حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی میں اللہ کی خوشنودی
قرآن و حدیث کی متعدد نصوص و تصریحات اس امر پر دال ہیں کہ جس کام، جس چیز حتی کہ جس عبادت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش نہیں اس پر اللہ کریم بھی خوش نہیں۔ گویا اللہ کی خوشنودی بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی میں ہی پنہاں ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسند، طریقہ اور خواہش کے برعکس کوئی کام حتی کہ عبادت کرکے اللہ کو خوش کرے۔ اس اجمال کی تفصیل اور دعویٰ کی تصدیق کے لیے آئندہ سطور میں چند روایات و واقعات ملاحظہ ہوں:
1۔ طریقۂ عبادت میں بھی اطاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم
حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں کہ تین افراد (کثرت عبادت کے اشتیاق میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کے بارے پوچھیں تو جب انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کے بارے بتایا گیا تو گویا انہوں نے اس مقدارِ عبادت کو کم سمجھا اور کہنے لگے: ہمارا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیسے موازنہ ہوسکتا ہے، کیونکہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادیئے ہیں۔ اب ان میں سے ایک بولا: آئندہ کے لیے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا اور کبھی روزہ ترک نہ کروں گا جبکہ تیسرا کہنے لگا: میں ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اسی دوران نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تم ہی لوگ ہو جنہوں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ قسم بخدا میں تم سے زیادہ خشیتِ الہٰی رکھنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ( نفلی) رکھتا بھی ہوں اور (بعض اوقات) چھوڑ بھی دیتا ہوں۔ اسی طرح رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور (کچھ وقت رات کو) سوتا بھی ہوں۔ علاوہ ازیں میں نے کئی خواتین سے شادی بھی کررکھی ہے۔ فرمایا سن لو! جس آدمی نے میرے طریقہ/ سنت سے (اسے ہلکا سمجھ کر) اعراض کیا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ متفق علیہ
(مشکوٰة المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، ص: 27)
شارحین حدیث کی صراحت کے مطابق یہ تین افراد حضرت علی المرتضیٰ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن عفان l تھے۔ بعض نے حضرت عبداللہ کی جگہ حضرت مقداد کا نام لکھا ہے۔
(ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح، باب الاعتصام بالکتاب و السنه، 1/ 219)
حدیث کے الفاظ اور بیانیہ سے واضح ہے کہ ان تینوں صحابہ نے خدانخواستہ کسی غیر شرعی، ناجائز اور گناہ کے کام کا ارادہ نہیں کیا بلکہ اپنی اپنی جگہ پر عبادتِ الہٰی کرنے کا عندیہ اور عزم ظاہر کیا تھا مگر عبادتِ الہٰی کا یہ طریقہ اور انداز چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور طریقہ کے خلاف تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے میری کسی سنت/ معمول کو ہلکا اور معمولی سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور جس کا تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ رہا تو اس کا تعلق اللہ سے بھی منقطع ہوگیا۔
2۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ کو سرزنش
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ایک سریہ (جنگی مہم فوجی دستہ) میں (جانے کا حکم) بھیجا تو اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا اور ان کے سارے ساتھی (حسبِ حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) صبح کے وقت روانہ ہوگئے۔ مگر انہوں نے (دل میں) کہا: میں پیچھے رہ جاتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز (جمعہ) پڑھوں گا پھر ان ساتھیوں سے جاملوں گا۔ تو جب انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز (جمعہ) پڑھی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دیکھ لیا۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ روانہ نہیں ہوا؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھوں گا، پھر ان کے ساتھ مل جائوں گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اگر زمین میں موجود تمام کے تمام خزانے بھی خرچ کر ڈالے تو (میرے حکم پر) ان لوگوں کے صبح روانہ ہوجانے کی فضیلت کو نہیں پاسکتا۔
(جامع الترمذی، باب، ماجاء فی السفر یوم الجمعة، 1/ 231، رقم: 509)
