خدمت دین کے تقاضے اور ہمارا کردار

مورخہ: 08 مارچ 2019ء

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

خدمتِ دین کے مشن پر کار بند مصطفوی کارکنان و عہدیداران کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اس مقام پر رکھیں کہ وہ واقعتاً اس مشن کے پیغام کے عملی پیکر نظر آئیں۔ اس ضمن میں انہیں درج ذیل اوصاف اور خصوصیات اپنے کردار میں پیدا کرنا ہوں گی، اس لیے کہ اِن خصائل کی عدم موجودگی میں اُن کے قول اور فعل میں تضاد نظر آنے کی وجہ سے مصطفوی مشن کے پیغام کی تاثیر پر بھی فرق پڑے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے مشن سے وابستہ ہر عہدے دار اور کارکن اِن اوصاف سے مزین ہو۔

1۔ خوفِ خدا اور باطنی کیفیات کا حصول

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب قرآنِ مجید کی آیات میں جنت و دوزخ کے احوال سنتے تھے تو ان پر کپکپی طاری ہو جاتی، چیخیں نکل جاتیں اورغشی کے احوال طاری ہو جاتے۔ آج ہم اِن کیفیات و اَحوال سے محروم ہیں۔ ہماری موجودہ حالت کی سب سے بڑی وجہ ہماری سنگ دلی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قساوتِ قلبی بڑھتی جاتی ہے اورہمارے دل سخت سے سخت تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک روحانی فطری عمل ہے کہ جو کیفیات ابتدا میں ہوتی ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چند وجوہات کی بنا پر برقرار نہیں رہتیں۔ یہ فرق قرونِ اولیٰ میں بھی ہوتا تھا مگر اس کے اسباب اور تھے۔ آج کے دور میں اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

یہ تغیرِ احوال اور تغیرِ کیفیات پہلے ادوار میں بھی ہوتا تھا، لیکن ان لوگوں کا صدق و اخلاص چونکہ بہت زیادہ کامل ہوتا تھا اور ان کے اندر خیر، تقویٰ اور پرہیزگاری کے پہلو اتنے مضبوط، طاقتور اور غالب ہوتے تھے کہ ان میں کیفیات کا تغیر اور طرح کاہوا کرتا تھا۔ جب کہ ہمارے اندر کیفیات کا یہ تغیر و تبدل ہوتا ہے تو یہ اس نوعیت کا نہیں ہوتا۔ ہم پر دنیوی ماحول کے ہوش ربا اثرات اور قساوتِ قلبی آجاتی ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ اس بات کے گواہ ہوں گے کہ ابتدا میں جب ابھی تنظیمات اور مراکز نہیں بنے تھے، تو دعوت کا پیغام گھر گھر پہنچاتے ہوئے وہ ایک روحانی لذت اور کیف سے معمور رہتے تھے۔ لیکن انسان جب مختلف انتظامی اور تنظیمی معاملات میں مصروف ہو جاتا ہے تو اس کے مسائل اس کی روحانی لذت و حلاوت چھین لیتے ہیں کیونکہ صدق، اخلاص، محبت، وفاداری، شیطان، دنیاداری وغیرہ سب ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی ان روحانی کیفیات کو بحال کرنے اور پھر انہیں قائم رکھنے کی کوشش کریں۔

2۔ وقت کی قدر و قیمت کا احساس

مثل مشہور ہے کہ گزرا وقت اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتا۔ انسانی زندگی کی مثال بھی ہوا کے اُس جھو نکے کی سی ہے، جو ایک بار اپنا اثر دکھا کر واپس کبھی نہیں پلٹتا۔ اگرچہ دوستوں میں اختلافات کے سبب دوستی چلی جائے یا پھر کسی بھی وجہ سے دوست بچھڑ جائیں تو زمانے کے کسی نہ کسی موڑ پر دوبارہ ملنے کا امکان باقی رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی سے آسائش و آرام چلا جائے تو واپس آ سکتا ہے؛ صحت چلی جائے تو صحت مند ہونے کی امید قائم رہتی ہے اور انسان دوبارہ اسی طرح صحت مند ہو جاتا ہے جیسے وہ کبھی بیمار ہوا ہی نہیں تھا، لیکن زندگی کا کو ئی بھی لمحہ پلٹ کر واپس نہیں آتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ زندگی کے ہر لمحے کی قدر کرے۔ انسان اپنی زندگی کے بارے میں بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے اور عملی زندگی میں ان کی تعبیر کا منتظر بھی رہتا ہے۔ اس کے خوابوں کی یہ تعبیر بڑی جد و جہد کا تقاضا کرتی ہے۔

جس شخص نے زندگی کے ان بیش قدر لمحات سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھایا، تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس کی جوانی کا سنہرا دور ناکامیوں کا سبق دے کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گا۔ زندگی بھر کے پچھتاوے اس کا مقدر بن جا ئیں گے۔ جب تک حا لات کی ریت آپ کے ہا تھ میں ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لیں، اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ کو جتنا بدل سکتے ہیں بدل لیں۔ جوانی کا یہ انقلابی دور علم کے متلا شیوں کے لیے خاص طور پر دہری اہمیت کا حامل ہو تا ہے۔ نظیراکبر آبادی نے وقت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

غافل! تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردُوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی

علم کے حصول کا یہ بے مثال دور موسموں اور مہینوں میں معمولات کے رد و بدل کے ساتھ ماضی بنتا چلا جاتا ہے۔ لیل و نہار کا یہ رد و بدل ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم غور کریں کہ ہمارے دن اور رات کی مصروفیات کیا ہیں؟

یاد رکھیے! جیسے جیسے عمر بڑھتی جائے گی، ویسے ویسے مسائل بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ بیوی بچوں کی ضروریات، روزگار اور دیگر مسائل میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جا ئے گا۔ اس لیے یہ سنہری وقت جو اب میسر ہے، پلٹ کر کبھی نہیں آئے گا۔ اب آپ چاہیں تو سولہ گھنٹے جاگ لیں، چاہیں تو اٹھارہ گھنٹے بیدار رہیں۔ اس عمر میں جس قدر چاہیں عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لَو لگا کر من کی دنیا روشن کر لیں۔ اللہ کی یاد میں نمازِ تہجد سے لے کر نمازِ فجر تک رو رو کراپنے نامہ اعمال کی سیاہی کو نیک اعمال میں تبدیل کر لیں۔

اس لیے اس مصطفوی مشن کے علمبردار اور پیغامبر پر لازم ہے کہ وہ وقت کی قدر کرے اور وقت کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے اس کے ایک ایک لمحہ سے نیکیوں کے فروغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تناظر میں بھرپور فائدہ اُٹھائے۔ اپنی زندگی سے کاہلی، سستی اور بے کاری کو اکھاڑ پھینکے۔ اسی صورت میں وہ خدمتِ دین کے تقاضوں کو پورا کرنے والا بن سکے گا۔

