شریف برادران کا کرپشن نہ کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے: پاکستان عوامی تحریک

مورخہ: 05 مارچ 2016ء

عوامی تحریک کا وفاقی اور پنجاب حکومت کی مالی بے ضابطگیوں پر حقائق نامہ
ساڑھے 8 ارب ڈالر کا کالا دھن منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھجوایا گیا
آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی 2014ء کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کا کچا چٹھہ کھولا
حقائق نامہ مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور و دیگر رہنماؤں نے میڈیا سیل کے اجلاس میں جاری کیا

لاہور (5 مارچ 2016) پاکستان عوامی تحریک نے وفاقی اور پنجاب حکومت کی کرپشن، فنانشنل مس مینجمنٹ کے حوالے سے حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ساڑھے 8 ارب ڈالر کا کالا دھن منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھجوایا گیا، لوٹی گئی قومی دولت واپس لانے کی بجائے حکمران لٹیروں کو تحفظ دے رہے ہیں، حقائق نامہ میں بتایا گیا کہ کرپشن نہ کرنے کا شریف برادران کا دعویٰ جھوٹا ہے، آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی 2014 ء کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کی 9 سنگین مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جسے شہباز حکومت نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور حکمران نیب کو آنکھیں دکھا رہے ہیں، حقائق نامہ مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نوازگنڈاپور، صوبائی صدور، فیاض وڑائچ، بشارت جسپال اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی نے مرکزی میڈیا سیل کے اجلاس کے دوران جاری کیا۔ حقائق نامہ کے مطابق دبئی لینڈ ڈویلپمنٹ کی جاری شدہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستانیوں نے دبئی کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ساڑھے چھ ارب ڈالر انویسٹ کیے اور وفاقی وزیر خزانہ پارلیمنٹ میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کا دو سو ارب ڈالر کا کالا دھن پڑا ہے مگر حکمرانوں نے یہ دولت واپس لانے کی بجائے اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے کیونکہ لٹیرے حکومتی ایوانوں میں موجود ہیں وہ قومی دولت واپس لانے کی تجویز پر عمل نہیں ہونے دینگے۔ حقائق نامہ میں وفاقی حکومت کی طرف سے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ادا کیے جانے والے 480 ارب روپے کو میگا سکینڈل قرار دیا گیا اور کہا کہ وفاقی حکومت نے پری آڈٹ کے بغیر 24 گھنٹے کے اندر یہ ادائیگیاں کیں، ایک دن کے اندر ای سی سی کے اجلاس سے ان ادائیگیوں کی منظوری لی گئی اور اگلے 12 گھنٹے کے اندر سٹیٹ بینک کو ادائیگیاں یقینی بنانے کا تحریری مراسلہ جاری کیا گیا جو سب ریکارڈ پر ہے۔

حقائق نامہ میں کہا گیاہے کہ پانچ سو ملین یورو بانڈ کی فروخت کے ذریعے قومی خزانے کو چار سو ملین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا جو کرپشن، فنانشل مس مینجمنٹ اور بیڈگورننس کی بدترین مثال ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پیش ہونے والی 150 میگا سکینڈلز کی فہرست بھی کوڑے دان میں پھینک دی گئی۔ حکمران خاندان کے قرضہ سکینڈلز پر بھی کسی ادارے نے قانون پر عمل نہیں کیا۔

حقائق نامہ میں پنجاب حکومت سے متعلق انکشافات کرتے ہوئے کہا گیا کہ پنجاب میں 2008ء کے بعد مالی بدعنوانیوں اور کرپشن میں اضافہ ہوا۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی 2014ء کی رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت 7 طرح کی بے ضابطگیوں کی مرتکب ہے:

  1. منصوبوں کے کنٹریکٹ دیتے وقت قوانین کو بلڈوز کیا جاتا ہے۔
  2. رقوم کے استعمال میں اختیارات سے تجاوز کیا جاتا ہے۔
  3. تخمینہ لاگت طے کرتے وقت قواعد و ضوابط پامال کیے جاتے ہیں اور مالی کنٹرول انتہائی کمزور ہے۔
  4. منصوبوں پر تعینات افسران کے حوالے سے کوئی پے رول طریقہ کار نہیں ہے۔
  5. سٹاکس کی حفاظت نہیں کی جاتی، خریداریوں کا نظام غیر شفاف ہے۔
  6. مالی معاملات سے متعلق ریکارڈ کی حفاظت نہیں کی جاتی۔
  7. منصوبوں کے حوالے سے خریداری کا طریقہ کار غیر شفاف ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2008ء میں پنجاب سرپلس صوبہ تھا جو آج 950 ارب روپے کا مقروض ہے اور پنجاب حکومت نے گزشتہ 7 سالوں میں صرف سود کی مد میں 105 ارب روپے ادا کیے۔ قرضوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے حقائق نامہ میں کہا گیاہے کہ پنجاب 500 ارب روپے کے اندرونی، بیرونی بینکوں کا براہ راست مقروض ہے جبکہ اورنج لائن، قائداعظم سولر پارک اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے 450 ارب روپے کے قرضے کے بوجھ تلے ہے۔

عوامی تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ پنجاب کے عوام تاجر، صنعتکار، کسان، وکلاء، ملازمین 119 قسم کے ٹیکس دیتے ہیں، اس کے باوجود صوبہ کے غریب عوام تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ حقائق نامہ میں بتایا گیا کہ ان ٹیکسوں کی تعداد سندھ میں 82، خیبر پختونخوا میں 54 اور بلوچستان میں 12 ہے۔ عوامی تحریک کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ کرپشن کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جائے جسے ایجنسیوں، ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب کی معاونت حاصل ہو۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top