شاعری ہم وارث پیغمبری است

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں پاک و ہند کے شعراء دنیا کی حقیقتوں کو فراموش کرکے ایک فرضی اور خیالی دنیا میں جی رہے تھے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے قدیم مکتب کے پابند ہمعصر شعرا کے برعکس فن و ادب کو زندگی کا مقصد قرار دیا اور شاعری کو انسانیت کی خدمت ٹھہرایا۔ اقبال فرماتے ہیں:

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

جس سے دل دریا متلام نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو یا معنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

اقبال کے نزدیک شاعر و ادیب کو بھی دیگر زندہ انسانوں کی طرح زندگی کے مصائب و آلام کو سمجھنا چاہئے اور جو شاعر زندگی کی حقیقتوں کا سامنا نہیں کرسکتا وہ وقتی طور پر تو اپنی خوبصورت شاعری سے لوگوں کو لبھاتا ہے مگر قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتا لہذا اقبال نے عصری ادب کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اپنی ولولہ انگیز شاعری کے ذریعے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے انہیں غلامی کی زنجیریں توڑنے کا سبق دیا اور مسلمان قوم کو اپنے اسلامی تشخص کا احساس دلاکر ایک دفعہ پھر سے نئی تاریخ رقم کرنے پر ابھارا۔

اقبال کے نزدیک ایک باصلاحیت شاعر کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ اپنے کلام میں زندگی کے حقائق کو انتہائی دلکش انداز میں پیش کرے تاکہ اس کا کلام انسانی فطرت کا ترجمان بن جائے اور جو شاعر اس صلاحیت فن سے بے بہرہ ہے وہ اپنے کلام کی تمام تر خوشنمائی کے باوجود شاعری کے اس اعلیٰ مقام کو نہیں حاصل کرسکتا جو اس کی معراج ہے جیسا کہ سورۃ الشعراء (255-226) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وہ یوں ہی ادھر ادھر صحرا نور دیاں اور دشت پیمایاں کرتے پھرتے ہیں اور ان کے قول و فعل اور قلب و زبان میں بھی ہم آہنگی نہیں ہوتی۔‘‘

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کیا ہونی چاہئے اور کیا نہیں ہونی چاہئے۔ علامہ اقبال کے ایک انگریزی بیان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ موجود ہے کہ آپ نے عمدہ شاعری کے بارے میں کیا فرمایا تھا۔ اپنے اس بیان میں علامہ نے دور جاہلیت کے دو معتبر اور معروف شعراء امراء القیس اور عنترہ کے کلام کا حوالہ دیا ہے کہ امراء القیس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:

اشعرالشعراء قائدهم الی النار.

کیونکہ امراء القیس کے ہاں جملہ شعراء کی نسبت شعریت زیادہ پائی جاتی ہے۔ لہذا یہ شاعر جہنم کی جانب سفر کرنے والوں کا سردار ہے جبکہ اس کے برعکس عنترہ کے صرف ایک شعر کو سن کر اس سے ملنے کا اظہار فرمایا۔ وہ شعر ملاحظہ ہو:

ولقد ابیت علی الطوی اظله
حتی انال به کریم الماکل

یعنی میں تمام راتیں سخت محنت میں بسر کرتا ہوں تاکہ روزی کما سکوں جو کہ ایک باوقار شخص کے شایانِ شان ہو۔

اس سلسلے میں اقبال لکھتے ہیں:

’’رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی مقصد زندگی کو چار چاند لگانا تھا اور زندگی کی جملہ آزمائشوں کو آراستہ کرنا تھا۔ یہ شعر سن کر بے حد مسرور ہوئے اور اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ایک عرب کی تعریف و توصیف نے میرے دل میں کبھی اس سے ملنے کی خواہش نہیں کی لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں اس شعر کے خالق سے ملنا چاہتا ہوں، رسولِ مقبول کی اس شعر کی ستائش سے فن کے ایک عظیم اور قابل قدر اصول کا اظہار ہوتا ہے کہ فن زندگی کے تابع ہے اس سے اعلیٰ و ارفع نہیں‘‘۔

لہذا علامہ اقبال کا کلام نثری مضامین، مکتوبات و ملفوظات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ وہ ایک بامقصد ادب تخلیق کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایسا مقصد جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو اور اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل ہو اور اقبال نے اس مقصد کے حصول کے لیے روایتی اسلوب زبان و بیان سے بریت کا اظہار یوں کیا:

نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم
مثالِ شاعراں افسانہ بستم

نہ بینی خیز ازاں مرد فرو دست
کہ بر ما تہمت شعر و سخن بست

بکوئے دلبراں کارے ندارم
دل زارے غم یارے ندارم

نہ خاک من غبار رہگزارے
نہ در خاکم دلِ بے اختیار بے

بجبریل امیں ہم داستانم
رقیب و قاصد و درباں ندانم

اقبال شاعروں کو زندگی کی حقیقتوں پر غور کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ادب میں فکر صالح کی ضرورت ہے تم شعرو ادب میں مغربی خیالات اور تصورات کی تقلید کرتے ہو۔ حالانکہ عربی انداز فکر کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ گل و لالہ سے بہت کچھ لطف اندوز ہوئے۔ ذرا ریگِ سوزاں کے چشمہ زمزم میں بھی غوطہ لگاکر دیکھو‘‘۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی میں اسرار و رموز سے لے کر ارمغانِ حجاز تک جو کچھ بھی لکھا اس کا ایک خاص مقصد تھا اور اس مقصد کی اساس و بنیاد صرف اور صرف قرآن پر تھی اور اپنے اس مقصد کو نبی کریم کے حضور التجا پیش کرتے ہوئے اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآن مضمر است

