سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ: بیرئیر قانونی پولیس کا ایکشن غیر قانونی تھا: وکلاء عوامی تحریک

مورخہ: 29 مارچ 2018ء

کرپشن ہو یا قتل عام کا ٹرائل، اشرافیہ اور حواری سرکاری پروٹوکول میں عدالت آتے ہیں: خرم نواز گنڈاپور
پولیس ملزمان کے وکلاء نے اے ٹی سی میں اعتراف کیا وہ گئے نہیں انہیں بھیجا گیا: رائے بشیر احمد
یہی ہماراکیس ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا: جواد حامد، نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ

لاہور (29 مارچ 2018) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کی سماعت انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں ہوئی، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزم ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کی مسلسل غیر حاضری پر اے ٹی سی جج نے ملزم کے وکلاء کو انہیں پیش کرنیکا حکم دیا۔ استغاثہ کی سماعت کے بعد عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد، سردار غضنفر حسین ڈوگر اور شکیل ممکا ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے اطراف میں لگے حفاظتی بیرئیر قانونی جبکہ پولیس کا ایکشن غیر قانونی تھا۔ پولیس ملزمان کے وکلاء نے اے ٹی سی میں آج کی سماعت کے دوران اعتراف کیا کہ پولیس کی نفری اور اے ٹی سی کی طرف سے بطور ملزم طلب کئے گئے پولیس افسران اور اہلکار 17 جون 2014 کے دن ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن حفاظتی بیرئیر ہٹانے از خود نہیں گئے تھے بلکہ انہیں بھیجا گیا تھا۔ عوامی تحریک کے وکلاء نے کہاکہ یہی ہمارا سوال ہے کہ انہیں کس نے بھیجا؟ کس نے گولی چلانے کا حکم دیا؟ اور کس کے کہنے پر کئی گھنٹے تک ماڈل ٹاؤن میدان جنگ بنا ریا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے کسی سوال کا ملزمان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

مستغیث جواد حامد نے کہا کہ ملزمان کے وکلاء بتائیں کہ پولیس کی تین ہزار کی نفری جو بیرئیر ہٹانے آئی تھی اسے کس نے بھیجا ؟ اور کیاآج تک محض بیرئیر ہٹانے کے حوالے سے اتنی بھاری نفری کسی اور جگہ اکٹھی ہوئی؟ انہوں نے کہاکہ بیرئیر ہٹانے کی آڑ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو ہٹانے کی حکومت نے منصوبہ بندی کی تھی جس پر من و عن عمل ہوا اور 100 شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔

عوامی تحریک کے وکیل نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے14 معصوم شہریوں کے قاتل ملزمان چاہتے ہیں کہ فرد جرم بھی عائد نہ ہو او ر وہ بری ہو جائیں لیکن انکی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی انہیں فرد جرم اور ٹرائل کے عمل سے گزرنا ہو گا اور ہم نے اے ٹی سی میں اتنے شواہد مہیا کر دئیے ہیں کہ ملزمان کسی صورت عبرت ناک سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔

پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہاہے کہ حکمرانوں اور انکے حواریوں کے خلاف کرپشن کا ٹرائل ہو یا قتل عام کا وہ قیمتی گاڑیوں اور سرکاری پروٹوکول کیساتھ عدالت آتے ہیں اور ہر جگہ اثر انداز ہونیکی کوشش کرتے ہیں، اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان پولیس افسران کو انکے عہدوں سے الگ کر دیا جائے اور عام ملزمان کی طرح یہ اے ٹی سی ٹرائل کا حصہ بنیں تو دو، تین تاریخوں میں انکے ہوش ٹھکانے پر آ جائیں اور یہ فر فر سچ بولنے لگیں گے اور ہر کوئی سلطانی گواہ بننے کیلئے درخواستیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کو سرکاری اور مقتدر سیاسی سرپرستی حاصل ہے اسی لئے وہ تاخیری ہتھکنڈوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کے عمل کو تاخیر کا شکار بنا رہے ہیں۔

سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انسداد دہشتگردی عدالت ایک خصوصی عدالت ہے۔ سپیڈی جسٹس ہی اس سپیشل کورٹ کے قیام کی اصل غرض و غایت ہے اور قانون کے مطابق سپیشل کورٹ کو 7 دن کے اندر پروسیڈنگ مکمل کرنا ہوتی ہے لیکن اے ٹی سی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس 4 سال سے زیر سماعت ہے ایک سال استغاثہ کو منظور ہوئے گزر گیا لیکن ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ با اثر ملزمان حیلے ہتھکنڈوں سے کیس کو التوا کا شکار بنا رہے ہیں اور عدالت سے تعاون نہیں کر رہے تاہم ہمیں یقین ہے کہ جتنے شواہد اے ٹی سی کو دے دیئے ہیں ملزمان عبرتناک سزاؤں سے بچ نہیں سکیں گے۔

مزید سماعت 6 اپریل کو ہوگی۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top