سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی علمی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo

(الکهف، 18: 65)

’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر ں) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔‘‘

جملہ اولیاء کرام بشمول حضور غوث الاعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیاء کاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے؟

حضور غوث الاعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوث پاک ص کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیران پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں اور ان کے ہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے؟

ہمارے ہاں معمول یہ ہے جب کبھی اِن بزرگان دین کے ایام منائے جاتے ہیں تو اس حوالے سے منعقدہ کانفرنسز اور اجتماعات میں ہمارا موضوع اکثر و بیشتر کرامات ہوتا ہے۔ کرامت سے کسی بھی ولی اللہ کا ایک گوشہ تو معلوم ہوتا ہے مگر یاد رکھ لیں کہ صرف کرامت کا نام ولایت نہیں اور ولایت صرف کرامت تک محدود و مقید نہیں۔ کرامت اولیاء اللہ کی زندگی میں بائی پروڈکٹ (By Product) کی سی حیثیت رکھتی ہے۔

جیسے کوئی شخص شوگر انڈسٹری لگاتا ہے تو شوگر (چینی) کو گنے سے بناتے ہوئے اس پروسز میں کئی چیزیں اور بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مقصود شوگر پیدا کرنا ہے مگر شوگر پیدا ہونے کے راستے میں کئی بائی پروڈکٹس بھی حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اپنے آپ جنم لیتی ہیں۔ اِن سے کماحقہ مستفید ہونے کے لئے بعض اوقات اس کی چھوٹی موٹی انڈسٹری بھی اضافی لگالی جاتی ہیں۔ بائی پروڈکٹس خود مقصود بالذات نہیں ہوتیں۔

اولیاء کی زندگیوں میں کرامات کی حیثیت بائی پروڈکٹس کی ہوتی ہے، یہ کرامات اُن کا مقصود نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو تو اس کے دائیں بائیں یقینا گرد ، کنکریاں، گھاس، پھوس بھی اڑے گی، بس اسی طرح اولیاء کی تیز رفتار روحانی طاقت کے دوران دائیں بائیں جو کچھ اڑتا ہے وہ ان کی کرامتیں ہوتی ہیں۔ یہ کرامات ہمارے لئے تو بڑا معنی رکھتی ہیں مگر ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ولی اﷲ ان کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔

ولایت، کرامت نہیں بلکہ استقامت کا نام ہے:

حضور غوث پاک نے خود فرمایا اور جمیع اولیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ رب العزت اپنے اولیاء و صوفیاء کو فرماتا ہے کہ مجھے کرامتوں کی ضرورت نہیں بلکہ کرامت تو تمہارے نفس کی طلب ہے۔ کرامتوں میں نفس مشغول ہوتا ہے، مزہ لیتا ہے، واہ واہ کرتا ہے۔ اللہ کی طلب تو استقامت ہے۔ اسی لئے اولیاء اللہ نے فرمایا:

الإستقامة فوق الکرامة.

’’اِستقامت کا درجہ کرامت سے اونچا ہے‘‘۔

ولایت، کرامت کو نہیں کہتے بلکہ ولایت، استقامت کو کہتے ہیں۔ جب کرامت کا بیان ہوتا ہے تو یہ اولیائے کرام کی شان کا ایک گوشہ ہے، جس سے ان کی کسی ایک شان کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے اصل مقام کا پتہ استقامت سے چلتا ہے۔ کتاب و سنت کی متابعت اور استقامت ہی سے ولایت کا دروازہ کھلتا اور اس میں عروج و کمال نصیب بنتا ہے۔

حضور غوث الاعظم، آئمہ محدثین و فقہاء کی نظر میں

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ایک عظیم اظہار ’’علم‘‘ کے باب میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ عِلمِ شریعت کے باب میں ان سے متعلقہ بہت سے اقوال صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں اور ہم لوگ بیان کرتے رہتے ہیں مگر اس موقع پر میں سیدنا غوث الاعظم ص کا مقامِ علم صرف آئمہ محدثین اور فقہاء کی زبان سے بیان کروں گا کہ آئمہ علم حدیث و فقہ نے ان کے بارے کیا فرمایا ہے، تاکہ کوئی رد نہ کر سکے۔ اس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ کیا صرف عقیدت مندوں نے ہی آپ کا یہ مقام بنا رکھا ہے یا جلیل القدر آئمہ علم، آئمہ تفسیر، آئمہ حدیث نے بھی ان کے حوالے سے یہ سب بیان کیا ہے؟

یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور غوث الاعظم ص نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ اگر آپ کے علمی مقام کے پیش نظر آپ کو لقب دینا چاہیں تو آپ امام اکبر تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ حضور غوث الاعظم ص ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور 90 سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیتِ مبارکہ (الکہف:18) میں بیان کردہ علم لدنی کا اظہار آپ کی ذات مبارکہ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال 3000 طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ میں آج آپ کے متعلقہ وہ باتیں اور میادین بیان کروں گا جو آپ نے پہلے نہیں سنے اور جو بیان بھی نہیں کئے جاتے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز

بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم ص کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ سیدنا غوث الاعظم ص کا فیض تھا۔

امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ

امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضور غوث الاعظم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔

امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن (امام عبدالغنی المقدسی) حضور غوث الاعظم کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لئے پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 90 برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔

  • امام الذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں:

سیدنا غوث الاعظم ص کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ میں رہتے تھے۔ سیدنا غوث الاعظم اپنے بیٹے یحییٰ بن عبد القادر کو بھیجتے اور وہ ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب، خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا اور گھر سے درویشوں کے لیے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے۔

علامہ ابن تیمیہ بارے ایک غلط فہمی کا ازالہ

امام ابن قدامہ المقدسی ایک واسطہ سے علامہ ابن تیمیہ کے دادا شیح ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کے عقائد کے بعض معاملات میں بعد میں انتہاء پسندی آگئی۔ مجموعی طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ منکرِ تصوف تھے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ ان کے بعض معاملات میں، تشریحات و توضیحات میں انتہاء پسندی تھی، جن سے ہمیں اختلاف ہے مگر مجموعی طور پہ وہ منکرِ تصوف نہیں تھے، وہ تصوف کے قائل تھے، تصوف پر ان کا عقیدہ تھا، اولیاء، صوفیاء کے عقیدتمند تھے اور طریقہ قادریہ میں بیعت تھے۔

علامہ ابن تیمیہ کے شیح کا نام الشیخ عزالدین عبداللہ بن احمد بن عمر الفاروثی ہے۔ بغداد میں انہوں نے سیدنا شیح شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت کا خرقہ پہنا۔ گویا ایک طریق سے ان کا سلسلۂ طریقت سہروردیہ ہو گیا۔ شیخ عزالدین الفاروثی، امام موفق الدین ابی محمد بن قدامہ المقدسی کے خلیفہ اور مرید بھی ہیں اور ابن قدامہ المقدسی، سیدنا غوث الاعظم صکے خلیفہ اور شاگرد ہیں۔ جنہوں نے طریقہ قادریہ میں خود غوث الاعظم سے خرقہ پہنا۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ علامہ ابن تیمیہ کو ان کی وصیت کے مطابق دمشق میں صوفیاء کے لئے وقف قبرستان مقابرالصوفیہ میں دفنایا گیا۔ اس کو امام ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘، امام ابن حجر عسقلانی نے ’’الدرر الکاملہ‘‘، امام ذہبی نے ’’العبر‘‘ اور کل محدثین جنہوں نے علامہ ابن تیمیہ کے احوال لکھے، تمام نے بلا اختلاف اس کو بیان کیا ہے۔ یہ قبرستان صرف صوفیائے کرام کے لئے وقف تھا، وہاں دیگر علماء کی تدفین نہیں ہوتی تھی۔ آج کے دن تک علامہ ابن تیمیہ کی قبر مقابر صوفیا میں ہے۔ بعد ازاں ان کے بیٹے کی وفات ہوئی تو وہ بھی مقابر صوفیا میں دفن ہوئے۔

علامہ ابن تیمیہ کا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے اظہار عقیدت

