقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 663، الرقم / 303، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 259، الرقم / 3949.
جب تمہارے حاکم نیک اور پسندیدہ ہوں، تمہارے مالدار کشادہ دل اور سخی ہوں، اور تمہارے معاملات باہمی (خیر خواہانہ) مشورے سے طے ہوں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اُس کے پیٹ سے بہتر ہوگی (یعنی مرنے سے جینا بہتر ہوگا) اور جب تمہارے حاکم شریر ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اُس کی پشت سے بہتر ہے (یعنی ایسی زندگی سے مر جانا بہتر ہے)۔
یاد کرو
إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِيَارَکُمْ، جب تمہاری لیڈر نیک اور صالح لوگ ہوںوَأَغْنِيَاؤُکُمْ سُمَحَائَکُمْ اور مالدار لوگ سخی ہوں
وَأُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَيْنَکُمْ اور تمام معاملے حقیقی مشورے سے طے ہوںفَظَهْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ بَطْنِهَا، پھر زمین کی پیٹھ پر زندہ رہنا اچھا ہے
اور اگر وہ بدقسمتی کا دور آ جائے وَإِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ بُخَـلَائَکُمْ کہ جب تمہارے اندر جو بدترین کردار کے لوگ، ظالم لوگ، بدمعاش وہ تمہارے لیڈر بن جائیں اور مالدار لوگ سخی ہو جائیں، تو پھر وہ لوگ اچھے جو قبروں میں چلے گئے، زمین کے پیٹھ پر چلنے والوں سے قبروں میں سونے والے اچھے۔ امام ترمذی نے اس حدیث صحیح کوروایت کیا۔
آپ اندازہ کیجئے۔ پھر آقا علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت قاسم بن مخیمرہ روایت کرتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا: اب خاص بات سمجھنے والی ہے، آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا کام جنہیں لوگ منتخب کر لیں، جنہیں حکومت و اقتدار کی امانت دے دیں، اونچے منصب پہ بیٹھا دیں ہمارا کیا لینا، ہمارا کیا کام، ہم نماز پڑھیں، روزے رکھیں، تسبیح کریں، تلاوت کریں، اللہ اللہ کریں۔ نہیں، میرے آقا نے اس تصور دین کو رد کر دیا۔ حدیث پاک میں ہے۔
عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمَرَةَ قَالَ: إِنَّمَا زَمَانُکُمْ سُلْطَانُکُمْ فَإِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ وَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ.
أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 8 / 162، الرقم / 16429، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 / 42، الرقم / 7442، والمقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 653، الرقم / 298.
حضرت قاسم بن مُخَيْمَرَہ بیان کرتے ہیں: بے شک تمہارے زمانے (کے حالات) کا دار ومدار تمہارے حکمرانوں پر ہے۔ جب تمہارے حکمران نیک اور صالح ہوں گے تو تمہارا زمانہ (بھی حالات کے اعتبار سے) اچھا ہوجائے گا اور جب تمہارے حکمران بُرے ہوں گے تو تمہارا زمانہ بھی بُرا ہو گا۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّمَا زَمَانُکُمْ سُلْطَانُکُمْ فَإِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ وَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ.
