17 جون 2014ء: پولیس کا شب خون اور القادریہ کی اندرونی کہانی
17 جون 2014ء القادریہ ہاؤس، رہائش گاہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر ریاستی حملے کے وقت حرمت کدہ قائدِ عزیمت، قائدِ انقلاب القادریہ (ماڈل ٹاؤن لاہور) کے اندر حضور شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ اور صاحبزادگان ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا عزم و استقلال، جرأت اور استقامتِ ایمانی قطعی اور انقلابی تھی۔ جدید آتشیں اسلحہ اور بکتر بند گاڑیوں کی بہتات، آنسو گیس کی شدید شیلنگ، گولہ بارود کی گھن گرج اور بیت القادریہ کے باہر اندوہ آگیں سنگین صورتِ حال اندرون خانہ خانوادہ قائدِ انقلاب کے پاے استقامت میں معمولی لرزش بھی پیدا نہ کرسکی۔ آپ کے صاحبزادگان کے بالخصوص اور دیگر مستوراتِ خانہ کے بالعموم حوصلے بلند اور ارادے چٹانی نظر آئے۔
قارئین کرام! بیت القادریہ کے اَطراف و اَکناف میں شدید جنگ کی سی کیفیت تھی، آنسو گیس کی شدید شیلنگ اور بلا تعطل اندھا دھند فائرنگ سے باہر کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ تاہم اندرونِ خانہ بھی صورتِ حال کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ آنسو گیس کے باعث سانسوں میں خاصی دقت کا سامنا تھا، چند انتہائی قریبی اعزا و اقارب جن میں میں بھی شامل تھا، سنگینی حالات کے تحت خانوادہ شیخ الاسلام پر آنے والے ہر حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری طرح کمربستہ تھے۔ جہاں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اپنی والدہ صاحبہ اور دیگر فیملی کے ہمراہ قیام پذیر تھے، ان کے درمیان اور حملہ آوروں کے درمیان ایک دیوار اور مین سڑک پر واقع ایک آہنی گیٹ تھا جو شدید اور بلاتعطل سیدھی گولیاں چلنے کے باعث پوری طرح چھلنی ہوچکے تھے اور باہر سرکاری، سفاک گماشتوں نے قائد ہاؤس میں داخل نہ ہونے دینے کی پاداش میں جذبہ شہادت سے سرشار قائد کی دو تحریکی بیٹیاں شدید فائرنگ کرکے شہید کردی تھیں۔ اس کا زمانہ گواہ ہے اور میڈیا ہر لمحاتِ شہادت محفوظ کرچکا تھا۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ عرش بھی کانپ گیا ہوگا، وقت کی ساعتیں رک سی گئی ہوں گی اور ایک دفعہ تو کراماً کاتبین دو معتبر بزرگ فرشتے جو ہر انسان کے اعمالِ بد اور اعمالِ صالحہ تحریر کرتے ہیں، ان کے دستِ عدل و انصاف سے قلم تھرتھرا گیا ہوگا۔
یہ قابلِ ذکر اور انتہائی قابلِ فخر لمحات تھے جب باہر حملے کی شدت اور آہنی گیٹ اور قفل ٹوٹ جانے اور درمیانی حدِ فاصل دیوار کا چھلنی ہوجانا معلوم کرکے بھی! صاحبزادگانِ قائدِ انقلاب اور محترمہ امی حضور (مادر ملت منہاج) کے صبر و استقلال میں لرزش نہ آنے پائی۔ صاحبزادگان قائد انقلاب کی ہوبہو تصویر جرأت و استقامت بنے بلند حوصلگی سے تحریکی ورکرزکے لیے نہ صرف فکر مند رہے بلکہ تحریکی بیٹے بیٹیوں کی شہادتوں کا غم اہل خانہ پر انتہائی گراں گزر رہا تھا۔ تاہم صاحبزادگان نے حکمِ قائد محترم پر گارڈ کو جوابی فائرنگ نہ کرنے اور کوئی غیر قانونی اقدام نہ اٹھانے کی دانش مندانہ ہدایات جاری کر رکھی تھیں جس کے باعث چابک دست، مکار، عیار، گراوٹ کی انتہائی پستی میں گرے بدبخت، غلیظ، اسلام دشمن، گھمنڈی عناصر نے جب ناجائز خون کی ہولناکی کے باعث سیکڑوں جوانوں کے گرتے لاشے دیکھے اور سمجھا کہ شیخ الاسلام کے خانوادہ کے پائے استقامت میں ہلکی سی بھی جنبش و لرزش نہ آنے پائی تو باطل کے قدم اکھڑ گئے۔ حکومتی گماشتوں کے پسینے چھوٹ گئے۔