3۔ علمِ نافع کا حصول

مصطفوی کارکنان پر لازم ہے کہ وہ علمِ نافع کے حصول میں ہمیشہ سرگرداں رہا کریں۔ علمِ نافع اللہ کی ایک نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں ہر ایک کو ایسے نہیں دے دیتا بلکہ ان نعمتوں کے لیے بندے کا ظرف بھی دیکھتا ہے۔ ربِ دو جہاں اپنے بندے میں صدق و اخلاص دیکھتا ہے، اس کی محنت، کوشش اور جہدِمسلسل دیکھتا ہے، تب کہیں جا کر وہ اپنے بندے کو ابدی نعمتیں عطا کرتا ہے۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ فلاں پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ وہ اتنا مال دار، جاگیردار اور صاحبِ استطاعت ہے۔ حالاں کہ دنیاوی شان و شوکت ہرگز اس کی رضا کا معیار نہیں ہے۔ یہ سب کچھ تو اللہ کا عدل ہے۔ وہ دنیاوی ثروت تو کافروں کو بھی دیتا ہے جو کہ اس کی ذات کے ہی منکر ہیں، لیکن خالقِ ارض و سما انہیں ہرگز اپنی محبت اور قربت نہیں دیتا۔ انہیں دنیا کی ہر دولت تو دے دیتا ہے مگر اپنی فقیری، اپنی محبت اور اپنی معرفت نہیں عطاکرتا۔ مالکِ کون و مکاں حقیقت کی دولت اس وقت تک نہیں سو نپتا جب تک کہ وہ آزما نہ لے کہ یہ دل اس کی طلب میں صدق و اخلاص سے معمور ہے یا نہیں۔

درحقیقت اپنے دل کو عشقِ حقیقی سے سرشار کرنے کا بہترین زمانہ جوانی کازمانہ ہے۔ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتَّی صِرْتُ قُطْبًا
وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَوْلَی الْمَوَالِی

’’میں علم حاصل کرتا رہا یہاں تک کہ علم حاصل کرتے کرتے قطب ہو گیا اور میں نے اپنے مولیٰ سے (دنیوی و اخروی)سعادت کو پالیا‘‘۔

ثابت یہ ہوا کہ علم کا سفر بندے کو قطب اور غوث بنا دیتا ہے، لیکن اگر انسان طالبِ علمی کے دوران اس کا بندہ ہی نہ بن سکے اور اچھے اخلاق کا حامل نہ ہو سکے، دنیا داری، سستی، کاہلی ہی نہ ختم کر سکے تو گویا اس نے سب کچھ برباد کر دیا۔ یاد رہے! سست اور کاہل لوگوں کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لہٰذاہمیں ہر وقت پوری طرح تیار رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے لَیْسَ لِلْإِنسَانِ اإِلَّا مَا سَعیٰ (النجم: 39) فرما کر کامیابی کو محنت اورمشقت سے مشروط کردیا ہے۔ چنانچہ ہم حق کی تلاش میں جس قدر اپنی توانا ئیاں صرف کریں گے، اتنا ہی میٹھا پھل ہمیں نصیب ہوگا۔ علم دوقسم کا ہوتا ہے:

  1. وہ علم جو نور پیدا کرتا ہے۔
  2. وہ علم جو تاریکی پیدا کرتا ہے۔

اگر علم خالصتاً اللہ کے لیے ہو، اس نیت سے حاصل کیا جائے کہ مجھے اس علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہوگی، تو یہ بندے کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب، اللہ کی محبت کے بغیر نصیب نہیں ہوتا۔ یہ ایک طے شدہ امرہے کہ جب کسی کو کسی سے محبت نہیں ہوتی تواسے اس کا قرب بھی نہیں ملتا اور اگر محبت کے بغیر اس کو قرب مل بھی جائے، تو وہ قرب بے فیض اور لاحاصل ہوتا ہے۔ جس طرح ابوجہل اور ابو لہب جیسے لوگ اور دیگرکفار و مشرکین کا بظاہر حضور  علیہ السلام کے قرب میں رہنا انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا۔

علم کے متلاشیوں کیلیے یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ ترجیح ہمیشہ دین کے علم اور اللہ کی معرفت کو دیں۔ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ روایت کرتے ہیں:

یُجَاء ُ بِعَمَلِ الرَّجُلِ فَیُوْضَعُ فِی کِفَّةِ مِیْزَانِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَتـَخِفُّ، فَیُجَاءُ بِشَیْء ٍ أَمْثَالَ الْغَمَامِ، أَوْ قَالَ مِثْلَ السَّحَابِ، فَیُوْضَعُ فیِ کِفَّةِ مِیْزَانِهِ فَیُرَجَّحُ فَیُقَالُ لَهُ؛ أَتَدْرِیْ مَا هَذَا؟ فَیَقُوْلُ: لَا، فَیُقَالُ لَهُ: هَذَا فَضْلُ الْعِلْمِ الَّذِیْ کُنْتَ تُعَلِّمُهُ النَّاسَ.

(جامع بیان العلم وفضله، ابن عبدالبر، 1: 46)

’’قیامت کے دن کسی آدمی کو (اُس کے)عمل کے ساتھ لایا جائیگا اور (اُس کے عمل کو)ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اُس کا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔ پھر کوئی چیز بادلوں کی مانند لائی جائے گی اور ترازو کے پلڑے میں رکھی جائے گی (تو اُس کا پلڑا) بھاری ہوجائے گا، پھر اُس سے کہا جائے گا: کیا تو جانتا ہے کہ یہ (سب)کیا تھا؟ تو وہ جوابًا کہے گا، (میں) نہیں جانتا۔ تو اُسے کہا جائے گا: یہ وہ علم کی فضیلت ہے جس کو تو لوگوں کو سکھایا کرتا تھا۔‘‘

جس علم سے قیامت کے دن فیصلے بدل جائیں گے اور اللہ کے قرب اور رضا کے راستے کھل جائیں گے، افسوس! ہم اس کی بالکل قدر نہیں کرتے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے:

مَنْ جَاءَهُ أَجَلُهُ وَهُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لَقِیَ اللهَ وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّبِیِّیْنَ إِلَّا دَرَجَةُ النُّبُوَّةِ.

(المعجم الاوسط، طبرانی، 9: 173، رقم: 9454)

’’جس کو طلبِ علم میں موت آئی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور انبیاء کے درمیان صرف درجہ نبوت کا فرق ہو گا۔‘‘

علم کی طلب میں کوشاں رہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو اس کا ذہن مکمل طور پر یک سو ہو۔ دوسرا یہ کہ جو علم وہ حاصل کر رہا ہے، اس میں نور ہو، اندھیرا اور تاریکی نہ ہو۔ یہ امر ذہن میں رہے کہ علم میں نور صرف اس شرط پہ آتا ہے کہ اس کے ساتھ عملِ صالح، زہد اور تقویٰ ہو۔ اگر یہ سب کچھ شامل نہ ہو تو اس علم کی مثال ایسے ہے جیسے کتابوں کا ایک انبار گدھے کی پشت پر لاد دیا جائے۔ علم کی یہ کتابیں محض ایک بوجھ ہوتی ہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