لوگو! تمہارے زمانے کے حالات، اگر اپنے زمانے کے حالات کو اچھا یا برا دیکھنا ہو تو وہ حکومت کے ذریعے ہو گا۔ جیسی حکومت ہو گی، جیسے تمہارے سلطان ہوں گے، حکمران ہوں گے تمہارے زمانے کے وہی حالات ہوں گے۔ حکومت اور حکمران ہی تمہارا زمانہ ہے۔ اگر حکمران اچھے ہوں گے تو تمہارے دور کے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ اگر حکمران بدکردار، فاسق ہوں گے تو تمہارے زمانے اور دور کے حالات برباد ہو جائیں گے۔
اگر چاہو کہ حکومت اور اقتدار کرپٹ، بددیانت لوگوں کے ہاتھ میں رہے اور تمہارے گھروں کے اور معاشرے کے حالات سنور جائیں، میرے آقا نے فرمایا: ایسا نہیں ہو گا۔ چونکہ اس کی مزید وضاحت آقا علیہ السلام نے کی۔ بڑی خاص بات۔
عَنْ کَعْبٍ - يَعْنِي الأَحْبَارَ - قَالَ: إِنَّ لِکُلِّ زَمَانٍ مَلِکًا يَبْعَثُهُ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِ أَهْلِهِ، فَإِذَا أَرَادَ اﷲُ بِقَوْمٍ صَـلَاحًا بَعَثَ فِيْهِمْ مُصْلِحًا، وَإِذَا أَرَادَ بِقَوْمٍ هَلَکَةً بَعَثَ فِيْهِمْ مُتْرَفًا، ثُمَّ قَرَأَ: {وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِکَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًاo}.
رَوَاهُ الْمُقْرِئُ.
وفي رواية: عَنْ أَبِي الْجَلَدِ، قَالَ: يُبْعَثُ عَلَی النَّاسِ مُلُوْکٌ بِذُنُوْبِهِمْ.
رَوَاهُ الْمُقْرِئُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية عنه: قَالَ: يَکُوْنُ عَلَی النَّاسِ مُلُوْکٌ بِأَعْمَالِهِمْ.
رَوَاهُ ابْنُ حَمَّادٍ.
: أخرجه المقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 653-654، الرقم / 299، وأبو نعیم في حلية الأولياء، 6 / 59، وابن حماد في الفتن، 1 / 115، الرقم / 264، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 39 / 477.
حضرت کعب بن اَحبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بے شک ہر زمانہ کا ایک حکمران ہوتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ بندوں کے دلوں پر مبعوث فرماتا ہے (یعنی بندوں پر حکمرانی دیتا ہے)، سو جب اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی اصلاح کا ارادہ فرماتا ہے تو انہی میں سے کسی مصلح کو بھیج دیتا ہے اور جب کسی قوم (کی نافرمانیوں کے باعث ان) کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان میں عیش پرست (نام نہاد لیڈر) بھیج دیتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی:{اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو (کوئی) حکم دیتے ہیں (تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں) تو وہ اس (بستی) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ (عذاب) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیںo}۔
ایک روایت میں حضرت ابو جَلَد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں پر ان کے گناہوں کی پاداش میں (کرپٹ) حکمران بھیجے جائیں گے۔
ایک اور روایت میں حضرت ابو جَلَد رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے: لوگوں پر حکمران ان کے اعمال کے عوض ہوں گے (یعنی جیسے لوگوں کے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکمران ہوں گے)۔
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
إِنَّ لِکُلِّ زَمَانٍ مَلِکًا يَبْعَثُهُ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِ أَهْلِهِ، ہر دور میں ایک حکومت ہوتی ہے، ہر دور کے حکمران ہوتے ہیں اور اللہ تعالی انہیں اس دور کے لوگوں پر، معاشرے پر، حکومت و طاقت عطا کرتا ہے، غلبہ دیتا ہے۔یہ بیداری شعور کی مہم، یہ ان فتنوں کی تباہی اور ان سے بچنے کی تدبیر اس قوم کی ایک ایک فرد کو کیوں سنا رہا ہوں، سمجھا رہا ہوں؟ میرے آقا نے فرمایا: حکمران ہوتے ہیں جو لوگوں پر قابض ہو جاتے ہیں،