صاحبزادگان القادریہ ہاؤس کے اطراف و اکناف حملے کے معاً بعد حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے بلند حوصلے اور ضبط و تحمل کے دامن کو تھامے ہوئے زخمیوں اور شہیدوں کو ہسپتال میں ہر صورت پہنچانے کے احکامات صادر فرما رہے تھے۔ صاحبزادگان کے دل اور ارادے مضبوط مگر دو شہید بیٹیوں اور دیگر جوان اور بوڑھے شہداء کی اختیاری شہادت پر آنکھیں اشک بار تھیں۔ یہ بات خاص قابلِ صد ستائش ہے کہ قائدِ عظیم المرتبت کے صاحبزادگان اور اہلیہ محترمہ کی ہمت، استقامت، ثابت قدمی بے مثل اور شیخ الاسلام کی انقلابی روحانی اور عملی تربیت کی آئینہ دار تھی۔ ادھر محترمہ امی حضور (اہلیہ محترمہ قائد انقلاب) رقت قلبی کے باعث غم سے نڈھال تھیں۔ تنزیلہ باجی شہید اور شازیہ مرتضیٰ شہید کی پرعزم اور دلیرانہ شہادت نے جہاں صدمے سے دوچار کیا وہاں ایک اور آفت بھی نظر آئی جب باہر سے ایک خبر آئی کہ آہنی گیٹ ٹوٹنے کے بعد پولیس کے گماشتے پوری طاقت کے ساتھ قائد انقلاب ہاؤس میں گھس آئے ہیں۔ خدا شاہد ہے کہ صاحبزادگان کے ساتھ اور محترمہ امی حضور کے ساتھ قریبی خونی اعزہ و اقارب نے اپنے جواں سالہ بیٹوں کے ہمراہ صاحبزادگان اور بیگم صاحبہ سے بھی پہلے اپنی شہادت دینے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا۔ صاحبزادگان اور قبلہ حضور کی فیملی کے چہروں پر ایک خاص اطمینانِ قلب اور ارادوں میں مرتضائیت مگر خون ناحق پر کرب اور غمناکی نمایاں تھی۔ شہداء اور زخمیوں کی فکر کھائے جارہی تھی۔ ہم پوری طرح باوضو ہو کر شہادت کے لیے تیار اور محو درود پاک تھے۔
راقم عینی شاہدِ موقع ہے اور خدا اور رسول ﷺ گواہ ہیں کہ قائد محترم کو اپنے صاحبزادگان اور فیملی کی قطعی فکر لاحق نہ تھی۔ مسلسل خرم نواز گنڈا پور صاحب اور دیگر ذرائع سے شہید اور زخمی تحریکی بیٹوں اور بیٹیوں کی بابت دریافت کررہے تھے۔ شہداء کے گرتے ہوئے لاشوں پر کرب ناک اور غم ناک تھے، زخمیوں کی فکر مضطرب کررہی تھی۔ انتہائی نڈھال دکھائی دیئے۔ ٹیلی فون پر باطل سے نبرد آزمائی پر خراج تحسین پیش کررہے تھے۔ خدا شاہد ہے کہ ایک ایسا لمحہ بھی آیا کہ معلوم ہوا کہ پولیس اسلحہ لے کر اندر کمرے میں آگئی ہے۔ والدہ محترمہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری جو عبایا میں مکمل طور ملبوس باوضو پاس ہی تھیں یکدم صاحبزادگان پر گرگئیں اور مخاطب ہوئیں: ظالم! بدبختو! خدارا! میرے دونوں بیٹوں سے پہلے مجھے شہادت دو، میری بیٹیوں کو شہید کیا ہے مجھے بھی شہید کریں۔ وقت کے فرعونو! یزیدی سوچ کے علمبردارو! ہم قائد انقلاب کے اہل خانہ ہیں، ہم کربلا کے مسافر ہیں، ہماری منزل گنبد خضرا ہے، ہمارے بیٹے امام عالی مقام کے غلام اور قائد انقلاب کے قابلِ فخر سپوت ہیں، قائد کی بیٹیاں خطیبِ شام کی باندیاں اور زہرا بتول کی کنیزیں ہیں، شہادت ہمارا فخر ہے، یہ یزیدی اُوچھے ہتھکنڈے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
شیخ الاسلام مسلسل اپنے تحریکی بیٹے بیٹیوں کی لمحہ بہ لمحہ ڈھارس بندھاتے رہے۔ وہ کلمہ پاک اور درود و سلام کی کثرت کا حکم دے رہے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ اتنے بڑے معرکہ اور پرخطر اچانک حملے پر تحریکی احباب سے فرمارہے تھے: خدا کی قسم! میرا دل جہاں اس اندوہ آگیں اور غم ناک یوم سیاہ پر خون کے آنسو رو رہا ہے وہاں میں دونوں جہانوں میں اپنے تحریکی بیٹے اور بیٹیوں کی ناقابلِ فراموش قربانی پر انہیں صد بار چومتا ہوں۔ مبارک باد دیتا ہوں۔
