فیئر ٹرائل کے حوالے سے عوامی تحریک کے وکلاء اور رہنماؤں کے 15 نکات پر مشتمل تحفظات
آئین کے آرٹیکل 10-A کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیئر ٹرائل نہیں ہورہا : عوامی تحریک
پاکستان کی تاریخ کا واحد کیس ہے جس میں مظلوموں کو ملزم بنا دیا گیا، وکلاء عوامی تحریک
حکومت، جے آئی ٹی اور دہشتگردی کی عدالت کے رویے میں کوئی خاص فرق نہیں
قانونی طور پر ناقابل قبول دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جارہا ہے، وکلاء کی عدم
موجودگی میں شہادتیں قلمبند ہوتی ہیں
کمرہ عدالت میں جج اور پراسکیوشن میں فرق کرنا مشکل ہو گیا، وکلاء انسانی حقوق کی تنظیمیں
نوٹس لیں
دہشتگردی کی عدالت کے جج سماعت کم اور فون پر ہدایات زیادہ لیتے ہیں، پولیس کارکنوں
کو ہراساں کرتی ہے
لاہور (26 فروری 2016) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنماؤں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے وکلاء کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت، پولیس اور جے آئی ٹی کے ظلم کے بعد اب آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت فیئر ٹرائل نہ کر کے انصاف کا خون کیا جارہا ہے، پولیس، جے آئی ٹی اور دہشتگردی کی عدالت کے رویے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا، سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری نے موجودہ قاتل حکمرانوں کے ہوتے ہوئے انصاف نہ ملنے کے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ آج حرف بہ حرف درست ثابت ہورہا ہے، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نوازگنڈاپور، چیف آرگنائزر میجر(ر) محمد سعید، سینئر وکیل رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، مرزا نوید بیگ ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ فیئر ٹرائل نہ ملنے کے حوالے سے ہمارے 15 قانونی و آئینی تحفظات ہیں جن کے ازالے کیلئے وکلاء اور انسانی حقوق کی قومی و بین الاقوامی تنظیموں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں، خرم نواز گنڈاپور نے پریس کانفرنس کے دوران15 تحفظات کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ
- ہماری ہر قانونی درخواست کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر موقع پر ہی مسترد کر دیا جاتا ہے۔
- ہماری 90فیصد درخواستوں پر نوٹس تک جاری نہیں کیے جاتے۔
- عوامی تحریک کے وکلاء کی غیر موجودگی میں شہادتیں قلم بند کروائی جارہی ہیں۔
- قانونی طور پر ناقابل قبول دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے اور اس عمل سے عوامی تحریک کے وکلاء کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔
- عدالتی ریکارڈ کا حصہ دستاویزات کی نقول عوامی تحریک کے وکلاء کو فراہم کیے بغیر جرح کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
- درجنوں گواہوں اور گواہانِ استغاثہ کی روزانہ کی بنیاد پر شہادتیں قلمبند کی جاتی ہیں اور عوامی تحریک کے وکلاء کو جرح کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
- عوامی تحریک کے وکلاء کو بتائے بغیر اگلے دن کی پیشی پر درجنوں گواہان بلا لیے جاتے ہیں اور پھر موقع پر جرح پر مجبور کیا جاتا ہے، جو قانون شہادت اور مروجہ عدالتی روایات کے برخلاف ہے۔
- عوامی تحریک کے وکلاء کی عدم موجودگی میں سرکاری وکیل کے ذریعے آناً فاناً کارروائی مکمل کر لی جاتی ہے
- پاکستان کی تاریخ کا یہ انوکھا کیس ہے جس میں مقتولین اور مضروبین کو ملزمان بنا دیا گیا اور ان کے ساتھ عدالت کے اندر ٹرائل کے مرحلہ پر مجرموں والا سلوک کیا جارہا ہے، پولیس تشدد اور بربریت کا شکار انصاف کے حقدار عوامی تحریک کے 42 کارکنان کو گھنٹوں عدالت میں کھڑا رکھا جاتا ہے اور کمرہ عدالت میں پولیس کے ذریعے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، یہ سب جج صاحب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، ہماری بارہا نشاندہی کے باوجود پولیس کی Harassment میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ رویہ فیئر ٹرائل کے آئینی حق سے متصادم ہے۔