فَإِذَا أَرَادَ اﷲُ بِقَوْمٍ صَـلَاحًا بَعَثَ فِيْهِمْ مُصْلِحًا، اگر اللہ تعالی چاہے اس قوم کے ساتھ اچھائی کا ارادہ کرے، اس قوم کو بھلائی اور اصلاح کی طرف لے جانا چاہے، اللہ تعالی اس قوم کو تباہی، بربادی، ہلاکت سے نکالنا چاہے، اس معاشرے اور قوم میں خیر عطا کرنا چاہے، تو اللہ پاک نے فرمایا: پھر ان کو مصلح عطا کر دیتا ہے۔ اس قوم کو سیدھی راہ دکھانے والا عطا کر دیتا ہے، اس قوم کو ہدایت دینے والا عطا کر دیتا ہے، اس قوم کو اچھے برے کی تمیز دکھانے والا عطا کر دیتا ہے۔اس قوم میں خیر اور شر کا فرق بتانے والا عطا کر دیتا ہے
بَعَثَ فِيْهِمْ مُصْلِحًا، تاکہ وہ قوم کو سچ بتائے اور حکمرانوں کی پیدا کردہ خرابیوں، ہلاکتوں سے قوم کو بچائے۔ وَإِذَا أَرَادَ بِقَوْمٍ هَلَکَةً اور یہ جب چاہے کہ یہ قوم ہلاک ہی ہو جائے، تباہ و برباد ہی ہو جائے، ڈوبتی ہے تو ڈوب جائے تو پھر بَعَثَ فِيْهِمْ مُتْرَفًا، ان کے اندر عیش پرست اور بددیانت، ظلم کرنے والے لیڈر ہی رکھتا ہے، انہیں صحیح راہ دکھانے والا کوئی نہیں بھیجتا۔ارے اس تحریک کو اللہ رب العزت نے اس دور فتن میں امت کو صحیح راستہ بتانے والی تحریک بنایا ہے۔ تا کہ لوگ اس دور کی تباہ کاریوں سے بچ سکیں اور راہ ہدایت کی طرف آ سکیں۔ چونکہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يَکُوْنَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُکَعُ ابْنُ لُکَعٍ.
وَزَادَ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی الله عنها: ثُمَّ يَصِيْرُ إِلَی النَّارِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 389، الرقم / 23351، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب: (37) منه، 4 / 493، الرقم / 2209، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 96، الرقم / 427، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 197، الرقم / 628، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 392، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 802، الرقم / 407، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 273، الرقم / 2727، وابن أبي عاصم في الزهد، 1 / 98، الرقم / 196.
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا، وہ دنیا میں سب سے بڑا شریف اور معزز نہ سمجھا جانے لگے۔
امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا: پھر اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔‘‘
فرمایا: اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی کہ آخری زمانہ یہ ہو گا کہ اس شخص کو معاشرے میں عزت ملے گی جو خود بھی کرپٹ ہو گا، بددیانت ہو گا، اس کا باپ بھی بد دیانت تھا، یعنی نسل در نسل، کرپٹ، بددیانت اور بدمعاش لوگوں کے ہاتھ میں سوسائٹی کی حکومت اور اقتدار منقل ہو گا، نسل در نسل وہ قابض رہیں گے۔ سوسائٹی میں حکومت و اقتدار پر اور شرافت پر، منصب پر جب یہ ماحول ہو جائے تو سمجھو کہ قیامت کی تباہ کاریوں میں معاشرہ داخل ہو گیا ہے۔
يَکُوْنَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُکَعُ ابْنُ لُکَعٍ، لکع بن لکع.
لکع کہتے ہیں بدنام زمانہ کو، کرپٹ، بدمعاش، بے ایمان شخص کو۔ فرمایا: کہ نسل در نسل قیادت منتقل ہو گی۔
باپ بھی کرپٹ تھا، پھر بوڑھا ہو گا پھر اس کا بیٹا اسی سیٹ پر آ جائے گا کرپٹ وہ مرے گا پھر اس کا بیٹا آ جائے گا۔ یعنی خاندانوں میں جو کرپٹ خاندان ہوں گے، بے کردار خاندان ہوں گے، ظالم، رسہ گیر، بدمعاش ہوں گے ان میں نسل در نسل سوسائٹی کی قیادت منتقل ہو گی۔ فرمایا: یہ قیامت کے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہو گا۔ اور امام بخاری نے تاریخ کبیر میں الفاظ کا اضافہ کیا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے۔ فرمایا:
ثُمَّ يَصِيْرُ إِلَی النَّارِ.
