معرفتِ گناہ اور درجاتِ توبہ
اللہ رب العزت کی محبت تمام مقامات قرب میں سے سب سے اعلیٰ و ارفع مقام ہے۔ اس مقامِ محبت کے حصول کے بعد نتیجتاً رضائے باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے۔ اس مقامِ محبت پر فائز ہونے اور رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے لئے ’’توبہ‘‘ شرط ہے۔ توبہ کے تقاضوں اور شرائط پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کے نتیجہ میں ہی انسان محبت کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہوتا ہے اور پھر اسی مقام سے گزر کر ہی اُسے رضائے الہٰی نصیب ہوتی ہے۔ انبیائے کرام، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ، صلحائ، علماء اور عرفاء تمام توبہ کے مرحلہ سے گزر کر ہی مقامِ محبت پر فائز ہوئے اور رضائے الہٰی ان کا نصیب ٹھہری۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پاس ملک الموت روح قبض کرنے کے لیے آئے۔ حضرت ابراہیم فرمانے لگے: کہ اے ملک الموت! کیا تو نے کبھی دیکھا ہے کہ دوست دوست کو مار ڈالے؟ تو میری روح کیسے قبض کرنے آیاہے؟ فرشتے نے یہ سوال اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جا کر ابراہیم سے پوچھو کہ تونے کبھی دیکھا ہے کہ دوست دوست کی ملاقات کا انکار کرے۔ سیدنا ابراہیم نے جب یہ جواب سنا تو ملک الموت سے فرمایا: تو میری روح فوری قبض کر لے۔ دوست، دوست کی ملاقات کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔
یہ وہ منزل ہے جو مقام محبت سے گزر کر ہی نصیب ہوتی ہے لیکن اس مقام پر فائز ہونے کی ابتداء توبہ سے ہوتی ہے۔توبہ کے بغیر سفر طے نہیں ہوتا۔ عامۃ الناس یعنی ہم لوگ اخلاقی پستیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ گناہوں، ظلمتوں اور اندھیروں کا شکارہیں۔ اگر حقیقی معنی میں توبہ کریں گے تو مقام محبت پر پہنچیں گے وگرنہ محبت کا خالی تذکرہ کرتے ہی رہ جائیں گے۔ جب تک ہم توبہ کی منزل عبور نہیں کریں گے، مقام محبت پر رہائش پذیر نہیں ہو سکتے۔ مقام محبت کو پانے کے لیے توبہ کرنا ضروری ہے۔
توبہ کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اﷲِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا.
(التحريم، 66: 8)
اے ایمان والوں اللہ کی جناب میں سچے دل سے توبہ کرو۔
حضرت عبداللہ بن عباس اس آیت کریمہ کی شرح اور تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تَوْبَةً نَّصُوْحًا تب ہوتی ہے جب دل میں سچی ندامت اور احساس پیدا ہو، دل نادم و شرمندہ ہو۔ جب تک دل میں گناہ کا احساس پید ا نہ ہو اس وقت تک توبہ کادرجہ مکمل نہیں ہوتا۔ اس ندامت اور احساسِ گناہ کے بعد توبہ کرے، معافی و استغفار کا طالب ہو اور اس کے بعد پختہ ارادہ کرے کہ پھر لوٹ کر اس گناہ کی طرف نہیں جائے گا۔ ان تین شرائط کے ساتھ کی گئی توبہ، حقیقی توبہ کہلاتی ہے۔ ا س میں سے ایک چیز بھی رہ گئی تو وہ توبہ مکمل نہیںہے۔
ہم لوگ جیسی توبہ کرتے ہیں، اس کے بارے حضرت رابعہ بصریہ فرماتی ہیں:
’’ہمارے استغفارکو بھی استغفارکی ضرورت ہے‘‘۔
یعنی صبح و شام ہم خدا سے معافی مانگتے ہیں لیکن اس معافی میں بھی (نعوذ باللہ) خدا کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب دوبارہ گناہ کی طرف لوٹنے کی گرہ نہ کھلے، دل کے اندر ندامت اپنے کمال اور جوبن پر پہنچے اور پھر گریہ و زاری اس بندے کی حالت ایسی بنا دے کہ دیکھنے والا کہے کہ اگر اس کو معاف نہ کیا تو یہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، ایسی مجموعی کیفیت توبہ کہلاتی ہے۔ جب بندہ توبہ کے اس کمال تک پہنچ جائے تو اللہ رب العزت اس کو مقام محبت سے نوازتاہے۔ اولیاء اللہ اور عرفاء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سات سال تک سچی توبہ کر کے گناہوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے تو اللہ رب العزت آئندہ زندگی میں گناہوں سے اسے محفوظ رکھنے کے ذمہ داری لیتے ہوئے اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل فرما لے گا۔
معرفتِ گناہ اور انسانی طبیعت کی صفات
توبہ کس شے سے کرنی ہے؟ جب تک یہ سمجھ میں نہیں آئے گا، توبہ کارگر نہ ہوگی۔ یعنی یہ سمجھ تو آئے کہ اُن گناہوں کی نوعیت کیا ہے جن پر توبہ درکار ہے؟ ہم ہر گناہ پر سمجھتے ہیں کہ ایک جیسی توبہ سے کام چل جائے گا۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ صوفیائے کرام نے گناہوں کی تقسیم کی ہے، پھر جیسا گناہ/ مرض پایا اس کا ویسا ہی علاج تجویز کیا۔ اس لئے کہ توبہ ایک علاج ہے کہ اپنے باطن کی وادی میں جھانکیں اور جیسا مرض/ گناہ ہو ویسی ہی توبہ/ علاج کیا جائے تا کہ اللہ رب العزت شفاء عطا فرما دے۔
ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں وہ ہر مرض کے لیے ایک دوا نہیں بتاتا۔ جس طرح ہر مرض کے لیے الگ دوا ہے اسی طرح ہر گناہ کے لیے توبہ بھی جداہے۔ اس لیے توبہ کرنے سے قبل جائزہ لینا ہے کہ ہم کن گناہوں/ امراض میں مبتلاہیں۔ یعنی توبہ کے لیے گناہوں کی معرفت ضروری ہے اس لئے کہ ہم کئی بار ایسے کئی کام کرتے ہیں جن کو ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے۔
معرفتِ گناہ کے لئے انسان کی طبیعت کی مختلف صفات کا مطالعہ ضروری ہے، جو انسان کے اعمال پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔انسانی طبیعت کی درج ذیل چار صفات ایسی ہیں جو انسان کو آہستہ آہستہ گناہوں کی دلدل میں دھکیلتی چلی جاتی ہیں:
- صفتِ سبیہ
- صفتِ بہیمیہ
- صفتِ شیطانیہ
- صفتِ ربوبیہ
آیئے ان چار صفات بارے تفصیلی جانتے ہیں:
1۔ صفت سبیہ
انسان کی طبیعت میں موجود پہلی چیز جو اس کو گناہوں پر اکساتی ہے وہ صفت سبیہ ہے۔ اس صفت کے پائے جانے کے نتیجے میں اس شخص کے اندر غیض و غضب، بغض، کینہ، گالی گلوچ اور دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے منصوبہ بندی کرتے رہنا پایا جاتا ہے۔ جب یہ صفت اپنے کمال تک پہنچتی ہے تو وہ قتل تک کر گزرتا ہے۔
نفس کے اندر موجود یہ صفت، گناہوں کی طرف جانے والے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ جس کے نتیجے میں گناہوں کی طرف انسان کا سفر شروع ہوجاتاہے۔ انسان کئی بار کہتا ہے کہ میرے اندر غصہ زیادہ ہے تو اس سے کیا فرق پڑتاہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کے نتیجے میں دیگر برائیاں بھی اس میں آجاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہرشخص غصہ کی شدت کی وجہ سے قتل کرنے تک کی نوبت کو جاپہنچے لیکن اس میں اس غصہ کی وجہ سے بقیہ امراض داخل ہوجاتی ہیں۔
2۔ صفت بہیمیہ
انسان کے نفس میں پائے جانے والی دوسری صفت، صفتِ بہیمیہ ہے۔ اس صفت کے نتیجے میں انسان لالچ، حرص، شہوت، برے اعمال، زنا، شراب نوشی،نشے کی رغبت، چوری کرنے کی عادات کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ ابتدا صفتِ سبیہ سے ہوتی ہے، غصہ، حرص، جھوٹ سے وہ سفر شروع کرتاہے اور لڑائی جھگڑا و گالی گلوچ تک جاپہنچتا ہے۔ پھر جب دوسرا مقام آتاہے توپھر کرپشن، مالی خیانت، چوری، شہوت پرستی ا ور دیگر برائیوں اور گناہوں کا شکار ہو جاتاہے۔
3۔ صفت شیطانیہ
نفس انسانی کی تیسری صفت، صفتِ شیطانیہ ہے۔ شیطان نچلے دو درجے تک مداخلت نہیں کرتا بلکہ وہ نفس سے کام چلاتا رہتا ہے۔ نفس، انسان کو غصہ بھی دلواتا ہے، اس سے جھوٹ بھی بلواتا ہے اورہم ہر چیز شیطان کے اکاؤنٹ میں ڈالتے رہتے ہیں جبکہ شیطان تیسرے درجہ پر معاملات کو کنٹرول میں لینے کے لئے خود آگے بڑھتا ہے۔
اس مرحلہ پر انسان صفاتِ شیطانیہ کا وارث بن جاتا ہے۔ اُس کے اندر حسد، سرکشی، حیلے، مکر، فریب، باطن اور نیت میں کھوٹ، نفاق، فساد اور دیگر امراض آجاتے ہیں۔ ذاتی مفاد پرستی اور خواہشات نفسانیہ سے اس نے گناہوں کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ اب اس تیسرے درجے پر اُس میں بغاوت و سرکشی اور حسد کے جراثیم آجاتے ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ ضروری نہیں کہ انسان ہر صفت کے کمال کو پہنچے بلکہ یہ تمام امراض اُس میں کسی نہ کسی حد تک ضرور پائی جاتی ہیں۔ سرکشی، بغاوت، مکر، فریب، دھوکہ ان تمام امراض کا شکار ہونے کے بعد وہ چوتھی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
4: صفت ربوبیہ
درج بالا تین منازل کو طے کر کے جب انسان چوتھی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے اندر غرور و تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنی ذات پر فخر کرنا پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنی مدح خوانی، اپنی عزت کا تذکرہ پسند آنے لگتا ہے۔ اُس کو زیادہ نوازتا ہے جو اُس کے تذکرے زیادہ کرتا ہے۔ اس کو اپنی محفلوں سے اٹھا دیتا ہے جو اس کی عزت نہیں کرتا۔ جو اس کو اٹھ کر نہیں ملتا، اس کو نگاہوں سے گرا دیتا ہے اور جو اس کے ہاتھ چومتا ہے، اس کو آگے آگے رکھتا ہے۔ جس میں مجموعی طور پر یہ گناہ اکٹھے ہوجائیں تو گویا اس میں صفت ربوبیہ پیدا ہوجاتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس نے اصل میں خدا کی صفت میں سے حصہ مانگا ہے۔ صفتِ ربوبیت خدا کی شان ہے جب کہ یہ انسان خود زمیں پر رب بن بیٹھا ہے اور اس معنی کی رو سے اُس نے شرک کیا ہے۔ ہم ان امراض کو گناہ نہیں سمجھتے جبکہ ان امراض کا شکار ہونے والا شرک کے درجے کا گناہ کرتا ہے۔ افسوس! ہم لوگ بالعموم انہی امراض اور گناہوں کا شکار ہیں۔
