دہشت گرد اسلام اور انسانیت کے دشمن ہیں جو کسی رعایت کے مستحق نہیں: علامہ شمس الرحمان آسی
مذہبی و سیاسی قوتیں متحد ہو کر ہی اس ناسور سے نجات پا سکتی ہیں، سیمینار سے خطاب
برطانیہ اور یورپ میں امن پسند مسلمانوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ مسلمان تشدد پسند اور دوسروں پر ظلم کرنے والے ہیں، حالانکہ ظلم و بربریت کا بازار گرم کرنے والے چند وہ جاہل لوگ ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہی نابلد اور ناآشنا ہیں۔ مٹھی بھر ظالم اور انتہاء پسند لوگوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کرنا کسی طور بھی درست نہیں۔ اگر امریکہ یا برطانیہ میں کوئی شخص دوسرے کو قتل کر دے تو اُس پوری کمیونٹی کو ہم قاتل نہیں کہتے بلکہ یہ اس ظالم کا ایک انفرادی فعل ہی گردانا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اب ہر شخص پر عیاں ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے کروڑوں مسلمان امن پسند ہیں اور تشدد کے قطعاً خلاف ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پینڈل کمیونٹی ریڈیو کے میزبان علامہ شمس الرحمان آسی نے برنلے میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کرنے والے ظالم اور انسانیت دشمن لوگوں کا مقابلہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کیلئے سیاسی اور دینی قوتوں کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ ہمیں باہم متحد ہو کر اُس ’’مائنڈ سیٹ‘‘ کو تبدیل کرنا ہے جو انسانیت پر ظلم کو نیکی سمجھتا ہے اور پوری دنیا میں اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کررہا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے اندر سے ان کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا ہے جو تمام مسلمانوں اور ہمارے پیارے دین کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ بلاشبہ اسلام دنیا کا عظیم ترین مذہب ہے لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اسلام کی نمائندگی کا حق صحیح انداز سے ادا نہیں کررہا، اس حوالے سے ہمیں من حیث القوم اپنے کردار کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ و یورپ میں رہنے والے تمام مسلمان اگر عملی طور پر امن و سلامتی کے پیغام کو عام کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تو بھی ہم انتہا پسندی کی سوچ کو شکست دے سکتے ہیں۔ برطانیہ و یورپ کی ترقی میں مسلمانوں کے کردار کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ سراہا گیا ہے لیکن اب بھی چند ناعاقبت اندیش لوگوں کی وجہ سے ہم اپنی اہمیت کو منوا نہیں پائے۔
علامہ شمس الرحمان آسی نے مزید کہا کہ ہمیں بطور مسلمان اسلام کے امن و محبت اور سلامتی کے پیغام کو عام کرنے کے حوالے سے بھی اپنی عملی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار بحسن و خوبی انجام دینا ہوگا۔ جو شخص جس شعبے میں اچھا کام کرسکتا ہے وہ ضرور کرے اور عوام الناس کو بھی چاہئے کہ جب بھی انہیں کسی سیمینار یا پروگرام میں بلایا جائے تو وہ سیکھنے کے ہر موقع کو غنیمت جان کر شرکت کریں۔
علامہ شمس الرحمان آسی نے اس خبر کو اپنی کمیونٹی کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ہر ہفتے ایک برطانوی خاتون اسلام دشمن تنظیم داعش میں شمولیت کیلئے شام چلی جاتی ہے۔ انہوں نے والدین اور اساتذہ سے خصوصی طور پر گزارش کی کہ وہ اس حوالے سے اپنا عملی کردار ادا کریں اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان القاعدہ اور داعش جیسی متشدد تنظیموں نے ہی پہنچایا ہے، اس لئے ان کے چنگل سے ہمیشہ بچ کر رہیں۔
انہوں نے علمائے کرام اور مشائخ عظام سے بھی گزارش کہ اسلام کے امن پسند اور سلامتی کے خوبصورت چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے اپنا کردار مزید متحرک ہو کر ادا کریں اور کرنٹ ایشوز کو اپنی گفتگو اور خطابات کا حصہ بنائیں تا کہ ہم دین اسلام کے اصل پیغام کو ہر سو عام کر سکیں۔ جب ہم سب کی کوششوں سے لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو جان لیں گے تو پھر وہ اسلام سے نفرت یا اس کی مخالفت نہیں کریں گے بلکہ اس دین کے مزید قریب آنے کی جستجو کریں گے اور یہی ہماری کامیابی کی علامت ہوگی۔
تبصرہ