ملکی ترقی کے لیے بینک شوگر ملز کی بجائے نوجوانوں کو قرض دیں: ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا نیشنل یوتھ ایوارڈ تقریب سے خطاب
جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منہاج یوتھ لیگ کے زیراہتمام منعقدہ نیشنل یوتھ ایوارڈ کی تقریب میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ترقی کے لیے پاکستان کے بینک شوگر ملز کی بجائے نوجوانوں کو قرض دیں، شوگر ملز کو قرضے دے کر آپ نے دیکھ لیا، اب نوجوانوں کو ٹیلنٹ کے لیے قرض دیں تو اب بھی ملکی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلنٹ کی قدر کرتے ہوئے ہمیں اپنے ملک کے ہیروز کو تسلیم کرنا ہو گا، جو قومیں ہیروز کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی تو وہاں پھر ہیروز پیدا ہونا بند ہو جاتے ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ جو کچھ منہاج القرآن کی بساط میں ہے، وہ ہم نے کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج خطہ میں معاشی ترقی کا موازانہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ 2005 میں آئی ٹی سیکٹر میں پاکستان کی سافٹ وئیر ایکسپورٹ 200 ملین ڈالر تھی، آج 16 سال بعد 2021ء میں پاکستان کی سافٹ وئیر ایکسپورٹ 635 ملین ڈالر تک پہنچی ہے۔ ہمارے ساتھ ہمسایہ ملک انڈیا آئی ٹی سیکٹر میں 2005ء میں 17 بلین ڈالر دنیا کو سافٹ ویئر ایکسپورٹ کر رہا تھا۔ آج انڈیا کی صرف سافٹ ویئر ایکسپورٹ 133 بلین ڈالر تک ہو چکی ہے۔ یعنی جتنا پاکستان پر کل قرض ہے اتنا انڈیا ایک سال میں دنیا کو سافٹ ویئر ایکسپورٹ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، ٹیلنٹ میں نوجوان اور پاکستان کی عوام خداداد صلاحیتوں کی مالک ہے۔ لیکن اس ٹیلنٹ کو حکومتی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا، یہ کریڈٹ صرف اور صرف پاکستان کی عوام کا ہے، جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی عالمی سطح پر ترقی کی ہے لیکن حکومت اور سسٹم نے یہ اہلیت پیدا نہیں کی۔ پاکستان میں باصلاحیت ٹیلنٹ کو حکومت اور پھر پرائیویٹ سیکٹر میں مواقع ملنے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر نوجوان کے ٹیلنٹ کی قدر ہوتی تو آج حکومتی نمائندے اس ایوارڈ کا اعتراف کرنے کے لیے یہاں تقریب میں موجود ہوتے، لیکن ان کی ترجیحات کچھ زیادہ اہم ہوں گی، جنہوں نے آخری وقت میں اس تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ معاشی میدان میں پاکستان نے کئی دہائیوں پر مشتمل زمانہ روایتی انڈسٹری کے ساتھ گزارا ہے۔ ٹیکسٹائل میں پاکستان کا بڑا نام ہے لیکن ٹیکسٹائل مشینری جاپان، جرمنی، چائینہ اور کوریا سے درآمد کی جاتی ہے۔ اس طرح فوڈ مینوفیکچرنگ ہے، کہ ہم بہت زیادہ فوڈ مینوفیکچرنگ کرتے ہیں لیکن یہ مشینری ہمارے پاس موجود نہیں۔ جس دن یہ مشینری ہمارے ملک میں بنے گی تو اس دن ہماری اصل ترقی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گریجوایٹس پیدا کرنے کی دوڑ میں پاکستان کوالٹی کی بجائے صرف عدد پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان کی انڈسٹریز میں کیے گئے انٹرنیشنل سروے کے مطابق پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کے اداروں سے پیدا ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ گریجوایٹس اور ہومین ریسورس سے 83 فیصد وربل کیمونیکیشن میں ناکام ہیں۔ 63 فیصد کے اندر ٹیم ورک موجود نہیں ہے۔ 57 فیصد گریجوایٹس میں رائیٹنگ کمیونیکشن سکلز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی گریجوایٹس کی عالمی سطح پر پزئرائی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود جب اس نظام میں سے کوئی انفرادی صلاحیت کا مالک نوجوان عالمی سطح پر اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو منوانے کے لیے سامنے آتا ہے تو پھر کہا جاتا ہے کہ یہ سسٹم کیخلاف آ گیا ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کیا ہمارے ادارے ایسے ہیں کہ ہم نالج بیسڈ اکانومی کھڑی کر سکیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسا کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کا ذمہ دار ٹیلنٹ اور نوجوان نہیں بلکہ یہ تعلیمی نظام اور حکومت ہے۔ اسی طرح ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے شعبہ میں پاکستان کی دگرگوں صورتحال ہے۔ کسی بھی پالیسی کی کامیابی کے لیے صرف حکومت ہی ذمہ دار ہے کہ کم از کم 10 سال پالیسی کا نفاذ کیا جائے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ منہاج یوتھ لیگ کو اس ایوارڈ تقریب اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کے اعتراف کرنے اور انہیں ایوارڈ دینے پر خصوصی مبارکباد دیتا ہوں۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ منہاج یوتھ لیگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا قائم کردہ پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے تمام ایوارڈ ونرز کو مبارکباد دی اور پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جو نوجوان ایوارڈ لینے میں کامیاب ہو کر ہیرو بنے ہیں، انہیں اپنی زندگی میں بھی حقیقی ہیرو بننا ہے۔ حقیقی ہیرو بننے کے لیے ایمانداری کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنانا ہے۔
تبصرہ