تحریک منہاج القرآن کا تاریخی تسلسل

43th Foundation Day Minhaj ul Quran by Hasan Jamati

حسن محمود جماعتی

آج تحریک کا 43 واں یوم تاسیس ہے۔ آج ہمیں لگتا ہے کہ شاید 43 سال یونہی گزرے، جیسے آج ہمیں یہ تحریک ملی ہے۔ شاید وقت اور حالات ایسے تھے۔ آیئے تاریخ کے کچھ اوراق پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کن حالات میں اس سفر کا آغاز ہوا اور کن چیلنجز سے نبرد آزما ہو کر یہ تحریک آج یہاں کھڑی ہے۔

سن 1970 کی دہائی کا زمانہ پاکستان میں بڑی خاص اہمیت کے حامل تھا۔ سیاسی منظرنامے پر سوشلسٹ خیالات کی جماعت حکومت کر رہی تھی، ملک دولخت ہوچکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں بائی پولر سسٹم چل رہا تھا۔ کپیٹل ازم اور کمیونزم باہم دست و گریباں تھے۔ ان دو افکار اور سسٹمز نے دنیا کو تقسیم کیا ہوا تھا۔ پاکستان کے حالات بھی بائی پولر ہی تھے، یعنی ایک طرف دائیں بازو کی جماعتیں جو مذہبی فکر کی حامل تھیں اور دوسری طرف بائیں بازو کی فکر کے حامل افراد جو مذہب سے دور، (نام نہاد) ترقی پسند افراد جو زیادہ تر روس کی کمیونسٹ فکر یا چائنہ کے سوشلسٹ انقلاب سے متاثر تھے اور وہ ملک میں سرخ انقلاب چاہتے تھے۔ ایسے دور میں ایک طرف ایران میں خاص مذہبی فکر کا انقلاب آنا اور اسی کی ساتھ افغانستان میں جہاد کے نام پر تحریک کا آغاز ہونا۔ جس کے براہ راست اثرات ملک پاکستان پر پڑے۔

جہاں ایک طرف ایران کی مذہبی فکر کے حامی افراد خاص فکر سے ایران کی طرف رغبت رکھتے تھے تو دوسری طرف افغان جہاد کے نام پر ایک اور خاص فکر ملک میں در آئی۔ جس نے ملک میں تکفیریت اور شدت پسندی کی بنیاد رکھی۔ مذہبی اور غیرمذہبی انتہا پسندی پروان چڑھنا شروع ہوئی۔

یہ وہ دور تھا جب دین بے دین ہوچکا تھا۔ بظاہر سب سے زیادہ مذہب پسند افراد معاشرہ میں نظر آتے لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ بزرگوں کے وصال پا جانے کے بعد بڑی بڑی خانقاہیں گدیوں میں بدل چکی تھیں، جہاں سےتصوف کے نام پر عجیب و غریب رسومات جنم لے رہی تھیں۔ ان گدیوں نے بزرگوں کے نام پر اس ملک کی ایک بڑی اکثریت کو اپنے ساتھ جوڑ رکھا تھا، جو اسی سارے جہاں کو دین سمجھتی تھی۔ لوگ پیروں کو پیغمبر کا درجہ دینا شروع ہوچکے تھے۔ جب قرآن و حدیث سے زیادہ بزرگوں کی بات کو اہم سمجھا جاتا تھا۔ بزرگوں کو ماننا نہ ماننا ہی جنت دوزخ کا فیصلہ تھا۔