علامہ ابن تیمیہ کے شیح، امام ابن قدامہ کے شاگرد تھے اور امام ابن قدامہ، حضور غوث الاعظم کے مرید تھے۔ علامہ ابن تیمیہ سیدنا غوث الاعظم ص کے عظیم عقیدت مندوں میں سے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ کی کتاب الاستقامۃ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں اولیاء و صوفیاء میں سے سب سے زیادہ محبت و عقیدت سے جس شخصیت کا نام علامہ ابن تیمیہ نے لیا وہ حضور سیدنا غوث الاعظم ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ غوث، قطب، ابدال کے ٹائٹل ہمارے من گھڑت ہیں اور اکابر علماء، محدثین ان کو مانتے نہیں تھے۔ سن لیں! علامہ ابن تیمیہ، غوث الاعظم شیح عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا نام اس طرح لکھتے ہیں:

قطب العارفين ابا محمد بن عبد القادر بن عبد اﷲ الجيلی.

’’قطب العارفین (سارے عارفوں کے اولیاء کے قطب) سیدنا شیح عبد القادر الجیلانی‘‘۔

یعنی وہ حضور غوث الاعظم کے نام کو اس طرح القاب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جبکہ باقی کسی صوفی اور اولیاء میں سے کسی کا نام اس کے ٹائٹل کے ساتھ بیان نہیں کرتے۔ جس کا بھی ذکر کریں گے تو صرف اس صوفی یا ولی کا نام لکھ کر ان کی کسی بات کو نقل کریں گے۔ مثلاً:

نقل الشيح شهاب الدين ابو حفص عمر بن محمد السهروردي... نقل ابو القاسم القشيري... نقل ابو عبد الرحمن السلمي... نقل بشر الحافي... قال الحارث المحاسبي... قال الجنيد البغدادي...

مگر سیدنا غوث الاعظم ص کی بات آئے تو ’’الشیح‘‘ لکھیں گے یا ’’قطب العارفین‘‘ لکھیں گے یعنی ٹائٹیل کے ساتھ نام لکھیں گے۔

سیدنا غوث الاعظم ص کا ایک کشف اور کرامت علامہ ابن تیمیہ الاستقامۃ کے صفحہ 78 پر بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ:

شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ اوائل عمر میں ہی علوم کی کتب پڑھ لینے کے بعد میں علم الکلام، فلسفہ، منطق وغیرہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے میں متردد تھا کہ کس کتاب سے آغاز کروں؟ امام الحرمین الجوینی کی کتاب ’’الارشاد‘‘ پڑھوں یا امام شھرستانی کی کتاب ’’نہایۃ الاقدام‘‘ پڑھوں؟ یا اپنے شیخ ابو نجیب سہروردی (اپنے وقت کے کامل اقطاب اور اولیاء میں سے تھے، یہ ان کے چچا بھی تھے اور شیخ بھی تھے) کی کتاب پڑھوں؟ میری یہ متردد صورتِ حال دیکھ کر میرے شیخ امام نجیب الدین سہروردی مجھے شیح عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے۔ میرے شیخ حضرت ابو نجیب سہروردی، حضور غوث پاک کی بارگاہ میں جا کر ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے۔ خیال تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر جب مجلس ہوگی تو ہم حضور غوث الاعظم سے عرض کریں گے اور رہنمائی لیں گے اور پھر آپ جو فرمائیں گے وہ کتاب میں شروع کروں گا۔ ابھی ہم حاضر ہی ہوئے تھے، نماز بھی نہ ہوئی تھی اور مجلس بھی نہ ہوئی تھی، صرف خیال دل میں تھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے دیکھتے ہی غوث الاعظم میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے فرمایا:

يا عمر ما هو من زاد القبر ما هو من زاد القبر.

جو کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو کیا یہ قبر میں بھی کام نہیں آئیں گی۔ یعنی جو علم الکلام، منطق، فلسفہ، کلام کی کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو اور تم پوچھنے آئے ہو، یہ قبر میں کام نہیں آئیں گی۔

شيخ سہروردی فرماتے ہيں:

فرجعت عن ذالک.

میں سمجھ گیا کہ حضور غوث الاعظم کو کشف ہوگیا ہے اور میرے قلب کا حال جان کر تصحیح کر دی۔ پھر میں نے اس علم کے حصول سے توبہ کرلی۔

اس واقعہ کو روایت کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

ان الشيخ کاشفه بما کان فی قلبه.

