صدقہ و خیرات اور ایثار و قربانی اسلامی عبادات کی روح ہے: علامہ رانا محمد ادریس
اللہ رب العزت جس کو اپنا دوست بنا تاہے اس کا ظرف بڑا کر دیتا
ہے، نائب ناظم اعلیٰ
جو اللہ کیلئے دوسروں کی مدد کرے گا اللہ اُس کا مال گھٹنے نہیں دے گا، جمعۃ المبارک
کے اجتماع سے خطاب
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے نائب ناظم اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس نے جامع شیخ الاسلام میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مواخات، انفاق فی سبیل اللہ، صدقہ و خیرات اور ایثار و قربانی اسلامی عبادات کی روح ہے۔ اللہ رب العزت جس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے اس کا دل اور ظرف وسیع کر دیتا ہے۔ اولیاء اللہ ضرورت مندوں کی مدد اور اپنی صفت سخاوت کی وجہ سے ہزار سال کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور آج بھی ان کے مزارات ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر رہے ہیں جس طرح وہ اپنی زندگیوں میں بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اللہ جس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے اسے سخاوت کی توفیق کے خزانوں سے نواز دیتا ہے۔ اللہ کے بندے اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کیے گئے مال کا احسان نہیں جتلاتے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ میری راہ میں خرچ کرکے دیکھو میں تمھیں دنیا و آخرت میں حزن و ملال اور خوف و غم سے آزاد کر دوں گا۔
انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے کہ میرے راستے میں خرچ کرو اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے راستے میں خرچ نہ کر کے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کے انعام و اکرام سے بھی آگاہ فرمایا اور خرچ نہ کرنے کی ناراضی اور سزا سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔
علامہ رانا محمد ادریس نے کہا کہ پاکستان کے اکثریتی عوام آج غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں، آج اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کی جائے ان کی مدد اس طرح کی جائے کہ احسان نہ جتلایا جائے ایسے مخیر اور غنی بندوں کے لئے اللہ نے جہنم کی آگ سے نجات کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ناجائز منافع خوری نہ کر کے بھی اللہ کے بندوں کی مدد کی جائے جو اللہ کے لیے دوسروں کی مدد کرے گا اللہ اس کے مال کو گھٹنے نہیں دے گا اور اسے کبھی غربت و افلاس کا شکار نہیں ہونے دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ خرچ کرو اس سے پہلے کہ آپ کو موت آ لے جب کسی کا وقت آخر آئے۔
تبصرہ