سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کیلئے احتجاجی مظاہرہ

عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے عہدیداروں و کارکنان اور سانحہ ماڈل ٹاون کے وکلاء نے 17 جنوری 2017 ء کو شہداء کے ورثاء سے اظہار یکجہتی اور انصاف کے لیے چائنہ چوک میں پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن 17 جون 2014ء کو 31 ماہ گزرنے کے بعد بھی انصاف نہ ملنے پر مظاہرین نے شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین کی قیادت مستغیث جواد حامد، وکلاء عوامی تحریک رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی، یوتھ ونگ کے مرکزی صدر مظہر علوی، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے مرکزی صدر عرفان یوسف اور شکیل ایڈووکیٹ نے کی۔

احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مستغیث جواد حامد نے کہا کہ جب بھی کسی مہینے کی 17 تاریخ آتی ہے تو ہمارا خون کھولتا ہے کہ ہمارے قاتل ہماری آنکھوں کے سامنے دندناتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 17 جون 2014 ء کے دن اللہ کے بعد میڈیا نے ہماری حفاظت کی ورنہ حکمرانوں کی غلام پولیس سینکڑوں لوگوں کو جان سے مار دیتی پھر ھی 100 لوگوں کو گولیاں ماریں گئیں جن میں سے 14 شہید ہو گئے۔ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اصل حقائق عدالت کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ ہم نے عدالت سے کچھ نہیں چھپایا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس میں سانحہ کے اصل ذمہ داروں کو سزا ملے۔ اس حوالے سے عدالت کو اسسٹ کررہے ہیں۔

عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نور اللہ صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ملکی تاریخ کا افسوسناک سانحہ ہے۔ 2سال گزر جانے کے بعد بھی شہداء کے ورثاء انصاف کے منتظر ہیں۔ حکومت نے انصاف دینے کی بجائے انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اس کا سب سے بڑا ثبوت جسٹس باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ کو پبلک نہ کرنا ہے۔ مظاہرین نے گو نواز گو اور ظالموں جواب دو خون کا حساب دو کے فلک شگاف نعرے لگائے۔

دریں اثناء مظاہرہ سے پہلے منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دلائل دینے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ اور نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہم نے آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے مزید حقائق عدالت کے سامنے رکھے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس والے اگر بیریئر ہٹانے آئے تھے تو پھر انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے آس پاس موجود مکانوں کی چھتوں پر مورچے قائم کیوں کیے؟ چھتوں پر قائم مورچوں میں سے پولیس اہلکاروں نے تاک تاک کر کارکنوں کو ٹارگٹ کیا اور لاشیں گرائیں۔ ایس پی سلیمان احکامات دینے میں پیش پیش تھے۔ ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی طارق عزیز، ایس پی عبدالرحیم شیرازی کارکنوں پر فائرنگ کرنے کے احکامات دینے والوں میں شامل تھے۔ پولیس افسران نے اہلکاروں سے کہا منہاج القرآن والوں کو پتھر نہیں گولی دینی ہے اور پھر منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر قبضہ کرنے کے حوالے سے احکامات دئیے گئے جس کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے اور اسے استغاثہ کے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے اندر کون سے بیریئر تھے جنہیں ہٹانے کے لیے پولیس زبردستی داخل ہوئی۔ پولیس نے منہاج القرآن کے سامنے موجود مارکیٹ کے اندر بھی توڑ پھوڑ کی اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ پولیس کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ بیریئر ہٹانے نہیں آئے تھے بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں کو سبق سکھائے اور ہراساں کرنے آئے تھے جس کی تیاریوں اور وجوہات سے متعلق ہم نے تفصیل سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کے جملہ ثبوت بھی موجود ہیں۔ دو روز پہلے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے سانحہ ماڈل کیس کی روزانہ سماعت کرنے کا حکم دیا تھا۔ بدھ کو عوامی تحریک کے وکلاء مزید دلائل دیں گے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top