کوئی لاکھ کہتا پھرے کہ میں ان امراض کا شکار نہیں ہوں لیکن جب ان لوگوں کے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ سلوک کو دیکھا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ یہ لوگ اپنے ماتحت افراد کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ ان پر کئی بار کاموں کا اتنا بوجھ لادھ دیتے ہیں کہ جس پوزیشن میں خود اپنے آپ کو رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اگر ہمیں اتنے کام دے دیئے جائیں تو بھاگ جائیں لیکن جن سے ہم کام لیتے ہیں اُن پر حد سے زیادہ اور بے جا بوجھ ڈالتے ہیں، ان سے ایسا سلوک ایسے کرتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جائے تو ہمیں پسند نہ آئے۔ گھروں اور دفتروں میں ہم اپنے آپ کو فرعون سمجھتے ہیں، زمین پر معاذ اللہ چلتا پھرتا خدا سمجھتے ہیں۔ افسوس ہم جن گناہوں کو گناہ نہیں سمجھتے، وہ ہی سب سے بڑے گناہ ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے باطن میں جھانکیں اور معلوم کریں کہ ہمارے اندر پہلے درجے کے امراض ہیں یا دوسرے درجے کے امراض ہیں، تیسرے درجے کے امراض ہیں یا چوتھے درجے کے امراض ہیں۔ ہم خود اپنے منصف بنیں، خود فیصلہ کریں اور پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان امراض کو چھوڑنے اور حقیقی توبہ بجا لانے کا وعدہ کریں۔ ہم عمومی توبہ تو کر لیتے ہیں کہ مولیٰ معاف کر دے۔ ہمارے ایسے عمل کے جواب میں اللہ رب العزت بھی عمومی فرما دے گا کہ اچھا معاف کیا۔ لیکن تہہ دل سے توبہ نہ کرنے اور توبہ کی شرائط پوری نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے اندر موجود امراض دور نہیں ہوتیں اور نہ توبہ پر استقامت نصیب ہوتی ہے۔ اگر اپنے مرض کی تشخیص کی پھر خصوصی طور پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس مرض سے نجات کی دعا کی جائے تب جاکر توبہ قبول ہوتی ہے۔
امراضِ قلب کا علاج
صوفیائے کرام کی زندگی اس نہج پر گزرتی تھی کہ وہ صبح و شام اپنے نفس کا محاسبہ اور اپنے باطنی امراض کی تشخیص و علاج کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ اپنی زندگی اور اپنے شب و روز کا جائزہ لیتے تھے۔ اپنی روحانی امراض کی الگ فہرست مرتب کرتے، ان کے علاج کے لئے مجاہدہ و ریاضت کرتے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی طرف توجہ کرتے رہتے کہ فلاں فلاں مرض کتنی حد تک ختم یا کمزور ہوچکی ہے۔ اس طریقے سے پوری مانیٹرنگ کرتے اور اپنے گناہوں کو دور کرتے۔ نتیجتاً اللہ رب العزت کی اعلیٰ صفات میں رنگے جاتے اور قرب و معرفت الہٰیہ کے درجوں کو طے کرتے چلے جاتے۔
حضور داتا گنج بخش علی ہجویری نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ارشاد فرمایا:
کوئی شخص جب تحقیق کر لے کہ اُس میں کون سی امراض پائی جاتی ہیں تو پھر اس کی توبہ کا طریقہ جدا جدا ہے۔ اگر کسی کے اندر ایسے گناہ اور امراض پائے جاتے ہیں جو نظر آتے ہیں، زنا، شراب نوشی، چوری اور ایسے وہ تمام گناہ جو اپنی ظاہری ہیت اور حالت رکھتے ہیں، ان کی توبہ اور ان گناہوں سے نجات اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رات کی گریہ و زاری، قیام اللیل، طویل سجدہ ریزیوں اور توبہ میں ہے۔ یعنی نظر آنے والے گناہوں کا علاج نظر آنے والے اعمال سے کیا جائے۔
اگر اپنے باطن میں نہ نظر آنے والے گناہوں کو پاؤ مثلاً حرص، لالچ، مکر، فریب، جھوٹ، تکبر، رعونت، بغض الغرض وہ تمام امراض جو دل سے متعلق ہیں اور نظر نہیں آتیں، اپنی ظاہری شکل و صورت بھی نہیں رکھتیں تو ان کا علاج ایسے اعمال سے کیا جائے جو دیکھنے والے کو عبادت نظر نہ آئیں۔ یعنی اب ان امراض کے علاج کے لئے اولیاء اللہ کی صحبتیں اختیار کیا کرو اور خدا کی مخلوق کی خدمت کرو۔ یعنی نہ نظر آنے والے گناہ خدمت و صحبت سے دور ہوں گے۔
اگر حسد، غصہ، کینہ، بغض اور اس طرح کی دیگر امراض موجود ہوں تو لاکھ سجدے بھی کرلئے جائیں مگر ان امراض کا علاج نصیب نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ ان امراض کا علاج ظاہری عبادت میں ہے ہی نہیں۔ لہذا جب تک خلقِ خدا کی خدمت پر کمربستہ نہ ہوا جائے اور جسمانی تکالیف و مشکلات برداشت نہ کی جائیں، اس وقت تک نہ ان امراض سے چھٹکارہ ملے گا اور نہ توبہ کا سفر طے ہوگا۔