’’جو ان کے دل میں تھا، شیخ عبد القادر جیلانی کو اس کا کشف ہوگیا‘‘۔

  • ایک مقام پر علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ

کان شيخ عبد القادر الجيلی أعظم مشائخهم، مشائخ زمانهم أمرا بالالتزام بالشرع والأمر والنهی وتقديمه علی الذوق والقدر ومن أعظم الشيخ من ترک الهواء والارادة النفسه.

امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ:

محدثین اور آئمہ سیدنا غوث اعظم ص کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، (اس زمانے میں (لاؤڈ سپیکر نہیں تھے) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں امام ابن جوزی (صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے امام) جیسے ہزارہا محدثین، آئمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔

سیدنا غوث الاعظم ص ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضور غوث الاعظم نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’’نہ‘‘ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار صوفیاء میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سیدنا غوث الاعظمص چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:

الآن نرجع من القال إلی الحال.

’’اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں۔‘‘

جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیئے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا حال ہے۔

امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ:

امام یافعی (جن کی کتاب کی امام ابن حجر عسقلانی نے التلخیص الخبیر کے نام سے تلخیص کی) فرماتے ہیں:

اجتمع عنده من العلماء والفقهاء والصلحا جماعة کثيرون انتفعوا بکلامه وصحبته ومجالسته وخدمته وقاصد إليه من طلب العلم من الآفاق.

شرق تا غرب پوری دنیا سے علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے، سماع کرتے اور دور دراز تک علم کا فیض پہنچتا۔

امام یافعی فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم ص کا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں پہنچیں۔

امام یافعی شعر میں اس انداز میں حضور غوث پاک کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ

غوث الوراء، غيث النداء نور الهدی
بدر الدجی شمس الضحی بل الانور

(يافعی، مرأة الجنان، 3: 349)

بعض لوگ نادانی میں کہتے ہیں کہ آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث الاعظم کہتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔ غوث، اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ غور کریں کہ امام، محدث اور امام فقہ ان کو غوث کہتے تھے۔ غوث الوریٰ کا مطلب ہے ساری خلق کے غوث۔ اسی طرح غیث النداء، نور الہدیٰ بدر الدجیٰ، شمس الضحیٰ یہ تمام الفاظ ان آئمہ کی حضور غوث الاعظم سے عقیدت کا مظہر ہیں۔

حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ

علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد، حافظ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد 12 ص 252 پر کہتے ہیں کہ حضور غوث اعظم سے خلقِ خدا نے اتنا کثیر نفع پایا جو ذکر سے باہر ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ کے احوال صالحہ تھے اور مکاشفات و کرامات کثیرہ تھیں۔

امام ابنِ رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ

امام ابن قدامہ اور ابن رجب حنبلی وہ علماء ہیں جو علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کے اساتذہ ہیں اور ان کو سلفی شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سلفی نہیں بلکہ غوث پاک کے مرید ہیں۔ لوگوں کے مطالعہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ غلط مباحث جنم لیتی ہیں۔ امام ابن رجب الحنبلی کو بھی پوری سلفیہ لائن کا امام سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے زیل الطبقات الحنابلہ میں سیدنا غوث اعظم کے حوالے سے بیان کیا کہ:

کان هو زاهد شيخ العصر وقدوة العارفين وسلطان المشائخ وسيد اهل الطريقه محی الدين ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاحوال المشهوره.

(ابن رجب الحنبلي، زيل الطبقات الحنابله، 2: 188)

یہ صرف نام کے القاب نہیں بلکہ یہ حضور غوث الاعظم کا مقام ہے جسے امام ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ:

امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ:

ليس في کبائر المشائخ من له احوال وکرامات اکثر من الشيخ عبد القادر الجيلانی.

’’کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی سے بڑھ کر ہوں‘‘۔

امام العز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ:

شافعی مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام العز بن عبد السلام کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں:

ما نقلت إلينا کرامات أحد بالتواتر إلا شيخ عبد القادر الجيلانی.