دوسری طرف مذہبی حلقے مختلف مسالک اور مکاتب فکر میں تقسیم ہو کر دین کی ترویج، اشاعت اور تعلیم کی بجائے اپنے اپنے مکاتب کے فروغ پر زور لگا رہے تھے۔ ہر مکتبہ فکر خود کو دین کا حقیقی علمبردار ثابت کرنے کے لیے دوسرے پر گستاخی و کفر کے فتوے لگا رہا تھا۔ تقاریر، محافل، مجالس، میلاد، عرس ہر مذہبی اجتماع کا موضوع اور مقصود دوسرے مسلک و فرقہ کو باطل گمراہ اور کافر ثابت کرنا ہوتا تھا۔ اس دور کے لوگ ملک میں اکابر سمجھتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں فوجی حکومت کی طرف سے نفاذ شریعت کے اعلان کے خلاف غیرمذہبی لادین ذہن بھی شدت پسند ہوتا چلا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب بڑی بڑی مذہبی شخصیات جن کے نام کے ساتھ بڑے بڑے دارالعلوم کے نام جڑے ہوئے تھے، جن کے ساتھ ان کے بڑے بڑے بزرگوں کے نام تھے، بڑی بڑی گدیاں تھی، ان بڑے بڑے ہیوی ویٹس افراد کے اور سوشلسٹ کے درمیان رستہ کشی جاری تھی۔ پاکستان میں اس وقت مذہب کے نام پر، جہاد کے نام پر فنڈنگ آنا شروع ہوئی۔ ایسے میں ایک خاص طرح کی فکر پاکستان کے اندر پروان چڑھ رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے اندر ہر دو طرف سے انتہا پسندی کی فکر پروان چڑھنا شروع ہوئی۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسندی پروان چڑھنا شروع ہوئی۔ جب یہ ملک شیعہ کافر کافر کے نعرے سے متعارف ہوا اور مذہبی طور پر انتہا پسندی عروج پر پہنچنا شروع ہوئی۔ دوسری طرف لادینیت۔۔۔ دین سے بیزاری اور دوری عروج پا رہی تھی۔

اس سارے ماحول میں ایک 30 سالہ نوجوان نے 17 اکتوبر 1980ء کو ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جس کی فکر کی بنیاد محبت و امن تھی۔ اس سارے ماحول میں محبت و امن کی بات کرنا دیوانے کا خواب تھا۔ دین اپنی اصل کھو کر مذہب اور مذہب مسالک اور فرقوں کے جھگڑے میں بٹ کر رسموں کا نام ہو چکا تھا۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی فکر کو بنیاد بنا کر دین کی اصل قدروں کو زندہ کرنے کا عزم لیے یہ تحریک وجود میں آئی۔ تحریک منہاج القرآن نے ایسے دور اور ماحول میں آنکھ کھول کر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس دور میں علم کو بنیاد بنایا کہ سب سے بڑھ کر علم کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ جس نے سب سے پہلے ہر قسم کی انتہا پسندی سے خود کو دور کیا اور دین کی حقیقی فکر کو اپناتے ہوئے خود کو کسی خاص نام سے معنون کرنے کی بجائے قرآن و سنت کے فروغ کو شعار بنایا۔

پچھلے 60 سال سے پیدا جھگڑوں میں مقام رسالت کو دھندلا دیا گیا تھا۔ ایسے میں قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقام رسالت کو واضح کیا اور مناظروں، جھگڑوں، گالم گلوچ اور فتووں سے اس موضوع کو نکال کر قرآن و حدیث سے مزین کیا۔ جب تزکیہ کا لفظ محض کتابوں میں پڑھنے اور وعظوں میں بیان کے لیے تھا تب اس تحریک نے اس کے عملی نفاذ کا بیڑا اٹھایا جو اس دور میں ایک خواب نظر آتا تھا۔

محض 10 سال کے عرصے میں اس 30 سالہ نوجوان اور اس کی جماعت نے اپنا لوہا منوایا، اپنی فکر کو متعارف کروایا اور لوگوں کو مقناطیس کی طرح اپنی جانب کھینچنا شروع کردیا۔ ان دس سالوں کی جدوجہد کے بعد 1989 میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

1990 کی دہائی میں جہاں پر مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، ہر دو مکاتب فکر کے درمیان لڑائی جھگڑے اور فساد کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر مساجد پر حملے، قتل و غارت گری اور علماء کا قتل، عام ہو چکا تھا۔ ایسے ماحول میں اپنی فکر کو انتہا پسندانہ سوچ سے بچا کر رکھنا اور نوجوانوں کو خاص محبت کی فکر عطا کرنا اس تحریک کا خاصہ تھا۔ بدلتے بگڑتے حالات میں یہ تحریک اپنی فکر کے ساتھ جڑی رہ کر اپنی سمت میں بڑھتی رہی اور حالات سے مرعوب ہو کر کبھی سمت بدلی نہ فکر و نظریہ پر آنچ آنے دی۔

