شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بےمثل ہونے کا عظیم مظہر درود و سلام
ڈاکٹر ظہور اللہ الازہری
درود و سلام ایک منفرد وظیفہ، بے مثل عبادت، عظیم الشان دعا اور قطعی القبول عمل ہے۔ یہ قربِ خداوندی اور قربِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا.
(الأحزاب، 33: 56)
’’بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
لفظ صلوٰۃ کے کئی معانی ہیں جن میں دعا، اِستغفار، رحمت، برکت، اِشاعتِ ذکر جمیل اور نماز زیادہ معروف ہیں۔ لیکن اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ آئے تو اس کا معنی ’’نزولِ رحمت‘‘ ہوتا ہے، فرشتوں کی طرف سے ہو تو ’’دعا‘‘ اور اگر اس کا تعلق بندوں سے ہو تو اس کا معنی ’’طلبِ رحمت‘‘ ہوتا ہے۔
(ابن منظور افريقی، لسان العرب، 14: 465)
صلوٰۃ و سلام ایک ایسا محبوب و مقبول عمل ہے جس کی قبولیت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی فاسق و فاجر، گناہ گار اور معصیت شعار انسان بھی بارگاہِ ربّ العزت میں عرض گزار ہوتا ہے کہ اے بارِ اِلٰہ! اپنے حبیب پر صلوٰۃ بھیج۔ تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے بندے! میں پہلے ہی صلوٰۃ بھیج رہا ہوں، یہ میری سنت ہے۔ لیکن چونکہ تو نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا، اپنی کسی غرض کو بیچ میں نہیں ڈالا بلکہ صرف میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کی بات کی ہے، اس لیے تیری دعا قبول ہے۔ چونکہ دعا سے پہلے ہی اس پر عمل ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے درود پڑھنے والا خواہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو اُس کی دُعا قبول کرلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درودِ پاک قطعی القبول ہے اور اس کے مردود و نامنظور ہونے کا رتی بھر بھی امکان نہیں۔
درود پاک کے فضائل کے حوالے سے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سے اِرشادات مروی ہیں جن سے اس عظیم الشان عمل کی اہمیت وفضیلت واضح ہوتی ہے۔
مختلف صیغوں سے صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا اِثبات
صلوٰۃ و سلام ہر دور میں اہلِ دل کا معمول رہا ہے اور وہ کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کثرت سے درود و سلام بھیجتے رہے ہیں۔ کتب احادیث کے ساتھ ساتھ اکابر مشائخ سے بھی درود و سلام کے بے شمار صیغے مروی ہیں جو صدیوں سے اہلِ خیر کا معمول چلے آرہے ہیں۔ بارگاہ رسالت میں مختلف صیغوں اور الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ وسلام بھیجنے کی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فرمائی۔ اس سلسلے میں ذیل میں چند احادیث بطور استدلال پیش کی جا رہی ہیں:
- حضرت کعب بن عجرہ ص روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم!ہم نے آپ پر سلام بھیجنا تو جان لیا، لیکن آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قُولُوا: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
’’یوں کہو: ’’اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی آل پر درود بھیج، جیسا کہ تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی آل پر درود بھیجا۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی آل کو برکت عطا فرما، جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل کو برکت عطا فرمائی۔ بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
( ترمذی، السنن، أبواب صلوٰة، 2: 352، رقم: 483)
- حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَحْسِنُوا الصلوٰة عَلَيْهِ، فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُونَ لَعَلَّ ذَلِکَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ، قَال:َ فَقَالُوا لَهُ: فَعَلِّمْنَا: قَالَ: قُولُوا: اللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلَی سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ إِمَامِ الْخَيْرِ وَقَائِدِ الْخَيْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ، اللّٰهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا يَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، 1: 293، رقم: 906)
’’جب تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو تو بڑے احسن انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں سکھائیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کیسے بھیجیں؟ انہوں نے فرمایا: یوں کہو: ’’اے اﷲ! تو اپنا درود، رحمت اور برکتیں رسولوں کے سردار، اہل تقویٰ کے امام اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص فرما، (جو) تیرے بندے اور رسول ہیں، جو بھلائی اور خیر کے امام اور قائد اور رسولِ رحمت ہیں۔ اے اﷲ! ان کو اس مقام محمود پر پہنچا جس کی خواہش اَوّلین اور آخرین سب کرتے ہیں۔ اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود بھیج، جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل پر درود بھیجا، بے شک تو تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔ اے اﷲ! تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کو برکت عطا فرما، جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی آل کو برکت عطا فرمائی۔ بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اوربزرگی والا ہے۔‘‘
- حضرت عقبہ بن عمرو ص بیان کرتے ہیں کہ درود پاک پڑھنے کا طریقہ، خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
قُولُوا: اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب: الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، 1: 258، رقم: 981)
’’یوں کہو: اے میرے اﷲ! تو درود بھیج اُمی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر۔‘‘
- امام شافعی نے اپنی کتاب ’الرسالۃ (ص: 16)‘ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود ذکر کیا ہے:
صَلَّی اﷲُ عَلَی نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ کُلَّ مَا ذَکَرَهُ الذَّاکِرُوْنَ، وَغَفَلَ عَنْ ذِکْرِهِ الْغَافِلُوْنَ، وَصَلَّی عَلَيْهِ فِي الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ أَفْضَلَ وَأَکْثَرَ وَأَزْکَی مَا صَلَّی عَلَی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ.