اسی وقت گنڈا پور صاحب نے خبر دی کہ تنزیلہ باجی اور شازیہ مرتضیٰ باجی کی پرعزم اور دلیرانہ شہادت اور شہید نوجوانوں کے لاشوں نے شہبازی و نوازی فورسز کے قدم اکھاڑ دیئے ہیں، ہمارے نہتے قائد کے انقلابی بیٹے بیٹیوں نے ابن ملجم (سابقہ وزیر قانون) کے دانت کھٹے کردیئے ہیں، اتنی بڑی طاغوتی، فرعونی اور قارونی طاقت گھٹنے ٹیک کر پسپائی کے باعث دم دبا کر دوڑ گئی ہے۔ ظالم کی پسپائی کے بعد صاحبزادگان کی امامت میں ہم نے نماز ظہر ادا کی۔ خالق کے حضور حاضری کے بعد صاحبزادگان خود باہر گئے، شہدا کے معصوم لاشے اور زخمیوں کو خصوصی انتظامات کے بعد ہسپتالوں میں بھیجا گیا اور چوبیس گھنٹے اپنی انتھک ٹیم اور دلیر ورکرز جن میں ویمن لیگ بھی تھی، خود نگرانی فرمائی۔ خواتین شہدائے اِنقلاب کی تجہیز و تکفین اور معاملات کی نگرانی اہلیہ محترمہ قائد انقلاب امی حضور نے خود فرمائی۔ آپ کی بیٹیاں ہسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کرتی رہیں۔ صاحبزادگان نے اپنے شہیدوں کے جنازے منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے سبزہ زار میں پڑھائے۔
قبلہ شیخ الاسلام کینیڈا سے خصوصی دعائیں کرتے رہے اور مسلسل مرد و زن شہداء کے لواحق ورثا کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ جی ہاں! سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی تاریخ شہدائے اِنقلاب کے مطہور و باوفا خون سے رقم ہوچکی۔
قائد عظیم المرتبت شیخ الاسلام کی حکمت و دانش اورنگاہ دور اندیشی کے باعث اور دعائے مستجاب کے طفیل چودہ لاشے شہداے اِنقلاب کے اور سو سے زائد جواں ہمت قائد انقلاب کے روحانی بیٹے اور بیٹیوں کے گولیوں سے چھلنی فولادی اور انقلابی اجسام ہزارہا یزیدی سوچ و ارادوں کے حامل سفاک سرکاری وفادار باوردی گلوبٹوں اور کم ظرف جلادوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور خانوادہ قائد عظیم کو مٹانے کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیے۔ چند کلومیٹر کے فاصلے پر اقتدارِ قارونیت کے نشے میں چور، بدمست یزیدی نظریات و افکار کا آئینہ دار، بادشاہتِ شریفیہ کا کپوت ناحق شناس ابن زیاد ثانی جو اپنی کمین گاہ میں بیٹھا خانوادہ شیخ الاسلام کے نیست و نابود کی خبروں کا منتظر تھا، اسے اتنے بڑے لاؤ لشکر جدید آتشیں اسلحے اور سامان حرب اور سوچی، سمجھی منصوبہ بندی کے باوجود ذلت و رسوائی اور ناکامی کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ اُس کے چند خفیہ مضمر محرکات اور ہاتھوں کی قلعی کھل گئی۔
خصوصی دعا: اِلتجائے مظلومین
قارئین ذی وقار! راقم نے تفصیلی مشاہداتی حق گوئی پر مبنی عمومی داستان سترہ جون 2014ء اور خصوصی تناظر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اندرونی داستان حرم سرائے شیخ الاسلام دامن قرطاس پر مزیّن کی ہے اور آخر میں خصوصی دعا اور التجائے مظلومین قرآنی احکاماتِ الہٰیہ کی روشنی آپ کی خصوصی توجہ کی منتظر ہے:
مالک یوم الدین، رب مظلومیں، خالق کائنات کے حضور دست بستہ تہی دامن خصوصی التجا ہے کہ اے رب مظلومین! المقسط القہار تو نے قرآن عظیم میں فرمایا ہے کہ:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی.
