فلسطین میں اسرائیلی بربریت اقوام متحدہ اور او آئی سی کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔ راضیہ نوید
پاکستان عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ فلسطین کے بارڈر پر عالمی
افواج کو تعینات کیا جائے
نام نہاد حکمران خود اسرائیلی ذہنیت کے مالک ہیں
پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ کے تحت اسرائیلی جارحیت کے خلاف لاہور پریس کلب کے سامنے
مظاہرے سے خطاب
پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ کی مرکزی رہنما راضیہ نوید نے کہا ہے کہ دنیا عالمی فٹ بال کپ کے میچ دیکھ رہی ہے اور معصوم فلسطینی اسرائیل کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مغربی طاقتیں بے حس اور اسلامی دنیا خاموش ہے۔ امت مسلمہ کے کردار پر حیرت ہو رہی ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف کسی اسلامی ملک نے آواز نہیں اٹھائی۔ فلسطین میں اسرائیلی بربریت اقوام متحدہ اور او آئی سی کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔ مگر یہ ادارہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور ویٹو طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے۔ ایک طرف پتھر اور غلیل ہے اور دوسری طرف مظلوم مسلمان فلسطینیوں پر ٹینک، میزائل، توپیں اور گولہ بارود برسایا جا رہا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ اسے مسلم یا نان مسلم کا نہیں انسانیت کا مسئلہ سمجھتی ہے۔ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ یہ معصوم بچوں اور خواتین کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب کے سامنے پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ کے تحت اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مظاہرے میں سینکڑوں خواتین اور بچے شریک تھے۔ مظاہرین نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ خواتین فلسطین کی حمایت میں اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔
راضیہ نوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ چور دروازے سے اقتدار میں آنے والے پاکستانی حکمرانوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اقوام عالم کے سامنے ڈٹ کر فلسطین کے مسئلے کو اٹھائیں۔ یہ نام نہاد حکمران خود اسرائیلی ذہنیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے 17 جون کو 14 نہتے پاکستانیوں کو شہید کیا اور خواتین کے چہروں پر گولیاں ماریں۔ راضیہ نوید نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ فلسطین کے بارڈر پر عالمی افواج کو تعینات کیا جائے۔ پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ اسرائیلی بربریت کے خلاف معصوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ فلسطین بارے 100 سے زائد قراردادیں ویٹو ہو چکی ہیں۔ دنیا میں ویٹو پاورز نے طاقت کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیلی بربریت کو روکنے کیلئے عالمی برادری اور اقوام متحدہ عملی کردار ادا کریں۔
تبصرہ