4۔ تصوف اور تشکیل ِکردار

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور قرونِ اُولیٰ کے سلف صالحین کے دور میں نفس، شیطان اور دنیا اس قدر طاقت ور نہ تھے۔ ان کے صدق و اخلاص اور استقامت کی وجہ سے وہ قساوتِ قلبی نہیں ہوتی تھی، جس کا آج ہم سب شکار ہیں۔ یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ اب روحانیت کی بجائے دفتریت کا غلبہ ہے۔ افسوس! اب آہِ سحر گاہی نہیں رہی۔ ان حالات میں دلوں کی سختی کو نرمی میں کیسے بدلا جائے؟ افسوس کہ ہم تقویٰ کی کیفیت نہیں رکھتے، جس کے سبب ہم اخلاقِ حسنہ کی نعمت سے محروم ہیں۔ آج پھر سے اِن اوصاف کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں آج احیائے تصوف وقت کی آواز ہے۔ اس لیے کہ اس تصوف ہی سے آج ہماری سیرت وکردار کی حقیقی معنوں میں تشکیل ممکن ہوگی۔تصوف کا مقصد صدق اور اخلاص پیدا کرنا ہے۔ آقا  علیہ السلام کے صحابہ صدق و اخلاص، صفائے قلب اور حسنِ نیت کے منتہائے کمال پر تھے، انہیں صوفی کہیں یا نہ کہیں، وہ اصلاً سب صوفیاء تھے۔ اخلاص، زہد و ورع، تقویٰ اور حسنِ اخلاق کی وہ تمام خوبیاں جن سے تصوف عبارت ہے، ان میں وہ بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آج ہمیں اِن تمام اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔ بالفاظ دیگر ہمیں تصوف کے اِن عناصر کے ذریعے قساوت کو نرمی اور مردہ دلی کو زندہ دلی میں تبدیل کرنا ہوگا۔

اِن اوصاف اور تصوف کے عملی اظہار سے دور ہونے کی وجہ ماحول کے اثرات کا ہمارے مزاج اور رویے میں داخل ہونا ہے۔ مختلف نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی ماحول و طریقہ کار اور مختلف احوالِ حیات سے فطری طور پر تبدیلیاں آتی ہیں۔ مثلاً: جو تواضع اور انکساری ایک طالب علم کے طور پر انسان کے اندر ہوتی ہے، جب وہ معلم یا مفتی بن جاتا ہے، تو اس کے اندر وہ تواضع اور انکساری نہیں رہتی، اس میں فرق آتاچلا جاتا ہے۔ اسی طرح چوبیس گھنٹے کے انتظامی معاملات اور ان میں شرکت، پھر کاموں کی نوعیت اور صبح و شام کی dealing رویوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ درپردہ یہ سب وہ اثرات ہیں جن کی وجہ سے عبادات میں کمی آتی چلی جاتی ہے اور پہلے جیسا حسنِ معاملہ نہیں رہتا۔ دفتری میکانکی طریقہ کار کے باعث سوچوں اور طرزِ عمل میں روحانیت کی بجائے بیوروکریسی آجاتی ہے۔ جب یہ معاملہ آجاتا ہے، تو مشن کے کام میں لگن اور دردمندی کا فقدان دکھا ئی دیتا ہے۔ دفتریت کے غلبے کی وجہ سے آپس میں حسنِ معاملہ اس درجے کا نہیں رہتا جس کا مشن تقاضا کرتا ہے۔ طبیعتوں میں نرمی اور لطافت نہیں رہتی۔ جب دنیا کے ساتھ بہت زیادہ تعلق بڑھ جاتا ہے تو باہمی محبت اور الفت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور دوسروں کے درد کا احساس باقی نہیں رہتا۔

آج ایثار کا جذبہ مفقود ہوجانے کی وجہ سے دوسروں کو خود پر ترجیح دینے کا رواج نہیں رہا۔ تنظیمات و افراد اور رفقاء کے ساتھ dealing میں خدمت کا جذبہ مفقود نظر آتا ہے، حالانکہ خدمت گزاری تو عاجزی و انکساری، محبت، ایثار، نرمی، حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملہ کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ تمام اقدار اور اوصاف جو ہمارے اَسلاف کی میراث اور اسلام کی تعلیمات ہیں اِن تمام کو ہمیں اختیار کرکے اپنی طبیعت، فطرت اور مزاج و عادت کا حصہ بنانا ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں تصوف کو حال میں بدلتے ہوئے سیرت و کردار کی ایسی تشکیل کرنا ہوگی، جو مصطفوی کارکنان کا طرہ امتیاز ہوا کرتی ہے۔

5۔ وساوس اور شیطانی حملوں سے دفاع

انسان کے اندر خیالات تین سمتوں سے داخل ہوتے ہیں:

  1. شیطان
  2. دنیا
  3. نفس

یہ بڑی اہم اور قابلِ غور بات ہے کہ شروع میں وہ فاسد خیالات برے بن کر ہمارے ذہنوں میں داخل نہیں ہوتے کیوں کہ اگر وہ خیالات اپنی entrance میں ہی برے دکھائی دیں تو کیا ہم انہیں داخل ہونے دیں گے؟ ہرگز نہیں! چور دن دیہاڑے گھروں میں داخل نہیں ہوتے کہ نگرانی کرنے والے انہیں دیکھ نہ لیں۔ وہ نقب لگاتے ہیں اور چوری ایسی جگہ کرتے ہیں جو نگرانی سے خالی ہو۔ یہی طریقہ شیطان، دنیا اور نفس کے حملے کا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جہاں نگرانی نہیں ہو رہی یعنی بندہ جب اپنے دل و دماغ کی نگرانی نہیں کر رہا ہوتا تو وہ نقب لگا کر داخل ہو جاتے ہیں۔

چنانچہ شیطان حملہ آور ہوتے وقت کسی خیال کو اچھا بنا کر دل و دماغ میں داخل کرتا ہے، تاکہ نگرانی کرنے والا بھی دھوکہ کھا جائے اور جو نگرانی نہیں کر رہا اس کی تو بات ہی کیا کرنی۔ شیطان یا نفس برا بن کر کبھی خیال میں داخل نہیں ہوتا بلکہ وہ تو انسان کی ضرورت بن کر داخل ہوتا ہے۔ وہ انسان کو کہتا ہے کہ دیکھو! مہنگائی کا زمانہ ہے؛ حالات کی یہ مجبوری ہے؛ کیا ساری زندگی ایسے ہی مرتا رہے گا؟ تم بھی زندگی میں آسودگی کے لیے کچھ کرو۔ اس طرح شیطان انسان کے خیر خواہ کا روپ دھار کر من میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت کا ذکر خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں کیا ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ.

