دروسِ عرفان القرآن (پاکستان کی تبلیغی تاریخ کا اہم کارنامہ)

مورخہ: 28 اگست 2006ء

نظامتِ دعوت

| شیڈول دروس قرآن 2006ء | شیڈول دروس قرآن 2007ء

اسلام دنیا کے تمام الہامی مذاہب میں سے سب سے بہترین دین (ضابطہ حیات) ہے۔ یہ نہ صرف فطرت انسانی کے عین مطابق ہے بلکہ ہر دور اور زمانہ میں قابل عمل رہا ہے۔ زمانہ جس قدر تیز رفتاری سے ترقی کرے، اسلام اس کی بدلتی ہوئی اقدار کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں انسانیت کو ایسا حتمی وقطعی اور مکمل علم فراہم کرتا ہے جو اسے نہ صرف بہترین زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے بلکہ اس کا تسخیر کائنات کا خواب بھی شرمندہء تعبیر کر سکتا ہے۔

اسلام کے اس علم، فکر اور نظریے کی عملی اور شخصی مثال حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جبکہ اسی اسلام کی تحریری شناخت اور پہچان کا نام قرآن مجید ہے۔ قرآن ایک ایسی نعمت ہے جو قیامت تک کائنات انسانی کے جملہ انفرادی، اجتماعی اور کائناتی مسائل کا نہ صرف واضح اور یقینی حل ہے بلکہ تسخیر کائنات کے لیے بہترین لائحہ عمل بھی فراہم کرتا ہے۔ نزول قرآن کا مقصد امت محمدی کو انسانیت کی امامت کا شرف عطا کرنا تھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مقصدحاصل کر کے دکھایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس ان پڑھ معاشرے میں تبلیغ کا آغاز فرمایا وہاں لاکھوں کی آبادی میں محض 15 افراد بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ جہالت اپنے عروج پر تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں دارارقم اور مدینہ میں صفحہ چبوترے سے اس علم کی ترویج کا آغاز کیا تو محض ایک صدی کے بعد کائنات انسانی کا نقشہ بدل جاتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بدو قوم کو محض ایک صدی میں انسانیت کا امام بنا دیا تھا۔ صفہ چبوترے پر پڑھایا جانے والا علم قرآن اور حدیث ہی تھا انہی علوم کی تحصیل کے بعد جب مسلمانوں نے کائنات پر غور وفکر شروع کیا تو انہی سے علوم کے چشمے پھوٹتے چلے گئے اور یوں طب، کیمیا، ارضیات، فلکیات، مدنیت، ایمانیات کے ہزاروں نئے موضوعات کا آغاز ہوا۔ پھر دس صدیوں سے زائد عرصہ تک مسلمان علم کے میدان میں انسانیت کے لئے مینارہء نور کی حیثیت سے زندہ رہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب قوم نے جب علم سے اپنا ناطہ توڑا تو زمانے نے اسے اوج ثریا سے دے مارا۔ جب امت مسلمہ نے علوم ومعرفت کے اس حقیقی سرچشمے قرآن وحدیث سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ اقوام عالم میں ذلت ورسوائی اس کا مقدر ہو گئی۔ اس وقت اس قرآن سے ہمارا تعلق محض مردوں پر ایصال ثواب کے لئے یا خطابات کے عنوانات کے لئے رہ گیا ہے۔

قرآنی علوم اور معارف سے ہمارا تعلق یکسرختم ہو چکا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دشمن تو دشمن اپنے بھی اسے اخلاقیات کی کتاب سمجھتے ہیں۔ ایسے دور فتن میں تحریک منہاج القرآن نے دنیا کے تمام علوم کی قرآن سے تشریح وتبلیغ کا بیڑا اٹھایا۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے نہ صرف اسلام کے جملہ موضوعات، ایمانیات، اعتقادیات، فقیہات، سیاسیات، اخلاقیات، عمرانیات، اقتصادیات، نفسیات بلکہ دیگر سائنسی علوم اور موضوعات کو بھی قرآن سے واضح کیاہے۔