منہاج القرآن کا طرہ امتیاز
اسی لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے منہاج القرآن کی شکل میں ایک عظیم ٹریننگ سینٹر عطا فرمایا کہ یہاں پر نظر آنے والے گناہوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے اور نہ نظر آنے والے گناہوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے۔ نظر آنے والے گناہ ہوں تو ان کے علاج کے لئے منہاج القرآن میں شب بیداریاں ہیں۔۔۔ حلقات درود ہیں۔۔۔ اوراد و وظائف ہیں۔۔۔ گریہ و زاری ہے۔۔۔ اعتکاف ہے۔۔۔ یہ تمام مواقع اللہ تعالیٰ نے منہاج القرآن کو عطا فرمائے کہ جس کے ذریعے نظر آنے والے گناہوں سے نجات پائی جاسکتی ہے۔
اور اگر باطن میں نہ نظر آنے والے امراض ہوں تو اس کا علاج بھی منہاج القرآن احیائے اسلام، تجدید دین اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے تناظر میں تنظیمی و تحریکی معاملات کی انجام دہی کی صورت میں دیتا ہے۔ یعنی لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے تنظیمی و تحریکی دورہ جات اور فیلڈ ورک دراصل ان نہ نظر آنے والے گناہوں/ امراض کا علاج ہے۔ سخت گرمی و سخت سردی سے بے نیاز ہوکر اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، خلقِ خدا کی خدمت، غریبوں کا سہارا بننے، لوگوں کے دکھ میں شریک ہونے، الغرض اپنی جان کو مخلوق کی خدمت میں مصروف رکھنے سے اللہ رب العزت نظر نہ آنے والے گناہ دور کرتا چلا جاتا ہے۔
اگر فیلڈ سے متعلقہ تنظیمی و تحریکی امور کو قائدین و کارکنان مجاہدہ و ریاضت نہ سمجھیں بلکہ ٹینشن اور ایک بوجھ سمجھ کر عمل کریں گے تو اس سے باطنی امراض کا خاتمہ نہ ہوگا۔ قائدین و کارکنان دور دراز علاقوں کا سفر اور خطابات اگر اپنے ذاتی مفاد، شہرت اور مال کی خاطر کریں گے تو یہ ان کے اور نظر نہ آنے والے گناہوں کے توبہ کے طور پر کارگر نہ ہوگا۔ گویا سخت موسم میں مشکلات برداشت کرنے کے باوجود روحانی امراض کے خاتمہ اور توبہ کا موقع ضائع کردیا گیا۔ لیکن اگر اس کو ریاضت سمجھا، اللہ کی بارگاہ میں نیت کی کہ مولیٰ میری اندر نہ نظر آنے والی فلاں فلاں امراض ہیں، تیرے راستے میں نکلا ہوں، مجھے ان امراض سے نجات عطا فرما تو اس کی توبہ قبول ہوتی ہے اور وہ ان امراض سے خلاصی حاصل کرلیتا ہے۔
قرون اولیٰ کے صوفیائے کرام کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی آدمی مرید ہونے آتا تو وہ اکثریت کو مرید نہ کرتے بلکہ چند گنے چنے افراد کو مرید کرتے اور پھر ان کی تربیت کیا کرتے تھے۔ ان مریدین، سالکین، طالبین کو سب سے پہلے دو/ اڑھائی/ پانچ سال خانقاہ کی خدمت اور صفائی پر لگاتے۔ تعلیم و تربیت، اوراد وظائف شروع نہ کرواتے تھے۔ کسی کو لنگر خانے پہ لگا دیتے تھے۔۔۔ کسی کو صفائی کے کام پر لگا دیتے تھے۔۔۔ کسی کی ذمہ داری خانقاہ میں رہنے والے سب لوگوں کو تہجد کے لیے اٹھانے پر لگا دیتے تھے۔۔۔ کسی کی ذمہ داری پانی گرم کر کے لوگوں کے لیے وضو کا اہتمام کرنے پر لگا دیتے تھے۔۔۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ جب کوئی شیخ کی بارگاہ میں جاتا تو اسے سیدھا تصوف اور معرفت کی بڑی بڑی چار باتیں بتائیں اور کہا اس پر عمل کریں، صوفی ہو جائیں گے۔ نہیں، بلکہ صوفیائ، و اولیاء اپنے مریدین کی امراض کی تشخیص کرتے ہیں۔ ان کو پہلے خلقِ خدا کی خدمت پر لگاتے ہیں، ان کا نفس مارا جاتا ہے۔ ان کی نہ نظر آنے والی امراض کا علاج پہلے کیا جاتا ہے پھر نظر آنے والی امراض کا علاج ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نظر آنے والی امراض چھوٹی ہیں اور نہ نظر آنے والی امراض بڑی ہیں۔
ایک جلیل القدر بزرگ نے فرمایا کہ میں اپنے شیخ کی صحبت میں 20 سال رہا۔ 18 سال انہوں نے مجھے ادب سکھایا اور 2 سال علم سکھایا۔ ادب کیا تھا؟ ادب خلق خدا کی خدمت تھی۔ 2 سال میں انہوں نے تصوف اور معرفت کا علم سکھایا۔ گویا ادب سکھانے میں علم سکھانے کی نسبت 10/9 گنا زیادہ وقت صرف کیا۔
جھولی ہی ہماری تنگ ہے۔۔۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم جیسے کمزور ایمان کے مالک ہر دن گناہ نہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں پھر توبہ توڑ بیٹھتے ہیں۔ پھر ارادہ کرتے ہیں کہ اس گناہ کی طرف نہیں لوٹیں گے، اپنے زبان کو برائی سے پاک کر لیں گے، اپنی نگاہوں کو نیک کر لیں گے، اپنی لالچ کو دور کر دیں گے، اپنے نفس کی خرابیوں سے نجات پا لیں گے لیکن پھر اُس طرف واپس چلے جاتے ہیں۔ بالآخر اللہ کی رحمت سے مایوسی و ناامید کی طرف چلے جاتے ہیں کہ ہم اللہ کی بارگاہ سے شرمندہ ہیں، معلوم نہیں اب توبہ قبول ہو گی یا نہیں ہو گی؟