(آل عمران: 14)

’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)۔‘‘

یہ تمام چیزیں اور شہوتیں محض پسندیدہ اورجائز بن کر ہی نہیں بلکہ ضرورت اور مجبوری بن کر انسان کو جھانسا دیتی ہیں اور دلکش بہروپ اور نہایت خوبصورت انداز سے انسانی طبیعت میں داخل ہوجاتی ہیں۔ پھر جب انسان اپنی کسی ایسی خواہش کا تجزیہ کرتا ہے، تو اسے وہ اپنے حالات کے مطابق بالکل درست تصور کرتا ہے۔ وسائل کی کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث گھر میں پریشانی کا بڑھنا، یہ ضروریات انسان کو کبھی بغاوت پر اکساتی ہیں اور کبھی بد دلی و دین سے بے رغبتی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ماحول اسے خیانت اور کرپشن پر بھی اکساتا ہے اور یوں اسے دوزخ کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان کو وہ دوزخ اس وقت بہشتِ بریں کی مانند دکھائی دیتی ہے حالاں کہ در حقیقت وہ جنت الحمقا ہوتی ہے۔ اگر وہ اِس وقت اُسے دوزخ بن کر نظر آجائے تو پھر شیطان کو کیا فائدہ ہوا؟ وہ تو خیال کو ایسے روپ میں داخل کرتا ہے کہ انسان اسے ضروری اور موزوں خیال کرنے لگتا ہے۔ زندگی کا پورا ماحول اسے ایک لائن میں نظر آنے لگتا ہے۔ پھر جب ایک خیال داخل ہوتا ہے تو وہ اکیلا داخل نہیں ہوتا بلکہ خیال در خیال داخل ہوتا ہے۔ جیسے چیونٹیاں چلتی ہیں، اسی طرح شیطان اپنی پوری فوج کو لائن اپ کر کے داخل کر دیتا ہے اور وہ چیز مزین ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ انسان اس کو accommodate کرتا چلا جاتا ہے کہ یہی تو میری اصل ضرورت ہے، جس کے لیے رات دن پریشان رہتا ہوں اور یہی اس کا واحد حل ہے۔ اس طرح داخل ہونے والے یہ خیالات انسان کے ایمان کو برباد اور آخرت کو تباہ کر دیتے ہیں۔

یاد رکھیں! اگر خیال کا صرف ایک جرثومہ اندر داخل ہوتا اور پھر دروازہ بند ہو جاتا تو ہمارے اندر کی نیکیاں اس کو ختم کر دیتیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ایک شہوت یا ایک خیال نہیں داخل ہوتا بلکہ قرآن مجید نے مذکورہ آیتِ کریمہ میں اس کے لیے ''الشہوات'' جمع کا صیغہ استعمال فرمایاہے: یعنی ان کی پوری فیملی داخل ہو جاتی ہے۔ پورا لشکر قطار در قطار آتا چلا جاتا ہے۔ جب شہوت اور خیالات کا یہ لشکر داخل ہوتا ہے تو انسان کے اندر کی نیکیاں، تقویٰ، روحانیت اس قدر طاقت ور نہیں ہوتیں کہ وہ ان کا دفاع کر سکیں۔ چنانچہ ہماری دفاعی فورسز شکست کھا جاتی ہیں۔ ایک عام مسلمان نماز، روزہ اور دیگر عبادات و معمولات بجا لا کر اپنے طور پر تو حقِ مسلمانی ادا کر رہا ہوتا ہے مگر اسے جو اندرونی روحانی دفاعی قوت درکار ہوتی ہے، وہ میسر نہیں آتی۔ نتیجتاً انسان کی اندرونی دفاعی فورسز باطل طاقتوں کے بالمقابل شکست کھا جاتی ہیں۔ یوں باطل کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جب اس کا غلبہ ہو جائے تو پھر چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ گویا انسان باطل کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے دشمن کی فوجیں شہر کے اندر داخل ہو کر قابض ہو جاتی ہیں یعنی جب بارڈر ہی ٹوٹ گیا اور فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں تو عملاً ان کا غلبہ ہوگیا اور انہوں نے قبضہ کر لیا۔ اس طرح جب شہوانی خواہشات انسان کے من میں گھس جائیں تو پھر انسان کشمکش اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے اندر ہی اندر نیکی اور بدی کی جنگ لڑتا رہتا ہے اور بالآخر شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہترین دفاع تو یہ تھا کہ انہیں سرحدوں پر ہی روک لیا جاتا اور شہوات کی طاغوتی فوجوں کو من کے شہر میں داخل ہی نہ ہونے دیا جاتا لیکن جب وہ شہر میں داخل ہو گئیں تو گویا ہم surrender ہوگئے۔

مصطفوی کارکنان اور خدمتِ دین کے مشن پر کاربند اَفراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے خیالات کی تطہیر کا اہتمام کرتے رہا کریں۔ اسی صورت میں وساوس، شکوک وشبہات اور باطل خیالات کو باطن پر اثر انداز ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

6۔ تعلق باللہ اور اخلاص

خیالات کا پے در پے آنا اور ان کے دھارے کی زد میں آکر دائیں بائیں بھٹکتے پھرنا اس بات کی گواہی ہے کہ ہم نے اللہ کی محبت کو اپنا منزلِ مقصود نہیں بنا یا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لَو لگا لیں اور اس کے مقابل ہر چیز کو ہیچ سمجھیں، پھر ہی حال نصیب ہوگا۔ اس پر مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ سب علوم پڑھیں مگر قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ سب پر مقدم رکھیں۔ بول چال، کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں محبوبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ڈھل جائیں، تاکہ جب چلیں تو دنیا والے دیکھ کر کہیں کہ یہ زمانے والوں سے مختلف لوگ ہیں۔ من کی دنیا بدلے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

نوجوانوں کی اکثریت شیطان کی تابع ہو چکی ہے۔ یہ دنیا شیطانی، نفسانی اور شہوانی ہے۔ اگر اس دنیا میں رحمانی اور ربانی بن کر رہیں گے تو اگلی صدیوں کے اولیاء کاملین جیسے اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس لیے اس دنیا کی ناپاک چیزوں سے ہٹ کر عبادت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ اخلاق، زہداور علم کی اعلیٰ کتب کا مطالعہ کرناگویا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کرنا ہے۔ نوجوانوں کی زندگیوںمیں یہ کردار نمایاں نظر آنا چاہیے۔

یاد رہے! جو کوئی اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے ایسے کام کرتا ہے کہ جس سے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا ہو تو حقیقتاً یہی بے وفائی ہے۔ اپنے علم میں ہمیشہ اللہ کی وفا کو شامل رکھیں۔ یہی حصولِ علم کا حقیقی طریقہ ہے۔ جب بندے کا قلب اللہ سے جڑ جاتا ہے تو وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ رہتا ہے۔ اگرچہ بظاہر بشری تقاضوں کے باعث جسم دنیوی معاملات میں مصروف رہتا ہے لیکن قلب و روح اللہ کے ساتھ متعلق ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ تعلق مستقل طور پر اللہ کے ساتھ جڑ جائے تو کوئی بھی شخص اپنے حال کو ساری کائنات کے عوض بھی بیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

حضرت ذو النون مصری تعلق باللہ کی ایک بہترین مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک روز میں حج کے موقع پر طواف کر رہا تھا کہ ایک جوان کو دیکھا جس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اور چہرے پر فاقے کے آثار تھے۔ مجھے ترس آیا تو جیب میں جو کچھ تھا، وہ میں نے اس کے ہاتھ میں تھمانے کی کوشش کی۔ اس جوان نے میرا بازو پکڑا اور کہنے لگا: یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا: آپ کا حال دیکھا تھا، آپ حاجت مند لگتے ہیں؛ میں نے چاہا کہ آپ کی مدد کر دوں۔ اس نے کہا: ذو النون! اللہ نے جو حال مجھے دیا ہے اگر کوئی پوری جنت اور اس کی ساری نعمتوں کے عوض بھی میرا یہ حال خریدنا چاہے تو اس محبوب کی عزت کی قسم! میں یہ حال نہیں بیچوں گا؛ اور تم چند درہموں کے عوض میرا حال خریدنا چاہتے ہو؟

