نظام تعلیم میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے: ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

3 دھڑوں پر مشتمل نظام تعلیم طبقاتی تقسیم کو دن بدن گہرا کر رہا ہے: ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جو قومیں آج ترقی یافتہ ہیں انہوں نے ایک تعلیمی نصاب سے یہ کامیابیاں حاصل کیں، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل

لاہور (8 اکتوبر 2020ء) منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنر کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا ہے کہ نظام تعلیم میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، ایک سے زائد نظام تعلیم اور مختلف معیارات اور سہولتوں پر مبنی تعلیمی ادارے ایک قوم بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک ریاست پاکستان کے ہر بچے کو پڑھنے کے لئے ایک جیسا تعلیمی نصاب اور تعلیمی ماحول میسر نہیں آتا تب تک امتیازی اور استحصالی رویے ہمارے معاشرے کا حصہ رہیں گے اور قوم تضادات اور عدم مساوات کا شکار رہے گی۔ ہر شہری کو ایک جیسی سہولتیں مہیا کرنا نہ صرف آئینی، اسلامی فریضہ ہے بلکہ یہ ایک انسانی تقاضا بھی ہے۔ جو قومیں آج باوقار اور ترقی یافتہ ہیں انہوں نے یہ کامیابیاں یکساں نصاب اور نظام تعلیم کے ذریعے سے حاصل کی ہیں۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت تین قسم کے تعلیمی ادارے تعلیم دے رہے ہیں: ایک عوامی تعلیمی ادارے ہیں جن میں سرکاری سکول اور پرائیویٹ سیکٹر بھی شامل ہے، دوسرا انگلش میڈیم ادارے ہیں، تیسرا دینی مدارس ہیں۔ اس متصادم تعلیمی نظام کے باعث دو پاکستان کی اصطلاح وجود میں آئی ہے، یہاں دو طرح کے طبقے اپنا وجود رکھتے ہیں: ایک انگلش بولنے والا طبقہ اور ایک ٹاٹ سکول کا پڑھا ہوا طبقہ، اس دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے نسلی عصبیت نے جنم لیا، امیر اور غریب کے تصادم نے جنم لیا اور بطور قوم ہماری بنیادوں کو اس دہرے اور تہرے نظام تعلیم نے کھوکھلا بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تجویز دی کہ بلا تاخیر یکساں نظام تعلیم نافذ کیا جائے اور ریاست پاکستان کے ہر بچے کے لئے معیاری تعلیم کی آئینی ذمہ داری کو پورا کیا جائے اور مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے اور وہاں علوم شریعہ کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے بچے صرف آئمہ مساجد نہ بنیں بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں کو اس بات کا کریڈٹ دوں گا بالخصوص کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز ایک ایسا دینی تعلیمی ادارہ ہے جہاں شریعہ اور فقہ کے علوم کے ساتھ ساتھ طالب علم کمپیوٹر سائنسز اور اکنامکس کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قیام پاکستان کے وقت شرح خواندگی 11 فیصد تھی، اگر ہر سال ایک فیصد بھی شرح خواندگی بڑھتی تو آج شرح خواندگی 84 فیصد ہوتی جو 60 فیصد سے کم ہے، سری لنکا خطہ کاایک واحد ملک ہے جس کے پاس کوئی بہت زیادہ وسائل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود شرح خواندگی 98 فیصد ہے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top