حضور نبی اکرم ﷺ مرتبہ میں ہمیشہ اوّل ہیں، مگر وفا کے ہر میدان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اوّلیت کا تاج پہنایا ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
جس کو اللہ تعالیٰ نے صحابی کہا، اُس کی صحابیت کو ردّ کرنا خدا کی نصِ قطعی کو چیلنج کرنا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
عدد میں اگرچہ حضور نبی اکرم ﷺ ’’ثانی‘‘ کہلائے، مگر مرتبے میں آپ ﷺ ہمیشہ اوّل ہی ہیں: شیخ الاسلام کا خطاب
حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت تاریخِ اسلام کا وہ روشن باب ہے جس پر امت ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔ آپ وہ خوش نصیب ہستی ہیں جنہیں قرآنِ کریم نے ہجرت کے موقع پر: إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا؛ فرما کر رسولِ اکرم ﷺ کا صاحب قرار دیا، اور یوں وحیِ الٰہی نے آپ کی صحابیت، وفاداری اور قربِ نبوی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ صداقت، ایثار، وفا اور فہمِ دین آپ کی شخصیت کے امتیازی اوصاف تھے؛ اسی لیے آپ کو ’’صدیق‘‘ کا عظیم لقب عطا ہوا۔ ایمان بالرسالت میں سبقت، مال و جان کی بے مثال قربانیاں، اور نازک ترین مواقع پر رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ ثابت قدمی آپ کے کمالِ ایمان کی روشن دلیل ہے۔ خلافت کے دور میں بھی آپ نے عدل، تواضع اور شریعت کی پاسداری کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لیے وہ معیار بن گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی سیرت ایمان کو جِلا، کردار کو وقار اور امت کو وحدت عطا کرتی ہے۔
ثانی اثنین میں عدد اور مرتبے کے فرق کا لطیف نکتہ
مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ثانی اثنین‘‘یعنی دو میں سے دوسرا؛ یہاں اِس سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہیں، جب آپ غارِ ثور میں اپنے رفیقِ وفا حضرت ابو بکر صدیقؓ سے فرما رہے تھے کہ: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اگر ’’ثانی‘‘ کا اِطلاق یہاں حضور نبی اکرم ﷺ پر لیا جائے تو اِس کے مفہوم، دلالت، اشارت اور اقتضاء النص ایک اہم نکتہ ذہن میں لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں یہ بیان فرما رہا ہے کہ اِن دو میں سے دوسرے یعنی حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھی کو دلاسا دیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مرتبے میں تو کسی طور ’’ثانی‘‘ ہو ہی نہیں سکتے، کیونکہ مرتبے میں آپ اوّل ہیں، بے مثل اور بے نظیر ہیں۔ لیکن آیت میں آپ کو ’’دو میں سے دوسرا‘‘ کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عدد کے اعتبار سے آپ ﷺ ثانی ہیں، نہ کہ رتبے کے اعتبار سے۔ اور ’’ثانی‘‘ اسی وقت بنتا ہے جب کسی کے سامنے ایک اوّل ہو۔ اگر یہاں عددی تقسیم میں حضور ﷺ ’’ثانی‘‘ قرار پاتے ہیں تو لازم آتا ہے کہ عددی طور پر اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ ہوں۔ لیکن مرتبے کے اعتبار سے اوّل ہونا تو صرف حضور ﷺ کا مقام ہے۔ تو پھر یہ اوّلیت کس میں ہوئی؟ یہی وہ دقیق نکتہ ہے جو اس آیت کے حسنِ بیان اور مقامِ صدیقیت دونوں کو بے مثال شان عطا کرتا ہے۔
حضور ﷺ کی معیّت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفا کا تاج
شیخ الاسلام نے مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ’’ثانی‘‘ کہہ کر یہ حقیقت مہرِ تصدیق کے ساتھ واضح کر دی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وفا میں اوّل ہیں۔ غلامی میں اوّل، خدمتِ مصطفیٰ ﷺ میں اوّل، جانثاری میں اوّل، محبوبِ خدا کی حفاظت اور اُن کے لیے سب کچھ لٹا دینے میں اوّل، ہجرت کی رفاقت میں اوّل، ایثار و قربانی میں اوّل، اور وفا کے ہر معیار پر اوّل ہیں۔ مرتبے میں تو بے شک مصطفیٰ کریم ﷺ ہمیشہ اوّل ہیں، مگر جب آیت میں آپ کو ’’ثانی‘‘ کہا گیا تو اس عددی نسبت میں ’’اوّل‘‘ کا مقام حضرت ابو بکر صدیق کو عطا ہوا۔
چونکہ وہ مرتبے میں اوّل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں وفا کی اوّلیت عطا کی، اور جب صدیقِ اکبرؓ وفا میں اوّل قرار پائے تو اُن کی فضیلت کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ یہی وہ شان ہے جس نے حضرت ابو بکرؓ کو رفاقتِ مصطفیٰ ﷺ کا سب سے اونچا مرتبہ عطا کیا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شانِ صحابیت پر قرآنی نصّ
شیخ الاسلام نے توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں واضح فرمائیں۔ پہلی یہ کہ: اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہٖ؛ یعنی جب وہ اپنے صاحب سے فرما رہے تھے، یہ الفاظ خود نصِ قطعی کے ساتھ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کو ثابت کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نزولِ قرآن کے زمانے میں، اپنے کلامِ مقدس میں براہِ راست حضرت ابو بکر صدیقؓ کو صحابئ رسول کہا ہے۔
اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کی صحابیت کے نسخ کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ لہٰذا سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی صحابیت پر اعتراض کے لیے اِس سے بڑی دلیل چاہیے جس سے قرآن کی نص کا ردّ ممکن ہو۔ نہ خدا سے کوئی بڑا ہے، نہ قرآن سے کوئی بڑی دلیل ہے۔
اگر (معاذ اللہ) رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی صحابیت میں کوئی نقص پیدا ہونا ہوتا تو سب سے پہلے عالم الغیب انہیں صحابی نہ کہتا۔ جس رب نے انہیں ’’صاحب‘‘ فرمایا ہے، وہ ماضی بھی جانتا ہے، حال بھی جانتا ہے، مستقبل بھی جانتا ہے۔ وہ عہدِ رسالت، عہدِ صدیق، عہدِ صحابہ اور تمام آنے والے اَدوار کو اپنی نگاہ میں رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے تمام زمانوں کو دیکھ کر، پوری حقیقت کو سامنے رکھ کر فرمایا: اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہ: یعنی اے ابو بکر! تم میرے محبوب کے صحابی بنا دیئے گئے ہو، تو پھر جسے خدا نے صحابی بنایا، اس کی صحابیت کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔۔۔۔ہاں، وہی کرے گا جو خود کو خدا سے بڑا سمجھ بیٹھے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