اس واقعہ سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق جوڑ لیں اور باقی خواہشات، شہوات، تمنائیں، آرزوئیں، غرض دنیا کی ہر شے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور لے جانے والی ہے، اسے حقارت سے ٹھوکر مار دیں۔

7۔ فرض عبادات کی پابندی

یہ امر ہمیشہ پیش نظر رہے کہ عبادات، اچھے اخلاق اور زہد و اخلاص کے بغیر علم ایک کالے سانپ کی مانندہے۔ اولیاء اللہ کہا کرتے ہیں: علم کو اگر نور، نافع اور فائدہ مند بنانا ہو تو اس کا فارمولا یہ ہے کہ علم بقدر نمک اور ادب و عبادت آٹے کے موافق ہو۔

یاد رکھیں! علم کی روشنی میں تربیت کے لیے جو محنت کی جاتی ہے اس سے ادب آتا ہے۔ نماز پنج گانہ کی ادائیگی بندگی کی بنیادی پہچان ہے۔ جب نماز کا وقت ہو تو مسجد بھری ہوئی نظر آئے۔ اس سے باری تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ اذان کے ساتھ ہی مسجد میں صف در صف نیاز مندی سے کھڑے ہونا اذان کا ادب ہے۔

حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃ (آؤ نماز کی طرف) اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح (آؤ فلاح کی طرف) سے بہتر بلاوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ بلاشبہ نماز مؤمنوں کی اللہ سے ملاقات ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے اور ہم کیسے بندے ہیں کہ نماز کے بلاوے پر بھی بے دھیان بیٹھے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں مجھ سے ملاقات کا شوق نہیں ہے تو مجھے بھی ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ بھاگے ہوئے نافرمان غلام کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسے شخص کا علم بھلاکس کام کا اور اس علم سے کون سا فیض اور کون سی برکت حاصل ہوگی، جو اپنے رب کے بلاوے پر بھی اس کے در پر حاضر نہیں ہوتا۔ وہ اپنے معبود سے ملاقات کے لیے رات کے اندھیرے میں تہجد کے لیے کس طرح اٹھ سکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیداری کا وقت یہی ہے۔ اگروقت گزر گیا تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اقبال کہتے ہیں:

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اَسرارِ شہنشاہی

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے مصطفوی مشن پر گامزن کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ عبادات سے اپنے ظاہر و باطن کو ہمیشہ منور و مزین رکھے۔ اسی ضمن میں ہم اکثر سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں اور فرض نماز کی ادائیگی کے وقت کو بھی اپنے دنیوی یا تنظیمی امور کی نذر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہر مصطفوی کارکن فرض عبادت میں کسی بھی صورت کوتاہی اور غفلت کا مرتکب نہ ہو۔

اس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ بے آہِ سحر گاہی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نماز کے علاوہ فرض کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بھی معمول بنائیں۔ ان ایام کو کبھی مت چھوڑیں۔

اسی طرح ہمیں مصلّے پر آنسو گرانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ جب جوانی میں ہمارے آنسو گریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بارش کرے گا۔ اس سے دین و ایمان پر استقامت نصیب ہوگی اور دیارِعشق تک رسائی نصیب ہوگی۔

8۔ محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی اظہار

ایمان کیا ہے؟ ایمان قلبی تصدیق کا نام ہے۔ یعنی دل سے کسی کو مان کر اس کی طرف راغب ہو جانا، بلکہ اسی کا ہو جاناایمان ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قریشِ مکہ کے قلوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب نہیں تھے۔ اگرچہ انہیں جسمانی، جغرافیائی اور مکانی اعتبار سے مکمل قرب حاصل تھا۔ تاہم اس مادی قرب نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیے کہ اُدھر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہیں کہ جو کبھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے ہی نہیں، مگر باطنی طور پرقریب رہے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا قلب ہمیشہ جڑا رہا۔

بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ یمن میں رہنے والا ایک شخص جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پاکر بھی ملاقات نہ کرسکا یعنی جنہیں ظاہری قربت بھی نہیں ملی مگر ہزاروں میل کی دوری کے باوجود دلی طور پر آقا  علیہ السلام سے اس قدر جڑے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ یمن میں میرا ایک دوست اویس رہتا ہے۔ پھرحضرت عمراور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا:

إِنَّ خَیْرَ التَّابِعِیْنَ رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ أُوَیْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ، وَکَانَ بِهِ بَیَاضٌ، فَمُرُوهُ فَلْیَسْتَغْفِرْ لَکُمْْ.

(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس القرنی، 4: 1968، رقم: 2542)

’’تابعین میں سب سے افضل شخص ایک آدمی ہے جس کا نام اویس ہے، اس کی ایک والدہ ہے(جب تم اُس سے ملو تو)اس سے کہنا کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے۔‘‘

محبت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ محب چاہتا ہے کہ جیسا میرا محبوب ہو، میں بھی ویسا ہی دکھائی دوں۔ محبوب جو کھاتا ہے میں بھی وہی کھاؤں؛ محبوب جیسا پہنتا ہے، میں بھی ویسا ہی پہنوں؛ محبوب جس طرح بولتا ہے، میں بھی اسی طرح بولوں؛ محبوب جن کو پسند کرتا ہے، میں بھی انہی کو پسند کروں؛ اور محبوب جنہیں ناپسند کرتا ہے، میں بھی ان کو ناپسند کروں۔ غرض کہ جو طریقے اسے اچھے لگتے ہیں، بس انہی طریقوں کو اختیار کروں اور محبوب کو جو طریقے اچھے نہیں لگتے، ان طریقوں سے نفرت کروں۔ گویا ساری زندگی اِن اشعار کی عملی صورت دکھائی دے:

جس طرف وہ نظر نہیں آتے
ہم وہ رستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں

کعبہ بنتا ہے اس طرف ہی ریاض
جس طرف رُخ وہ موڑ دیتے ہیں

درج بالا گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس چیزنے آپ کے دل میں محبوب کی طلب پیدا کی اور اس کے در تک لے جانے پر آمادہ کیا، اس کا نام محبت ہے۔ محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر جس راستے پر چل کر محبوب کے دروازے پر پہنچیں گے، اس کا نام اتباع ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ہم کسی راستے پر چل رہے ہوتے ہیں تو راستے میں دائیں بائیں کئی گلیاں نظرآتی ہیں۔ اگر اس دوران میں ہم نے اصل راستہ چھوڑ کر دائیں بائیں گلیوں میں گھومنا شروع کردیا تو پھر کبھی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ لہٰذا جب منزل کو پانا مقصود ہو تو اسی جانب سیدھے چلتے رہیں اور دائیں بائیں دیکھنا بھی گو ارہ نہ کریں؛ چاہے وہ راستے کتنے ہی جاذبِ نظر کیوں نہ دکھائی دیں ۔ یہ چمکیلے اور بھڑکیلے راستے دراصل شیطانی پھندے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہم اللہ اور اس کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور قربت چاہتے ہیں، تو پھر اخلاص اور استقامت کے ساتھ سیدھے راستے پر قائم رہیں۔

منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ذوالنون مصری نے کسی سفر کے دوران ایک جوان کو دیکھا، جسے بچے پتھر مار رہے تھے۔ انہوں نے بچوں سے پوچھا: اسے پتھر کیوں مارتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ دیوانہ ہے۔ یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا دیدار کرتا ہوں۔ آپ نے اس نوجوان سے پوچھا: تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کا دیدار کرتے ہو، کیا یہ بات درست ہے؟ اس نے عرض کیا: ذوالنون!کبھی عاشقوں کی نظروں سے محبوب بھی اوجھل ہوتا ہے؟ یعنی اس نوجوان نے مولیٰ سے اپنے کمال تعلق کی بات کی۔ اس پر انہوں نے پوچھا کہ مالک کے ساتھ تیرے تعلق کا حال کیا ہے؟ اس نے کہا: جس دن سے اس سے شناسائی ہوئی ہے، تب سے اس سے بے وفائی نہیں کی۔ ایک مقام پر امام ذوالنون مصری فرماتے ہیں:

اَلْمَحَبَّةُ: خَوْفُ تَرْکِ الْحُرْمَةِ، مَعَ إِقَامَةِ الْخِدْمَةِ.