’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں۔‘‘
(البقره، 2: 178)
اے مظلوموں کے رب! زبردست اور عدل کرنے والے! سترہ جون تیرے محبوب نورٌ علی نور، محمد رسول اللہ ﷺ کے مہمان خانے منہاج القرآن میں جابر حکومت کے بدمست گماشتوں نے خانہ خدا اور گوشہ درود و سلام میں جوتوں سمیت گھس کر محو درود و سلام اور محو تلاوت قرآن ذاکرین کو روزے کی حالت میں جدید آتشیں اسلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کرکے خون ناحق میں نہلادیا۔ اے خالق عظیم! تیرے گھر مسجد کی بے حرمتی اور بے توقیری کی گئی کہ جب تیرے عباد ساجدین، صالحین تیرے اس درود و سلام میں مصروف تھے جس کے لیے تیرا حکم ہے:
اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِىِّ ط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
(الاحزاب، 33: 56)
اے خالقِ ارض و سماوات! تیری سنت نعت محبوب ﷺ (درود و سلام) اور تیرا قرآن پڑھتے ہوئے بے گناہ ذبح کردیئے گئے تو ان کے قصاص (خون کے بدلے) میں اپنا حکم صادر فرما۔ ہم ناتواں اور کمزور ہیں، تیری دنیا میں سارے عادل منصف سوگئے ہیں۔ فقط تو حیی القیوم ہے، نہ تجھے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی تجھے نیند آتی ہے۔ دنیا کے منصفوں کو عدل و انصاف کی توفیق عطا فرمادے۔
اے منتقمِ حقیقی! خالقِ کائنات، خداوند ذو الجلال تو نے اپنی کتاب مبین میں فرمایا ہے:
وَاللهُ عَزِیْزٌ ذُوْانْتِقَامٍ.
’’اور اللہ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے۔‘‘
(آل عمران، 3: 4)
رَبِّ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتصر
اے میرے پالن ہار، ہم لاچار ہیں ہماری مدد فرما اور سترہ جون کو ظلم کی آندھی چلانے والوں سے اپنے مظلوموں کا بدلہ لے۔ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ، رب العالمین سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مـظلوموں کا اپنے دستِ قدرت سے بدلہ لے، ہم کمزور اور ناتواں ہیں، فقط تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔
اے قادرِ مطلق! تیرا حکم قرآنی ہے کہ:
اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَهِیْدٌ.
’’بے شک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے۔‘‘
(الحج، 22: 17)
اے ربِ عظیم! مظلومین پر تیری بادشاہت میں شب خون مارا گیا۔ تیرے عبد صالح، تیرے شب بیدار، تیرے خادم دین حق جسے تو نے اپنے فضل سے نابغہ عصر، خطیب العصر، مجتہد عظیم، مجدد عصر اور شیخ الاسلام کے القابات و انعامات سے نواز رکھا ہے، اس کے اور تیرے حبیب کے چاہنے والے مسکینوں اور تیرے اسلام کی نام لیوا پاکیزہ عفت مآب تیرے محمد طاہر کی روحانی بیٹیوں کو درود و سلام پڑھنے کی پاداش میں عبادت اور ذکر کی حالت میں سفاکی سے شہید کیا گیا۔ میرے خالق! بے شک تو ہر شے کا ہمہ وقت مشاہدہ فرمارہا ہے۔ اے رب کعبہ! ہمارے مظلومین کے قاتلوں کو اپنے عظیم مشاہدے کے باعث نشانِ عبرت بنادے تو تو ہر چیز پر قدرت اور دسترس رکھتا ہے۔
اے خبیر و علیم! آپ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ:
وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ.