یہاں بھی حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی نیت میں خدانخواستہ کوئی فتور نہ تھا۔ ان کا مقصود صرف یہ تھا کہ جمعہ کی نماز مسجدِ نبوی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں پڑھ لوں پھر اپنے ساتھیوں سے جاملوں گا۔ مگر اس عبادتِ الہٰی میں چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک قسم کی نافرمانی کا اظہار ہورہا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی سرزنش فرمائی۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوسری شادی کرنے سے منع فرمادیا
حضرت مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فتح مکہ کے بعد ایک مرتبہ ابوجہل کی مسلمان بیٹی (جویریہ) سے نکاح کرنا چاہا (اور یہ نکاح کرنا سورۃ النساء کی آیت نمبر 3 کی رو سے جائز بھی تھا مگر یہ معاملہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں آیا اور ابوجہل کے خاندان والوں نے اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برسرِ منبر اور علی الاعلان ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی کہ میں بنو ہشام بن المغیرہ کو اجازت نہیں دوں گا الاّ یہ کہ ابوطالب کا بیٹا (علی رضی اللہ عنہ ) میری لخت جگر کو طلاق دے دے اور ان (بنو ہشام) کی بیٹی سے نکاح کرلے۔ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو اسے بے قرار کرے گا وہ مجھے بے قرار کرے گا، جو اسے اذیت پہنچائے گا وہ مجھے اذیت پہنچائے گا۔ میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں ٹھہراتا مگر قسم بخدا! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی جمع نہیں ہوں گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ ناراضگی دیکھ کر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے (قرآن مجید میں چار شادیوں کی صریح اجازت ہونے کے باوجود) منگنی کا ارادہ ترک کردیا۔
(بخاری، کتاب الجهاد، باب ما ذکر من ورع النبی، 1/ 438)
چار شادیوں کی اجازتِ قرآن کو صاحبِ قرآن سے بڑھ کر کون آدمی سمجھ سکتا تھا مگر پیغمبر کی صاحبزادی کے ساتھ سوکناپے کے رشتے میں ایک سوکن کو جو دنیوی، دینی، ایمانی، روحانی اور اخروی نقصانات پہنچ سکتے تھے، ان کا اندازہ ہر آدمی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نگاہِ نبوت ہی سے دیکھ سکتا تھا۔
4۔ عرفات اور مزدلفہ میں نمازوں کو ان کے اوقات سے ہٹ کر ادا کرنا
مشہور فقہی مسئلہ ہے کہ حج کے موقعہ پر وقوفِ عرفہ کے دوران خطبہ حج کے بعد ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس دن مغرب کی نماز مزدلفہ میں نماز عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھی جاتی ہے، چاہے عرفات سے مزدلفہ پہنچتے پہنچتے مغرب کا وقت نکل ہی کیوں نہ جائے۔ چنانچہ مشہور حنفی فقیہ علامہ کا سانی فرماتے ہیں:
جب خطبۂ حج ختم ہوجائے تو اقامت کہی جائے، پھر امام ظہر کی نماز پڑھائے، پھر عصر کی نماز کے لیے اقامت کہی جائے اور عصر کی نماز پڑھائی جائے تو گویا ظہر و عصر کی نماز ایک اذان اور دو اقامتوں سے اکٹھی ادا کی جائیں گی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دو نمازوں کو مقام عرفات میں یوم عرفہ میں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ اکٹھا ادا فرمایا اور ان سے پہلے نہ ان کے بعد نفل پڑھے باوجود یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل کا اشتیاق رکھتے تھے۔
(بدائع الصنائع، کتاب الحج، 2/ 438)
اسی طرح وقوفِ مزدلفہ کے دوران مغرب اور عشاء کی نماز ملا کر پڑھنے کے متعلق فرماتے ہیں:
جب عشاء کا وقت ہوجائے تو مؤذن اذان دے اور اقامت کہے، پھر امام عشاء کے وقت میں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ پہلے مغرب کی نماز پڑھائے پھر عشاء کی نماز پڑھائے۔ یہ ہمارے اصحاب ثلاثہ کا قول ہے۔
درج بالا صراحت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب میدانِ عرفات میں روزمرہ کے عام معمول کے برعکس ایک ہی وقت میں جب ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی اسی طرح مغرب کی نماز مزدلفہ میں عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرامؓ نے نماز کے بارے قرآن مجید کے عمومی حکم:
اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا.
(النساء، 4: 103)
’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے‘‘۔
کو نہیں دیکھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل/ حکم یا خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر ادا کرنے کی بجائے ایک ہی وقت میں ادا کیا۔
5۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اطاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نمازِ عصر قضاء کرنا
یہ بات مسلمان بچہ بچہ جانتا ہے کہ نماز کا اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنا اللہ کریم کی طرف سے فرض ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا.
(النساء، 4: 103)
’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی.