(تهذیب الاسرار، ابو سعد النیشابوری، 56)

’’خدمت پر قائم رہتے ہوئے ادب کے ترک ہوجانے کا کھٹکا لگا رہنا محبت کہلاتا ہے۔‘‘

یہی حقیقی استقامت ہے۔ اس مردِ قلندر کا یہ زریں قول ہی استقامت کی آسان اور جامع تعریف ہے کہ جب کسی سے روحانی تعلق قائم ہو جا ئے تو پھر چاہے کسی بھی قسم کی آزمائش آجائے لیکن پا یہ استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آنی چاہیے۔

9۔ مشن کی نمائندگی اور عمدہ اَخلاق

مصطفوی انقلاب کے مشن کی نمائندگی کرتے ہوئے ہمارے پیشِ نظر ہمیشہ آقا  علیہ السلام کے اخلاقِ حسنہ کا نقشہ ہونا چاہیے۔ نرمی، محبت، بشاشت، مسکراہٹ اور تواضع کے کلچر کو رواج دینا چاہیے۔ ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی اَخلاقِ حسنہ کو زندہ کرنے کے لیے تو مصطفوی انقلاب کی اس تحریک کا آغاز کیا گیا ہے۔

اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مانگنے اور پوچھنے سے پہلے ہی بھائیوں کا حق ادا کردیا جائے۔ دوسرا یہ کہ جب ہمارے پاس کسی کا کوئی کام آئے تو ضروری ہے کہ ہمارے چہرے پر بشاشت رہے۔ کسی تنظیم کا کارکن اگر اس تنظیم کے کسی بڑے عہدے دار سے بات کرنے سے اجتناب کرتا ہے اور آپس میں بات چیت کیے کئی کئی دن گزر جاتے ہیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس سے ڈرتا ہے۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ اس عہدے دار کے ہاں روحانیت کی بجائے دفتریت و افسریت کا راج ہے۔ ائمہ، سلف صالحین اور اولیاء فرماتے ہیں کہ جب کبھی کوئی شخص کسی منصب دار کے پاس کوئی کام لے کر آئے اور وہ اس کام کی انجام دہی میں اتنی مستعدی، محنت اور دلچسپی اور تیزی کا مظاہرہ نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے کرتا ہے، تو ایسے شخص کو مُردوں میں شمار کرو کہ وہ زندوں میں نہیں ہے۔

ہمیں ہمارے رفقا، بھائی اور ساتھی اپنے اہل وعیال اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہونے چاہییں تبھی ہم خدمتِ دین کے تقاضوں کو ادا کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

10۔ اُمورِتحریک اور شوقِ عمل

ہمیں چاہیے کہ مشن کے امور کو بروقت نمٹایا جائے۔ آج کا کام کل پر چھوڑنا دفتریت کہلاتا ہے۔ ہمارے روز مرہ کے رویے اور دفتر کے ماحول سے ہمارے کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔ استاد کے پڑھانے کا انداز، طلبہ کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اور جامعہ کا معیارِ تعلیم بلند کرنے سے استاد کے کردار کی عکاسی ہوتی ہے ۔اسی طرح تحریک کی جملہ نظامتیں، فورمز، شعبہ جات کا ماحول اپنے سے متعلقہ کارکنان و تنظیمات سے Dealing کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ کام ہوتے ہیں جو روز کے روز نمٹائے جا سکتے ہیں۔ کچھ کام دوسرے دن اور کچھ تیسرے دن بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم لاپروائی سے انہیں ہفتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ دفتریت ہمیں دھیرے دھیرے فرعونیت کی طرف لے جاتی ہے۔ جب دفتر میں ایک دوسرے کی پروا نہ کی جائے اورخود غرضی کا دور دورہ ہو جائے، تو اسی کو فرعونیت کہتے ہیں۔ کسی بڑے عہدے دار سے اگر ایک ماتحت ملازم شکایت کرنے سے ڈرتا ہے تو اس عہدے دار کے بداَخلاق ہونے کے لیے یہی پیمانہ کافی ہے۔

11۔ باہمی مشاورت

امور کی انجام دہی میں مشاورت اہم ترین عمل ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَأَمْرُهُمْ شُورَیٰ بَیْنَهُمْ.

(الشوریٰ: 38)

’’اور ان کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے۔‘‘

چنانچہ اللہ رب العزت کے اس فرمان کی رو سے جو کام بھی کریں، مشاورت سے کریں لیکن مشاورت حقیقی ہونی چاہیے۔ اگر مالی معاملات ہیں، تو مالی معاملات کے ماہرین سے مشاورت کریں۔ تعلیمی معاملات ہیں تو تعلیم کے ماہرین سے مشاورت کرنی چاہیے۔ اسی طرح تنظیمات کے سربراہ کو پہلے اپنا اجلاس بلانا چاہیے۔ وہ سچا نمائندہ بن کرسب کی رائے لے پھر سچی اورحتمی بات کرے۔ یہی مشاورت کی روح ہے تاکہ لوگ کیے گئے فیصلوں میں اپنے آپ کو حصے دارسمجھیں۔ اس سے مرکز اور تنظیمات میں کوئی فاصلہ نہیں رہے گا۔ سارا مسئلہ رویوں کی تبدیلی کا ہے۔ اگر رویوں کا مسئلہ حل ہو جائے تو باقی مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔

12۔ تحریکی ساتھیوں میں اخوت و بھائی چارہ

مشن کا کام کرنے والے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے:

مَثَلُ الْأَخَوَیْنِ مَثَلُ الْیَدَیْنِ، تَغْسِلُ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْأُخْرَی.