اللہ رب العزت کا کرم تو ایسا ہے کہ وہ معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ جھولی ہماری ہی تنگ ہے ان کے ہاں کمی نہیں۔ وہ تو معاف کرنے کے لیے نداء دیتا رہتا ہے، آسانیاں پیدا کرتا ہے لیکن ہم ایسے بدبخت ہیں کہ خدا کی لاکھ نداء کے باوجود ہمارے دلوں، کانوں اور نگاہوں پر لگے قفل نہیں کھلتے اور ہم خدا کی ان نداؤں کو نہیں سنتے۔ پھر انہی نافرمانیوں، گناہوں، سرکشی، غرور و تکبر، حسد اور برے اعمال و افعال میں مبتلا رہتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے روایت کیا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہ کے قاتل وحشی نے مکۃ المکرمہ سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ایک خط لکھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! میں چاہتا ہوں کہ دامنِ اسلام میں آ جاؤں۔ مگر قرآن مجید کی ایک آیت ہے جو مجھے اس عمل سے روکتی ہے۔ جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِيْنَ لاَ يَدْعُوْنَ مَعَ اﷲِ اِلٰـهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَج وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِکَ يَلْقَ اَثَامًا.
(الفرقان، 25: 68)
’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا‘‘۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! میں تو ان تینوں افعال کا مرتکب ہوا ہوں۔ میں نے قتل بھی کیا، میں نے زنا بھی کیا اور میں نے شرک بھی کیا۔ اب اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ان تینوں اعمال کرنے والوں کی معافی نہیں ہے۔ میں دائرہ اسلام میں تو آجائوں لیکن آگے کوئی منزل نہیں ہے۔ یہ امر مجھے دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب یہ خط پہنچا تو اللہ رب العزت نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰـئِکَ يُبَدِّلُ اﷲُ سَيِّاٰ تِهِمْ حَسَنٰتٍ.
(الفرقان، 25: 70)
’’مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا‘‘۔
وہ اتنا بڑا ظلم کر کے اسلام میں داخل ہونا چاہ رہا ہے اور کہتا ہے کہ میرے لیے کوئی سبب نہیں ہے۔ اللہ کا کرم دیکھیں کہ اللہ رب العزت اسی وقت اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایک آیت نازل فرماتا ہے کہ اُس کو خوشخبری دیں کہ جو گناہ کر کے آئے اور سچے دل سے توبہ کر لی تو اللہ رب العزت اُن کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ آقا علیہ السلام نے اُسے اس فرمانِ خداوندی سے آگاہ کیا۔ اس نے ایک اور خط لکھا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ بات سمجھ آگئی کہ توبہ کرلوں تو معافی مل جائے گی لیکن آگے شرط ہے کہ اعمالِ صالحہ بھی کئے ہوں۔ مجھے اس بات کا معلوم نہیں کہ میں اعمالِ صالحہ کر بھی سکوں یا نہیں، پھر بات وہیں آ جاتی ہے کہ بخشش کا کوئی سامان نہیں۔
جب یہ خط آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پہنچا تو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پھر ایک آیت کریمہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ہوئی، جس میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ اﷲَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَآءُ.
(النساء، 4: 116)
’’بے شک اللہ اس (بات) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور جو (گناہ) اس سے نیچے ہے جس کے لیے چاہے معاف فرما دیتا ہے‘‘۔
یعنی اللہ رب العزت نے اعمالِ حسنہ کا وہ پوائنٹ واپس لے لیا اور فرمایا کہ شرک کے سوا اللہ رب العزت ہر گناہ بخش دے گا بس تم توبہ کرنے والے بنو۔ جب یہ آیت کریمہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے بھیجی تو اُس نے ایک اور خط تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں لکھ دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اس میں تو اللہ رب العزت نے ایک اور شرط عائد کر دی کہ جسے اللہ چاہے گا بخش دے گا کیا پتہ مولیٰ مجھے بخشنا ہی نہ چاہے۔ یہ نہ ہو کہ میں دائرہ اسلام میں آ جاؤں اور کوئی فائدہ نہ ہو۔
جب یہ خط تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا تو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ يٰعِبَادِیَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًاط اِنَّه هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ.