’’اﷲسبحانہ وتعالیٰ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نازل فرمائے، جب بھی ذاکرین اس کا ذکر کریں اور جب بھی غافلین اس کے ذکر سے غافل ہوں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسا افضل، بے حد و حساب اور پاکیزہ ترین درود نازل فرمائے جو اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے کسی پر بھی نازل نہیں کیا گیا۔‘‘
- امام ابن جوزی نے اپنی کتاب ’صفۃ الصفوۃ (2: 257)‘ میں اس درود سے متعلق حضرت ابو بیان الاصبہانی کا ایک بڑا دل چسپ خواب ذکر کیا ہے۔ ابو بیان کہتے ہیںکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم: محمدبن ادریس الشافعی کو بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کسی خصوصی انعام سے نوازا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، میں نے اﷲ تبارک وتعالیٰ سے عرض کیا کہ شافعی کا حساب وکتاب نہ لے۔ ابو بیان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم: وہ کس وجہ سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیوں کہ وہ مجھ پر ایک ایسا درود بھیجتا تھا جیسا کسی اور نے نہیں بھیجا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم: وہ درود کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اور فرمایا: وہ ان الفاظ کے ساتھ مجھ پر درود بھیجتا تھا۔
- ابن عدی نے حضرت علی ص سے اور ابو داؤد، ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ ص سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ امر خوشی و مسرت عطا کرے کہ اسے ہم اہل بیت پر درود و صلوٰۃ بھیجتے وقت کامل و اکمل پیمانہ کے ساتھ پوری پوری جزاء دی جائے تو اُسے چاہیے کہ وہ یوں کہے:
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ وَأُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب صلوٰة، 1: 258، رقم: 982)
’’اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذُرّیت اور ا‘مہات المومنین پر صلاۃ نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام پر صلوٰۃ بھیجا۔ بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا گیا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
صحابہ کرام ث، تابعین اور ائمہ اسلاف کا قول اور عمل اسی امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجنے میں الفاظ اور صیغے مخصوص نہیںبلکہ جس کو اﷲ تعالیٰ نے فصاحت وبلاغت سے نوازا ہو، اور وہ معانی ومطالب کو صحیح اور صریح عبارات سے ادا کر سکتا ہو، جو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ شرف اور عظمت و حرمت پر مشتمل ہوں، تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی طرف سے خوبصورت الفاظ میں درود شریف پیش کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ص کی مذکورہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ عمدہ الفاظ و اسلوب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو اور پھر ابن مسعود ص نے خود خوبصورت اور عمدہ الفاظ میں درود پڑھ کر سنایا۔
مختلف صیغہ ہائے درود پر اِجماعِ اُمت
گزشتہ بحث سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ صحابہ کرام ث اور اَسلاف جب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھتے یا بیان کرتے تو اس میں ’’صَلَّی اﷲُ عَلَيْکَ‘‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ تحریراً و تقریراً استعمال کرتے۔ اگر ہم ائمہ سلف کی کتابوں کو دیکھیں تو ان میں مختلف طریقوں سے مختصر درود و سلام ’’ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ آج تک مروج و متداول ہے۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ:
- درود شریف کے لیے ایسے مخصوص الفاظ نہیں کہ ان کے سوا باقی الفاظ میں درود شریف لکھا یا پڑھا نہ جا سکے۔ اس لیے ہر دور میں حسین و جمیل الفاظ میں درود شریف پڑھا اور لکھا جا سکتا ہے۔
- درود ابراہیمی کی افضلیت نماز میں ہے، نماز کے علاوہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مختلف الفاظ اور صیغوں سے بھی درود و سلام پیش کیا جا سکتا ہے۔
صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عہد سے آج تک مختصر ترین درود وسلام ’’ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ پر بھی عمل چلا آرہا ہے۔ اس کے علاو بھی سید دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف صیغے مروی و منقول ہیں۔ صحابہ کرام ث اپنے طور پر بھی مختلف انداز سے درود و سلام پڑھتے اور پڑھنے کا حکم بھی دیتے رہے۔
مشائخ کرام نے درود و سلام کے مختلف الفاظ اور صیغوں پر مشتمل کتب تصنیف فرمائیں اور سلاسلِ اَربعہ اور دیگر سلاسلِ طریقت میں ان کا پڑھنا آج تک مروّج، معمول اور معروف ہے۔ ان میں امام ابن فارس لغوی کی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ علامہ ابن القیم الجوزیہ کی جلاء الہفہام۔۔۔ امام جزولی کی دلائل الخیرات۔۔۔ امام یعقوب فیروز آبادی کی الصلات والبُشر فی الصلاۃ علی خیر البَشَر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ امام سخاوی کی الحرز المنیع اور القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ امام ابن حجر ہیتمی مکی کی الدر المنضود في فضل الصلوۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ اور امام نبہانی کی سعادۃ الدارین مختلف صیغوں میں درود و سلام کے حوالے سے زیادہ معروف ہیں۔
- علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ درود کے مختلف صیغوں اور الفاظ میںکثرت کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
’’جان لیجیے کہ درود و صلوات کی چار ہزار اَنواع و اقسام ہیں اور شیخ سعد الدین محمد حموی قدس سرہ سے منقول ایک روایت کے مطابق بارہ ہزار اقسام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک درود، شرق و غرب کے اَخیار و اَصفیاء اور کاملین کی ایک جماعت کا مختار ہے، جس کی بناے اختیار، اس درود و صلوٰۃ کی بدولت، ان کے اور نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان قائم ہونے والے ربط اور روحانی تعلق پر ہے، ان خواص اور منفعتوں کی بنیاد پر جو انہیں ان درودوں اور صلوات میں معلوم ہوئیں۔‘‘
(إسماعيل حقی، روح البيان، 7: 233)
درود و سلام پر مستقلاً لکھی جانے والی کتب
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور اقوال وآثار کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ مختلف صیغوں اور الفاظ کے ساتھ درود وسلام خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ سلف صالحین کا معمول رہا ہے۔ اِس اَمر میں صحابہ کرام ث، تابعین اور اَئمہ سلف میں کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔ یہاں تک کہ امام شافعی، ابن ابی الدنیا، ابن اسحاق اَزدی، سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی، امام نووی، علامہ ابن القیم الجوزیہ، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، امام ابن حجر ہیتمی مکی، علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی اور بے شمار دیگر ائمہ کرام نے اپنی کتابوں میں مختلف صیغوں کے ساتھ لاتعداد درود و سلام درج کیے ہیں۔
درود و سلام سے متعلق عرب و عجم کے ائمہ محدثین، علمائے کرام اور دیگر صلحاے امت نے مستقلاً ضخیم کتابیں مرتب کی ہیں۔ ان کتابوں میں درود شریف کو مختلف الفاظ اور صیغوں کے ساتھ لکھا اور جمع کیا اور پھر ان کو وظائف کے طور پر اپنا معمول بنایا جس سے بہت سی خیر و برکات حاصل ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ مقبولیت امام جزولی رحمۃ اللہ علیہ کی مرتب کردہ کتاب ’’دلائل الخیرات‘‘ کو ملی۔ دلائل الخیرات عرصہ دراز سے صوفیاء کرام اور صلحاے امت کا معمول رہی ہے۔ آپ نے اس کتاب میں مشہور امام ابن ابی الدنیا، ابن اسحاق الازدی، امام شافعی، سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی اور دیگر ائمہ سلف کے بیان کردہ صیغہ ہاے درود کو بھی جمع کیا ہے۔
مختلف زبانوں میں اس موضوع پر لکھی جانے والی دیگر کتب کی تعداد حیطہ شمار سے باہر ہے۔ دنیائے عرب و عجم میں صلوٰۃ و سلام سے متعلق بے شمار کتب لکھی گئیں۔ اس سعادت سے بہرہ ور ہونے والے ائمہ کرام میں إسماعیل بن إسحاق الأزدي(م 282ھ)، أبي القاسم عليّ بن أحمد الکوفي (م 352ھ)، الشیخ محیي الدین عبد القادر الجیلانی (م 561ھ)، جبر بن محمد القرطبي (م 615ھ)، أبي عبد اﷲ محمد بن عبد الرحمن الجزولي (م 870ھ)، امام جلال الدین السیوطي (م 911ھ)، إمام قسطلانی الشافعي (م 923ھ)، إمام ا بن حجر الہیتمي (م974ھ)، عبد الرحمن بن أحمد السخاوي (م 1123ھ)، امام الشوکاني(م 1250ھ)، محمد معروف بن مصطفی البرزنجي (م 1254ھ)، علامۃ محمد یوسف بن إسماعیل النبہاني (م 1350ھ) نمایاں ہیں۔
