بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ حکمرانوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے : فرح ناز
بیڈگورننس کی انتہا ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے 90 فیصد
مقدمات میں ملزمان گرفتار نہیں ہوتے
ملزمان کو سزا نہ ملنا واقعات میں اضافے کی بڑی وجہ ہے، پاکستان میں 5 سے 12 سال کی
عمر کے 1 کروڑ بچے جبری مشقت کار شکار ہیں
اس معاشرتی المیہ کے خاتمے کیلئے دین کی بنیادی روح کی طرف پلٹ کر اسلام کے زریں
اصولوں سے رہنمائی لینا ہو گی
آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے،
صوبائی حکومتیں 4 سال سے عمل نہیں کررہیں
بچوں پرتشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ’’بچوں کا استحصال ایک معاشرتی
المیہ‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب
لاہور (4 جون 2015) منہاج القرآن ونگ لیگ کی مرکزی صدر فرح ناز نے کہا ہے پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پریشان کن اور حکمرانوں کی بے حسی کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان کی 40 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے، ان بچوں نے ہی آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ گڈگورننس کے دعوے کرنے والے حکمرانوں کیلئے مقام شرم ہے کہ صرف ایک سال میں بچوں پر جنسی تشدد کے 3508 واقعات ہوئے جبکہ سال 2013 کی نسبت ن لیگ کی دو سالہ حکومت میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے 90 فیصد مقدمات میں ملزمان گرفتار نہیں ہوتے، لاہور میں 5سالہ معصوم سنبل کے ساتھ پیش آنے والے بداخلاقی کے افسوسناک واقعہ میں ملوث ملزمان آج تک گرفتار نہیں ہو سکے۔ بچوں کے تحفظ اور ان کے بہتر مستقبل کی فراہمی میں والدین، خاندان اور اساتذہ کا کردار انتہائی اہم ہے لیکن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں، قانون سازی اور اس پر عملدرآمد زیادہ اہمیت رکھتا ہے، افسوس نااہل حکمرانوں نے اس حوالے سے نہ کوئی واضح پالیسیاں دی ہیں اور نہ پہلے سے موجود قوانین پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل کیا ہے اور نہ ہی عصری تقاضوں کے مطابق نئی قانون سازی کی طرف توجہ دی۔ بچوں پر تشدد کے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد کو سزا نہ ملنا بھی ان واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے، وہ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام بچوں پر تشدد کے خاتمہ کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب ’’بچوں کا استحصال ایک معاشرتی المیہ‘‘ سے خطاب کررہی تھیں۔ اس موقع پر گلشن ارشاد، عائشہ مبشر، کلثوم جاوید، عطیہ بنین، ملکہ صباء، ڈاکٹر نوشابہ و دیگر بھی موجود تھیں۔
فرح ناز نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں جس شرح سے بچوں کا استحصال ہورہا ہے اس شر ح میں کمی لانے اور ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزائیں دینے کیلئے قوانین پر عملدرآمد کروایا جائے۔ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے جو بل ابھی مختلف مراحل میں ہیں ان کوفوری قانونی شکل دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت 5سے 16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے مگر آئین کے اس آرٹیکل کی 4سال سے صوبائی حکومتیں خلاف ورزی کررہی ہیں، بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا بدترین استحصال ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں گزشتہ 2 دہائیوں میں 20 لاکھ سے زائد بچے جنگوں میں ہلاک ہو چکے، پاکستان میں سکول کی عمر کے لاکھوں بچے تشدد کا شکار اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں، کمسن بچوں سے جبری مشقت کا سلسلہ وہ ناسور ہے جس کے علاج میں حکومت ناکام رہتی ہے، پاکستان میں 5 سے 12 سال کی عمر کے 1 کروڑ بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں، اس معاشرتی المیہ کے خاتمے کیلئے دین کی بنیادی روح کی طرف پلٹ کر اسلام کے زریں اصولوں سے رہنمائی لینا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بھوک اور افلاس کے ڈر سے بچوں کو مارنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے جبکہ اسلام سے قبل لوگ پیدا ہوتے ہی اپنی اولاد کومار ڈالتے تھے۔ دین اسلام نے اس قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی بنیاد ڈالی اور ایسا کرنے والوں کو عبرتناک انجام کی خبر سنائی۔ اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی تامل نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام جس طرح بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزاکی نوید سناتا ہے کسی اور مذہب یا قانون میں اس کا وجود نہیں۔
تبصرہ