(احیاء علوم الدین، غزالی، 2: 173)

’’دو مسلمان بھائیوں کی مثال ایسے ہے جیسے ایک بندے کے دو ہاتھ ہوں کہ ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے۔‘‘

یہ ہے اخوت کا بنیادی تصور۔ چنانچہ تمام ناظمین، ڈائریکٹرز، پرنسپل صاحبان غرض کہ ہر شخص جو جتنے اونچے اور بڑے عہدے کا حامل ہے اسے اتنا ہی زیادہ متواضع اور منکسر المزاج ہونا چاہیے۔ رفقاء و اراکین اورمشن کا کام کرنے والے سبھی لوگوں کا تنظیمات کے ساتھ مثالی سلوک ہونا چاہیے۔ ہمارے باہمی تعلق کے کم سے کم تین درجے ہیں:

  1. سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر ایک، دوسرے کے ساتھ سگے بھائی کی طرح برتاؤ کرے، جیسا کہ ہمارا چھوٹا بھائی ہمارا محتاج ہوتاہے اور ہم اس پر شفقت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے تحریکی ساتھی کے کام کی بھی اتنی ہی فکر ہوکہ اسے سوال کرنے کی نوبت تک نہ آئے۔ اگر اس نے کوئی سوال کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم حق ادا نہیں کر رہے۔
  2. دوسرا درجہ یہ ہے کہ ہر وہ رفیق اور ساتھی جس کے ساتھ ہمارا واسطہ ہے، وہ ہمارا بھائی ہے۔ اسے اپنی ذات کے درجے پر رکھیں۔
  3. تیسرا اور سب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ اس تحریکی ساتھی اور رفیق کو اپنی جان پر ترجیح دیں۔ یہی اخوت کا بلند ترین معیار ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أُہْدِیَ إِلَی رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم رَأْسُ شَاةٍ، فَقَال: إِنَّ أَخِی کَانَ أَحْوَجَ مِنِّی إِلَیْهِ، فَبَعَثَ بِهِ إِلَیْهِ، فَلَمْ یَزَلْ وَاحِدٌ یَبْعَثُ بِهِ إِلَی آخَرَ حَتَّی تَدَاوَلَهُ سَبْعَةُ أَبْیَاتٍ وَرَجَعَ إِلَی الْأَوَّلِ.

(احیاء علوم الدین، غزالی، 3: 257)

’’ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے پاس کسی نے بکری کا سر ہدیہ بھیجا، اُنہوں نے یہ خیال کر کے کہ میرا فلاں بھائی مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے اسے اس کے پاس بھیج دیا۔ یہی خیال کر کے ہرشخص آگے دوسرے شخص کو بھیجتا رہا حتیٰ کہ وہ ہدیہ سات گھروں کا چکر کاٹ کر واپس پہلے شخص کے پاس پہنچ گیا۔‘‘

یہ ہے ایثار کا سب سے اعلیٰ درجہ جو آقا  علیہ السلام نے تلقین کیا ہے۔ ہمیں اس طرح ایک دوسرے کی فکر کرنی چاہیے۔ جب یہ سوچ اور فکر ہمارا کردار بن جائے گی، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے رویے بدل گئے ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رویے وہ نہیں رہے جو ہونے چاہییں تھے۔

حضرت ابو سلیمان دارانی رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر تابعی اور اکابر اولیاء و صالحین میں سے تھے۔ آپ فرماتے ہیں :

لَوْ أَنَّ الدُّنْیَا کُلَّهَا لِیْ فِی لُقْمَةٍ ثُمَّ جَاء َنِی أَخٌ لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَضَعَهَا فِی فِیْهِ.

(الاخوان، ابنِ ابی الدنیا، ص: 245، رقم: 217)

’’اگر ساری دنیا مجھے ایک لقمہ میں مل جائے، پھر میرے پاس میرا کوئی مسلمان بھائی آجائے تو مجھے یہ پسند ہوگا کہ وہ ایک لقمہ میں اپنے بھائی کے منہ میں ڈال دوں (مگر تب بھی مجھے لگے گا کہ میں نے اس کا پورا حق ادا نہیں کیا)۔‘‘

یہ تو ممکن نہیں ہو سکتا کہ ہم سب ابو سلیمان دارانی بن جائیں یا پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بن جائیں، عمر فاروق رضی اللہ عنہ بن جائیں، عثمان غنی رضی اللہ عنہ بن جائیں، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بن جائیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بن جائیں اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین بن جائیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ ہمیشہ اس معیار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پیروی کے لیے کوشاں رہیں۔

یاد رکھیں! رشتے کا blind faith کبھی کہنے، لکھنے، کاغذی کارروائی اور وعظ و نصیحت سے قائم نہیں ہوتا۔ حقیقی اعتماد تو عملی مشاہدے اور تجربے سے قائم ہوتا ہے۔ لہٰذا تمام عہدے داران و کارکنان کو ایک دوسرے پر ایسا اعتماد ہو کہ کوئی کسی دوسرے سے یہ توقع ہی نہ کرے کہ یہ عدل و انصاف سے ہٹ کر کوئی بات یا فیصلہ کر سکے گا۔ بڑے ہونے کا حقیقی معیار ہی یہ ہے کہ چھوٹوں کو بڑوں پر مکمل اعتماد ہو، آپس میں محبت کا ایسا رشتہ قائم ہو کہ جب بھی ملیں تو ملنے سے قلبی خوشی میسر آئے۔

جب ہم اللہ کے لیے ایک دوسرے کے بھائی اور دوست ہیں، تو پھر آپس میں اس قدر وسیع خلیج کیوں؟ ایک دوسرے کے بارے میں منفی سوچ کیوں؟ یقیناً کوئی خرابی تو ہمارے رویوں میں مو جود ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہمارے رشتے میں عدل ہو، صفائی ہو، نیکی ہو اور ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک ہو۔ جب ہم کسی کو ناپسند کریں، تو گویا اللہ کی وجہ سے اور اس کے علاوہ جو بھی دوستی اور اخوت و محبت تھی اسے ہم نے ختم کر دیا۔ جب کہ ہمارے درمیان باہمی رشتوں کی بنیاد حرص و ہوا اور دنیا پرستی کی بجائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھی۔ اگر مصطفوی کارکنان و عہدے داران کا یہ باہمی رشتہ قائم ہو جائے تو انتظامی وتنظیمی حوالے سے پریشانیاں ختم ہو جائیں۔

اسی کو پہلے زمانے میں الاخوان فی اللہ کہتے تھے۔ جو ایک دوسرے سے اللہ کے لیے دوستی کرتے تھے۔ انہیں اپنے خونی رشتوں سے مل کر اتنی خوشی نہیں ہوتی تھی جتنی اللہ کی وجہ سے قائم رشتہ داروں سے مل کر ہوتی تھی۔ یہ بڑی عجیب رشتہ داری ہے۔ آخرت میں اسی اخوت نے کام آنا ہے اور یہی ہمارے تعلق کی بھی بنیاد ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف کرتے ہوئے ان کی درج ذیل دو چیزیں خاص طور پر بیان کیں:

  1. جب دین کے دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہیں تو أشداء علی الکفار کا پیکر ہوتے ہیں یعنی اللہ کے دشمن کے مقابلے میں بڑے سخت اور شدید ہوتے ہیں۔
  2. جب انہیں آپس میں دیکھو تو رحماء بینہم کا عملی پیکربنے نظر آتے ہیں۔ یعنی وہ آپس میں بڑے رحیم اور سراپائے رحمت ہیں۔

ہمیں اپنے رویوں میں رحماء بینہم کے اس فیض کو سجانا ہے۔ اسی صورت میں اخوت و بھائی چارے کا یہ رشتہ جو تحریکی ساتھیوں کے مابین قائم ہے، مضبوطی و استحکام سے ہمکنار ہو گا۔