’’آج تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں ہوئیں جتنی شیخ عبد القادر الجیلانی کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے‘‘۔

امام یحییٰ بن نجاح الادیب رحمۃ اللہ علیہ:

جلیل القدر علماء آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر تائب ہوتے۔ ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی مجلس میں گیا، ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ غوث الاعظم اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہذا اپنے ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ صاف ظاہر ہے حضور غوث الاعظم اپنے درس کے دوران جو اشعار پڑھتے تھے وہ اپنے بیان کردہ علم کی کسی نہ کسی شق کی تائید میں پڑھتے تھے۔ درس کے دوران اکابر، اجلاء، ادبا اور شعراء کو پڑھنے سے مقصود بطور اتھارٹی ان کو بیان کرنا تھا تاکہ نحو دین، فقہ، بلاغت، لغت، معانی کا مسئلہ دور جاہلیت کے شعراء کے شعر سے ثابت ہو، یہ بہت بڑا کام ہے۔

امام النحو والادب یحییٰ بن نجاح الادیب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں گیا اور سوچا کہ آج ان کے بیان کردہ اشعار کو گنتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں تو سیدنا غوث اعظمص ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا:

انا احل و انت تاکد.

’’میں گانٹھیں کھولتا ہوں اور تم گانٹھیں باندھتے ہو‘‘۔

(ذهبی، سير اعلام النبلاء، 20: 448)

یعنی میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لیے بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر توبہ کر لی۔ اندازہ لگائیں یہ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا۔

امام ابو محمد خشاب نحوی رحمۃ اللہ علیہ:

امام الحافظ عبد الغنی المقدسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دور کے بغداد کے نحو کے امام ابو محمد خشاب نحوی سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نحو کا امام تھا، غوث اعظم کی بڑی تعریف سنتا تھا مگر کبھی ان کی مجلس میں نہیں گیا تھا۔ یہ نحوی لوگ تھے، اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ ضرب یضرب میں لگے رہتے ہیں، انہیں ایک ہی ضرب آتی ہے، دوسری ضرب یعنی ضرب قلب سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن خیال آیا آج جاؤں اور سنوں تو سہی شیخ عبد القادر جیلانی کیا کہتے ہیں؟میں گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر انہیں سننے لگا۔

میں نحوی تھا، اپنے گھمنڈ میں تھا لہذا مجھے ان کا کلام کوئی بہت زیادہ شاندار نہ لگا۔ میں نے دل میں کہا:

’’آج کا دن میں نے ضائع کر دیا‘‘۔

بس اتنا خیال دل میں آنا تھا کہ منبر پر دوران خطاب سیدنا غوث الاعظم ص مجھے مخاطب ہو کر بولے:

اے محمد بن خشاب نحوی! تم اپنی نحو کو خدا کے ذکر کی مجلسوں پر ترجیح دیتے ہو۔ یعنی جس سیبویہ (امام النحو، نحو کے موضوع پر ’’الکتاب‘‘ کے مصنف) کے پیچھے تم پھرتے ہو، ہم نے وہ سارے گزارے ہوئے ہیں۔ آؤ ہمارے قدموں میں بیٹھو تمہیں نحو بھی سکھا دیں گے۔ امام محمد بن خشاب نحوی کہتے ہیں کہ میں اسی وقت تائب ہو گیا۔ آپ کی مجلس میں گیا اور سالہا سال گزارے۔ خدا کی قسم ان کی صحبت اور مجلس سے اکتساب کے بعد نحو میں وہ ملکہ نصیب ہوا جو بڑے بڑے آئمہ نحو کی کتابوں سے نہ مل سکا تھا۔

ان حوالہ جات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پتہ چلے کہ آئمہ حدیث و فقہ نے حضور غوث الاعظم کے علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ جملہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کل امام کرامتوں کو ماننے والے تھے، اولیاء کو ماننے والے تھے اور سیدنا غوث الاعظم کے عقیدت مند تھے۔ یہ کہنا کہ حضور غوث الاعظم کے مقام و مرتبہ اور ان کے القابات کو اعلیٰ حضرت نے یا ہم نے گڑھ لیا ہے، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حدیث، فقہ، تفسیر اور عقیدہ کے کل آئمہ نو سو سال سے ان کی شان اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2017

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top