بی بی سی اردو: ہم جلسہ گاہ کے اندر نہیں اور وہ مقررہ حد سے باہر نہیں
علامہ طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کی ریلی بالآخر انقلاب انقلاب کا نعرہ لگاتی اسلام آباد پہنچ چکی ہے اور یہاں انھوں نے کھلے آسمان تلے پڑاو ڈالا ہے خیابان سہروردی پر۔
رات جب یہ ریلی یہاں پہنچی تو شدید بارش ہورہی تھی۔ عوامی تحریک کی ریلی میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ ان خواتین کی حفاظت کے لیے خواتین پر مشتمل ہی ایک سکواڈ بنایا گیا ہے۔
راجن پور کی عفیفہ اس سکواڈ کی نگران ہیں۔ سر پر پیلے رنگ کا ہیلمٹ پہنے، گلے میں گیس ماسک اور اپنی پارٹی کا کارڈ لگائے وہ اپنے سکواڈ کی لڑکیوں کو کچھ ہدایات دے رہی تھیں۔ رقیہ کے ایک ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی تھی، جس پر میخیں لگی دکھائی نہیں دیں اور ایک کلائی پر انھوں نے عوامی تحریک کا پرچم باندھ رکھا تھا۔
عفیفہ کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے علاقے کی دو سو خواتین یکم اگست سے اپنے گھروں سےنکلی ہیں۔
پہلے وہ لاہور میں منہاج سیکرٹریٹ میں موجود تھیں اور چودہ اگست کو انھوں نے لاہور سے اسلام آباد کا سفر شروع کیا۔
میرے اس سوال پر کہ رات کو یہ تمام خواتین کہاں سوئیں، ان کا کہنا تھا کہ رات تو تقریباً سفر میں ہی گزر گئی۔
اس سوال پر کہ انھوں نے چھڑیاں اور ہیلمٹ کیوں پہن رکھے ہیں، عفیفہ نے بتایا کہ یہ سب تیاری انھوں نے حکومت کے ساتھ سابقہ تجربے کی بنیاد پر کی ہے۔
’حکومت سے ہمیں ہر ظلم کی توقع ہے، اس کامقابلہ کرنے کے لیے ہم نے یہ سب کیا ہے۔ ویسے بھی ملک کے جو حالات ہیں، ہم لوگ اپنے گھروں میں پریشان ہی ہیں۔ پڑھائی کی تھی لیکن ڈگریاں کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ روزگار تو ملا نہیں۔ بجلی ملتی ہے نہ صاف پانی، ہم اسی لیے اپنے بچے گھروں میں چھوڑ کر اپنے حقوق کے حصول کے لیے باہر نکلے ہیں۔‘
عفیفہ کے جتھے میں ایک نوجوان دھان پان سے لڑکی دکھائی دی، جو پوری توجہ سے ان کی ہدایات سن رہی تھی۔ ان کا تعلق لودھران سے اور نام انیس تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ خواتین کے لیے کھلے آسمان تلے رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، نہ رفع حاجت کے لیے مناسب انتظام اور نہ ہی آرام کرنے کا کوئی بندوبست۔
انیس نے جواب دیا ’مشکل تو بہت ہے لیکن اگر ہمارے ایک ماہ یا ایک سال سڑک پر بیٹھنے سے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے تو یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔‘
عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ ان کی ریلیوں کے مقامات پر میڈیا اور سکیورٹی اہلکار بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جہاں ریلی میں خواتین پوری جرات کے ساتھ پیش پیش ہیں، وہیں ریلیوں کے ارد گرد خواتین پولیس اہلکار بھی بڑی تعداد میں دکھائی دیں۔
آزاد کشمیر پولیس کی ستر خواتین پولیس اہلکار بھی انقلاب اور آزادی مارچ کی ڈیوٹی کے لیے اسلام آباد آئی ہیں۔
یہ خواتین چوکس کھڑی تھیں لیکن ان کے چہروں پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔
ان خواتین نے بتایا کہ کئی پولیس اہلکاروں کے بچے شیرخوار ہیں لیکن ان کی چھٹی کی درخواست بھی قبول نہیں کی گئی۔ نہ ہی کسی کا میڈیکل لیا گیا ہے۔
وہ شفٹوں میں کام کر رہی ہیں اور سڑکوں پر گھنٹوں کھڑے رہنا آسان نہیں۔
ان پولیس اہلکاروں کو رائٹ کٹ بھی دی گئی ہے جس میں ایک ڈنڈا، ایک ڈھال اور بلٹ پروف جیکٹ شامل ہے۔
خواتین کے ساتھ ریلیوں کے مقامات کی چاروں جانب پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے دستے بھی تعینات ہیں جو پہلے تو فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جونہی انھوں نے میرا کیمرا دیکھا وہ چوکس ہو کر کھڑے ہوگئے۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ جہاں وہ تعینات ہیں اس سے آگے کسی کو جانے نہیں دیں۔ جب میں نے سوال کیا کہ کیا وہ عوامی تحریک کے کارکنوں سے خوفزدہ ہیں۔
ایک اہلکار زاہد رسول نے بتایا کہ ’ہماری ان سے (عوامی تحریک کے کارکنوں سے) ڈیل ہوئی ہے۔ کہ ہم نے ان کے جلسہ گاہ کے اندر نہیں جانا اور انھوں نے مقررہ حد سے باہر نہیں آنا۔‘
تاہم ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کا مائیک دیکھ کر یہ آواز بھی لگائی کہ ان کی انٹرٹینمنٹ کا بندوبست بھی کیا جائے۔
جلسہ گاہ میں پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سکیرٹری اطلاعات قاضی فیض سے بھی ملاقات ہوئی۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہزاروں لوگوں خصوصاً خواتین کو اس طرح کھلے آسمان تلے لا بٹھانا کیا زیادتی نہیں، تو ان کا کہنا تھا یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کے حقوق اڑسٹھ برس سے پامال ہو رہے ہیں۔
ذرائع: بی بی سی اردو
تبصرہ