- آئین کے آرٹیکل 13اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن 239 کے تحت ایک ہی وقوعہ اور ملزمان کا دو بار ٹرائل نہیں ہو سکتا نہ ہی دو بار سزا ہو سکتی ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں اس قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
- دہشتگردی کی عدالت کے یکطرفہ ٹرائل اور دوہری فرد جرم اور دوہرے ٹرائل کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا مگر یہاں بھی نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے اور ہماری درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں ہماری قانونی درخواستوں کو قابل سماعت ہی قرار نہیں دیا جاتا اور وجہ بتائے بغیر قانونی تقاضوں کو بلڈوز کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔
- پولیس تشدد اور گولیوں کا نشانہ بننے والے عوامی تحریک کے 42 متاثرین جنہیں پولیس نے ملزم ٹھہرا دیا ان میں طالب علم، مزدور، عمر رسیدہ غریب شہری شامل ہیں، ان کا تعلیمی اور معاشی مستقبل تباہ کر دیا گیا اور اب انہیں انصاف دینے کی بجائے انہی مظلوموں کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
- دہشتگردی کی عدالت ٹو کے جج جن قانونی دلائل پر لاجواب ہوجاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ آپ ’’اوپر‘‘ چلے جائیں’’اوپر‘‘ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں گھر چلے جائیں میڈیا اور قوم بتائے کہ ہم انصاف کیلئے کہاں جائیں؟
- جوادارے انصاف اور تحفظ کیلئے قائم کیے گئے تھے وہ ادارے طاقتور قاتل اور سفاک حکمرانوں سے خوفزدہ ہو کر ظلم کررہے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں جج پریزائیڈنگ افسر بننے کی بجائے پراسیکیوٹر بن چکے ہیں اور کمرہ عدالت میں پراسیکیوٹرجج والا کردار ادا کررہے ہیں، ہم معذرت کیساتھ کہہ رہے ہیں کہ جج اور پراسیکیوشن ملی بھگت کے ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کا خون کررہے ہیں، دہشتگردی کی عدالت کو باہر سے کنٹرول کیا جارہا ہے اور جج صاحب جو اس کیس کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے بہت جلدی میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپریل سے پہلے پہلے فیصلہ سنانے میں کامیاب ہو جائیں، اسی لیے وہ دوران سماعت مسلسل موبائل فون پر ہدایات لیتے رہتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 10-A کی روشنی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیئر ٹرائل نہیں ہورہا۔
خرم نوازگنڈاپور، میجر (ر) محمد سعید نے کہا کہ موجودہ قاتل حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں انصاف نہیں ملے گا، ہمارے علم میں ہے کہ فیصلے پہلے کیے گئے اور ٹرائل کا تکلف بعد میں ہورہا ہے مگر حکمران اور ان کے حاشیہ بردار کان کھول کر سن لیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور نہ ہی اب کسی کو انصاف کا خون کرنے دینگے، ہم آج ایک بار پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کے حکم پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی اب فیئر ٹرائل اور انصاف کیلئے بھی کردار ادا کریں پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے پرامن کارکنان کے صبر کو مزید مت آزمایا جائے، یہ کارکن جب باہر نکلتے ہیں تو حکمرانوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں اور آج ہمارے کارکن اور ہم سب انصاف نہ ملنے کی وجہ سے شدید اضطراب میں ہیں، اگر اب انصاف کے مرحلے پر کوئی دہشتگردی ہوئی تو اس کسی صورت آنکھیں اور زبان بند نہیں کی جائے گی۔ ادارے ہمیں انصاف دیں یا پھر انصاف مانگنے والوں کو بھی مار دیں۔
تبصرہ