سانحہ ماڈل ٹاؤن کی قانونی جنگ کا احوال
نعیم الدّین چوہدری ایڈووکیٹ
ترجمان سانحہ ماڈل ٹاؤن لیگل ٹیم
سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے۔ جس میں گورنمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے معصوم نہتے اور بے گناہ کارکنان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ خونی اور دہشت گردی پر مبنی مناظر موقع پر موجود لوگوں کے علاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست دیکھے جس میں 14افراد شہید جس میں 2خواتین بھی شامل تھیں اور 100سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور ظلم وریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی قطع نظر اس سے کہ حکومت اعتراف گناہ کے ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی لیکن پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIRدرج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اُسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں اگر میری طرف انگلی بھی اُٹھی مجھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہرایا تو میں فوری طور پر استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردوں گا۔ وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لاہورکو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ لاہور نےمسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ لاہور پر مشتمل یک رکنی عدالتی ٹربیونل قائم کیا جس پر جج صاحب نے حقائق جاننے کے لیے جائے وقوعہ کا خود معائنہ کیا۔ اور اس علاقہ کا بھی خفیہ دورہ بھی کیا تاکہ حقائق کو جانا جا سکے۔ جج صاحب نے حساس اداروں سے بھی معاونت حاصل کی اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمات نے بھی شواہد ازخود ٹربیونل کے رو بررو پیش کیے جس کے بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرکے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی نے حکومت کو ارسال کی جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ رانا ثناءاللہ کے اجلاس کے فیصلے پاکستانی تاریخ کے بد ترین قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ منہاج القرآن کے باہر بیرئیر ز قانونی تھے۔ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے اسکو حکم دیا تھا۔ حکومت پنجاب کی منظور ی سے پولیس نے آپریشن کیا۔ حکومت کا 17جون 2014کا ایکشن غیر قانونی تھا۔ پولیس پوری طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی میں ملوث ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIRکے اندراج کے لیے شہداء کے لواحقین وزخمی جب تھانہ فیصل ٹاؤن میں گئے تو پولیس نے FIRدرج کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ اس میں حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران کے نام شامل تھے پولیس کے FIRکے اندارج کے انکار پر سیشن کورٹ میں گئے تو ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے FIRدرج کر نے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے FIRدرج نہ کی کیونکہ اس سانحہ میں حکومت اور بااثر اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے۔ حکومتی وزراءنے سیشن کورٹ کے اس حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن فائل کی جو عدالت عالیہ لاہور نے خارج کردی۔
حکومتی ورزاءکی رٹ پٹیشن کے اخراج کے باوجودپولیس نے FIRدرج نہ کی کیونکہ اس میں موجود ہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزراءاور اعلیٰ پویس افسران شامل تھے۔ دھرنا کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے FIRدرج ہوئی لیکن بعدازاں گورنمنٹ نے جانبدار JITبنا کر اس میں تمام افراد کو کلین چٹ دی اور صرف دو پولیس والوں کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ تو پھر اس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصول انصاف کے لیےمورخہ 15مارچ 2016کو انسداددہشت گردی عدالت میں استغاثہ دائر کردیا گیا۔ اس استغاثہ میں56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات ہوئے ہیں۔
مورخہ 7فروری 2017کو انسداددہشت گردی عدالت نے اس سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124پولیس
والوں کو طلب کر لیاہے جو اس سانحہ میں ملوث ہیں جبکہ جن افراد کے حکم سے یہ ریاستی
دہشت گردی ہوئی قتل وغارت گری ہوئی ہے انکو طلب نہیں کیا ہے گورنمنٹ کے افراد کو طلب
نہ کرنے پر ہائی کورٹ میں رٹ فائل کی ہوئی ہے
انسداددہشت گردی عدالت لاہورمیں استغاثہ کیس میں 105پولیس والے عدالت میں پیش ہو رہے
ہیں جبکہ بقیہ ملزمان کو سمن جاری ہو رہے ہیں۔ اس کیس میں پولیس افسران DIGرانا عبدالجبار،
SPعبدالرحیم شیرازی پیش نہیں ہوئے۔ جن کو گورنمنٹ نے بیرون ملک فرارکروایا ہوا ہے‘
جبکہ دیگر پولیس افسران SPطارق عزیز، SPمحمد ندیم، SPمعروف صفدر واہلہ، SPعمر ریاض
چیمہ، SSPاقبال خاں، SSPڈاکٹر فرخ رضا اور عمر ورک اس کیس میں عدالت میں پیش ہو رہے
ہیں۔
شیخ عاصم SHOجو محمدعمر ولد محمد صدیق کا قاتل ہے وہ بھی بیرون ملک فرارہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں ملزمان کی طلبی سے پہلے انسداددہشت گردی کورٹ میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 94کے تحت درخواست دی تھی کہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کو منگوایا جائے اور اس رپورٹ کو استغاثہ کا حصہ بنایا جائے لیکن انسداددہشت گردی عدالت نےاس درخواست کو خارج کر دیا تھاتو پھر اس آرڈر کےخلاف ہائی کورٹ میں گئے تھے، ہائی کورٹ نے بھی اس رٹ کو خارج کردیا تھا تو اب ہم اس آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ لاہور میں جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانےکے لئےدسمبر 2014سے رٹ دائر کی ہوئی ہے جس کے لئے فل بنچ نے باقاعدہ سماعت کی اور فریقین کی بحث /دلائل سنے - لیکن فیصلہ نہ کیا اس بنچ کی سربراہی جسٹس خالد محمود خاں کر رہے تھے بعدازاں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف درخواستیں دے کر جسٹس یاور علی کا فل بنچ بنوایا لیکن دسمبر 2016 میں تاریخ پیشی کے بعد اب تک اس کیس میں کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔
IG مشتاق سکھیرا کو انسداددہشت گردی عدالت نے طلب کیا تھا لیکن IG نے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں اپنی طلبی کو چیلنج کیاہوا ہے اور لاہورہائی کورٹ لاہور نے IG کی طلبی کی حد تک ATC کے آرڈر کو Suspend کیا ہوا ہے اس میں آئندہ تاریخ 21ستمبر 2017 ہے۔ یہ کیس جسٹس یاور علی کے فل بنچ میں زیر سماعت ہے۔ اس طرح لاہور ہائی کورٹ لاہور میں کیپٹن (ر) عثمان DCO اور علی عباس TMOنے بھی اپنی طلبی کو چیلنج کیاتھا تو ابتدائی سماعت کے دوران ہی فل بنچ لاہور ہائی کورٹ لاہور ان Petitions کو خارج کرنے لگا تو کیپٹن (ر) عثمان DCO اور علی عباس TMOکے وکلاء نے ان Petitions کو واپس لے لیاتھا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کی آئندہ تاریخ 10اگست 2017ہے۔
تبصرہ