خارجیت اور دہشت گردی ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

جو طبیعتیں معتدل اور متوسط ہوں گی وہ کبھی دہشت گرد نہیں بنیں گی: شیخ الاسلام کا خطاب

گزشتہ چند دہائیوں میں ہمارے معاشرے پر ایک ایسی فکری لہر نے حملہ کیا ہے جسے تاریخ ’’خارجیت‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ خارجیت دراصل انتہا پسندی کی وہ شکل ہے جس نے ہمارے دلوں سے اعتدال، رواداری اور امن پسندی کے جذبات چھین لیے۔ یہی فکر جب شدت اختیار کرتی ہے تو دہشت گردی میں ڈھل جاتی ہے، اور یوں یہ دونوں نظریات ایک ہی تصویر کے دو رُخ بن جاتے ہیں۔ اس خارجی سوچ نے صرف ہمارے ملک کے امن کو مجروح نہیں کیا بلکہ امتِ مسلمہ کے فکری اور اعتقادی ڈھانچے میں دراڑ ڈال دی۔ جہاد اور شہادت جیسے مقدس تصورات کو بگاڑ کر ان کے اندر نفرت اور تشدد کا زہر گھول دیا گیا۔ نتیجتًا وہ امت جو کبھی محبتِ اہلِ بیتؑ، مودّتِ رسول ﷺ اور باہمی قربت کے جذبے سے جڑی ہوئی تھی، اسے فرقہ واریت، تکفیر اور باہمی نفرتوں کے دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ خوارج کی اسی گمراہ سوچ نے امت کے اندر وہ رشتۂ وحدت بھی توڑ ڈالا جو اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کو اہلِ بیتؑ کی محبت پر یکجا ومتحد کرتا تھا۔ یوں سیدنا علی المرتضیٰ، سیدہ زہراء، امام حسن و حسین علیہم السلام کی محبت جو ایمان کی علامت تھی، اسے غلط فہمیوں کے غلاف میں لپیٹ کر تقسیم کی دیوار بنا دیا گیا اور یہی خارجی فکر آج کے انتہا پسندانہ رویوں اور دہشت گردی کے فتنوں کی اصل جڑ ہے۔

فتنۃ الخوارج کی حقیقت:

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’فتنۃ الخوارج‘‘ کی حقیقت کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ہمارے ملک میں ایک عرصے سے خارجیت نے زور پکڑا ہے اور خارجیت کے زور پکڑنے سے دہشت گردی وجود میں آئی۔ خارجیت اور دہشت گردی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں اور ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اِس لیے دہشت گردی کے فتنوں کو میں نے ’’فتنۂ خوارج‘‘ کا نام دیا ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے انتہا پسندی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی نے دو چیزوں پر اثر ڈالا ہے۔ ہمارے ملک و قوم کا امن تباہ کیا ہے، مگر جو اثر ڈالا ہے وہ یہ کہ ہماری موجودہ نسل اور اگلی نسلوں کے سیاسی نظریے میں تبدیلی کی ہے۔ اس خارجی فتنے اور خارجی فکر نے ہماری پاکستان کی اور امتِ مسلمہ کی عرب و عجم کی جو سیاسی نظریہ ہے، میں تبدیلی کی ہے۔ یعنی تصور جہاد میں، تصور شہادت میں اور تصور اعتدال کو ختم کیا ہے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے مزید کہا کہ: خارجی فکر کی وجہ سے اعتدال کی جگہ انتہا پسندی نے لے لی ہے۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ خارجی اور دہشت گردی کی فکر صرف سیاسی نظریہ پر ہی اثر انداز نہیں ہوئی، دہشت گردی عقیدہ پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ خارجی فکر نے سیاسی نظریے پر اثر انداز ہو کر لوگوں کو دہشت گرد بنا دیا ہے، اور وہ گولہ و بارود لے کر انسانیت کے قتل کی طرف آگئے۔ خارجی فکر کی وجہ سے جو نظریہ اور اعتقاد میں تبدیلی واقع ہوئی ہے وہ انتہا پسندی کی سوچ ہے۔

انتہاء پسندی کے معاشرے پر اثرات:

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہاء پسندی کے معاشرے پر اثرات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: جو طبیعتیں معتدل اور متوسط ہوں گی وہ کبھی دہشت گردی نہیں بنیں گی۔ وہ طبیعتیں ہمیشہ پُر اَمن رہیں گی۔ اعتدال کا امن کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے، جو طبیعتیں انتہا پسند ہوں گی وہی دہشت گرد ہوں گے۔ یعنی انتہا پسندی دہشت گردی میں بدلتی ہے۔ گویا خارجی فکر نے ہماری امن پسندی بھی چھین لی اور ہمارا اعتدال بھی چھین لیا۔ انتہا پسندی کے ذریعے لوگوں کے عقیدے بدل گئے۔ لوگوں میں عقیدے کی اتنی تبدیلی آئی کہ اس سے فرقہ واریت بھی بڑھی اور مختلف مسالک کے درمیان اختلافات کے باوجود جو قربت کی کچھ حدود وقیود تھیں، وہ بھی متاثر ہوئیں۔