13۔ ہمہ وقت مراقبہ، محاسبہ اور مؤاخذہ کا اہتمام

اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے لازم ہے کہ خدمتِ دین کے سفر پر رواں ہر مسافر اپنے شب و روز کے معمولات میں درج ذیل تین چیزوں کو لازمی طور پر شامل رکھے:

  1. مراقبہ
  2. محاسبہ
  3. مواخذہ

یہ تینوں امور نہ صرف انفرادی اصلاح کے لیے ضروری ہیں بلکہ تنظیمی و انتظامی لحاظ سے بھی ان کا اہتمام کرنا ہوگا۔ انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر پہلے مراقبہ پھر محاسبہ اور پھر مؤاخذہ کا عمل ہے۔ ذیل میں ان تینوں کو واضح کیا جا رہا ہے:

(1) مراقبہ

نگرانی کرتے رہنے کو مراقبہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صوفیاء اور اولیاء کو بھی روحانی تربیت کے لیے یہی نظام دیا ہے۔ تنظیمی تربیت کی خارجی اور اندرونی دنیا کے لیے بھی یہی نظام کار آمد ہے۔ تنظیموں میں بھی یہی طریقہ کار فرما ہے کہ بڑا عہدے دار ہمیشہ مراقبہ یعنی نگرانی کرتا ہے اور جو نگرانی نہیں کر سکتا، اسے اس حلقے میں بڑا رہنے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے، یہیں سے نظام خراب ہوتے ہیں۔

نگرانی کا ایک تعلق work load کے ساتھ ہے اور ایک صلاحیت کے ساتھ۔ یعنی اگر کسی میں نگرانی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، تو پھر نگرانی کیسی؟ اگر کوئی کسی کام کی ہر وقت نگرانی نہیں کر سکتا تو اس کا بڑا بنایا جانا یا بڑا بن کر رہنا بے سود ہے۔ اگر کسی کو کسی ایک حلقے اور ایک کام کے لیے بڑا مقرر کیا گیا ہے، اسے ہر صورت میں اپنے فرائضِ منصبی نہایت احسن انداز میں ادا کرنے چاہییں۔ جتنا کام اُسے سونپا جائے اس کی ہر وقت نگرانی کرے۔ جب وہ صحیح انداز میں مراقبہ کرے گا، تب ہی محاسبہ کرسکے گا۔ اس لیے کہ محاسبہ اور احتساب کے بغیر مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔

مراقبہ کے لغوی معنی غور کرنا، سوچ بچار کرنا، اور تدبر وتفکر کرنا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اس کا مطلب نگرانی ہے۔ صوفیاء مراقبہ کیوں کرتے ہیں؟ وہ اپنے نفس، عقل، قلب، روح اور باطن کی نگرانی کرتے ہیں۔ نگرانی کا مطلب یہ ہے کہ نگران دیکھتا رہے کہ دل و دماغ میں کہیں کوئی غلط وسوسہ، کوئی غلط خیال تو نہیں داخل ہو رہا۔ کہیں کوئی ایسی سوچ تو نہیں آرہی جو شیطان اور نفس امارہ نے ڈالی ہو۔ کہیں وہم و گمان میں کوئی دنیوی خیال تو نہیں آ رہا۔

ہر مصطفوی کارکن انفرادی اعمال کے حوالے سے بھی مراقبہ کا اہتمام کیا کرے تاکہ وہ اپنے باطن میں پنپنے والے وساوس اور شکوک و شبہات کی بروقت بیخ کنی کر سکے۔

(2) محاسبہ

مراقبہ یعنی نگرانی کے بعد محاسبہ کا عمل ہے۔ یہ عمل بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر سرانجام دیا جانا ضروری ہے۔ مراقبہ یعنی نگرانی کے ذریعے بندہ اپنے جن انفرادی اعمال کے حوالے سے کمی، کوتاہی اور نقص سے آگاہ ہو، اُن کا محاسبہ کرے کہ میں اِن امور کا شکار کیسے ہو گیا۔

انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ انتظامی اور تنظیمی سطح پر بھی محاسبہ کاعمل تحریک و تنظیم کی بقاء کے لیے ازحد ضروری ہوتا ہے۔ ہرمصطفوی کارکن اپنے انفرادی اعمال میں بھی اور اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے بھی اپنا حساب کتاب چیک کرتا رہے کہ کس کس سطح پر وہ کمی، کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے اور وہ کون سے اعمال ہیں جو آگے بڑھنے کے لیے اس کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔

اس طرح تنظیمی و انتظامی نگران بھی اپنے ماتحت افراد کی اولاً نگرانی کا حق ادا کریں اور پھر ٹیم ورک کی حیثیت سے اپنے طے شدہ اہداف تک نہ پہنچنے کی صورت میں یا ذمہ داریوں کی کما حقہ بجا آوری نہ ہونے کی صورت میں نگرانی کے دوران جو کوتاہی یا نقص سامنے آیا تھا، اس کا بھرپور جائز لیں اورتنظیمی و انتظامی مرض کی تشخیص کریں تاکہ اگلا سفر آسان ہو سکے۔

(3) مواخذہ

مراقبہ اور محاسبہ کے بعد مواخذہ کا عمل ہے۔ یعنی جو غلطی، کوتاہی اور نقص انفرادی و اجتماعی سطح پر سرزد ہوا ہے، اس کے ذمہ دار کا تعین کر کے گرفت بھی کی جائے۔ یہ امر ذہن میں رہے کہ نگرانی کرنے والا اسی صورت میں مؤاخذہ کا حق رکھتا ہے، اگر اس نے نگرانی کے تقاضے پورے کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ بیان فرما کر پہلے اپنی رحمت کی فراوانی بیان فرمائی۔ پھر اس کے بعد کہا: چونکہ میں رحمت کرتا ہوں، اس وجہ سے اب مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِ بھی ہوں، یعنی مؤاخذہ کا حق رکھتا ہوں۔ (وہ مالک ہے، تمام حقوق اسی کے ہیں) اگر کسی بڑے کا یہ تعلق چھوٹے سے نہیں ہے تو اسے قرآن مجید کی روشنی میں مؤاخذہ کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا جو شفقت نہیں کرتا، وہ مؤاخذہ کرنے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر وہ شفقت کے بغیر صرف مؤاخذہ ہی کرے تو وہ جابر تو ہو سکتا ہے نگران ہرگز نہیں۔

خلاصۂ کلام

خدمتِ دین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ اپنے اعمال، افعال اور اخلاق کو درست رکھیں۔ شریعت کی پابندی کریں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی بڑھ چڑھ کر خدمت کریں۔ کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑیں۔ ہمیشہ با جماعت نماز ادا کریں۔ گوشہ درود میں بیٹھا کریں۔ حق اور سچ بولیں۔ آپس میں محبت و مودّت سے رہیں۔ یاد رکھیں! جن پیڑوں پر پھل لگتے ہیں وہی جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھکے ہوئے دِل ہی پسند ہیں۔ جو درخت اکڑے ہوئے ہوتے ہیں ان پر کچھ نہیں لگتا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بھی اللہ کی بارگاہ میں جھکے ہوئے اور عاجز لوگ ہی پسند ہیں۔ جھکنے میں عظمت ہے جبکہ اکڑنے میں ذلت اور تباہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں استقامت، عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھکنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2019ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top