’’اور وہ خوب فیصلہ فرمانے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
(سبا، 34: 26)
اے رب محمد! آپ دلوں کے اندر ارادے سے بھی پہلے کے بھید اور رازوں سے باخبر ہیں۔ تجھے تیری شانِ علیمی کا واسطہ! ہمارے ظاہر اور چھپے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچادے۔آمین
اے مستجیب الدعوات! آپ نے ہمیں اپنی بارگاہ میں دستِ سوال دراز کرنے کا قرینہ عطا کیا، دستِ طلب پھیلانے کا طریقہ سکھایا۔ جیسا کہ فرمایا:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ.
’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
(الفاتحه، 1: 4)
ہماری دعاؤں کو مستجابی عطا فرما، ہماری التجا قبول فرما، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے چودہ شہید اور سو شدید زخمیوں کو انصاف سے ہمکنار فرمادے، ہم تیرے ہی بتائے ہوئے طریقے سے تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ عطاکردے۔ اے حاکم الحاکمین! تیرا فرمان ہے کہ :
اَلَیْسَ اللهُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ.
’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے۔‘‘
(التین، 95: 8)
اے حاکم اعلیٰ! پوری خلقت تیری محکوم ہے، بے شک تو ہی حاکموں کا حاکم عظیم ہے۔ اے جبار متکبر! جن پنجاب کے جھوٹے حاکموں نے تیرے حکم کے خلاف تیرے منہاج القرآن کے تقدس کو پامال کیا، تیرے محبوب کے ذکر کی جگہ گوشہ درود و سلام کی بے توقیری کی۔ تیری بادشاہت اعلیٰ میں جھوٹے حاکمین نے تیری اور تیرے حبیب کی اطاعت اور تیرے احکامات کی حکم عدولی کی ہے۔ خالق تو نے فرعون کو عبرت سے غرقِ آب فرمایا، اپنے موسیٰ علیہ السلام کو سرخرو فرمایا۔ رب الارباب تو نے قارونِ وقت کو تکبر کے باعث اس کے خزانے سمیت زمین میں دھنسادیا۔ اے مالک الملک! تو حکم کُن سے پوری کائنات کی کایا پلٹ دینے والا ہے۔ مالکِ کُن تیر اارادہ ہے اور فیکون تیرے ارادے کی تکمیل ہے۔
اے رب عظیم! تو نے اپنے برگزیدہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کے ظلم اور آگ سے کیسے بچایا؟ اور پھر تو اپنے تئیں خدا سمجھنے والے کافر کو ایک حقیر مچھر سے نشانِ عبرت بنادیا۔ خالق تیری شانِ عظیم کے صدقے جائیں قربان ہوں۔ جھوٹا خدائے زمانہ طلب سکون کے لیے لوگوں اور رعایا کی منت کرتا تھا کہ میرے سر میں جوتے مارو اور انعام حاصل کرو، خالق یہ تو ہی کررہا تھا۔ رب طاہر! فرید الدین کی دعاے مستجاب کے صدقے اپنے حکم کُن کی خیرات سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو انصاف عطا کر۔
اے مالکِ روزِ جزا! تو نے حکم دیا کہ ہم تجھ سے طلب کریں ہم نے کہا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘
(الفاتحه، 1: 5)
اے ہمارے پروردگار! آپ نے ہمیں منہاج القرآن (یعنی قرآن کے راستے) پر گامزن فرمایا۔ ہم تیرے فضل سے تیرے منہاج پر چل دیئے۔ خالق آپ نے پھر مانگنے کا حکم دیا:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ.