تحریک منہاج القرآن نے تبلیغ کے لئے قرآن مجید کو ذریعہ اور وسیلہ بنا کر عوام الناس کا قصوں کہانیوں اور غیرمستند ذرائع علم سے تعلق توڑا ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے دنیا کی ہر بحث قرآن سے کر کے ثابت کیا ہے کہ قرآن ہر علم وفن کا منبع ہے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 300 سے زائد کتب اور 6000 سے زائد خطابات کا جملہ متن قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے نہ صرف تحریری میدان میں قرآن وحدیث سے استدلال کیا بلکہ تقریر کے میدان میں تمام گفتگو کی بنیاد اور محور قرآن وحدیث کو بنا کر عوام الناس کا قرآن مجید سے تعلق مضبوط کیا۔ اس سلسلے کی ابتداء 1980ء میں شادمان کی رحمانیہ مسجد سے درس قرآن سے ہوئی پھر ملک بھر کے ہر شہر میں دروس قرآن کا ایک طویل سلسلہ شروع کیاگیا۔ PTV کے پروگرام فہم القرآن میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے درس قرآن نے ملک بھر میں درس قرآن اور فہم القرآن دونوں کو پہچان عطا کی۔ دنیا عالم کے 80 سے زائد ممالک میں ہزاروں موضوعات پر حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دروس قرآن دے کر قرآن کے ذریعے تجدید واحیائے دین کا فریضہ سرانجام دیا۔

2004 میں قائد تحریک منہاج القرآن کے حکم سے نظامت دعوت نے قرآن کے اسی پیغام کو عام کرنے کے سلسلہ میں ملک بھر میں دروس عرفان القرآن کے سلسلے میں کا آغاز کیا۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے طلباء اور منہاج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل سکالرز نے ملک بھر میں دروس عرفان القرآن کا آغاز کیا اور یوں رجوع الی القرآن کی مہم دروس عرفان القرآن کی شکل میں ملک گیر سطح پر تبلیغی تاریخ میں ایک غیرمعمولی باب کی شکل اختیار کر گئی۔ اس وقت اللہ کے فضل وکرم سے ملک بھر میں 100 سے زائد تحصیلی مقامات پر ماہانہ بنیادوں پر ایک مخصوص دن اور مخصوص مقام پر درس قرآن کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ہر ماہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ سال جون تک ان دروس قرآن کے پروگراموں کی تعداد 200 سے زائد ہو جائے گی۔

ان دروس عرفان القرآن میں فن خطابت کے جوہر دکھانے کی بجائے باقاعدہ ایک کلاس کی شکل میں مقررہ تسلسل سے قرآنی فکر پر مبنی درس دیا جاتا ہے۔ ان دروس عرفان القرآن میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کر رہی ہے۔ اکثر دروس عرفان القرآن میں شرکاء کی تعداد ہزار سے بڑھ چکی ہے اور یوں سالانہ کم وبیش 80 ہزار سے زائد افراد تک قرآن کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔

ان دروس کی خاص بات یہ ہے کہ تمام دروس شہر کے بڑے بڑے شادی ہالوں اور عوامی جگہوں پر منعقد کئے جا رہے ہیں۔ عوام الناس میں مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ مہینہ کے تمام ایام دن اور رات دونوں اوقات میں جاری رہنے کے باوجود عوام الناس کی کثیر تعداد ان میں شرکت کر رہی ہے۔ ان دروس کی کامیابی کی ایک اہم وجہ صحیح قرآنی فکر کی تبلیغ واشاعت کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ گھنٹے کا مقررہ دورانیہ ہے جس میں خوبصورت اور منظم انداز میں انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان دروس عرفان القرآن میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے متعین کردہ سلیبس (سورہ الحجرات کی آیات مقدسہ) میں سے ترتیب وار دروس دیئے جا رہے ہیں۔ سورہ الحجرات کی آیات مقدسہ کی روشنی میں عوام الناس کے عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ انہیں اخلاق حسنہ کی تعلیمات بھی دی جا رہی ہیں۔