پردۂ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن

روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا

لہذا اقبال اپنی پوری شاعری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ نبھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تمام شاعری میں صرف اور صرف قرآن ہی کا مقصد عظیم پنہاں نظر آتا ہے کیونکہ قرآن حکیم حضرت علامہ کے نزدیک ’’کتاب زندہ‘‘ ہے اور زندگی آموز روح عطا کرتی ہے۔ اس کا بھیجنے والا علیم و حکیم ہے۔ لہذا قرآن حکیم کی تعلیمات لازوال ہیں اور اس کائنات میں رونما ہونے والے حادثات سے کسی قسم کا کوئی اندیشہ و خلل نہیں وہ بات جو حقیقت ہے قرآن ہے باقی سب باطل ہے۔

اپنے بارے میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد محترم اپنے اوراد و وظائف سے فرصت پاکر آتے اور مجھے دیکھ کر گزر جاتے۔ ایک دن صبح کو میرے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ بیٹا یہ کہنا تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ تم پر اثر کر رہا ہے یعنی اللہ تم سے ہمکلام ہے اور اپنے ایک شعر میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

اقبال نیاز الدین خان کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کثرت سے پڑھنا چاہئے تاکہ قلبِ محمدی سے نسبت پیدا کرے۔ نسبت محمدیہ کی تولید کے لیے ضروری ہے کہ اس کے معنی بھی آتے ہوں۔ خلوص دل کے ساتھ محض قرات کافی ہے۔

چونکہ اسلام کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے لہذا اقبال نے اپنے پیغام میں قرآن کو پڑھنے اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے پر بڑا زور دیا ہے۔ وہ واعظ قرآن کی بجائے اس میں غوطہ زن ہوکر اطمینان قلب حاصل کرے تاکہ کثرت تلاوت سے ان کی طبیعت کو قلب محمدی سے نسبت پیدا ہوجائے۔ لہذا کلام پاک پڑھنے کے دوران اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرنا ان کا معمول تھا۔ آیات قرآنیہ پر تفکر کے دوران ان کا دل پگھل جانا اور بد ن پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ آنکھوں سے عشق خدا و رسول کے سوتے ابل پڑتے اور ایسی حالت میں جب اقبال ایسی پر تاثیر تلاوت کرتے کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور تو دیکھتا ہے کہ جب یہ لوگ اس قرآن کو سنتے ہیں جو ہمارے رسول پر نازل کیا گیا تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے ہیں کیونکہ امر حق کو انہوں نے پہچان لیا ہے‘‘۔

کیونکہ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ وہ پہلے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے پھر اس کے ظاہرو باطن پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قاری مکمل طور پر قرآن سے مغلوب نظر آتا ہے اور اس کے ہر انداز سے قرآن کا رنگ جھلکتا ہے اور یوں وہ قاری کی بجائے قرآن نظر آنے لگتا ہے۔ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقبال کے قرآنی پیغام کو سید سلیمان ندوی یوں بیان کرتے ہیں:

’’حضرت اقبال کی شاعری اب شاعری کی حدود سے نکل کر حکمت کے سدرۃ المنتہٰی تک پہنچ چکی ہے اور ان من الشعرالحکمۃ کی خلعت نبوی سے سرفراز ہوچکی ہے۔ اب ان کی شاعری میں جذبات کا سراب نہیں بلکہ بصیرت اور موعظت ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان کے بزرگوں کا تاریخی پیغام سنانے کے لیے نہیں بلکہ قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ سمجھانے کے لیے ہے۔ وہ اب میدان جنگ کا رجز یا مسافران راہ کے لیے بانگ درا نہیں بلکہ غورو فکر کے غارِ حرا سے ناموس اکبر کی آمد اور جبریل امین کا پیغام ہے۔

اقبال کے داعی قرآن ہونے کا اعتراف نہ صرف مسلمانان عالم نے کیا بلکہ غیر مسلم سکالرز بھی اقبال کے اس کردار کے معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے بھی اقبال کے اس کردار کو پیغمبر کے متعین کردہ فریضہ تبلیغ کا اہم جزو قرار دیا اور بالآخر پوری دنیا نے جان لیا کہ اقبال نے اسرار و رموز سے لے کر ارمغان حجاز تک جو کچھ بھی لکھا وہ ان کا قرآنی پیغام ہی تھا کیونکہ اس کی بنیاد صرف اور صرف قرآن پر تھی۔‘‘

المختصر یہ کہ اقبال مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں تبلیغ دین کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اور انہیں اس حقیقت کا بھی مکمل ادراک تھا کہ مسلمانوں کا وجود صرف اسی اہم فریضے کی ادائیگی کا مرہون منت جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی امت کو سونپ دیا۔ لہذا اقبال نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اس فریضے کو اپنی شاعری کے ذریعے اس طرح نبھایا کہ ان کا کلام اس بات کا امین بن گیا کہ:

حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گر در چو سوز از دل گرفت

فطرت شاعر سراپا جستجو است
خالق و پروردگا آرزو است

شاعر اندر سینہ ملت چو دل
ملتے بے شاعرے انبار گل

شعر را مقصود گر آدم گری است
شاعری ہم وارثِ پیغمبری است

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top