’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘
(الفاتحه، 1: 6)
بس مالکِ عظیم! آپ نے منہاج لقرآن میں اپنا ایک انعام یافتہ عبدِ صالح عطا کردیا جسے تیری مخلوق عالمِ دین، حق کا ہے ولی طاہرالقادری کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس نے ہمیں تیری بندگی کا سلیقہ عطا کیا، اس نے ہمارے نوجوانوں کی جبینوںکو تیرے حضور سجدہ کی لذتوں سے روشناس کروایا۔ اس نے تیری اور تیرے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع میں پڑنے اور باطل کے آگے نہ جھکنے کا درس تیری عظیم کتاب المبین (قرآن کریم سے) دیا۔
اے رب رحمن، خالقِ صاحبِ قرآن! آپ نے حکم دیا:
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ.
’’ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔‘‘
(الفاتحه، 1: 7)
اے خالقِ دو جہاں، رب المخلوقاتِ کُل، تیرے اور تیرے مصطفی کے دین کی سرفرازی اور سربلندی کے لیے تیرے طاہر نے ہمیں گمراہی اور غضب ناکی کے راستے پر چلنے سے بچایا۔ ہمارے قلب و روح کو نزہت و ندرتِ کمال عطا کی۔ خالق و مالکِ روزِ محشر! خادم دین اسلام تیرے طاہر نے ہمیں تیرے راستے پر چلایا اور گمراہی اور غضب ناکی کے راستے سے روکا۔
اے رب ذوالجلال والاکرام! بیواؤں اور یتیموں کے ملجا و ماویٰ، آپ نے قرآن الفرقان جو حق اور باطل میں فرق کرنے والا تیرا عظیم مجموعہ احکام ہے، اس میں ارشاد فرمایا ہے:
وَ مَنْ یَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَـهٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا ص وَلَـهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ.
’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلّت انگیز عذاب ہے۔‘‘
(النساء، 4: 14)
یا مُذِل، یا اللّٰہ (اے ذلت سے دو چار کرنے والے اللہ) تو شاہد صادق اور حاضر و ناظر ہے۔ اے قصاص فرض کرنے والے اللہ تو نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلاَّ بِالْحَقِّ ط وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَـلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ ط اِنَّهٗ کَانَ مَنْصُوْرًا.
(بنی اسرائیل، 17: 33)
’’اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے سوائے جائز (قانونی) طریقے کے، اور جو شخص ظلماً قتل کر دیا گیا تو بے شک ہم نے اس کے وارث کو (قانونی ضابطے کے مطابق قصاص کا) اِختیار دیا ہے، لیکن لازم ہے کہ وہ (قصاص کے طور پر) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ در حقیقت اُسے (قانون کا) تعاون حاصل ہے۔‘‘
یعنی کہ احکامِ قصاص کے تحت حکومتِ وقت ہر لحاظ سے مقتول کے ورثاء کی مدد اور حمایت کی ذمہ دار ہوگی۔ خالق کائنات! سترہ جون کو قتلِ ناحق کے لیے صریحاً (کھلم کھلا اعلانیہ) تیری حدود قرآنی سے تجاوز اور تیرے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی۔ رب مظلومین! اپنا وعدہ عذاب پورا فرمادے۔ شہداء کے یتیم بچے اور بیوگان تیرے وعدہ عبرتِ ظالمین کے لیے تیرے حضور سراپائے التجا ہیں۔ مولائے کائنات قاطعِ حدود اللہ کو کیفر کردار تک پہنچادے۔ آمین۔ خداوند قدوس تیرا حکم ہے:
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیْهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.
’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اسکی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
(النساء، 4: 93)
اے میرے ربِ جبار و قہار! تیرے حکم سے ظالمین پر دنیا لعنت تو بھیج رہی ہے مگر خالق! ظالم قاتلین دندناتے اور اتراتے پھرتے ہیں۔ ظالمین کی دراز رسی کاٹ دے۔ رب تعالیٰ یہ دنیا ہی ان کے لیے سترہ جون کے جرم قتلِ ناحق میں جہنم بنادے اور حدوداللہ سے تجاوز پر عذاب مہیب (خوفناک عذاب) سے دوچار فرمادے۔ رب عظیم! تیرا قانونِ قدرت ہے اور آپ نے قرآن عظیم میں فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ.
’’بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے‘‘۔
(البروج، 85: 10)
اے خالق کائنات! سترہ جون منہاج القرآن میں مومن مرد اور مومن عورتوں کا قتلِ ناحق تیرے فرمان کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ان ظالموں کے لیے دنیا اور آخرت جہنم بنادے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچادے۔ آمین
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2021ء
تبصرہ