اور اگر یہی نظام رہا تو پھر وہ زمانہ دوزخ کی آگ کی طرف بڑھ جائے گا۔
میرے آقا نے فرمایا: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی تَصِيْرَ لِلُکَعٍ ابْنِ لُکَعٍ … وَقَالَ أَسْوَدُ: يَعْنِي اَلْمُتَّهَمَ ابْنَ الْمُتَّهَمِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 326، الرقم / 8303، 8305، وأيضًا، 3 / 466، الرقم / 15869، والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 229، الرقم / 2291، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 141، وابن حماد في الفتن، 1 / 203، الرقم / 553، وتمام الرازي في الفوائد، 1 / 121، الرقم / 275، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 220، 320.
اس وقت تک یہ دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کی دولت اور اقتدار بدنام ترین لوگوں کے لیے مختص نہ ہو جائے اور اسود نے کہا: یعنی بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا۔
کہ اس وقت تک دنیا ختم نہیں ہو گی جب تک یہ دنیا، یہ مال، یہ دولت، یہ عزت، یہ شرافت، یہ اقتدار لکع ابن لکع کے ہاتھ میں، یعنی نسل در نسل جو بدمعاش اور کرپٹ لوگ ہیں ان کے ہاں منتقل ہونے نہ لگ جائے۔ وہ پراسیس لوگو آ چکا ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ نہ کوئی پہلے حکمران ہوتا تھا نہ اس کا بیٹا بنا نہ اس کا بیٹا بنے گا، جن میں شرافت، امانت، دیانت ہے ان سے سے سوسائٹی کی طاقت ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ ان نسلوں میں طاقت، شرافت، اقتدار منتقل ہو رہا ہے اور دنیا اور اس کی عزت منتقل ہو رہی ہے اور نسل در نسل جو بدمعاش ہیں، غاصب ہیں، جاگیردار ہیں، رسہ گیر ہیں غنڈے ہیں جن سے دنیا ڈرتی ہے اور غریب تھر تھر کانپتے ہیں۔
اس نظام کو آقا علیہ السلام نے فرمایا: لکع ابن لکع کہ بدنام کا بیٹا بدنام، بدمعاش کا بیٹا بدمعاش، غنڈے کا بیٹا غنڈا اس طریق سے اقتدار ان کے ہاتھ رہے گا۔ دین پر عمل کرنے والا اس کو عزت نہیں ملے گی لکع کو عزت ملے گی، علم والے کو عزت نہیں ملے گی لکع ہو، غنڈا ہونا چاہیے بھلے جاہل ہو، بدمعاش ہونا چاہیے بھلے جاہل ہو۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: وہ دور آ جائے گا کہ جہاں نظام اس طرح کا سوسائٹی میں رواج پزیر ہو گا۔
اسی طرح عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ بھی روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام سے فرمایا:
لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَمْلِکَهَا لُکَعُ بْنُ لُکَعٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 63-64، الرقم / 4677.
یہ دنیا ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا، اس پر حکمران ہو گا۔
َوہی لفظ، فرمایا: وہ دور آئے گا کہ دنیا کی ملکیت، لکع ابن لکع بدمعاش کے بیٹے بدمعاش اور نسل در نسل بدمعاشوں کے ہاتھ منتقل ہو جائے گی۔ شرفاء کا کوئی حصہ دنیا کی عزت و شرافت اور اقتدار میں نہیں رہے گا۔
اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، امام ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا۔ حدیث صحیح ہے۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ ذَکَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا - وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ - قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ. فَقُلْتُ: کَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذٰلِکَ جَعَلَنِي اﷲُ فِدَاکَ؟ قَالَ: اِلْزَمْ بَيْتَکَ وَامْلِکْ عَلَيْکَ لِسَانَکَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ.
