لا نبی بعدی از احسان خدا است
الیکشن ایکٹ 2017ء کا تجزیہ
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
ملت اسلامیہ تاریخ انسانی کی آخری مثالی تہذیب کی وارث ہے اور اس کا وجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت پر منحصر ہے۔ ختم نبوت نےانسانیت کے ارتقا کی اعلی ترین منزلوں کا تعین کر دیا اور اسے اس ضرورت سے ہمیشہ کے لیے مستغنی کر دیا کہ اب آئندہ انسانیت کو کبھی رہنمائی ے لیے کسی مافوق الفطرت ہستی کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں انسانیت کے وقار، حریت او رملت اسلامیہ کے تہذیبی تشخص کے تحفظ کی ضمانت صرف اور صرف عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں ہے۔ عقیدہ ختم نبوت میں معمولی رخنہ اندازی بھی ملت اسلامیہ کے وجود کو ملیا میٹ اور زمین بوس کر دے گی۔ مسلمانان پاکستان کے اسی شعور، تقاضے اور مطالبے کو پاکستان کے آئین میں دستوری صورت دے دی گئی او رہمیشہ کے لیے اس مسئلے سے پیدا ہونے والے خلفشار کا دروازہ بند کر دیا گیا۔
انتخابی اصلاحات کے دیرینہ مطالبے کے پیش نظر اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات اور تجویز کردہ اصلاحات کی روشنی میں انتخابی قانون الیکشن ایکٹ 2017ء منظور کر لیا۔ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد پہلے سے نافذ العمل انتخابی قوانین میں سے آٹھ قانون منسوخ ہو گئے [Election Act, 2017, Section 241]۔ جب یہ آٹھ قانون منسوخ ہوئے تو ان قوانین میں دیئے گئے قواعد و ضوابط اور تحفظات کو نئے قانون الیکشن ایکٹ 2017ء میں شامل کیا گیا مگر اس عمل کے دوران کئی اہم نکات نئے قانون میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ علاوہ ازیں انتخابی قانون The Representation of the People (Conduct of Election) Rules, 1977 بھی شامل تھا جس کے رول 3 کے تحت ختم نبوت کے حوالے سے بیان حلفی Nomination form-1 شامل تھا [Manual of General Elections Law, 2013, by Ch Ghulam Sarwar Nihang, Law Book Land, 1-Turner Road, Chowk A G Office, Near Lahore High Court, Lahore, 2013, pp.455, 478-479]۔ مگر جب یہ حلف نامہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں شامل کیا گیا تو اس میں ایسی ترامیم کی گئیں جس سے ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے کی اصل روح مسخ ہو گئی[Elections Act 2017, Form A]۔ اس پر شدید عوامی احتجاج ہوا اور اس عوامی احتجاج کے نتیجے میں حلف نامے کا پرانا فارم بحال کر دیا گیا [Elections Act 2017, Form A]۔ تاہم الیکشن ایکٹ 2017ء میں تاحال بھی درج ذیل امور قابل غور ہیں:
1۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت منسوخ ہونے والے انتخابی قانون The Conduct of General Elections Order, 2002 کے سیکشن 7 بی اور 7 سی میں اس امر کا ذکر کیا گیا تھا کہ کوئی بھی قانون جو انتخابات کے حوالے سے نافذالعمل ہو گا،قطع نظر کسی بھی دوسری تفصیل کے، اس میں قادیانیوں کی حیثیت وہی رہے گی جو آئین پاکستان میں طے کی گئی ہے۔ اس منسوخ ہونے والے قانون کے سیکشن 7بی اور 7 سی میں اس نکتے کو بیان کیا گیا تھا۔ سیکشن 7بی اور 7سی یہ ہیں:
[7B. Status of Ahmadis etc. to remain unchanged.—Notwithstanding anything contained in the Electoral Rolls Act, 1974 (XXI of 1974), the Electoral Rolls, Rules, 1974, or any other law for the time being in force, including the Forms prescribed for preparation of electoral rolls on joint electorate basis in pursuance of Article 7 of the Conduct of General Elections Order, 2002 (Chief Executive’s Order No. 7 of 2002), the status of Quadiani Group or the Lahori Group (who call themselves ‘Ahmadis’ or by any other name) or a person who does not believe in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the last of the prophets or claimed or claims to be a Prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him) or recognizes such a claimant as a Prophet or religious reformer shall remain the same as provided in the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, 1973.
