سیرتِ انبیاء علیہم السلام اسلام کا مغز ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

حُسنِ کلام یہ ہے کہ زبان کو ہمیشہ نرم، پاکیزہ اور خیر پر قائم رکھا جائے: شیخ الاسلام کا خطاب
سیرتِ انبیاء ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ مؤمن کی زبان ہمیشہ خیر، رحمت اور اخلاقِ حسنہ کی ترجمان ہو: شیخ الاسلام کا خطاب

سیرتِ انبیاء علیہم السلام درحقیقت مغزِ اسلام ہے، کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اَقوال و اَفعال میں دین کی روح اور اَخلاقِ الٰہی کی کامل تصویر جلوہ گر ہے۔ وہ نہ صرف ہدایت کے چراغ ہیں بلکہ حُسنِ کلام اور شرافتِ گفتار کے پیکر بھی ہیں۔ اُن کی زبانوں سے کبھی تلخی، سختی یا بدکلامی نہیں نکلتی، بلکہ اُن کے الفاظ رحمت، حکمت اور نرمی سے لبریز ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کلمہ صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ دلوں کی تربیت کا وسیلہ ہے۔ اسی لیے ان کی گفتگو سن کر دل نرم ہو جاتے ہیں، روح کو قرار ملتا ہے، اور باطن میں خیر و برکت اُترتی ہے۔ دراصل انبیاء کرام علیہم السلام کا حُسنِ کلام ہی وہ معجزہ ہے جو قلوب کو بدل دیتا ہے اور انسان کو انسانیت کے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیتا ہے۔

حُسن الکلام کی حقیقت

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حُسنِ کلام کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ایک مرتبہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک راستے سے گزر رہے تھے، اُسی راستے کے درمیان میں ایک خنزیر بیٹھا تھا، آپ کے گزرنے کے لیے راستہ تنگ تھا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خنزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

اُنْفُذْ بِسَلَامٍ.

اے خنزیر! (ہمارے گزرنے کے لیے) ذرا راستہ کھول دو، تمہاری خیر ہو۔ (ابن عبد البر، الاستذکار، ج8، ص 554)

سیرتِ انبیاء مغزِ اسلام ہے

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ سے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ الفاظ خنزیر سے کہے کہ: مجھے گزرنے دو، تمہاری خیر ہو، تمہارا بھلا ہو۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ آپ کے جو امتی تھے انہوں نے عرض کیا: تَقُوْلُ ھٰذَا لِخِنزِیر؟ آپ یہ کلمہ خنزیر کے لیے کہہ رہے ہیں؟ کہ راستہ خالی کر دو، تمہاری خیر ہو، تمہارا بھلا ہو۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے جوابًا کہا:

إِنِّي أَخَافُ أَنْ أُعَوّدَ لِسَانِيْ بِالنُّطْقِ بِالسُّوْءِ.

’’مجھے خوف ہے کہ کہیں میری زبان برے الفاظ کی عادی نہ ہو جائے۔‘‘(ابن عبد البر، الاستذکار، ج8، ص 554)

حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ جواب اسلام اور سیرتِ انبیائے کرام کا مغز ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے یہ الفاظ کہ: میں نہیں چاہتا کہ میری زبان کسی برے لفظ کی عادی ہو جائے۔ یعنی اگر میں خنزیر کے لیے بھی سخت بات کہہ دوں تو ڈر ہے کہ کہیں بے خیالی میں وہی لفظ کسی انسان کے لیے نہ نکل جائے۔ چاہے سامنے خنزیر ہی کیوں نہ ہو، میں اپنی زبان کو ہمیشہ نرم اور خوبصورت گفتگو کا عادی رکھنا چاہتا ہوں۔

حاصلِ کلام

انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت دراصل اخلاقِ عالیہ کا جوہر ہے، جہاں ہر قول و فعل میں نورِ ہدایت اور حسنِ اخلاق کی جھلک ملتی ہے۔ اُن کی تعلیم یہ ہے کہ زبان کو ہمیشہ پاکیزہ اور نرم رکھا جائے، چاہے مخاطب کوئی ادنیٰ مخلوق ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خنزیر سے نرم لہجے میں بات کرنا دراصل اس اعلیٰ شعور کا مظہر ہے کہ انسان اپنی گفتگو سے اپنی روحانی حالت کا تعین کرتا ہے۔ برے الفاظ کا عادی بن جانا دل کی سختی اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے، جبکہ نرم گفتاری انبیاء کرام کے مزاج اور اسلامی تہذیب کی پہچان ہے۔ سیرتِ انبیاء علیہم السلام ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ مؤمن کی زبان ہمیشہ خیر، رحمت اور اخلاقِ حسنہ کی ترجمان ہو۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top