: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 109، الرقم / 4343، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 59، الرقم / 10033، والحاکم في المستدرک، 4 / 315، الرقم / 7758، والطحاوي في شرح مشکل الآثار، 3 / 219.
وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَعَوَامَّهُمْ.
: أخرجه المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 363، الرقم / 117، وأيضًا، 3 / 576، الرقم / 256.
وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَالْعَامَّةَ.
: أخرجه المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 365، الرقم / 118، وأيضًا، 3 / 574، الرقم / 254.
حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص l نے روایت کیا ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ انہوں نے وعدوں کا پاس کرنا چھوڑ دیا ہے اور امانتوں کی پروا نہیں رہی - اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگشت ہاے مبارک کو آپس میں پیوست کر کے فرمایا کہ (امانتوں کو لوٹنے والے گروہ) یوں گتھم گتھا ہو جائیں گے - میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ اُس وقت میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت اپنے گھر میں ہی رہنا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، اچھی چیز کو اختیار کرنا اور بری بات کو چھوڑ دینا۔ اور تم پر لازم ہے کہ (اپنے دینی و مذہبی اور معاشرتی و اَخلاقی فرائض کی کامل ادائیگی کے ذریعے) اپنی جان (کو نارِ جہنم سے بچانے) کی خصوصی فکر کرنا اور رائے عامہ کی پیروی کو چھوڑ دینا (بلکہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پیروی کرنا)۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اس وقت) عامۃ الناس کی رائے کی پیروی سے بچنا۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عامۃ الناس کی رائے کی پیروی اِختیار نہ کرنا (بلکہ حق کا ساتھ دینا)۔
فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام آقا علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے تھے حلقہ بنا کر کہ آقا علیہ السلام نے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ غور سے سنئے میری گفتگو کا بالکل آخری حصہ ہے، آقا علیہ السلام نے فتنوں کے دور کا ذکر کیا کہ ایسے ایسے فتنے آئیں گے۔ تو ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ فتنے کب آئیں گے؟ آقا علیہ السلام نے پہچان بیان کی کہ فتنوں کا دور یہ ہو گا:
إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا - وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.
اس طرح انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں فرمایا: فتنوں کا دور وہ ہو گا کہ جو لوگوں کے لیڈر ہوں گے، حکمران ہوں گے، نمائندے ہوں گے جن کو امانتیں دی جائیں گی وہ وعدے کریں گے پھر وعدہ خلافی کریں گے۔
انہیں امانت دی جائے گی وہ امانت کو ہلکا سمجھ کے کھا جائیں گے، کرپشن کریں گے اور سارے کرپشن کرنے والے ٹولے اور جماعتیں اور گروہ
وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ،
ان انگلیوں کی طرح آپس میں جڑ جائیں گے۔ یہ گیا کہ نہیں؟ کرپشن پہ جماعتیں آپس میں مل جائیں گی، ان کا ایجنڈا ایک ہو جائے گا، لوٹ مار، خیانت و کرپشن، آقا علیہ السلام نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا: یہ وعدے توڑنے والے اور قوم کی امانتیں کھانے والے اس طرح جیسے انگلیوں میں انگلیاں میں ڈال رہا ہوں ایسے جڑ جائیں گے، ایک ہو جائیں گے۔
آقا علیہ السلام سے پوچھا کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جب یہ زمانہ آ جائے تو ہم کیا کریں؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
خُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ.
فرمایا: جب ایسا دور آ جائے تو جو حق ہے، نیکی ہے اس کا ساتھ دو اور جو بدی اور برائی ہے اس کو دفع کردو اور آقا علیہ السلام نے فرمایا: پھر دوزخ سے بچانے کے لیے خصوصی فکر کرو اور اس کی پرواہ نہ کرو کہ عامۃ الناس کی اکثریت کیا رائے دیتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے ووٹ کس کو دئیے ہیں۔
وفی رواية وَإِيَاکَ وَعَوَامَّهُمْ.
المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 363، الرقم: 117، وأيضًا، 3 / 576، الرقم: 256.
میں حدیث پاک بیان کر رہا ہوں عوام کا نام لیا میرے آقا نے، ایسا دور آ جائے تو مت دیکھو کہ عوام نے کس کو چنا ہے، عوام کی اکثریت نے ووٹ کس کو دئیے ہیں، عوام کو تو شعور ہی نہیں ہے یا لالچ میں ہیں یا ڈر میں ہیں، نہ انہیں علم، نہ شعور، نہ آگاہی، نہ بصیرت، فرمایا:
وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَالْعَامَّةَ.
اس وقت یہ نہ دیکھو کہ عامۃ الناس نے کثرت کے ساتھ کن کو نمائندہ بنایا۔ کن کو ووٹ دئیے، کن کو چنا، کن پارٹیوں کے پیچھے گئے۔ فرمایا: وہ بے بہک گئے، عوام کی رائے کی پیروی نہ کرو دوزخ کی آگ سے بچنے کی فکر کرو۔ عوام کی رائے کی تقلید نہ کرو۔ لوگو! آقا علیہ السلام کی امت میں مصطفوی اور نبوی معیار پر قیادت کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ لوگوں کی کثرت کدھر جا رہی ہے۔ وہ لوگوں کے پیچھے نہ چلے وہ مصطفی کے حکم کے پیچھے چلے۔ لوگ اِدھر جائیں یا اُدھر جائیں اس کا فرض ہے وہ کوہِ گراں بن کے حق کے لیے ڈٹا رہے اور لوگوں کو سیدھی راہ بتاتا رہے۔ حاضرین محترم! جب ایسا دور آ جائے آپ نے آج رات ان فتنوں کا ذکر سنا اور فتنوں کے حالات کو سنا، ان کی علامات کو سنا، سوچئے اور بتائیے کہ کوئی ایک شے بھی ایسی ہے جو آقا علیہ السلام نے فرمائی اور آج من و عن آپ کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔
اب اس سے بچاؤ کے دو راستے ہیں، یا ایک راستے کو چننا ہو گا، دونوں آقا علیہ السلام نے بتائیں ہیں، ایک ہلکا ہے ادنی راستہ ایک اعلی راستہ۔ فتنوں کے دور میں بچنے اور بچانے کی امت کو آقا علیہ السلام نے دو تدبیریں بتائیں ایک ادنی تدبیر ہے اور ایک اعلی تدبیر ہے۔ اس کا ذکر ان شاء اللہ کل سے شروع ہو گا۔ یہ فیصلہ ہم کو کرنا ہے کہ دو تدبیریں جو آقا علیہ السلام نے بتائیں ان میں سے کس کو اپنایا جائے اور کس تدبیر کو اپنانے میں امت کی خیر ہے۔ اس کا اشارہ دے رہا ہوں ایک ادنی تدبیر بتائی آقا علیہ السلام نے کہ جب ایسا دور آ جائے تو اسی شخص کا ایمان بچے گا جو دنیا کو، معاشرے کو اور گھر بار کو چھوڑ کر جنگلوں میں چلا جائے، غاروں میں چھپ جائے اسی کا دین بچے گا۔
اور ایک تدبیر یہ ہے کہ حق کا عَلم اٹھا کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے ہر شر کے خلاف ڈٹ جائے۔ یہ دو راستے آقا علیہ السلام نے بتائے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالی آقا علیہ السلام کی زبان اقدس اور آپ ہی کی تعلیمات کی روشنی میں یہ ذکر آگے جاری رہے گا۔ آج کا بیان ان فتنوں کی شرح پر مشتمل تھا۔ اللہ رب العزت توفیق دے کہ ہم اس کو سمجھیں، ان کا شعور نصیب ہو اور پھر ان سے بچنے کی صحیح نبوی تدبیر پر عمل پیرا ہو سکیں۔
وما علينا إلا البلاغ
تبصرہ