معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و فضیلت
عائشہ بتول
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی و مفہوم
عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔
(ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص322)
روایات اور تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ.
(بنی اسرائيل، 17: 1)
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی.
(النجم، 53: 1،2)
’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول a جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘۔
اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معراج کیوں کروائی گئی؟ اس سلسلے میں معراج کی حکمتیں درج ذیل ہیں۔
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتیں
ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں۔
- پہلی حکمت: معراج کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی کرب سے گزرنا پڑا۔ بائیکاٹ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خالق حقیقی سے جا ملیں چنانچہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پاس بلاکر سارے غم، دکھ اور پریشانیاں دور کردی جائیں اور اپنا دیدار کروایا جائے۔ جب محبوب حقیقی کا چہرہ سامنے ہوگا تو سارے غم و تکالیف اور مصیبتیں کافور ہوجائیں گی۔ گویا اللہ رب العزت معراج پر بلاکر اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے کہ اگرچہ دنیا میں یہ کافر تمہیں تنگ کرتے ہیں اور مصائب و آلام اور آزمائشیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرایا نہ کریں کیونکہ ہماری پیار بھری آنکھیں آپ کو تکتی رہتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا.
(الطور، 52: 48)
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھیے۔ بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں‘‘۔
- دوسری حکمت: عرش پر بلاکر اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دیدار کرایا اور امت کی بخشش کی نوید سنائی اور 50 نمازوں کا تحفہ بھی شب معراج کو عطا کیا اور فرمایا: ’’محبوب تیری امت دن میںپانچ نمازیں ادا کرے گی مگر اس کو ثواب پچاس نمازوں کا عطا کروں گا‘‘۔
- تیسری حکمت: معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روز بہت سے واقعات پیش آئے جس کی بشارت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ عیسائی پیشواؤں نے بھی دی جن کا تذکرہ درج ذیل ہے:
بیت المقدس میں امامت انبیاء علیہم السلام
عیسائی پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بہت بڑا پادری تھا اس نے کہا میری عادت تھی کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کردیے لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ایک دروازہ بند نہ ہوسکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا مگر دروازہ نہ ہلا۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا تو انہوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ اوپر کی عمارت نیچے آگئی ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ صبح دیکھیں گے۔ لہذا ہم دروازے کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا تو دیکھا کہ دروازہ بالکل ٹھیک ہے۔ مسجد کے پتھر پر سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آرہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میں سمجھا کہ آج رات انتہائی کوشش کے باوجود دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج رات اس دروازے کا کھلا رہنا صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تھا یقینا اس نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد3، ص64)
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادتیں
- حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شب معراج کے واقعات کا تذکرہ کیا تو کفار مکہ نے مختلف سوالات کرکے شہادتیں طلب کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کے سامنے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں فلاں بن فلاں کے قافلہ پر بھی گزرا۔ ان کا ایک اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا جب وہ آئیں تو ان سے دریافت کرلینا۔
- کفار مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک قافلہ کی بابت پوچھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اس قافلہ پر مقام تنعیم پر گزرا ہوں، کفار قریش نے کہا کہ وہ قافلہ کیا چیزیں لاد کر لے جارہا تھا۔ اس کی ہیئت کیا ہے اور ان میں کون کون لوگ ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قافلہ کی ہیئت کی وضاحت فرمائی کہ اس قافلہ کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے اس پر دھاری دار دو بوریاں لدی ہوئی ہیں اور سورج نکلتے ہی وہ قافلہ پہنچ جائے گا۔
- کفار کدیٰ پہاڑ پر آبیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ سورج نکلتے ہی ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کریں گے۔ ان میں سے ایک آدمی بولا! خدا کی قسم! سورج نکل آیا۔ دوسری طرف ان کے ہی ایک آدمی نے کہا: وہ دیکھو قافلہ بھی آگیا۔ اس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ لہذا بالکل اسی طرح تھا جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود کفار ایمان نہ لائے۔
معراج کی حکمتیں اور اس کے عملی شواہد کے بعد اس کے فضائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔
رجب المرجب کی فضیلت
اسلامی تاریخ کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے۔ ترجیب کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اہل عرب اس کو اللہ کا مہینہ کہتے تھے اور اس کی تعظیم بجا لاتے تھے۔
رجب المرجب کے اہم واقعات
رجب کی پہلی تاریخ کو سیدنا نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے۔ چار تاریخ کو جنگ صفین کا واقعہ پیش آیا۔ ستائیسویں شب کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسمانی معراج کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ اٹھائیسویں تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا۔ (عجائب المخلوقات، ص 45)
رجب کی ستائیسویں شب کی فضیلت
رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والوں کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سی ایک سور ت اور ہر دو رکعت پر التحیات پڑھے اور بارہ رکعتیں پوری ہونے پر 100 مرتبہ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، استغفار سو بار، درود شریف سو بار پڑھے اور پھر دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا۔ سوائے اس دعا کے جو گناہ کے لئے ہو۔
(شعب الايمان، ج3، ص384، حديث 3812)
رجب کے نوافل
رجب کی ستائیسویں شب کو دو رکعت نفل اس طرح پڑھیں کہ الحمدللہ کے بعد قل ھواللہ احد اکیس مرتبہ پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد دس مرتبہ درود شریف پڑھیں اور پھر کہیں۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُکَ بِمُشَاهَدَةِ اَسْرَارِ الْمُحِبِّيْنَ وَبِالْخَلْوَةِ الَّتِيْ خَصَّصْتَ بِهَا سَيِّدَالْمُرْسَلِيْنَ حِيْنَ اَسْرَيْتَ بِهِ لَيْلَةِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِيْنَ اَنْ تَرْحَمُ قَلْبِيْ الْحَزِيْنَ وَتُجِيْبُ دَعْوَتِيْ يَا اَکْرَمَ الْاَکْرَمِيْنَ.
تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔
(نزهة المجالس، ج1، ص130)
رجب کا خصوصی وظیفہ
روزانہ 1200 مرتبہ الله الصمد پڑھنا چاہئے۔
رجب کے روزے کا ثواب
صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک نہر ہے جسے رجب کہا جاتا ہے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے جو کوئی رجب کا روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے اس نہر سے سیراب کرے گا۔
(شعب الايمان، ج3، ص368، حديث: 3800)
- سیدنا ابو قلابہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رجب کے روزہ داروں کے لئے جنت میں ایک محل ہے۔
(شعب الايمان، ج3، ص368، حديث: 3802)
(فتاویٰ رضويه ج10، 648)
(شعب الايمان، ج3، ص374، حديث: 3811)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2017
تبصرہ