یہ درس معاشرے میں امن، بھائی چارے اور رواداری کوفروغ دینے میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ ان دروس قرآن کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ بلاامتیاز فرقہ، سنی، شیعہ، بریلوی، اہلحدیث اور تمام مسالک کے لوگ ان میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں۔ ان دروس عرفان القرآن میں اسلامی تعلیمات کے اصل رخ کو ایسا واضح کیا جا رہا ہے کہ دلوں میں نفرتیں اور کدورتیں نکل رہی ہیں اور پیار ومحبت اور امن وآشتی کو فروغ مل رہا ہے۔ اس قدر منظم مربوط باقاعدہ اور وسیع دائرہ کار میں دروس قرآن کا انعقاد ملکی تبلیغی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ان دروس قرآن کا انعقاد ترجیحاً تحصیلی ہیڈکواٹر پر کیا جاتا ہے جبکہ بعض تحصیلوں میں مقبولیت کے باعث ایک سے زائد پروگرام بھی جاری ہیں۔ دروس قرآن دینے کے لئے نظامت دعوت کی ٹیم صبح وشام ہزاروں کلومیٹرکا سفر کر کے ملک کی ہر ہر تحصیل میں بروقت درس دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ نظامت دعوت کی یہ ٹیم درج ذیل احباب پر مشتمل ہے۔

  1. علامہ رانا محمد ادریس (مرکزی ناظم دعوت)
  2. علامہ صاحبزادہ ظہیر احمد نقشبندی (سینئر نائب ناظم دعوت)
  3. علامہ ارشاد حسین سعیدی (مرکزی سینئر نائب ناظم دعوت)
  4. علامہ غلام مرتضیٰ علوی (مرکزی سینئر نائب ناظم دعوت)
  5. علامہ علی اختر اعوان (مرکزی نائب ناظم دعوت)
  6. علامہ محمد شکیل ثانی (مرکزی نائب ناظم دعوت)

یہ تمام علماء نہ صرف دینی علوم پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ ایم اے عربی واسلامیات کرنے بعد اب بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی میں تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان دروس کا دائرہ کار تقریبا پورا ملک ہے۔ ایک طرف مظفر آباد، بالا کوٹ، گڑھی حبیب اللہ، اور ایبٹ آباد میں دروس قرآن جاری ہیں تو دوسری طرف ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پہاڑ پور بھی قرآن کے نور سے منور ہے۔ جی ٹی روڈ کوہاٹ، پشاور سے لے کر راجن پور تک، ہری پور، اٹک، فتح جنگ، حسن ابدال، راولپنڈی، اسلام آباد، دولتالہ، چکوال، چوآ سیدن شاہ، مندرہ، گوجرخان، دینہ، جہلم، میرپور، بھمبر، سرائے عالمگیر، پنڈ دادنخان، منڈی بہاؤ الدین، گجرات، گکھڑ منڈی، گوجرانوالہ، جلالپور، حافظ آباد، سیالکوٹ، سمبڑیال، بدوملہی کی تحصیلیں ماہانہ دروس عرفان القرآن منعقد کر رہی ہیں، صرف لاہور شہر کے ٹاؤنز میں تیس سے زائد اور راولپنڈی شہر میں PP حلقہ جات کی سطح پر ماہانہ دروس عرفان القرآن منعقد ہو رہے ہیں سرگودھا، شاہ پور، پھالیہ، تلہ گنگ، میانوالی، پپلاں، نوشہرہ، بھکر، منکیرہ، چوک اعظم، لودھراں، گڑھ موڑ، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تحصیلی ہیڈکوارٹر پر بہترین شادی ہالوں، ٹاؤن کمیٹیوں اور بلدیہ ہالوں میں ماہانہ اجتماعات دروس قرآن منعقد ہو رہے ہیں، سانگلہ ہل، صفدرآباد کے ساتھ ساتھ فیصل آباد میں سمندری، مامونکانجن اور چک جھمرہ میں دروس قرآن جاری ہیں۔ لاہور سے آگے اوکاڑہ، رینالہ خورد، حویلی لکھا، نورپور، پاکپتن، بوریوالا، میانچنوں، عارفوالا، چشتیاں، ڈاہرانوالہ، فورٹ عباس اور سرحدی شہر ہارون آباد تک کی سرزمین دروس قرآن کی صداؤں سے گونج رہی ہیں۔ چیچہ وطنی، ڈی جی خان، کوٹ چٹھہ، راجن پور، فاضل پور، کوٹ مٹھن، صادق آباد، رحیم یارخان، خان پور اور خانیوال کے درودیوار دروس عرفان القرآن سے گونج رہے ہیں۔ حیدر آباد، دادو، بھان سعید آباد، میرپور خاص، اور گھوٹکی کے بعد اب کراچی میں بھی درس قرآن شروع ہو چکا ہے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top