آئین سپریم اور پارلیمنٹ آئین کے تحت کام کرنے کی پابند ہے: ڈاکٹر حسین محی الدین
تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین القادری دو روزہ تنظیمی دورہ پر ملتان پہنچ گئے، انہوں نے مقامی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی دعوے دار کسی جماعت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور اسکے فیصلوں کا مذاق اڑائے۔ اللہ کے بعد انصاف کی فراہمی کے حوالے سے سپریم کورٹ 21 کروڑ عوام کی امیدوں کا مرکز ہے۔ اگر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے نہیں ماننے تو پھر وہ کونسا فورم باقی رہ جاتا ہے جس کے فیصلے مانے جائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی آئین پر عملدرآمد سے مشروط ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے اشرافیہ کی شرح باطل ہے۔ پارلیمنٹ اگر ختم نبوت کے قانون کو ختم کردے تو کیا اس بالادستی کو قبول کیا جا سکتا ہے ؟ آئین سپریم ہے اورپارلیمنٹ آئین کے تحت کام کرنے کی پابند ہے۔ آئین کے دیباچے میں لکھا گیا ہے کہ’’حاکم مطلق اللہ کی ذات ہے ‘‘ اب دو تہائی تو کیا پوری پارلیمنٹ بشمول چاروں صوبائی اسمبلیاں مل کر بھی حاکمیت اعلیٰ کے اس تصور کو نہیں بدل سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح آئین کے آرٹیکل2 نے یہ قرار دیا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گااسے کوئی دو تہائی اکثریت تبدیل نہیں کر سکتی۔ نا اہل کو پارٹی صدر بنانے کی قانونی سہولت فراہم کر کے پارلیمنٹ نے آئین کے خلاف اقدام کیااور’’ شارح آئین ‘‘کی حیثیت سے سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا جو آئین کے مطابق ہے حکمران جماعت کے موقف سے پارلیمنٹ کی کوئی جماعت متفق نہیں، فرد واحد کے مفاد میں آئین کی کتاب سے دیانت اور امانت کو نکالا گیا اور چیف جسٹس آف پاکستان نے امانت، دیانت کو دوبارہ آئین سے جوڑ کر تاریخی فیصلہ سنایا جس پر پوری قوم انہیں مبارکباد پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 2014 کے دھرنے میں اشرافیہ کی کرپشن، منی لانڈرنگ، لوٹ مار، ماورائے آئین جمہوریت طرز حکمرانی کے حوالے سے جو حقائق بیان کئے تھے آج ان پر عدالتوں کے فیصلے آ رہے ہیں اور تصدیق کی مہریں ثبت ہو رہی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا وہی آرٹیکلز نجات دہندہ ثابت ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ایک بیوروکریٹ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے جسے رہا کروانے کیلئے اسکی بے گناہی کے ثبوت دینے کی بجائے سول سیکرٹریٹ کو تالے لگوائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی یہ پہلی حکومت ہے جو برسراقتدار رہتے ہوئے اپوزیشن بنی ہوئی ہے۔ یہ نون لیگ کے کارکنوں کیلئے بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو قیادت اپنا دفاع نہیں کر سکتی وہ پاکستان کے عوام کے مفاد کا تحفظ کیسے کر سکتی ہے؟
میٹرو بس ملتان کی کرپشن بھی سامنے آ رہی ہے، 30ارب کی خطیر رقم کا یہ واحد فینسی منصوبہ ہے جسکا کبھی ملتان کے عوام نے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ کرپشن سامنے آنے پر ظاہر ہو گیا ملتان کے عوام کو زبردستی یہ منصوبہ کیوں دیا گیا؟ ملتان سالڈ ویسٹ مینجمنٹ منصوبے میں بھی کرپشن پکڑی گئی ہے، میٹرو اور سپیڈو بسیں یہاں خالی گھوم رہی ہیں لیکن خزانے کا میٹر چل رہا ہے۔ 30ارب میٹرو کی بجائے ہسپتالوں کو ملے ہوتے تو ملتا ن کے غریب مریض علاج اور دوائی کو نہ ترستے۔
30 ارب جنوبی پنجاب کے سرکاری سکولوں کو ملے ہوتے تو سہولتوں میں بہتری اور شرح خواندگی میں اضافہ ہوتا۔ 30 ارب کسانوں کو ملے ہوتے تو وہ سڑکوں پر دھرنے نہ دے رہے ہوتے، 30 ارب نوجوانوں کے روزگار کی فراہمی پر خرچ ہوئے ہوتے تو خودکشیاں نہ ہو رہی ہوتیں؟ سٹریٹ کرائم نہ بڑھتا، جنوبی پنجاب کے عوام پوچھ رہے ہیں پنجاب حکومت کے خزانے میں جنوبی پنجاب کے کسانوں، کم آمدنی والے شہریوں اور بے روزگاروں کیلئے کوئی پیسہ کیوں نہیں ہے؟ کسان ریڑھ کی ہڈی ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں بجلی کے فلیٹ ریٹ دئیے جائیں، سستا ڈیزل دیا جائے، سستی کھادیں اور بیج دئیے جائیں۔ جنوبی پنجاب میں بے روزگاری کو کم کرنے کیلئے صنعتیں لگائی جائیں۔
تبصرہ