پانامہ لیکس سے دنیا میں ملک بدنام نہیں ہوا تو انصاف مانگنے سے کیوں ہو گا؟ ڈاکٹر طاہرالقادری
یو این او، انگلش ہائیکورٹ اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں سانحہ
ماڈل ٹاؤن کیس لیجانے کیلئے لاء فرم کی خدمات حاصل کر لیں
وزیراعظم کے اپنے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں، کشمیریوں کا مقدمہ کس منہ سے
لڑیں گے؟ سربراہ عوامی تحریک
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اہم کردار بیرون ملک فرار کروا دئیے گئے، سانحہ میں شریف برادران
براہ راست ملوث ہیں، پریس کانفرنس
لندن/ لاہور (17 ستمبر 2016) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے اپنے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں۔ یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ کس منہ سے لڑیں گے اگر ملک پانامہ لیکس کے انکشافات سے عالمی سطح پر بدنام نہیں ہوا تو انصاف مانگنے سے کیوں ہو گا؟ہم ریاست نہیں شریف برادران کی حکومت کے خلاف انصاف کے عالمی فورم سے رجوع کررہے ہیں۔ یو این او کی ہیومن رائٹس کونسل، انگلش ہائیکورٹ اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس لیجانے کیلئے لاء فرم کی خدمات حاصل کر لی ہیں، مناسب وقت پرنام بتا دیں گے۔ دو سال کے بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء کو انصاف نہیں جس پر ہمیں انصاف کیلئے انٹرنیشنل فورمز سے رجوع کرنا پڑا۔ اخراجات کیلئے اپنے کارکنوں سے فی کس 10 یورو کی اپیل بھی کی تو پورے ہو جائینگے۔ آخری سانس تک انصاف کیلئے لڑوں گا۔ دہشت گردوں اور انصاف کے قاتلوں کے سامنے کبھی سرنڈر نہیں کرونگا۔ پنجاب حکومت نے ابھی تک رینجرز کو آپریشن کے اختیارات نہیں دئیے یہ اختیارات دینے سے پہلے درجہ اول کے دہشت گردوں کو بھگارہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اہم کردار وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پروں کے نیچے اعلیٰ عہدوں پر فائز کررکھے ہیں۔ ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی سلمان، ایس پی عبدالرحیم شیرازی، ایس پی عمر ریاض چیمہ کو دو دو سال کی چھٹی دے کر اور ان کے ویزے لگوا کر انہیں پاکستان سے فرار کروا دیا گیا۔ میری اطلاع کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کو قتل کرنے والے یہ افسران یہاں سیاسی پناہ کے کیس تیارکررہے ہیں۔ شریف برادران نے انہیں فرار کروایا کہ کہیں یہ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں۔ شریف برادران کا دامن صاف ہوتا تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے سے انکار نہ کرتے۔ ہمیں تو ایف آئی آر درج کروانے کیلئے بھی لاکھوں لوگوں کو لیکر اسلام آباد جانا پڑا۔ تحریک قصاص میں ملک کے پونے دو سے زائد شہروں میں لاکھوں عوام شریک ہوئے۔ تفتیش اور ٹرائل کے حکومتی ادارے شریف برادران کی مٹھی میں ہیں اس لیے انصاف نہیں مل رہا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بڑے ملزمان میں سے کوئی ایک بھی گرفتار نہیں ہوا۔ قوم کو دھوکہ دینے کیلئے رانا ثناء اللہ کو عارضی طور پر عہدے سے ہٹایا گیا اور سانحہ کے مرکزی کردار ڈاکٹر توقیر کو ڈبلیو ٹی او میں سفیر بنا کر بھجوادیاگیا انہیں بے گناہوں کو قتل کرنے کیلئے بطور انعام عہدے دئیے گئے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں یہ لکھا گیا ہے کہ پولیس نے وہی کیا جس کا حکم اسے پنجاب حکومت سے ملا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کمیشن نے میری طرف اشارہ بھی کیا تو عہدہ چھوڑ دوں گا۔ جتنا عرصہ مرضی لگ جائے مگر قصاص کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انصاف نہ ملنے پر انصاف کے بین الاقوامی اداروں کے دروازوں پر دستک دینا پڑی۔
انہوں نے شریف برادران کی طرف سے سالمیت پر حملوں کے حوالے سے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کلبھوشن کا کیس تو پاکستان کے اندر لڑ نہیں سکے اور کئی کلبھوشن ان کی ملوں میں کام کرتے ہیں شری در نامی ایک انڈین کو رمضان شوگر مل انتظامیہ کی درخواست پر 10سال کا ویزا دیا گیا حالانکہ اتنی طویل مدت کا ویزہ دینے کا دونوں ملکوں میں کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔ میں نے 300 انڈین کی نشاندہی کی جن میں سے 50 کی فہرست بھی جاری کی آج تک اس کی تردید نہیں آئی۔ شریف برادران کا اقتدار ملک اور قوم کیلئے خطرناک ہے۔ میرے لیے بھی یہ ایک سوال ہے کہ ملکی ادارے شریف برادران کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کو دہشت گردوں کا نظریاتی بیس کیمپ بنادیا گیا۔ رینجرز آپریشن شروع ہونے سے پہلے سینکڑوں دہشت گردوں کو پولیس نے ادھر ادھر کر دیا۔ پاکستان کی عدالتوں میں اس سے پہلے مسنگ پرسنز کے کیس سنے جارہے تھے اب رینجرز آئے گی تو وہ مسنگ دہشت گردوں کو تلاش کرے گی۔ شریف برادران رینجرز کو صرف گمشدہ دہشتگردوں کی تلاش کے کام تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کار اقتدار میں بیٹھے ہیں ان کے ہوتے ہوئے دہشتگردی ختم نہیں ہو گی۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسلامی نظام کا نیو کلیس انصاف ہے ہماری جدوجہد انصاف کیلئے ہے۔ انصاف کا بول بالا ہو گا تو اسلام کا بول بالا ہو گا۔ تحریک قصاص میں ہمارا فوکس انصاف پر ہے۔ جدوجہد پر یقین رکھتا ہوں۔ زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوا اور انصاف کیلئے آخری سانس تک جدوجہد جاری رہے گی۔ اس موقع پر بشارت جسپال، فیاض وڑائچ، ڈاکٹر رحیق عباسی، اور علی عزیز بخاری، ساجد محمود دیگر موجود تھے
تبصرہ