شہر اعتکاف 2024: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا جامع المنہاج ٹاون شپ لاہور میں جمعۃ الوداع کے اجتماع سے خطاب
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے جامع المنہاج ٹاون شپ لاہور میں جمعۃ الوداع کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فنا سے مراد ایک تبدیلی کا رُونُما ہونا ہے۔ ذاتِ حق کے قرب کے حصول میں انسان میں جو انفرادی و نفسیاتی اور شخصی و اجتماعی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں، اُن تبدیلیوں کو صوفیا کرام نے فنا کا نام دیا ہے۔ تصورِ فنا درحقیقت بقا کی ضد ہے۔ بقا قائم رہنے کو کہتے ہیں اور وہ شے جس کو دوام نصیب ہوجائے اس کو باقی کہتے ہیں۔ تصوف میں جب سالکِ راہِ حق روحانی سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اِس راہ میں فنا انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہے۔ تصورِ فنا درحقیقت انا پرستی، نفئ ذات اور اپنی خودی سے ماورا ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔ اپنی ’مَیں‘ اور انا پرستی کو چھوڑ دینا صوفیا کے ہاں تصورِ فنا سے عبارت ہے۔ منہاج القرآن کا بسایا گیا شہرِ اِعتکاف درحقیقت فنا سے بقا کی طرف سفر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو کام اپنے لیے کیا جائے وہ فانی ہے، اور جو دوسرے کے لیے کیا جائے وہ باقی ہے۔ لہٰذا ہر وہ عمل جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کی خاطر کریں گے وہ باقی ہے، اور ہر وہ عمل جو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کریں گے وہ فانی ہوگا۔ فنا اور بقا اللہ رب العزت کی طرف سے کائنات کے تخلیقی رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اپنے ذاتی سفر سے قومی سفر تک فنا کو گلے لگانے کی ضرورت ہے تاکہ اللہ رب العزت بقا نصیب کرے۔ عشق مرمت (repair) نہیں کرتا، بلکہ تعمیرِ نَو (reconstruct) کرتا ہے۔ سفرِ فنا درحقیقت تعمیرِ نَو کا سفر ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: فنا محض وجود کا مٹ جانا نہیں ہے بلکہ یہ ایک تبدیلی کا عمل ہے جس میں بندہ اپنے نفس کی زنجیروں کو توڑ کر خدا کے اَوصاف سے متصوف ہوجاتا ہے اور اس کے رنگوں میں رنگا جاتا ہے۔ اس میں شعوری سطح کی ایک گہری تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اس تبدیلی کو اِنفصالِ نفس سے اِتصالِ حق کی حالت کہا جاتا ہے۔ یہی سفرِ حقیقی کی راہ کے متلاشیوں کی حقیقت ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ فنا ایک کثیر الجہتی تصور کا نام ہے، جس میں وجودی اور تجرباتی دونوں جہتیں شامل ہیں۔ وجودی جہت سے مراد یہ ہے کہ اسنان کسی کی خاطر اپنی ذات، نفس، انا پرستی اور رجحانات و عادات کو ختم کردیتا ہے؛ اس کے حصول کا ذریعہ تزکیۂ نفس ہے۔ تجرباتی فنا سے مراد ہے کہ سالک کا ذِکرِ خدا میں یوں مستغرق ہوجانا کہ اسے کسی اور شے کا نہ تجربہ باقی رہے۔ تجرباتی فنا اپنے حواس کو خدا کی نوکری میں لگا دینے سے ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ فنا کے سفر میں سب سے کارآمد شے عشق ہے۔ کیونکہ عشق یک دم جھاڑیاں جَلا دیتا ہے اور جِلا بخشتے ہوئے حیاتِ نَو دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رب کے عشق کے خیال اور کیفیت میں مست اور الست رہا کریں، کوئی اور صورت اور دھیان باقی نہ رہے اور عشق الٰہی کی آگ کے بھانبھڑ یوں جلائیں کہ پھر فانی کا کچھ نہ بچے، صرف باقی بچے۔ جو لوگ اپنی انا، وجود، تجربے، احساس اور خواہشاتِ نفسانی کو فنا کرکے خدا کے ساتھ باقی ہوجاتے ہیں، خدا ان کو نور کے ساتھ دنیا میں بھیج دیتا ہے۔ پھر وہ خود بھی نورانی ہوجاتے ہیں اور جو ان کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو رب تعالٰی ان کو بھی نور عطا کرتا ہے۔ جہالت فنا ہوتی ہے تو علم باقی ہوتا ہے۔ معصیت فنا ہوتی ہے تو طاعت باقی ہوتی ہے۔ بندگی حاصل ہوتی ہے تو پھر یادِ خدا باقی ہو جاتی ہے۔ غفلت فنا ہوجاتی ہے تو حضوری باقی رہ جاتی ہے۔ جب دنیا فنا ہو جاتی ہے تو آخرت باقی ہو جاتی ہے اور جب بھولنا فنا ہوجاتا ہے تو یاد باقی ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنا کے سفر میں 4 مراحل آتے ہیں: پہلا مرحلہ خود شناسی اور خود آگہی ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں، خرابیوں اور کوتاہیوں کو جاننا اور ان میں غور و خوص کرنا شروع کرتا ہے۔ دوسرا مرحلہ تزکیۂ نفس ہے جس میں سالک تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح کرتا ہے۔ اس میں نماز، روزہ، نوافل، اعتکاف، اخلاق حسنہ، اعمال صالحہ کی انجام دہی سمیت ترکِ معصیات کی بہت سی مشقیں ہیں۔ تیسرا درجہ عشق ہے، جس میں سالک دنیا کے عشق سے نجات پاکر اُخروی عشق کی منزل پا لیتا ہے۔ چوتھے درجے پر کشف و حجاب کی منزل آتی ہے جس ميں اللہ تعالیٰ حجاب اٹھا دیتا ہے۔ کشف سے مراد ہے کہ اللہ اُسے براہِ راست اپنی تربیت میں لے لیتا ہے۔
جمعۃ الوداع کی امامت شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری نے کروائی جب کہ چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ملک پاکستان اور اُمت مسلمہ کی سلامتی و خوشحالی کے لیے خصوصی دعا کروائی۔
تبصرہ