عوامی تحریک کا وفاقی حکومت کی 2 سالہ کارکردگی پر حقائق نامہ جاری
دو سالوں میں سوئس بنکوں میں پڑے 2 سو ارب میں سے 2 ڈالر بھی واپس
نہیں آئے
ن لیگ کے لوڈشیڈنگ، کرپشن اور مہنگائی ختم کرنے کے دعوے ’’انتخابی گپ ‘‘ثابت ہوئے
حکومت نے غیر ملکی بنکوں سے ساڑھے 5 ارب ڈالر ملکی بنکوں سے 2 ہزار ارب روپے قرضہ لینے
کا ریکارڈ بنایا
5 سو ارب کے گردشی قرضہ، 134 ارب کے پٹرول کی چوری اور نندی پور پراجیکٹ میں خوردبرد
پر حکومت خاموش ہے؟
ن لیگ کے دور حکومت میں سیاسی کارکنوں پر شرمناک مظالم ہوئے، حقائق نامہ ڈاکٹر رحیق
عباسی نے جاری کی
پٹرول کی قیمتیں 2008 کی سطح پر آنے کے باوجود مہنگائی 10 فیصد زائد ہے، ماڈل ٹاؤن
میں ظلم ہوا
لاہور (2 جون 2015) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ن لیگ کی مرکزی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف برادران نے انتخابی مہم کے دوران قوم سے 4 بڑے وعدے کئے تھے جن میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، لوٹی گئی دولت ملک میں واپس لانے، معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے، سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے دعوے شامل تھے۔
حقائق نامہ کے مطابق مئی 2013 میں بجلی کا شارٹ فال 5000 میگا واٹ سے زائد اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16 سے 17گھنٹے تھا۔ آج آزاد ذرائع کے مطابق لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16 سے 17 گھنٹے اور شارٹ فال 5000 میگا واٹ سے زائد ہے یعنی دو سالوں میں لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے میں حکومت 100 فی صد ناکام رہی، حکومت نے بجلی چوری روکنے، گردشی قرضہ کی ادائیگی اور بلوں کی وصولی میں بہتری، لائن لاسز کو کم اور مینجمنٹ بہتر کر کے لوڈشیڈنگ کم کرنے کا جو پلان بنایا تھا وہ مکمل طور پر فیل ہو گیا ہے۔ حالیہ ظالمانہ لوڈشیڈنگ اس ناکامی کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔ اب حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے پلان پر عمل پیرا ہے جسے واپڈا ملازمین اور سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔
جہاں تک لوٹی گئی دولت بیرون ملک سے لانے کے اعلان کا تعلق ہے وہ بھی انتخابی ’’گپ‘‘ ثابت ہوا۔ موجودہ پارلیمنٹ میں سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے 100 ارب ڈالر کی موجودگی کا انکشاف ہوا، بعض رپورٹس کے مطابق لوٹی گئی دولت 200 ارب ڈالر ہے مگر دو سال گزر جانے کے باوجود موجودہ حکمران 2 ڈالر بھی واپس نہیں لا سکے۔ انتخابی مہم کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور لوٹی گئی سوئس دولت واپس لانے کا اعلان کیا گیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سوئس عدالت نے آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے ملکیتی ایک قیمتی ہار کا فیصلہ حکومت پاکستان کے حق میں سنایا۔ آج ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا حکومت پاکستان نے وہ قیمتی جیولری حاصل کرنے کیلئے سوئس حکام سے رجوع تک نہیں کیا۔ یاد رہے اس ہار کے متعلق کیس بھی نواز حکومت کے گزشتہ دور میں دائر کیا گیا تھا۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ فیصلہ حق میں آنے کے باوجود حکومت خاموش ہے۔
تیسرا دعویٰ معیشت درست کرنے کا تھا۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے بیرونی قرضہ لینے اور سود ادا کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ 2013 میں ہر پاکستانی 72 ہزار کا مقروض تھا آج ہر پاکستانی لگ بھگ ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ موجودہ حکومت کا دوسرا بجٹ بھی آئی ایم ایف بنا رہا ہے، سابق حکومت نے 5 سالوں میں 11 ہزار ارب قرضہ لیا، موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی دو سالوں میں ہی ساڑھے 5 ہزار ارب قرضہ لے لیا جبکہ آئی ایم ایف سے 11ہزار ارب قرض لینے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ شریف حکومت نے 2 سالوں میں 2000 ارب روپے مقامی بنکوں سے قرضہ لینے کا بھی نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے دعوے افسانوی اور پر فریب ہیں، عملاً پاکستان سود اور قرضوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ پہلے اور دوسرے مالی سال میں حکومت نے جتنے بھی معاشی اہداف مقرر کیے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہو سکا، بالخصوص ٹیکس وصولیوں میں ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی جس کے باعث حکومت کا قرضوں پر انحصار بڑھا۔ جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 5.1 فیصد رکھا گیا جو 4.1 فیصد رہا۔ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 3.3فیصد مقرر کیا گیا تھا جو 2.88 فیصد رہا، صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 6.8 فیصد مقررکیا گیا تھا جو 3.95 رہا، بجٹ خسارہ کم کرنے کا ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکا۔