(الزمر، 39: 53)
’’آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
اب اس آیت میں کوئی شرط نہ تھی۔ اللہ نے کسی اعمال صالحہ کی شرط نہ رکھی، بس کہا تم میری طرف سچی نیت اور دل سے توبہ کرنے والے بنو، خدا بخشنے والا ہے تمہیں بخش دے گا۔
اللہ رب العزت کی یہ وہ رحمت ہے جو رمضان المبارک کے مبارک شب و روز میں اپنے جوبن پر ہے اور ندا دے رہی ہے کہ اپنے گناہوں پر پشیماں و نادم ہونے والو!۔۔۔ رات کے اندھیرے میں گریہ و زاری و مناجات کرنے والو!۔۔۔ اگر پختہ عہد کرتے ہو کہ گناہوں کی طرف لوٹ کر نہ جاؤ گے، اور سچے دل سے توبہ تائب ہوتے ہو تو آؤ میں تمہارے سارے گناہ بخش دوں اور تمہیں اپنی رحمت کی چادر میں لے لوں۔ خدا کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرنے والے اور تا جدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع کرنے والے بنو، میں تمہارے گناہوں کو معاف کردوں گا۔۔
اس طرح کی توبہ جس نے بھی کی، اللہ رب العزت نے اُس کو وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے کہ جس کی کائنات میں مثال نہیں ملتی۔ جس نے اس طرح کی توبہ نہ کی اُس پر بھی اللہ اپنی رحمت کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ اس کی طرف سے نداء آتی رہے گی کہ جب بھی اپنے گناہوں پر بخشش و مغفرت طلب کرو گے میںـ تمہیں معاف کر دوں گا۔ جو توبہ کے طالب بنے، توبہ کی منزل کے مسافر بنے، انہوں نے اپنی زندگیوں کا رخ ہی بدل لیا، اپنے جینے کا انداز بدل لیا اور اُن کے صبح و شام تک بدل گئے۔ وہ ہستیاں جن پر عبادتیں ناز کرتی ہیں، عشق ناز کرتا ہے، راتیں ناز کرتی ہیں، مصلے ناز کرتے ہیں، سجدے ناز کرتے ہیں، جب ہم اُن ہستیوں کے معمولات اور حالات کا مطالعہ کریں تو حیرانی ہوتی ہے کہ حد درجہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کے باوجود رب کائنات کی بارگاہ میں ہمہ وقت توبہ کرتے اور گریہ و زاری میں راتیں بسر کرتے۔ اگر ان مقبول و محبوب بندوں کا عالم یہ تھا تو ہم نافرمانی کی کن گھاٹیوں اور اندھیروں میں گم ہیں۔
آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک صحابی عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اللہ رب العزت کو سب سے محبوب کیا چیز ہے؟ فرمایا: اللہ رب العزت کو سب سے محبوب شے جوانی میں کی گئی توبہ ہے۔ اگر کوئی شخص جوانی میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرے، ندامت کے آنسو بہائے، اللہ سے معافی کا خواستگار ہوتو اللہ رب العزت کو اس سے زیادہ محبوب پوری کائنات میں کوئی نہیں ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیںکہ اگر ہم نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہیں، نیکی نہیں ہے، توبہ نہیں ہے تو آقا علیہ السلام کی شفاعت یقینا ہم گناہگاروں کے لیے ہے۔ اس بات سے وہ لوگ حقیقی توبہ کی طرف نہیں آتے اور شفاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نجات کی امید لگاتے ہیں۔ بلاشبہ شفاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نجات نصیب ہوگی مگر عمل اور توبہ سے عاری ایسی امید باندھنے والے لوگ سن لیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کو اپنا امتی تسلیم کریں گے تو تب ہی ان کی شفاعت کریں گے۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نافرمان ہیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع نہیں کرتے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُن کو اپنا امتی کیسے مانیں گے۔۔۔؟احادیث میں آتا ہے کہ ایسے گناہ گار کے لئے جب اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ ان کو دوزخ میں دھکیل دو تو وہ اپنے ذہن پر بہت زور ڈالیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسمِ پاک یاد آ جائے اور وہ وسیلے کے طور پر پیش کر دیں مگر دوزخ میں ڈالتے وقت تک انہیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم پاک اللہ تعالیٰ یاد ہی نہ آنے دے گا۔ کیونکہ اگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم پاک وسیلے کے طور پر پیش کر دیا تو آگ اُن کو نہ جلائے گی۔ چونکہ ان کے گناہ اور نافرمانیاں ایسی ہیں کہ اسے ان کی سزا بھگتنا ہی ہے لہذا خدا ان کو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم پاک لینے کی توفیق ہی نہ دے گا۔