(البقرة، 2: 238)
’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی۔‘‘
اب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر اور باب العلم صحابی سے بڑھ کر کون آدمی آیاتِ کریمہ کے مفہوم اور اہمیت کو سمجھ سکتا تھا۔ اس کے باوجود ایک موقع پر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی یا آرام کی خاطر نماز کی پرواہ نہیں کی۔ چنانچہ سورج غروب ہوگیا اور ان کی نمازِ عصر فوت ہوگئی۔ مگر اللہ نے ان کے لیے ڈوبا ہوا سورج لوٹا دیا۔
اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیسjبیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی جارہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز نہیں پڑھی حتی کہ سورج غروب ہوگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! بے شک علی تیری اطاعت اور تیرے رسول کی اطاعت میں مشغول تھے تو ان پر سورج لوٹادے۔ حضرت اسماء کہتی ہیں: میں نے دیکھا کہ سورج غروب ہوگیا تھا اور پھر غروب ہونے کے بعد وہ دوبارہ طلوع ہوگیا۔
(المعجم الکبیر، 2/ 150-152، رقم الحدیث: 390)
6۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا
قرآن مجید کی اپنے ماننے والوں کو ہدایت بلکہ تلقین و تاکید ہے کہ:
وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِ.
(البقره، 2: 195)
’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
اب اس قرآنی ہدایت اور حکمِ الہٰی کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا تھا مگر انہوں نے ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت یا خوشنودی کی خاطر اس ہدایت کی پروا نہیں کی بلکہ اپنی جان کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی بھی قسم کی تکلیف سے بچانے کا اہتمام کیا۔ وہ یوں کہ ہجرتِ مدینہ کی رات جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چلتے چلتے اور جبل ثور کی بلندی اور سنگلاخ راستے پر حضور کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے غار ثور کے دہانے پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:
’’میں اس خدا کا واسطہ دے کر جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، عرض کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار میں تشریف نہ لے جایئے، پہلے میں داخل ہوں گا کیونکہ اگر وہاں کوئی موذی چیز ہو تو وہ پہلے مجھے اذیت پہنچائے‘‘۔
اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے۔ تاریک رات، پھر غار کا اندھیرا، کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ پہلے جھاڑو دیا، پھر غار کے چپہ چپہ کو ہاتھ سے ٹٹولا، جہاں کوئی سوراخ معلوم ہوا اپنی چادر پھاڑ پھاڑ کر اسے بند کیا، چادر ختم ہوگئی لیکن ایک سوراخ پھر بھی باقی رہ گیا۔ دل میں سوچا اس پر اپنی ایڑی رکھ کر بند کرلوں گا۔ ہر طرح مطمئن ہونے کے بعد عرض کیا: آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آیئے اور خود اس سوراخ پر ایڑی رکھ کر بیٹھ گئے۔ محبوبِ کائنات نے اپنا سر مبارک ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں رکھا اور استراحت فرما ہوگئے۔اس سوراخ میں سانپ تھا۔ اس نے ایک بار نہیں کئی بار ڈسا۔ زہر سارے جسم میں سرایت کرگیا لیکن کیا مجال کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ذرا سی جنبش کی ہو یا اضطراب کا مظاہرہ کیا ہو۔ تاہم درد کے باعث غیر اختیاری طور پر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیدار ہوئے اپنے یارِ غار کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی پھر جہاں سانپ نے ڈسا تھا وہاں اپنا لعاب دہن لگادیا جس سے درد اور تکلیف کافور ہوگئی۔
ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حوالے سے اتباعِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرنے اور ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر مشروط وفاداری کا حکم دیا ہے۔ حضور کی اطاعت و اتباع سے گریز اللہ کے نزدیک منافقت ہے۔ خواہ وہ شخص احکام الہٰیہ کی پابندی کا جس قدر بھی دم بھرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا.
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔‘‘
(النساء، 4: 61)
اس آیت کریمہ نے یہ حقیقت واضح کردی کہ غلامی رسول کے بغیر اطاعت الہٰیہ کا دم بھرنا منافقت ہے۔ ایمان کی صحت کی علامت یہ ہے کہ انسان باری تعالیٰ سے اپنی نسبت غلامی و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قائم کرے۔ اس کے بغیر ایمان کے نام پر کی جانے والی ہر کوشش بے سود اور بے نتیجہ ہے۔
اس امر کی تصریح یوں کی گئی ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
(آل عمران، 3: 31)
گویا خدا کا محبوب و مقرب ہونا اس امر پر منحصر ہے کہ وہ بندہ کس قدر غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیور سے آراستہ ہے۔ ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمانوں کی غیر مشروط وفاداری کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ باری تعالیٰ اپنے فیضان و عطا کا مقصد منتہا رضائے محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دیتے ہیں۔ ارشاد ایزدی ہے:
وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.
’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔‘‘
(الضحیٰ، 93: 5)
اگر خالق کائنات اپنی عطائوں کی غایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو قرار دیتا ہے تو یہ حکم مسلمانوں کے لیے حضور علیہ السلام کی ذات مقدسہ سے دائمی اور مخلصانہ وفاداری کی صورت میں فرض کیوں نہیں قرار پائے گا۔
تبصرہ