سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ نئے پاکستان کی بنیاد بنے گا : ڈاکٹر طاہرالقادری
بار ثبوت غیر ملکی جائیدادوں کی ملکیت کا اعتراف کرنے والوں پر ہے
سربراہ عوامی تحریک عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب سے لندن پہنچ گئے
تاجر حکمران جسے خطرہ سمجھتے ہیں اسکی منہ بولی قیمت ایڈوانس ادا کر دیتے ہیں، لندن ائر پورٹ پر گفتگو
لاہور (7 جنوری 2017) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد گزشتہ روز سعودی عرب سے لندن پہنچ گئے۔ لندن ائر پورٹ پر مقامی تنظیمی عہدیداروں اور کارکنوں نے ان پرتپاک استقبال کیا، لندن ائر پورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ نئے پاکستان کی بنیاد بنے گا۔ سرکاری وسائل اور مشینری انصاف کی راہ میں حائل ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہیں۔ ثبوتوں کے ڈھیر اے ٹی سی میں لگا دئیے انصاف کے منتظر ہیں۔
سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ تاجر حکمران جسے اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اسے منہ بولی ایڈوانس قیمت ادا کر کے راستے سے ہٹا دیتے ہیں، جسکی وجہ سے ظلم کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ جمہوریت خرید و فروخت کا ایک نظام بن چکی ہے، مقتدر ایوان سٹاک مارکیٹیں ہیں جہاں صرف سودے طے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے ظالم نظام کی تبدیلی کیلئے بے مثال جانی و مالی قربانیاں دیں۔ یہ قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جائینگی۔ یہ نظام بدل کر رہے گا اور ظالم ایک ایک ظلم کا حساب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے 7 ماہ پہلے بھی کہاتھا کہ بار ثبوت ان پر ہے جنہوں نے قوم کے روبرو لندن جائیدادوں کی ملکیت کا اعتراف کیا۔ لندن جائیدادوں کے ثبوت اس قدر دستیاب ہیں کہ پانامہ لیکس کے کرپٹ کرداروں کو ایک نہیں کئی بار سزا سنائی جا سکتی ہے۔ حکمران خاندان ہر تاریخ پر ایک نئی کہانی لیکر آرہا ہے۔ جب ادارے کمزور اور مافیا مضبوط ہو جائے تو پھر آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔
سربراہ عوامی تحریک نے لودھراں میں ریلوے حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہونیوالے بچوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ سرکاری محکمے کرپشن اور نا اہلی کا وجہ سے قاتل محکمے بن چکے ہیں۔ انہوں نے معصوم بچی طیبہ پر تشدد کی پر زور الفاظ میں بھی مذمت کی اور کہا کہ معاشرہ بے حس اور ادارے ظلم کے راستے پر ہیں، ورنہ کسی غریب بچی پر کسی کو ہاتھ اٹھانے کی جرآت نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی با اثر کو سزا دینے کا مرحلہ آتا ہے تو سیدھا سا مقدمہ بھی الجھ جاتا ہے۔
تبصرہ