یاد رکھ لیں کہ خدا سے ناامیدی کفر ہے لیکن امید، صلہ تب دیتی ہے جب اُس کے ساتھ عمل بھی شامل ہو۔
اعمال کے اکارت ہونے کی وجوہات
چچھ عمل، چھ چیزوں کے بغیر بے کار ہیں۔ اگر وہ چھ اعمال کر بھی لیے جائیں لیکن اُن میں وہ چھ اشیاء نہ پائی جائیں تو وہ عمل فائدہ نہ پہنچا سکیں گے۔ وہ اعمال درج ذیل ہیں:
1۔ خوفِ خدا ہے مگر گناہ سے اجتناب نہیں
کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں خوفِ خدا رکھتا ہوں لیکن گناہوں سے احتیاط نہ کرے تو وہ خوفِ خدا بیکار ہے۔ خوفِ خدا تب فائدہ دے گا جب وہ برے کاموں سے اجتناب کرے گا۔
2۔ بغیر مجاہدہ کے امید
اگر یہی امید بنائے رکھیں کہ خیر ہو جائے گی، اللہ کرم کر دے گا، معافی ہو جائے گی۔ لیکن توبہ کی کاوش نہ کی، دل میں ندامت پیدا نہ ہوئی اور سچی توبہ و مغفرت کی طلب دل میں پیدا نہ ہوئی تو وہ امید انسان کے لیے بیکار ہے۔
3۔ فقط نیت ہو اور پختہ ارادہ نہ ہو
اگر انسان آج توبہ کی نیت کرتا ہے اور یہ کہتا ہے میں گناہوں کی طرف لوٹ کر نہیں جاؤں گا لیکن دل میں ارادہ پختہ نہیں ہے، جھوٹی توبہ کرتا ہے، دل میں اُس گناہ کی لذت کا خیال بھی موجود ہے۔ مثلاً مال کی رغبت ہے، جھوٹ فریب کی رغبت ہے اور توبہ کرتا ہے کہ مولیٰ مجھے گناہ سے دور فرما لیکن دل میں یہ خیال بھی آ رہا ہے کہ اگر اللہ نے فلاں گناہ سے دور کر دیا مثلاً کرپشن سے تو خرچ کیسے چلے گا؟ یہ ارادے کی پختگی نہیں ہے۔ حقیقتاً پختہ اور سچا ارادہ ہو کہ مولیٰ مجھے اس گناہ سے نجات عطا فرما۔ اب میں مرتا مر جاؤں گا لیکن اس گناہ کی طرف لوٹ کر نہ جاؤں گا۔ جب تک یہ پختہ ارادہ دل میں گھر نہ کر لے اُس کو توبہ کے عمل سے فائدہ نہ پہنچے گا۔
4۔ دعا ہو لیکن عملی کوشش نہ ہو
اگر صبح و شام انسان دعا کرتا رہا، اولیاء و بزرگان دین کی صحبت میں جا کر دنیاوی یا اخروی معاملات میں دعا کرواتا رہا کہ حضور! یہ دعا فرما دیں، فلاں گناہ سے نجات مل جائے، فلاں خیر مل جائے، فلاں مقدر ہو جائے۔ لیکن گناہوں سے بچنے اور نیکیوں کی جانب گامزن ہونے کے لیے عملی کاوش نہ کی، احتیاط نہ کی تو بھی خالی دعا سے فائدہ نہ ہو گا۔
5۔ استغفار ہو مگر دل میں ندامت نہ ہو
انسان صبح و شام استغفار کی تسبیح تو کرتا رہے، اللہ اللہ کرتا رہے، خدا سے توبہ تائب تو ہوتا رہے مگر اُس کے دل میں ندامت کا جذبہ نہ ہو۔ اُس کا دل اپنی ندامت کے کمال پر نہ ہو، وہ روتا نہ ہو، راتوں کو جاگتا نہ ہو۔ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے اور پھر بھی وہ سکون کی نیندیں سوتا ہو، اگر اس نے اپنا جسم بستر سے جدا نہ کیا ہو تو خدا کس بات پہ اسے معاف کر دے۔ اگر وہ سچا نادم تھا تو اُس کی نیندیں اجڑ جانی چاہیے تھیں، دن رات کا چین چلا جاتا، وہ جاگتا رہتا جب تک خدا اسے معاف نہ کر دیتا۔
6۔ اصلاحِ باطن کے بغیر ظاہر کی اصلاح
ظاہری اعمال کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہے، اپنا لباس پاک صاف کرتا رہے، ظاہری زیب و آرائش اور خوبصورتی کا لحاظ کرتا رہے لیکن اندر کی صفائی کا اہتمام نہ کیا۔ اندر وہی بغض، حسد، غصہ اور عناد کی پلیدیاں پالے رکھے تو اُس کی توبہ کا کوئی حاصل نہیں اور نہ اللہ کی بارگاہ میں اُس توبہ کی کوئی منظوری ہے۔
قبولیت توبہ کی علامات
آیئے! اب ان امور کا مطالعہ کرتے ہیں کہ توبہ کے عمل کے بعد وہ کیا علامات ہیں جن سے پہچانا جا سکتا ہے کہ اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی:
1۔ توبہ کی قبولیت کی پہلی علامت یہ ہے کہ برے دوستوں سے علیحدہ ہو جائے اور صالحین کی سنگت اختیار کر لے۔ جن سنگتوں میں وہ گناہ کا ارتکاب کرتا تھا اُن سنگتوں سے دور ہو جائے تا کہ وہ کبھی اُس کو اُس گناہ کی یاد دہانی نہ کروا دیں۔ وہ یادیں مٹ جائیں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ کا سفر جاری رہے۔
2۔ قبولیتِ توبہ کی دوسری علامت یہ ہے کہ وہ بندہ ہر قسم کے گناہ سے کٹ کر اللہ کی اطاعت کی طرف توجہ مبذول کرلے۔
3۔ دل کا ہر قسم کی دنیوی فرحتوں سے خالی ہوکر غمِ آخرت میں لگ جانا بھی قبولیتِ توبہ کی ایک علامت ہے۔