7C.—If a person has got himself enrolled as voter and objection is filed before the Revising Authority notified under the Electoral Rolls Act, 1974, within ten days from issuance of the Conduct of General Elections (Second Amendment) Order, 2002, that such a voter is not a Muslim, the Revising Authority shall issue a notice to him to appear before it within fifteen days and require him to sign a declaration regarding his belief about the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) in Form-IV prescribed under the Electoral Rolls Rules, 1974. In case he refuses to sign the declaration as aforesaid, he shall be deemed to be a non-Muslim and his name shall be deleted from the joint electoral rolls and added to a supplementary list of voters in the same electoral area as non-Muslim. In case the voter does not turn up in spite of service of notice, an ex-parte order may be passed against him.] [Manual of General Elections Law, 2013, The Conduct of General Elections Order, 2002 (Chief Executive’s Order No. 7 of 2002), P-35, 36]
ترجمہ:
7بی۔ احمدیوں وغیرھم کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی-- قطع نظر اس امر کے کہ جو کچھ انتخابی فہرستوں کے قانون مجریہ 1974ء، انتخابی فہرستوں کے قواعد مجریہ 1974ء یا اس وقت نافذ العمل کسی بھی دیگر قانون میں بیان ہو اہے، بشمول مخلوط انتخابات کی بنیاد پر عام انتخابات کے انعقاد کے حکمنامہ مجریہ 2002ء کی آرٹیکل 7 کے تحت تیار کی جانے والی انتخابی فہرستوں کے مجوزہ فارموں کے، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ ) جو خود کو احمدی یا کسی بھی اور نام سے پکارتے ہیں( یا وہ فرد جو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا یا ا س نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اس لفظ کے کسی بھی معنی و مفہوم میں نبی یا مذہبی مصلح ہونے کا دعوی کیا یا دعوی کرتا ہے، اسکی حیثیت وہی رہے گی جو اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین 1973ء میں بیان کر دی گئی ہے۔
7سی۔ اگر کسی شخص نے اپنا اندراج بطور ووٹر کروا لیا ہو اور نظرثانی کرنے والی ہئیت مجاز کے سامنے انتخابی فہرستوں کے قانون مجریہ 1974ء کے تحت، عام انتخابات کے انعقاد کےحکمنامہ ) دوسری ترمیم (مجریہ 2002ء کے اجرا دس دن کے اندر،ا س کے خلاف کوئی اعتراض داخل کیا گیا ہو کہ یہ ووٹر مسلمان نہیں ہے تو نظرثانی کرنے والی ہئیت مجازاسے نوٹس جاری کرے گی کہ وہ پندرہ دن کے اندر اس کے سامنے پیش ہو اور انتخابی فہرستوں کے قانون مجریہ 1974ء میں دیے گئے فارم چہارم میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان کے حلف نامے پر دستخط کرے۔ اس حلف نامے پر دستخط کرنے سے انکار کی صورت میں اسے غیر مسلم تصور کیا جائے گا اور اس کا نام مشترکہ فہرستوں سے حذف کر دیا جائے گا اور اسی انتخابی حلقے کے ووٹروں کی ضمنی فہرست میں بطور غیر مسلم کے درج کر دیا جائے گا۔ نوٹس جاری ہونے کے باوجود ووٹر کے ہئیت مجاز کے سامنے پیش نہ ہونے کی صورت میں ا س کے خلاف یک طرفہ فیصلہ کر دیا جائے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان دو سیکشنز میں ذکر کردہ الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ء بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق منسوخ ہو گیا ہے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ ان دو سیکشنز میں بیان کردہ بنیادی اصول کو الیکشن ایکٹ 2017ء میں برقرار رکھا جاتا۔
الیکشن ایکٹ 2017ء میں کی جانے والی ترمیم میں حلف نامے کی درستگی کے ساتھ الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7B اور7C کو شامل کرنے کا ذکر بھی کیا گیا:
2. Amendment of section 241 in Act XXXIII of 2017.- In the Elections Act, 2Ol7 (XXXIII of 2017), hereinafter referred to as the 'said Act', in section 241, in clause (f), before the semicolon, the expression "except Articles 1, 7B and 7C" shall be inserted.