بعد ازاں ان ائمہ میں سے کئی ائمہ کی اہم کتب کی کئی کئی شروحات بھی لکھی گئیں۔ مثلاً دلائل الخیرات ہی کو لیں تو اس کی شروحات میں محمد المہدی الفاسی مالکی کی مطالع المسرات بجلاء دلائل الخیرات۔۔۔ شیخ سلیمان الجمل الشافعی کی المنح الہلہیات في شرح دلائل الخیرات۔۔۔ اور شیخ حسن العدوی المالکی کی أفضل الصلوات علی سید السادات۔۔۔ جیسی معروف شروح کے نام آتے ہیں۔
دَلَائِلُ الْبَرَکَاتِ فِي التَّحِيَّاتِ وَالصَّلَوَاتِ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی اسلاف کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے درودوسلام پر ’دَلَائِلُ الْبَرَکَاتِ فِي التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَاتِ‘ کے عنوان سے حبیبِ خدا، تاجدارِ کائنات، رحمۃ للعالمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی محبت کا نذرانہ پیش کیا ہے جس کی بارگهِ ناز کا درود گذار خود خدا بھی ہے اور اس کے فرشتے بھی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درود و سلام کے ترانوں سے امت کے دلوں کی ویران بستیوں کو سرسبز وشاداب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ’دَلَائِلُ الْبَرَکَاتِ فِي التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَاتِ‘ کی صورت میں مختلف صیغوں اور اسالیب سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنے کی سُنتِ اَسلاف کو پھر سے زندہ کیا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام کا یہ دل نشین انداز اپنے اندر نہ صرف عاشقانہ تڑپ، شاعرانہ اثر انگیزی اور دل برانہ کیف و سرور لیے ہوئے ہے بلکہ علم و معرفت کا ایک نیا جہان بھی آباد کرتا ہے۔
بہت سے صیغوں اور اَسالیب کے ساتھ چالیس منازِل میں منقسم ’دَلَائِلُ الْبَرَکَاتِ فِي التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَاتِ‘ اپنے دامن میں اڑھائی ہزار کے قریب درود پاک کے جواہر سمیٹے ہوئے ہے۔ اِس کتاب کو دس بڑے اَحزاب اور چالیس ذیلی منزلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی ہر حزب کی چار منزلیں بنا دی گئی ہیں اور ہر منزل 60 سے 65 درودوں پر مشتمل ہے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتھم نے یہ کتاب اِبتدائً عربی زبان میں مرتب فرمائی تھی۔ بعد ازاں اِسے اردو ترجمہ کے ساتھ بھی شائع کیا گیا۔ اِس کی قبولیت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختصر عرصے میں اس کے کئی ایڈیشن طبع ہوچکے ہیں۔ اِس کتاب کو صرف بطور وظیفہ ہی نہیں پڑھا گیا بلکہ عرب دنیا کے شیوخ و محققین اور علماء کرام میں بھی اِسے بہت پذیرائی ملی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان و ادب اور بلاغت و سلاست کا عظیم مرقع بھی ہے اور محبت و عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز خزانہ بھی۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتھم نے ربط رِسالت کی بحالی اور مضبوطی کے لیے اُمتِ مرحومہ کو حدیث مبارکہ اور سیرت و فضائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک سو سے زائد کتب کی فراہمی اور درود پاک پر تقریباً ایک درجن کتب تالیف کی ہیں۔ ان تمام کتب کا بالعموم اور ’دَلَائِلُ الْبَرَکَاتِ فِي التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَاتِ‘ کے بالخصوص مطالعہ و وظیفہ سے جہاں سالک کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور نسبت نصیب ہوگی وہاں قلب و روح میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم بھی پیدا ہوگی اور آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے بلاناغہ، ذوق و شوق سے، اس وظیفہ کا معمول بنائے رکھنے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف بھی نصیب ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2016
تبصرہ