صنعتی اور زرعی شعبے کی معکوس ترقی کے باعث بیروزگاری بڑھی، بالخصوص توانائی کے بحران کے باعث صنعتی مزدور بری طرح متاثر ہوا۔ 2013 کی نسبت مہنگائی میں اضافہ ہوا قیمتوں میں مسلسل اضافہ کا رجحان برقرار ہے۔ رمضان المبارک سے قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مہنگائی مافیا کو لوٹ مار کا لائسنس دیا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول سستا ہوا مگراسکا ریلیف عوام اور انڈسٹری کو نہیں پہنچا۔ پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی 17 فی صد سے بڑھا کر 34 فی صد کیا گیا، 2فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا کر عملاً جی ایس ٹی 36فی صد وصول کیا جا رہا ہے۔ اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں لگ بھگ 2008 کی سطح پر ہیں جبکہ مہنگائی 2008 کی نسبت 100فی صد زیادہ ہے۔
دو سالہ دور حکومت میں کرپشن کے بھی میگا سکینڈل سامنے آئے۔ 134 ارب روپے کا پٹرول بیچنے کا سکینڈل سامنے آیاموجودہ حکمرانوں نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پٹرول کی مصنوعی قلت کا بحران پیدا کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا مگر اصل کردار گرفت سے محفوظ رہے۔ 500 ارب روپے گردشی قرضہ ادا کرنے کے حوالہ سے رولز اینڈ ریگولیشنز کی خلاف ورزی کی گئی اور اس حوالے سے حکومت عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے، نندی پور پاور پراجیکٹ میں 17 ارب روپے کی بے ضابطگیوں پر وفاقی حکومت نوٹس لینے کے باوجود خاموش ہے۔ پلڈاٹ کی 8 اپریل 2015 کو جاری ہونیوالی رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ پاکستان میں ہر سال 15 ارب ڈالر کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ 11 مارچ 2015 کو آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ محکموں کے اند ر بے پناہ کرپشن ہے۔ افسران ملی بھگت سے ماہانہ آڈٹ اجلاس تک منعقد نہیں کرتے۔ رواں سال ایف بی آر نے رپورٹ جاری کی کہ پاکستان میں ہر سال 20 کھرب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جنوری 2014 تا دسمبر 2014 کے 12 ماہ میں نیب کو کرپشن کی 20 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ دو سالوں میں کرپشن بڑھی۔ کرپشن کی روک تھام میں حکومت سنجیدہ نظر نہیں آئی۔
شریف حکومت کے دو سال پاکستان کی تاریخ کے سیاسی و جمہوری آزادی کے حوالے سے بد ترین سال ثابت ہوئے کبھی مارشل لاء ادوار میں بھی کسی جماعت کے کارکنوں کو ریاستی بندوقوں کی سیدھی فائرنگ سے شہید نہیں کیا گیا۔ یہ دلخراش سانحہ شریف حکومت کے دوران ہوا۔ انقلاب مارچ کے 25 ہزار سے زائد کارکن گرفتار کئے گئے اور کنٹینر کھڑے کر کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی کیلئے بھی راستے بند کر دیے گئے۔ اسلام آباد میں 30 اور 31 اگست کی رات ریاستی غنڈہ گردی کا بد ترین مظاہرہ کیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی سیاسی کارکنوں کے ساتھ اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا موجودہ شریف دور میں ہوا اور ہورہا ہے۔ قومی ایکشن پلان کو ناکام بنانے کے حوالے سے حکومت نے انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا۔ آج تک سانحہ پشاور، آرمی پبلک سکول کی جوڈیشل انکوائری نہیں ہوئی۔ فوجی عدالتوں کو کام شروع نہیں کرنے دیا جا رہا۔ قومی ایکشن پلان کے 20 نکاتی ایجنڈے کا 70فی صد حصہ نا مکمل ہے۔ مدرسوں کی رجسٹریشن اور غیر ملکی فنڈنگ روکنے کا کام نا مکمل ہے۔
جہاں تک گورننس اور شفافیت کا سوال ہے تووفاق کے نمائندے سابق گورنر پنجاب نے استعفیٰ دیتے وقت بھتہ خوری، لاقانونیت اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالہ سے صوبائی حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کی وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اسکی تحقیقات کرواتی۔ کوئی با اختیار اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیتی مگر اس چارج شیٹ کو نظر انداز کیا گیا جو ان الزامات کو درست تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک حکومت کے سستا اور فوری انصاف ہر گھر کی دہلیز پر پہنچانے کے اعلان کا تعلق ہے تو حکومت کے اس دعویٰ کی عملی صورت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا، ابھی جو ڈیشل کمیشن نے کام ہی شروع نہیں کیا تھا کہ اس کے اختیارات چھین لیے گئے، پھر جوڈیشل کمیشن نے جو رپورٹ جاری کی اسے منظر عام پر لانے سے انکار کر دیا گیا اور پھر خود ساختہ جے آئی ٹی کے ذریعے بے گناہی کا اعلان کر دیا گیا۔ سانحہ کے آخری نامزد ملزم رانا ثناء اللہ کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔
تبصرہ