اکیسویں صدی کا آغاز بھی بھیانک تھا، جہاں ملک ایک بار پھر فوجی حکومت کے زیر تسلط تھا اور عالمی سطح پر لفظ اسلام اور دہشت گردی ہم معنی کر دیئے گئے تھے۔ یہ دور ملک میں بے حیائی کے کلچر کو عام کرنے کا دور تھا۔ اس دور میں تحریک نے اپنے مقاصد اور اپنی بنیاد کو نہ چھوڑا۔ علم، امن اور محبت کے ہتھیاروں سے ان محاذوں پر لڑتے لڑتے یہ تحریک آگے بڑھتی رہی۔ عالمی سطح پر اسلام کا پرامن روشن خیال حقیقی چہرہ پیش کیا اور بڑے بھنور اور گرداب سے امت کا نکالا۔ اور خارجیت اور شدت پسندی کے خلاف اس وقت فتوی دیا جب ان کا نام لینا جرم سمجھا جاتا تھا۔

یہ تحریک 2010ء کی دہائی میں داخل ہوئی تو ایک اور چیلنج درپیش تھا۔ پچھلی پیڑھی کے بزرگ علماء گزر چکے اور اب علماء کے نام پر ممبر پر ایسے لوگ برا جمان ہوچکے تھے جن کی زبان آگ اور انگارے برساتی رہی ہے۔ مسلکوں کے جھگڑوں سے بھی مزید نیچے گر کر اب بات گروہوں اور مساجد کے خطیب و امام کے اقتدا تک آگئی ہے۔ ایک ہی مسلک کے دو مختلف مساجد کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نظر آتے ہیں۔

اس دور میں لوگ ایک خاص فکر سے مرعوب اور خائف ہو کر دم بھرنے لگے تھے اور اس شدید پریشر کے ماحول میں تحریک نے اپنا سفر اسی رفتار اور اسی سامان کے ساتھ جاری رکھا۔ ارد گرد ماحول گرم سرد ہوتا رہا لیکن تحریک اپنے ہدف سے ایک انچ بھی نہ ہٹی۔ یہ تحریک عالمی سطح پر صرف مسلمانوں نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کرنے والی تحریک ہے۔

آج تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہم تحریک کے اس سفر کو دیکھ رہے ہیں یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ آج الحمد للہ ہر طرف اسی تحریک کا نام اور غلبہ نظر آرہا ہے۔ اب ہر کوئی بڑھ کر اس قافلے کا راہی ہونا چاہتا ہے۔ مدارس بڑھ بڑھ کر نظام المدارس کے جھنڈے تلے آ رہے ہیں۔ مشائخ اپنی مٹتی روایات اور مسخ ہوتی عزت بچانے کے لیے اس تحریک کے سائے تلے آ رہے ہیں۔ یہ تحریک آج بھی نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ موزوں و مناسب جگہ رکھتی ہے، کیونکہ یہاں نہ فرقہ واریت نہ مذہبی منافرت نہ گلے کاٹنا۔ یہاں علم کو فوقیت اور ترجیح حاصل ہے۔ یہاں عمل کی بات کی جاتی ہے۔ عملی طور پر تزکیہ اور روحانیت کی بات کی جاتی ہے۔ آج کے دور میں جب اخلاق و کردار صرف کتابوں میں پڑھنے کے لیے دو لفظ ہیں وہاں یہ تحریک سب سے زیادہ اخلاقیات اور آداب و معاملات پر زور دے رہی ہے۔ اس کا سفر لمبا کٹھن اور صبر آزما ہے لیکن یہاں نسلیں تیار ہوچکی ہیں، جو اس مشن کو آگے لے جانے کے لیے پر عزم ہیں۔

دوستو! کبھی اس مغالطے میں نہ رہیں ہم نے کیا اچیو کیا، کہاں تک پہنچے، یہ تاریخ کا منظرنامہ اسی لیے لکھا کہ یہ سفر ایسا نہیں تھا جیسا آج نظر آرہا ہے۔ یہ تحریک انگاروں پر چلتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے اور اس نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اس تاریخی ماحول کے اثرات ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں وہاں اس تحریک کی موجودہ افرادی قوت، اداروں کا قیام اور مزید آگے بڑھتے رہنے کا عزم یہ کم نہیں بلکہ ایک بہت بڑا معجزہ اور کرامت ہے۔

اللہ کرے اس تحریک کا پھریرا افق عالم پر ہر سو یونہی اڑتا رہے۔

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top