حکمران تعلیمی اداروں کے تحفظ کی ذمہ داری بچوں اورخواتین اساتذہ پر ڈال رہے ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری
دہشت گردی میں ماہر پولیس کے ذریعے قومی ایکشن پلان کو ناکام بنایا جا رہا ہے، گفتگو
لاہور (28 جنوری 2015) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ حکمران قومی ایکشن پلان کو ناکام اور قومی اداروں کو بدنام کرنے کے ایجنڈے پر کا م کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کروانے میں ماہر حکمران دہشت گردی کرنے میں ماہر پولیس کے ذریعے قومی ایکشن پلان کو ناکام بنا رہے ہیں۔ فرسودہ اور پاکستان بننے سے پہلے کے قوانین اور آرڈیننسوں کے ذریعے اندھا دھند گرفتاریاں کر کے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور پیدا ہونے والی قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ نا اہل حکمرانوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، گذشتہ روز مدینہ منورہ میں وہ اپنی رہائش گاہ پر معروف پاکستانی سماجی شخصیات اور مختلف وفودسے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 50 ہزار سے زائد قیمتی جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں مگر حکمران اور پارلیمنٹ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے واضح قانون تک نہ پاس کر سکے۔ 1946 کے فارنر ایکٹ اور 1898 کے کریمنل پروسیجر کے تحت گرفتاریاں ہو رہی ہیں جو اس قوم کے ساتھ مذاق اور دہشت گردوں کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ امن پسند علمائے کرام اور امن کو فروغ دینے والی کتب پر پابندی لگانے کا عندیہ ظاہر کر کے منصوبہ بندی کے تحت سوسائٹی کو تصادم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تا کہ قومی ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کو پیشگی آگاہ کر دیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ کو ناکام بنانے اور فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاست شروع ہو چکی اور ہر سازش کے پیچھے ان حکمرانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی ایکشن پلان کو ناکام بنانے میں پنجاب کی حکومت سب سے آگے ہے۔ ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی پر اندھا دھند گرفتاریاں کر کے حوالاتوں کو بھرا جا رہا ہے اور تاثر دیا جا رہا ہے کہ پولیس نے بڑی تعداد میں دہشت گرد پکڑ لئے مگر عدالتیں ٹرائل نہیں کر رہیں؟ انہوں نے کہا کہ عوام کے جان و مال تعلیمی اداروں اور بچوں کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکمران یہ ذمہ داری سکول کے بچوں، خواتین اساتذہ اور دیگر سٹاف پر ڈال رہے ہیں۔ حکمران اپنی حرکتوں سے خوف کم کرنے کی بجائے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عوام کا جان و مال حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہوتا تو وہ نیک نیتی کے ساتھ ابہام سے پاک قوانین بنانے اورمحافظ اداروں کی تعداد میں ضرورت کے مطابق اضافہ کرتے۔
تبصرہ