4۔ ضرورت سے زیادہ مال و دولت کے پیچھے پاگلوں کی طرح نہ دوڑتا پھرے۔ جتنا اسے اللہ رب العزت نے دیا ہے اُس پر قناعت کرے، اس پر زندگی گزارے۔ زندگی کے جتنے لمحے باقی ہیں، خدا کو منانے میں صرف کرے۔ جو اُس کے پاس ہے اس کو محض بڑھانے میں نہ لگا رہے اور جو نہیں ہے اُس کے حصول کی کوشش نہ کرے تو یہ بھی توبہ کے قبول ہونے کی نوید ہے۔
ہمارا حال کتنا عجیب ہے کہ جو (مال و دولت) ہے اُس کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور جو (روحانیت و طہارت) سرے سے نہیں ہے اُس کو تھوڑا سا بھی حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ کاروبارِ دنیا کے لیے بیس تیس سال دل لگی سے کام کر لیتے ہیں۔ ابتداء سے ہی یہ ذہن بنالیتے ہیں کہ تیس سال میں دنیوی اعتبار سے یہ پوزیشن حاصل کر لینی ہے لیکن اللہ کے راستے میں، اس کی محبت کی منزل کو پانے کے لیے چار دن عبادت کرنے کے بعد یا تو متنفر ہو جاتے ہیں کہ کچھ ملتا نہیں یا اپنے اوپر جھوٹ کا ایک لبادہ اوڑھ لیتے ہیں کہ جیسے سب کچھ مل گیا۔ اللہ رب العزت کے راستے میں صبر نہیں ہے، بیس تیس سال کی محنت برداشت نہیں ہو تی جبکہ دنیا کی ترقی کے لیے بیس تیس سال دے سکتے ہیں۔ اللہ کے راستے میں ہمیں یہ چیز سمجھ نہیں آتی کہ اللہ کی محبت تب ملے گی جب اس کی راہ میں بھی مجاہدہ و ریاضت میں تیس سال محنت ہو گی۔ افسوس اس راستے میں ہم بہت جلد بازی کرتے ہیں۔
5۔ جب بندہ احکام الٰہیہ کی بجا آوری میں کوئی دقیقہ بھی ضائع نہ کرے۔جہاں جہاں موقع ملے کہ ان اعمال سے اللہ رب العزت کے حکم کی بجا آوری ہوتی ہے وہیں اس کو ادا کرنے کی کاوش کرتا چلا جائے تو یہ بھی توبہ کی قبولیت ہی کا اشارہ ہے۔
یہ وہ علامات ہیں جو اس بندے سے ظاہر ہوتی ہیں جس کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی ہو۔ یہ باتیں وہ ہیں جو ہم ہمیشہ سنتے پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں ہماری زندگیوں میں تبدیلی پھر بھی نہیں آتی۔ ہم اسی ڈگر پر گامزن رہتے ہیں۔ یا تو ہمیں احساس نہیں ہے کہ ایک دن ہم نے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے یا حیا جاتا رہا ہے اور خدا کا خوف نہیں ہے۔ ہم گناہوں میں یوں لت پت ہو گئے ہیں کہ اب دو چار گناہوں پر شرم نہیں ہوتی، افسوس نہیں ہوتا، ایسا خیال دل کو چبھتا نہیں ہے۔ پریشان نہیں کرتا، ہماری نیندیں نہیں جاتیں۔ بس زبان سے کہہ دیتے ہیں مولیٰ مجھے معاف کرنا، غلطی ہو گئی۔ بس معافی مانگتے ہوئے جیسا ہمارا طرز عمل ہوتا ہے ویسی ہی ’’معافی‘‘ ہمیں مل جاتی ہے۔
رمضان المبارک کے یہ بابرکت لمحات اللہ پاک نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے ہمیں عطا فرمائے ہیں جو ہمارے لئے غنیمت ہیں لہذا انہیں ضائع نہ ہونے دیں، ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ اللہ کی بارگاہ میں خلوص نیت، ندامت اور پختہ ارادہ کے ساتھ عہد کریں کہ اب گناہوں کی طرف واپس لوٹ کر نہیں جائیں گے۔ اللہ کی بارگاہ میں ہمہ وقت استقامت کی دعا کیا کریں کہ اللہ ہمارا مددگار ہو اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم برے اعمال کی طرف لوٹ کر نہ جائیں۔
ایک بزرگ لکھتے ہیں کہ چالیس سال میں نے ریاضت کی۔ پہلے بیس سال میں نے اپنے دل کی حفاظت کی، اسے گناہوں سے دور رکھا۔ دوسرے بیس سال میرے دل نے میری حفاظت کی اور اب بیس سال سے یہ حالت ہے کہ ہم دونوں کی خدا حفاظت کرتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا حال اور قال ایسا بنا لیں کہ خدا کی طرف سے ہمارے دل کی حفاظت ہونے لگ جائے اور اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم اپنی زندگیوں کو بدل لیں۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقش قدم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ اولیائ، صلحاء اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور اس مصطفوی مشن پر اپنا سفر کامیابی کے ساتھ جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سچے دل سے کی گئی ہماری توبہ اور ندامت کے آنسوؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور نافرمانی پر مبنی ہمارے اعمال سے درگزر فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
تبصرہ