STATEMENT OF OBJECTS AND REASONS
3. Misgivings have also been expressed regarding the omission of Articles 7B and 7C consequent upon the repeal of the Conduct of General Elections Order, 2002 (Chief Executive's Order No.7 of 2002). Again to avoid further controversy, there is consensus amongst the political parties that the provisions of Article 7B and 7C ibid be retained through amendment in section 241 of the Election Act, 2017 . Hence this Bill. [Elections Act 2017 (Amendment)]
مگر اس کے باوجود درج ذیل وجوہ کے باعث 7B اور7C کو الیکشن ایکٹ 2017ء میں شامل کرنا غیر موثر رہا:
1۔ کسی بھی دوسرے منسوخ شدہ قانون کا الیکشن ایکٹ 2017ء میں اس طرح ذکر نہیں بلکہ جس بھی منسوخ شدہ قانون کو کوئی حصہ بحال رکھنا مقصود تھا اسے الیکشن ایکٹ 2017ء میں کے متعلقہ سیکشن کے تحت بیان کر دیا گیا۔
2۔ 7B اور7C جن قوانین کے تناظر میں لائے گئے تھے وہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت منسوخ ہو گئے ہیں۔ اور ان منسوخ شدہ قوانین کا ذکر 7B اور7C میں موجود ہے۔ اندریں صورت 7B اور7C کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟
3۔ 7C میں حلف نامے کا اردو متن بھی دیا گیا تھا۔ جسے الیکشن ایکٹ 2017ء کے متن کا حصہ ہونا چاہیے۔ ورنہ اس کا حال بھی الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ءکے ضمن میں لاگو کیے جانے والے نوٹیفیکیشنز جیسا ہو گا جن میں حلف نامے کا اردو متن دیا گیا تھا مگر اب نہ تو وہ ویب سائٹ پر موجود ہے نہ ہی پرنٹ شدہ متن میں نظر آتا ہے۔
لہذا الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7B اور7C کے منسوخ نہ ہونے کی شق شامل کرنے کی بجائے اسے الیکشن ایکٹ 2017ء کے متن کا حصہ بنایا جائے۔ اور مناسب ہو گا کہ 7 B اور7 C کو الیکشن ایکٹ 2017ء میں شق 14 بعنوانAction Plan میں بطور 14A اور 14B شامل کیا جائے۔ [Elections Act 2017, Section. 14]
2۔ منسوخ ہونے والے انتخابی قانون The Conduct Of General Elections Order, 2002 کے سیکشن 7 بی اور 7 سی کے تحت ختم نبوت کے حلف نامے کا اردو متن بھی دیا گیا تھا [Manual of General Elections Law, 2013, p-36]۔ چونکہ اس قانون کے سیکشن 7بی اور 7سی کے مندرجات کو الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ نہیں بنایا گیا لہٰذا حلف نامے کا اردو متن بھی الیکشن ایکٹ 2017ء میں نہیں آیا۔ یعنی اب ختم نبوت کے حلف نامے کا کوئی معیاری قانونی اردو متن موجود نہیں جو انتخابی دستاویزات کی تیاری میں ایک بڑا قانونی سقم ہو گا۔
3۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت منسوخ ہونے والے انتخابی قانون الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ء میں ختم نبوت سے متعلق چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے جاری ہونے والے دو نوٹیفکیشن شامل کیے گئے تھے[Manual of General Elections Law, 2013, p. 540-543]۔ ان کا تعلق S17. Annual revision of electoral rolls اور S4. Preparation and computerization of electoral rolls سے ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ان دونوں شقوں کے نفس مضمون کو S36. Periodical revision of electoral roll. اور S23. Preparation and computerization of electoral rolls کے تحت بیان کیا گیا ہے[Elections Act 2017, Section 23 & 36]۔ چونکہ الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ء منسوخ ہو چکا ہے لہٰذا ان شقوں سے متعلق نوٹیفکیشنز کے نفس مضمون کو بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ بنانا چاہیے۔
4۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت منسوخ ہونے والے انتخابی قانون الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ء میں ختم نبوت سے متعلق چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے جاری ہونے والے 15 فروری کے نوٹیفیکیشن کی شقV میں یہ طے کیا گیا تھا کہ 2004ء کی انتخابی فہرستوں کی سالانہ نظر ثانی کے مطابق مسلم اور غیر مسلم ووٹرز کی الگ الگ فہرستیں تیار کی جائیں گی [Manual of General Elections Law, 2013, p-543]۔ چونکہ یہ نوٹیفیکیشن الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ء کے مندرجات کی توضیح و نفاذ کے لیے جاری ہوا تھا اور اب الیکٹورلرولز ایکٹ 1974ء منسوخ ہو چکا ہے سو یہ نوٹیفیکیشن بھی غیر موثر ہو گیا۔ ووٹرز کی الگ الگ فہرستوں کی تیاری کا کوئی تذکرہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں موجود نہیں، جس کی توضیح ا س ایکٹ میں ضرور کی جانی چاہیےمزید براں الیکشن ایکٹ 2017ء میں الگ الگ فہرستوں کی تیاری کی وضاحت نہ ہونا اس قانون کی شق 2(xx) کے بھی خلاف ہے۔ شق 2(xx) کے مطابق:
2(xx) “electoral roll” means an electoral roll prepared, revised or corrected under this Act and includes the electoral rolls prepared under the Electoral Rolls Act 1974 (XXI of 1974), existing immediately before the commencement of this Act;
اب جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکٹورل رولز ایکٹ 1974ء منسوخ ہو چکا تو اس کے ضروری مندرجات الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ ہونے چاہئیں ورنہ اس قانون کی شق 2(xx)پر عمل کس طرح ہو گا [Elections Act 2017, Section 2xx]۔
5۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق انتخابی فہرستوں کا قانون مجریہ 1974ء منسوخ ہو گیا ہے اس قانون کی دفعہ 18 کے تحت فارم A کو بطور فارم برائے اندراج و منتقلی ووٹ استعمال کیا جا تا تھا اور یہ فارم اب بھی عوام الناس کے لیے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے [https://www.ecp.gov.pk/Form-A(Addition)]۔ اس فارم A کی شق 12 میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل ہے چونکہ انتخابی فہرستوں کا قانون مجریہ 1974ء منسوخ ہو گیا ہے اور فارم A کا بطور فارم برائے اندراج و منتقلی ووٹ الیکشن ایکٹ 2017ء میں کوئی ذکر نہیں۔ اس طرح اس فارم A میں شامل ختم نبوت کا حلف نامہ بھی الیکشن ایکٹ 2017ءکی کسی شق میں مذکور نہیں ہوا۔ اس فارم A اور اس میں شامل ختم نبوت کے حلف نامے کی قانونی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے اسے الیکشن ایکٹ 2017ءکا حصہ بنایا جائے۔
مذکورہ بالا امورکا تذکرہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ان قانونی پہلووں کی نشاندہی کے لیے ہے، جن کے باعث پیدا ہونے والے کسی خلا سے بعدازاں کوئی پیچیدگی جنم لے سکتی ہے۔ اگر ان تسامحات کا بروقت ازالہ کر لیا جائے تو مستقبل میں کسی پیچیدگی کا خدشہ نہ رہے گا۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ختم نبوت کا معاملہ بہت ہی حساسیت کا حامل ہے اور یہ ملت اسلامیہ کے لیے محض قانونی معاملہ نہیں بلکہ ایمان اور اجتماعی وجود کی اساس ہے۔ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آئین پاکستان یا آئین کے تحت بننے والے ذیلی قوانین میں اگر کہیں بھی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی فروگزاشت ہوئی تو اس کے بہت ہی دور رس مہلک اثرات ہوں گے۔ کیونکہ اس فروگزاشت کے نتیجے میں پاکستان کے آئین کی روح اور اساسی ڈھانچہ متاثر و مسخ ہو سکتا ہے جو اس ملک کے عوام کے اجتماعی شعور اور اجتماعی رائے کی نفی کے مترادف ہو گا۔ بقول اقبال:
رونق از ما محفل ایام را
او رسل را ختم و ما اقوام را
اس دینا کی محفل ایام کی رونق ہماری وجہ سے ہے۔ ہمارے رسول آخری رسول ہیں اور ہم اس دنیا کی آخری ملت۔
لا نبی بعدی از احسان خدا است
پردہ ناموس دین مصطفی است
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ آنا اللہ تعالی کا احسان ہے۔ اس سے ناموس دین مصطفی کا تحفظ ہے۔
قوم را سرمایہ قوت ازو
حفظ سر وحدت ملت ازو
ختم نبوت ہی ملت کے لیے سرمایہ قوت اور وحدت ملت کی راز کی حفاظت کرنے والی ہے۔
تبصرہ