تمام مسالک میں جہاں فکری، نظریاتی اعتقادی، تشریحی، فروعی مختلف قسموں کے اختلافات ہیں، وہاں ان کے اندر قربتوں کی حدیں بھی ہیں۔ ایسی بے شمار جگہیں ہیں جہاں یہ سارے مسالک یا کوئی بھی دو مسلک اختلاف رکھنے کے باوجود آپس میں ایک جگہ پہ ملتے بھی ہیں اور قربت بھی رکھتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ: جن قربتوں کو بڑھانے کی عمر بھر ہم نے کوشش کی ہے کہ اختلافات کو اچھالنے کی بجائے قربتوں کو بڑھایا جائے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور خارجیت کی فکر نے ان قربتوں کو مٹا کر فاصلوں میں بدل دیا ہے۔ جو قربتیں مختلف مسالک کے درمیان تھیں، کئی احکام پر، کئی مسائل پر کئی اعتقادی تشریحات پر، کئی فروعات پر کئی اصولوں پر کئی نظریات پر جو قربتیں، ہم آہنگی کے امکانات تھے، انتہاء پسندی اور تفرقہ بازی نے وہ سارے فروق مٹا دیے اور فاصلے بڑھا دیے ہیں اور ان کی جگہ نفرتوں کو بھر دیا ہے، جس کی وجہ سے اب مختلف مسالک ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں اور سب فرقے ایک دوسرے کو کافر سمجھتے اور تکفیری فتنے کے تحت ایک دوسرے کو قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

بین المسالک اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے درمیان قربت کی ایک حد تھی، قربت کا نقطہ تھا، جہاں دونوں مسالک ملتے تھے، وہ محبتِ اہلِ بیت تھی۔ محبتِ اہلِ بیتؑ، قرابتِ رسول ﷺ کی محبت، آلِ رسول کی محبت یہاں سارے مسلک اس نقطے پر ملتے تھے۔

امتِ مسلمہ کے درمیان وحدت کا نقطہ:

اہلِ سنت کے تمام مکاتبِ فکر یعنی اہلِ حدیث، دیوبندی، بریلوی، سب خلفائے راشدین کو مانتے ہیں۔ دوسری طرف اہلِ تشیع خلافتِ راشدہ کے تصور کو اہلِ سنت کی طرح نہیں مانتے، وہ تین خلفاء کو اُس طرح تسلیم نہیں کرتے جیسے اہلِ سنت کرتے ہیں، مگر سیدنا علی المرتضیٰؑ کو مانتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جہاں اہلِ سنت چاروں خلفاء پر ایمان رکھتے ہیں، وہاں اہلِ تشیع ایک پر متفق ہیں، اور وہ ایک ہستی ہیں مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام۔

لہٰذا یہ وہ نقطۂ وحدت ہے جہاں اہلِ سنت و اہلِ تشیع دونوں ملتے ہیں۔ مولا علیؑ نہ صرف اہلِ تشیع کے ہیں، بلکہ اہلِ سنت، دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث سب کے بھی ہیں، کیونکہ وہ خلیفۂ راشد اور خلیفۂ حق ہیں۔

محبتِ اہلِ بیتؑ: تمام مسالک کا مشترکہ عقیدہ:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ: اختلافات کے باوجود، اہلِ بیتِ اطہارؑ کی محبت تمام مکاتبِ فکر میں مشترک ہے۔ چاہے اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، سب حضرت مولا علی، سیدہ زہراء، امام حسن، امام حسین علیہم السلام اور ازواجِ مطہراتؓ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وہ رشتۂ قربت ہے جو صدیوں سے امت کو جوڑے ہوئے تھا۔ ایک ایسا عقیدہ جس پر سب کا ایمان متفق تھا، ایک ایسا جذبہ جو امت کے دلوں کو متحد کرتا رہا۔

خارجیت کا فتنہ؛ محبت کو نفرت میں بدل دیتا ہے:

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: خوارج نے اپنی انتہا پسندی اور فکری شدت کے ذریعے اسی قربت میں دراڑ ڈال دی۔انہوں نے یہ فتنہ پھیلایا کہ جو مولا علی، سیدہ زہراء، امام حسن وحسین علیہم السلام کی محبت کا ذکر کرے، اسے ’’شیعہ‘‘ کہہ دو۔ یوں اہلِ بیتؑ کی محبت جو ایمان کی علامت تھی، اسے فرقہ واریت کی علامت بنا دیا گیا۔ یہ دراصل خارجی فکر کا فتنہ ہے، جو امت کو وحدت سے جدا کرتا ہے، دلوں میں نفرت بھرتا ہے، اور اسی سے انتہا پسندی اور دہشت گردی نے جنم لیا۔ یہ ایمان نہیں ہے، اسلام نہیں ہے یہ خوارج کا فتنہ ہے، یہ خارجی عقیدہ ہے اور اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی راہ نکلتی ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top