میاں منظور وٹو کی وفد کے ہمراہ ڈاکٹر رحیق عباسی، خرم نواز گنڈا پور سے عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ میں ملاقات
لاہور (25 فروری 2015) وزیراعلیٰ پنجاب کا اپنے بنائے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع نہ کرنا افسوسناک ہے، ماڈل ٹاؤن کیس میرٹ پر پورا اترے تو ضرور فوجی عدالت میں چلنا چاہیے۔ ماڈل ٹاؤن میں جو ظلم ہوا اس کی دنیا کے کسی مہذب جمہوری معاشرے میں مثال نہیں ملتی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو نے پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی اور مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور سے ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر تنویر اشرف کائرہ، جی ایم ملک، مشتاق نوناری ایڈووکیٹ، ساجد بھٹی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں ننکانہ کے ضمنی الیکشن، ملکی سیاسی صورتحال اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ ننکانہ کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کے حوالے سے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ننکانہ کی تنظیم اور کارکنان کی مشاورت کے بعد کسی امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ننکانہ میں ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والے دیگر امیدواروں نے بھی رابطے کیے ہیں تاہم حتمی فیصلہ کارکن کرینگے۔
انہوں نے ملاقات کے بعد میاں منظور وٹو کے ہمراہ الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے 10 نکاتی ایجنڈے سے اتفاق اور ن لیگ کی ظالم حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والی ہر جماعت کے ساتھ سیاسی تعاون کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ن لیگ اقتدار پر مسلط ہے دھاندلی ختم ہو گی اور نہ ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ دونوں جماعتوں کے سینئر رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے آل پارٹی کانفرنس منعقد ہونی چاہیے جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو مدعو کیا جائے۔ ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ ن لیگ اختیارات اور وسائل کے ارتکاز کی سیاست کرتی ہے اور اس استحصالی سوچ کے ساتھ ملک اور جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتے۔ میاں منظور وٹو نے اخبار نویسوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عوامی تحریک کا ملک بھر میں ووٹ بنک اور اس کے کارکن پڑھے لکھے اور باشعور ہیں اور ظلم کے خاتمہ کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد قافل فخر ہے، ماضی میں پیپلز پارٹی نے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی صلاحیتوں اور جمہوریت پسندی کے اعتراف میں انہیں اپنے اپوزیشن الائنس کا سربراہ بنایا تھا۔
تبصرہ