ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی شہرہ آفاق کتاب ’’دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور‘‘ کی کراچی میں تقریب رونمائی
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی شہرہ آفاق کتاب ’’دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور‘‘ کی کراچی میں تقریب رونمائی، چئیرمین سپریم کونسل کا فکر انگیز خطاب
تقریب سے جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی، سینئر راہنما متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار، قونصلیٹ جنرل خانۂ فرہنگ ایران کراچی حسن نوریان، معروف قانون دان ڈاکٹر رعنا ایڈووکیٹ، ہندو کمیونٹی راہنما کرشن لعل شرما، پروفیسر ڈاکٹر سہیل شفیق، ایسوسی ایٹ پروفیسر، چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ہسٹری یونیورسٹی آف کراچی، اقلیتی ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار، معروف اقلیتی راہنما و ہیومن رائٹس ایڈووکیٹ کلپنا دیوی، دانشور و محقق عرفان صدیقی، مفتی محمد اعجاز قادری سمیت دیگر نے خطاب کیا۔
مہمانِ گرامی نے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی علمی و تحقیقی تصنیف 'دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور' پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عظیم علمی و تحقیقی کاوش ہے، جو اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں کو جدید دنیا میں بطور ماڈل کرتی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا یہ علمی ورثہ آنے والی نسلوں کیلئے کی روشنی کا مینار ہے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں دستور مدینہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ دستور مدینہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ہے، اللہ کی توفیق سے ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی حقانیت اور ناگزیریت کو ثابت کیا ہے۔
میثاق مدینہ ناصرف دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے بلکہ یہ جدید دساتیر کا منبع و ماخذ ہے، آج کی دنیا کا ہر دستور اس کے سیاسی، تعلیمی، عدالتی، انتظامی اصولوں سے راہنمائی لیتا نظر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آقا علیہ السلام نے تاریخ عالم میں پہلی بار اقلیتوں کے حقوق نہ صرف متعارف کروائے بلکہ اس کا تحفظ یقینی بنایا، آپ کا حکم تھا کہ اگر کسی مسلمان نے کسی اقلیت سے زیادتی کی تو میں یہاں بھی اور بروز قیامت بھی ان کی طرف سے بدلہ لوں گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو 1400 سال قبل بیان کی گئی اور آج بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔
آپ نے 14 سو سال قبل پارلیمنٹ قائم کی، جہاں آدھی پارلیمنٹ الیکٹیڈ ہوتی تھی جبکہ آدھی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوتی تھی، جو اپنے اپنے شعبے کے پروفیشنلز ہوتے تھے۔ تمام قبائل اپنے اپنے قبیلے سے مختلف شعبہ ہائے کے ماہرین کو پارلیمنٹ کا حصہ بناتے تھے۔ آقا علیہ السلام نے ریاست مدینہ قائم فرمانے کے بعد اپنی 10 سالہ حیاتِ مبارکہ میں دستور مدینہ کی ہر شق پر عملدرآمد کر کے دکھایا۔ دستور مدینہ کے ذریعے باہمی اتحاد و محبت، ہمدردی و غمگساری اور اعتدال و رواداری رواداری کے اصولوں کے تحت ایک پرامن اور آسودہ حال معاشرے کی تشکیل کی۔
انہوں نے کہا کہ آقا علیہ السلام نے مختلف طبقہ ہائے زندگی اور مختلف المذاہب قبائل کو جمع کر کے سیاسی اعتبار سے گلوبل سوسائٹی ایک اُمت واحدہ کا منفرد تصور دیا۔ دستورِ مدینہ کے تحت تمام عرب قبائل کو ان کے رسم و رواج اور مذہبی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی تھی۔ جب ریاست مدینہ وجود میں آئی تو اس کی توثیق کرنے والی ریاستوں اور قبائل کو آقا کریم ﷺ نے ملا کر ایک فیڈریشن بنائی، جس میں 14 ریاستوں نے دستورِ مدینہ کی توثیق کی۔ آقا علیہ السلام نے تمام قبائل کو امت واحدہ کی چھتری کے نیچے بٹھا دیا اور انہیں ایک نظریہ دیا، جس کی بدولت وہ ایک قوم بن گئے۔ حضور علیہ السلام نے مختلف صوبوں اور علاقوں کے گورنرز مقرر کیے اور احتساب کے ساتھ ان کی مراعات، تنخواہوں اور پینشن کا نظام وضع کیا۔
انھوں نے کہا کہ ریاست مدینہ جن اصولوں پر استوار تھی وہ اصول آج بھی اپنے اندر پرامن اور خوش حال سوسائٹی کے اخلاقی اسباق رکھتے ہیں۔
سرپرست تحریک منہاج القرآن کراچی قاضی زاہد حسین نے تقریب میں تشریف لانے والے معززین مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہا اور شکریہ ادا کیا۔
تقریب میں مسعود احمد عثمانی، عتیق چشتی، ظفر اقبال شاہ، سہیل احمد رضا، انیلہ الیاس، نصرت رعنا ڈار، فوزیہ جنید، اُم کلثوم، ڈاکٹر عاصمہ تبسم، ڈاکٹر فیاض احمد شاہین، ڈاکٹر عاطف آفتاب، ایوب خان، نوید احمد، میڈم صفیہ، کاظم حسین ایڈوکیٹ، شکیل احمد راجپر ایڈوکیٹ، ریاض احمد سبزوئی ایڈووکیٹ، عمران عزیز ایڈوکیٹ، عمار حسیب پنہوار ایڈوکیٹ، جاوید علی سلرو ایڈوکیٹ، کاشف نذیر ایڈوکیٹ، آصف نواز بریرو ایڈوکیٹ، مختار علی سدھیرو ایڈووکیٹ، امحمد اعظم مہیسر ایڈوکیٹ، ایم ایچ پنہاور ایدووکیٹ، اسد علی میمن ایڈووکیٹ، منصور علی تھیبو ایڈوکیٹ، ماجد علی شیخ ایڈووکیٹ،حنیف نیازی، ڈاکٹر حنان، ڈاکٹر شمیم، ڈاکٹر کاشف، انجینئر اصغر صدیقی، انجینئر سلیم ہاشم، ابوالکلام، کیپٹن عاصم الطاف زبیری، چودھری اشرف قیصر ایڈووکیٹ، رفیق مزنی احسان باری چنا، نعیم قریشی، پروفیسر زاہد علی زاہدی، پروفیسر اسلم، پروفیسر احمد، پروفیسر محمد، پروفیسر عثمانی ہنگورو سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔
تبصرہ